گالی کے اقسام اور گالی دینے کا دیسی طریقہ

گالی کے اقسام
گالی کا دیسی طریقہ ـ طنزومزاح اور علمائے امت



گالی کی تعریف : الفاظ جلیلہ و الفاظ قبیحہ کا وہ آب جلال جس کو ایک خاص درجہ حرارت کے ذریعے نچوڑ کر کسی بنی نوع آدم کے کان میں انڈیلا گیا ہو اسکو گالی کہتے ہیں-

خاصیات گالی: ویسے تو گالی ہی مؤثر حقیقی ہے لیکن آلات حرب و ضرب اسکے غیر کی طرف سے ہوتا ہے اور اثرات, آب جلال کے استعمال کرنے والے پر مرتب ہوتا ہے جیسے, گال کا لال ہوجانا, دن میں تاروں کا نظر آنا, آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجانا, ہاتھ پیر کا ٹوٹنا, پیٹھ اور سرین پر لمبے لمبے سرخ نشان کا ظاہر ہونا,سامنے کے دانت کا ٹوٹ جانا,تھوپڑے پر سوجن کا ظاہر ہونا,جیل کی ہوا کا لگنا وغیرہ وغیرہ سب سےاہم ترین تاثیر یہ ہے کہ اسکا استعمال کرنے والا بالکل سیدھا ہو جاتا ہے بسا اوقات کسی کسی پر اسکا اثر تا دیر نہیں رہتا وہ پھر تھوڑی دیر کے بعد کتے کے دم کی طرح ٹیڑھا ہو جاتا ہے-


(1) عام گالی
(2) خاص گالی

(1) عام گالی کی چند قسمیں ہیں

(1) سب منسوب الی الاباء والامھات یعنی ان الفاظ کے ذریعے گالی دی جاے جو ماں بہن باپ سے متعلق ہو جسکو ماں بہن کی کرنا کہتے ہیں اسکو سب آلآباء والامھات بھی کہتے ہیں ان گالیوں کا اثر بھی جلد ہی ظاہر ہو جاتا ہے جیسے کے گال پر کان کے نیچے سرخ دھبوں کا ظاہر ہوجانا-

(2) سب منسوب الی الااباء والامھات مع اجسامھم یعنی گالی میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جس میں ماں بہن کے ساتھ انکے عضو خاص کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہو جیسے, تیری ماں کی چوت ,اس گالی میں ماں کو شامل کر کے انکے عضو خاص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس گالی کو کہتے ہیں سب الآباء والامھات مع اجسامھم اس گالی کا اثر بہت تیز ہے کسی مریض کو یہ گالی کھلادینے سے وہ چند ہی لمحوں میں شفایاب ہو کر کودنا شروع کردیتا ہے اسی لیے بعض محقق لکھتے ہیں کہ اس گالی سے بچنا چاہیے اکثر اسکا ری ایکشن ہی نظر آیا ہے-

(3) سب الافعال یعنی کام کی طرف منسوب کرتےہوے کسی کو کہنا ,,,پھاڑ ڈالوں گا,,,,,مار لوں گا,,,,ایسی گالیوں میں ڈایریکٹ کچھ کردینے کی دھمکی بھی ہوتی ہے اور گالی بھی, ایسی گالی کو چوتیا گالی بھی کہا جاتا ہے-

(4) سب منسوب الی عضو الخاص یعنی ایسے الفاظ سے گالی دینا جو اپنے عضو خاص کی طرف منسوب ہو اور وہ جملہ بیک وقت گالی اور دھمکی دونوں کی خدمت انجام دے رہا ہو جیسے کسی سے کہنا ,,, میرا پکڑ,,,میرا چوس,,,میرا لے لے,,ایسی گالی کا استعمال کرنے والوں کو احمق بھی کہتے ہیں-

(5) سب منسوب الی غیر عضوالخاص یعنی ایسے الفاظ سے گالی دینا جس میں کسی غیر انسان یا جانور یا کسی بھی مخلوق کے عضو خاص سے منسوب ہو جیسے عربی میں گالی مشہور ہے,,, امصص بظر لات ,,, اردو میں کہنا ,,,جا گدھے کا لےلے,,,

(6) سب منسوب الی قرابت یعنی گالی میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جو رشتوں سے متعلق ہو جیسے کہنا ,,,ابے سالے تو چپ ہوجا,,او میرے باپ بس کر,,,,یہ گالی کی سب سے ادنی ترین قسم ہے لیکن بعض علاقوں میں اس گالی کو بھی سریس مان لیا گیا ہے اور آے دن اس گالی پر خون خرابہ بھی ہو چکا ہے-

مذکورہ عام گالی کے ہمہ اقسام کے اثرات مختلف افراد پر مختلف حالات میں الگ الگ انداز سے رونما ہوتے ہیں آپ ان میں سے کسی بھی گالی کا اگر کسی ایم ایل اے ,ایم پی , پی یم, سی یم, یا کسی بھی مشہور اور مقبول عام و خا ص شخصیت پر تجربہ کریں اور دیکھیں کتنی جلدی اسکااثر رونما ہوگا کہ آپ تک جیل کی کھلی ہوائیں آنے لگے گی,عام انسان پر اسکا تجربہ کریں چہرہ میکپ ہو جاےگا,کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسکا اثر موقوف ہوجاتا ہے کسی خاص مدت یا کسی خاص حالات تک کے لیے,کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا ہے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آب جلال کا استعمال کسی مادر چود کے لیے ہو جاتا ہے-  

عام گالی کے الفاظ: کوئی طے نہیں ہے زبان جب کھلتی ہے کسی بھونسڑی والے کے سامنے, تو الفاظ کلمات کا جامہ قبیحہ اوڑھ کر مختلف تعبیروں کے ساتھ پھولجھڑی کی شکل میں ورود ہونا شروع ہوجاتا ہے , کبھی حسین گلدستہ بن جاتا ہے,ہر علاقے کی اپنی اپنی گالی ہوتی ہے جو عموما دل و دماغ پر ناگواری کے وقت اثر پذیر ہوتی ہے,


(2) خاص گالی

محققین نے لکھا ہے کہ خاص گالی کی کوئ قسم نہیں ہے چونکہ گالی کی یہ قسم نایاب ہو چکی ہے جو کہ شاذ کے درجے میں ہے چوںکہ اصول ہے الشاذ کاالنادر والنادر کالمعدوم ویسے بھی اس دقیق تریں گالی کے معانی و مطالب تک ہر کسی کی پونچ نہیں ہوتی ہے جسکی وجہ سے اسکا اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے اور بسا اوقات بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ معاملہ صرف جاہلوں کے ساتھ میں ہوتا ہے ورنہ سمجھدار کے سامنے یہ گالی بھی اپنا اثر دکھاے بغیر نہیں چھوڑتی ہے-

تاہم میں آپ کے سامنے چند گوشوں سے اسکی وضاحت ضرور کروںگا ایک بات یاد رکھیں ایسی گالیاں ابھی بھی بعض علاقوں پائ جاتی ہیں جیسے کہ لکھنؤ اور یوپی حیدرآباد کے علاقے ہیں یہ علاقہ نوابوں کا علاقہ کہلاتا ہے اس لیے وہاں استعمال ہونے والی گالی کو, نوابی گالی, یا ,ادبی گالی, یا حیدرآبادی گالی,یا لکھنوی گالی سے بھی تعبیر کرتے ہیں-

ایسی گالی آپ نے بھی شاید ہی سنی ہوگی جیسے کسی سے کہنا کہ,,دنیا میں آمد و رفت کی راہیں بند کردوںگا,,,آپ کی شرافت پر یہ داغ,,,,بے جا فضول نہ کیا کرو ,,عالی جناب,,,آپ قوم لوط کی اولاد ہیں,,,کس شریف گھرانے سے آنجناب کا تعلق ہے,,,,یہ سب وہ گالیاں ہیں جو بھدی گالیوں کی حسین تعبیر ہیں,ایسی گالیاں عموما نوابی علاقوں کے آٹو ڈرائورس اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انکا کسی سواری سے کرائے کے معاملے میں ان بن ہو جاتا ہے-

3 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی