شہزادۂ گلفام کی عقل کا ماتم کرتے ہیں



بواسطہ ضیاء الاسلام ندوی موانہ۔⬅
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین  
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
     شہزادہ گلفام محمد بن سلمان خوش قسمت ہیں کہ انہیں نقصان مایہ کچھ نہیں ہوا، بدقسمت ہیں کہ شماتت ہمسایہ ان کو بہت ملی، دنیا ان کی مذمت میں ’’رطب اللسان‘‘ ہے۔




جمال خاشقجی بہت بڑا صحافی تھا، سعودی تھا، لیکن سعودی شہزادہ کی پالیسی کا ناقد تھا، اس نے خود سے جلا وطنی اختیار کرلی تھی، اور واشنگٹن پوسٹ کا کالم نگار تھا، وہ ۱۹۵۹ء میں مدینہ منورہ کی سرزمین میں پیدا ہوا، اس کے آباء واجداد ترکی کے رہنے والے تھے، اور ۵۰۰ سو سال قبل انہوں نے حرمین شریفین کو اپنا وطن بنایا تھا، اس کے خاندان کے لوگ سعودی عرب میں وزیر بھی رہے، اور مسجد نبوی کے مؤذن بھی رہے، اسلحہ کے مشہور تاجر عدنان خاشقجی کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔جمال خاشقجی نے شادی کی تھی، اور صاحب اولاد تھا،






شہزادہ گلفام صحافی جمال خاشقجی سے بہت برہم رہا کرتے تھے، کیونکہ خاشقجی صرف واشنگٹن کا کالم نگار نہیں تھا، بلکہ سعودی عرب میں صحافت کے میدان میں شاید ہی کسی نے اتنے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں، جتنے اس صحافی نے انجام دیئے تھے، جب افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کا معرکہ گرم تھا، اس نے میدان جنگ سے سعودی اخبارات کے لیے رپورٹنگ کی تھی، وہ الجزائر، کویت، سوڈان اور مشرق وسطی میں رہ کر انگریزی اخبارات کیلئے رپورٹر کا فرض انجام دیتا تھا، وہ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۳ء تک انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ کا ایڈیٹر رہ چکا تھا، ۲۰۰۴ء میں وہ ’’صحیفۃ الوطن‘‘ کا ایڈیٹر بن گیا، اس کے بعد لندن پھر واشنگٹن میں سعودی سفیر الامیر ترکی الفیصل کے میڈیا ایڈوائزر کی حیثیت سے اس نے کام کیا۔ اس نے صحافت




مختلف ذرائع سے کچھ مصدقہ اور غیر مصدقہ خبریں ملی ہیں، اور بعض نامعلوم ذرائع سے ایسی آوازوں کی ریکارڈنگ موجود ہے، جس میں جمال خاشقجی کی دلدوز چیخ سنائی دیتی ہے، کہا گیا ہے جمال خاشقجی کے ہاتھ میں جو گھڑی تھی اس میں رکارڈنگ کا آلہ موجود تھا، خبریں یہ ہیں کہ سعودی سیکوریٹی پولس کے لوگ جن میں محمد بن



دل صاحب انصاف سے ، انصاف طلب ہے 
سعودی حکومت جرم کی پردہ پوشی کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتی رہی ۔ پہلے اس نے کہا کہ جمال خاشقجی قونسل خانہ میں داخل ہوئے تھے اور پھر وہ واپس چلے گئے تھے ۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ جمال خاشقجی کا قونسل خانہ میں داخل ہونا ثابت ہے اور عمارت پر لگے ہوئے کیمرے میں اس کا عکس موجود ہے لیکن کیمرے اس کا واپس جانا نہیں دکھاتے ہیں ۔ سعودی حکومت کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ مجبور ہوکر سعودی حکومت نے اپنا بیان بدلا اور کہا کہ قونسل خانہ میں بحث وجدال میں جمال خاشقجی اور سعودی اشخاص



یادش بخیر ، پاکستان میں ضیاء الحق کے زمانے میں بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی، بھٹو کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنے کسی مخالف کے بارے میں، اپنے قریبی لوگوں کو یہ حکم دیا تھا Annihilate him یعنی اسے مار ڈالو، بھٹو کا یہ حکم عدالت میں ثابت ہوگیا تھا، چنانچہ بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی ، اب اگر عدالت میں

 پورے طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ محمد بن سلمان نے مار ڈالنے کا حکم دیا تھاتو بطور قصاص محمد بن سلمان کو پھانسی پر چڑھا دینا چاہئے، انصاف کا تقاضہ یہی ہے۔ شریعت کا یہی حکم ہے ۔ ’’شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑادو گردن‘‘۔
حیرت بالائے حیرت تو امام حرم شیخ سدیس پر ہے جنہوں نے تملق و چاپلوسی کے تمام رکارڈ توڑ ڈالے اور محمد بن سلمان کی تعریف میں وہ الفاظ استعمال کرڈالے جو حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمر کے لئے استعمال کئے تھے، اگر امت کے اندر غیرت وحیمت کی کوئی رمق باقی ہے تو اس کے افراد ایسے امام کے پیچھے نہ نماز پڑھنا پسند کریں گے نہ اس کی تلاوت سننا گوارا کریں، ’’ ایسی نماز سے گذر ایسے امام سے گذر ‘‘ سعودی عرب نے اسلام کو بہت بدنام کیاہے، دنیا سعودی عرب کو حرمین کی سرزمین کی وجہ سے اسلام کی نمائندگی کرنے والا ملک سمجھتی ہے، اور اسلام کی نمائندگی کرنے والے ملک میں ناانصافی ہو، ظلم ہو، انسانی حقوق کی پامالی ہو، استبدادی نظام قائم ہو، عوام کی آزادی سلب کرلی جائے، ملک کے خزانہ کو
ذاتی جاگیر بنالیا جائے تو ایسی حکومت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سعودی عرب کیلئے پورے عالم اسلام میں رائے عامہ کی تشکیل ہونی چاہیے، اور علماء کو چاہیے کہ وہ حق بات کہنے میں کسی کے مفاد کا اور لومۃ لائم کا خیال نہ کریں۔
سعودی عرب کے احوال تفصیل کے ساتھ جاننے کے لئے مضمون نگأر کے قلم سے کریسنٹ پبلیکیشن بلی ماران دہلی۶ سے شائع کردہ کتاب ’’حرم کا پیر‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی