یہودی دریائے نیل تک

آج جو یہودیوں کے حالات ہیں اور اتنے چڑھتے جا رہے ہیں شاید انہیں اپنی اوقات کا علم نہیں ہے ایک وقت تھا جب مشرق وسطی کے اندر یہودیوں کے تعلق سے بے انتہا نفرت پائی جاتی تھی اور یہودیوں کے حوالے سے ہٹلر بہت سخت رویّہ رکھتا تھا (یہ بات یاد رہے کے ہٹلر بھی یہودی کی اولاد ہے اور
ہٹلر نے جو یہودیوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی وہ یہودیوں کی سازش کا ایک حصّہ تھا جس کے ذریعہ امت مسلمہ کے خلاف نفرت کا بیج بونا تھا اس طور پر کہ ان کو مار کر بھگا ئینگے تو لا محالہ مسلمان انکو اپنی گود میں بٹھاینگے پھر اس طرح سے تاریخ کا سیاہ
دور شروع ہوگا اس کے بغیر یہودیوں کو اپنی زمین ملنا نا ممکن ہے )چنانچہ یہودیوں کے خلاف ہٹلر روزانہ ریڈیو نشر کرتا تھا اور مسلمانوں کو آگاہ کرتا تھا کے مسلمانوں اٹھو اور یہودیوں کا قتل عام کرو قبل اس کے کہ وہ تمہیںقتل



کردیں تہارے بچاؤ کا یہی واحد راستہ ہے میں نے جرمنی کو بچانے کے لئے یہودیوں



کو غارت کیا تم بھی اگر اپنا بچاؤ چاہتے ہو تو یہودیوں تباہ کرو وہ ہمرے درمیاں میں رہ کر ہمارا ہی گلہ کاٹتے ہیں ،
انگریز ہر زمانے میں ڈبل چال چلنے کا عادی رہا ہے اس لئے وہ خود تو یہودیوں کو پناہ نہیں دیتے ہیں لیکن انکے لئے ہمدردی رکھتے ہیں اور انھیں مظلوم قرار دیتے ہیں ، جرمنی کا مورخ پروفیسر جعفری لکھتے ہیں ہیں کے ہٹلر نے انگریزوں کو یہودیوں کا دوست اور سازشی



قرار دیا تھا ،انگریزوں کی سازشوں کی وجہ سے ارب اتحاد ٹوٹا خلافت کا خاتمہ ہوا ،وہ انگریز ہی ہیں جنکی سازش سے عرب کے سینے پر عظیم اسرئیل کا قیام عمل میں آیا ،
اگر آپ بیت المقدس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بیت المقدس جسے القدس بھی کہتے ہیں تین عظیم



ترین مزاہب کا مرکز اور مقدس مقامات میں شامل ہے ،
٤٥٠٠ قبل المسیح میں یہاں عربوں کی ایک شاخ یہاں آباد ہوئی حضرت عیسی کی پیدائش سے قبل یہاں بستیاں اور قلعوں کی تعمیر ہوئی ،پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے فاتح کیا انکے بعد حضرت سلیمان بادشاہ ہوے پھر ایران کے قبضے میں آیا



پھر روم کا بادشاہ اس پر قابض ہوا پھر سن ٦١٤ عسوی میں دوبارہ اہل فارس اس پر قآ بض ہو گئے ،
پھر القدس کو حضرت عمر نے فتح کیا ،
پھر گیارہویں صدی عسوی میں عسائی بادشاہوں نے قبضہ کر کے بے انتہا وہاں کے مکینوں پر ظلم ڈھایا تاریخ دان لکھتے ہیں کے انہوں نے القدس کو گھوڑے کا اصطبل بنا دیا تھا اور انہوں نے اس میں اتنا خون بہایا کہ گھوڑوں



کے کھر ڈوب گئے تھے ،انہوں نے مسلمانوں کی کثیر آبادی کو مسجد اقصی میں لاکر ذبح کردیا تھا ،
٨٠ سال تک بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں رہا پھر صلاح الدین ایوبی نے اسے فتح کیا اور اسکی تعمیر نو کر



کے مدارس مکاتب اور اوقاف کا سلسلہ جاری کیا ،
اتنی تاریخ سے آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ



بیت المقدس کے اصل والی مسلمان ہی ہیں ،
مگر انیس سو سولہ میں انگریزوں نے اعلان با الفور کر کے یہودی ریاست کا منصوبہ پیش کیا اور انیس سو



اڑتالیس میں یہودی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا جس کے نتیجے میں عرب اسرائیل کی تاریخی جنگ چھڑ گئی ،چونکہ



یہودیوں کو روس امریکہ اور پوری دنیا کی حمات حاصل تھی لہٰذا انہوں نے انیس سو ساڑھ سٹھ میں عربوں کو کراری شکشت دیکر نہر سوئز اور دیگر بڑے علاقوں پر قبضہ کر کے اصل فلسطینیوں کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ،





چونکہ یہودیوں نے اپنے نقشے میں طی کیا ہوا ہے ہے کے انکی اصل سرزمین مسجد اقصی سے لیکر



دریاۓ نیل تک ہے جس میں عرب کی آدھی سے زیادہ آبادی آجاتی ہے  

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی