فہد نے امریکہ کی آنکھ سے آنکھ ملائی

گزشتہ کئی دہائی سے اس دنیا پر امریکہ کی دادا گری چل رہی ہے ،دنیا کا کوئی بھی چھوٹا سے چھوٹا ملک کیوں نہ ہو کسی نہ کسی درجے میں


امریکہ کا وہ غلام ہوتا ہے ،کسی بھی انسان یا کسی بھی ملک کو انکے خلاف انکی سیاسی پالیسی کے خلاف چلنے کا حق نہیں ہے ،اگر کوئی اپنی مرضی ہانکتا ہے تو پھر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے ،کوئی


بھی شخص ابھرنے کی کوشش کرے اسکی کھٹیا کھڑی بسترا گول کر دیا جاتا ہے ،
ملیشیا میں فلسطین کا ایک بہت ہی بڑا سائنس دان تھا اسکی ابھرتی تصویر کو امریکہ نہیں دیکھ سکا اسے ختم کر دیا گیا ،
معمر قذافی نے انسانیت کے لئے آواز اٹھائی انکی آواز کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا،شاہ

فہد نے امریکہ کی آنکھ سے آنکھ ملائی انھیں بھی ختم کروا دیا گیا ،
طالبان نے سر ابھارا انکو امریکہ نے اپنے زعم کے مطابق ختم کر دیا حالانکہ ابھی ختم ھوۓ نہیں

ہیں بعض اخبارات کے مطابق ابھی بھی طالبان کا پچھتر فیصد علاقے پر قبضہ بر قرار ہے ،
لیکن ان تمام چیزوں کے پیچھے امریکہ نے عوام کے زہن کو اپنی طرف مائل کرنے اور اپنے فیور میں کرنے کے لئے جس چیز کا سہارا لیا ہے وہ ہے شوشل میڈیا ،،
شوشل میڈیا میں تو پہلے ان تمام لوگوں کی تصویر کو انکے ملکی قوانین کو غلط انداز سے پیش کیا گیا اور پھر

امریکہ دادا بن کر اپنے اسلحہ اور بم و بارود لیکر چڑھ دوڑا ،آپ اگر ملک کے نقشے پر غور کریں تو تقریبا دنیا کے ننانوے فیصد ملکوں میں امریکیوں نے اپنے فوجی چھاؤنی

بنا رکھی ہے ،اور جہاں فوجی چھاؤنی نہیں ہے وہاں امریکیوں کے چاٹو کار ضرور ہوتے ہیں،
ابھی دوہزار اٹھارہ کا واقعہ ہے آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ترکی نے بھی امریکی پالیسی کی مخالفت شروع کی تو امریکہ نے دیکھا اب کچھ بننا مشکل ہے تو ترکی کی کرنسی کو ڈاون کیا اور کئی طرح

سے امریکہ نے کوشش بھی کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی لیکن یہ مردود اپنی کوشش میں ناکام رہا،چونکہ جیسے ہی امریکہ نے ٹیکس بڑھانے کا اعلان کیا ویسے ہی بہت سارے ممالک نے ترکی کی امداد کا اعلان بھی کر دیا یہ دیکھ کر مردود شرمندہ ہو گیا آج تک کی خبر کے مطابق امریکہ ترکی کے خلاف کئی

بار بغاوت بھی کروا چکا ہے اور ابھی بھی وہ اس کوشش میں ہے کے دوبارہ ترکی بر سر اقتدار نہ آئے ،لیکن یہ نظام کائنات تو الله کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے کرسی دیوے اور جسے چاہے ذلت دیوے ،
ایک طرف امریکہ اسلام کے خلاف پاگلوں کی طرح سر پٹخ رہا ہے ،ایک طرف چین اپنے یہاں سے مسلمانوں کو بھگانے پر تلا ہے ،برما نے تو اپنے ملک کو مسلمانوں کے خوں سے رنگین کر

لیا ہے ،اور ادھر ہمارے ملک میں بھی کچھ منظم تنظیمیں مسلم مکت بھارت کی بات کر رہے ہیں ،
یہ بھگوا تنظیمیں آئے دن ایسے خطرناک دہشت گردی کرتے ہیں جسے دیکھ کر انسانیت چیخ اٹھتی ہے ،

پچھلے دنوں بہار کا ایک ویڈیو ہمیں دیکھنے کو ملا جس میں ایک عورت کو مادر زاد برہنہ کر کے روڈ پر

دوڑایا جا رہا تھا ،اور اس کے پیچھے بھگوا تنظیموں کے لوگ لاٹھی تلواریں لیکر لاتوں مکوں کی بارش کر رہے تھے اور وہ اکیلے تن تنہا عورت تھی جو مادر زاد برہنہ تھی ،پہلے مرحلے میں

وہ ویڈیو دیکھ کر میری روح کانپ اٹھی ،پھر دل میں خیال آیا کہ شاید اس عورت نے کوئی بڑا کانڈ کیا ہوگا ،لیکن دوسرے ہی مرحلے میں دل نے کہا کہ چاہے اس عورت نے جو بھی کانڈ کیا ہو کتنا ہی بڑا اسکا جرم کیوں نہ ہو کیا اسکو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے کیا قانون نہیں ہے ؟
کسی بھی جرم پر

متعلقہ پولس تھانے میں شکایات درج کروائی جاتی ہے پھر مجرم پر جرم کے مطابق سزا جاری کی جاتی ہے ،لیکن ان بھگوا تنظیموں کی کرنی کچھ اور کتھنی کچھ اور ہوتی ہے دیش بھکت ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن کام دیش دروہی والا کرتے ہیں ،
گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے سامنے سویدھان کو جلایا گیا 
کیا یہ دیش بھکتی ہے یا یہ دیش دروہی ہے ؟
یہ لوگ اپنے آپ کو کس آدھار پر دیش بھکت کہتے ہیں انکو سویدھان جلانے کا اختیار کس نے دیا اگر یہی کام کوئی مسلمان کرتا تو

انکی زندگی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیجاتیاور شاید کے یہی بہانہ مسلم مکت بھارت بنانے کا انکو سنہرا موقع مل جاتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا قدرت کو شاید بھارت کے حق میں خیر منظور ہے اس لئے دیر ہی سہی حق کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ہے ہاشم پورہ کے مقتولین کے

حق میں فیصلہ آیا چاہے اکتیس سال بعد ہی کیوں نہ ہو ملا تو سہی ایسے ہی انشاء الله گجرات کے قاتل اگر

چہ فی الحال تخت و تاج پر براجمان ہیں لیکن وہ بھی قانون کی گرفت میں آئیگا ،
آر یس یس چاہے اپنے پر جتنا بھی پھیلا لیں لیکن انشاء الله ان پر بھی قانون کا شکنجہ کسا جاےگا اللہ کی ذات سے یہی امید ہے ،،یہ بھگوا دہشت گرد در اصل مانسک بیماری کے شکار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کا


علاج قانون کے ڈنڈوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے ،
ابھی پچیس اکتوبر کا ایک ویڈیو ملا جس میں ایک ایسا شخص الله کے نبی کی شان میں ہفوات بک رہا تھا ،
اس شخص کو جب میں نے غور سے دیکھا تو اس کے چہرے پر خون نہ دارد تھا ،پھر اسکی آنکھ اور منہ کا بغور مطالعہ کرنے پر محسوس ہوا کے یہ شخص اپنے آپ میں ایک بندر کی شکل میں تبدیل ہو چکا ہے ،
اور جب میں نے


اسکا فال کھولا تو پتہ چلا کہ اسکی ماں 
شمشان میں رہتی تھی جہاں وہ اپنے ساتھ بندر رکھتی تھی 
اور رات میں سونے کے وقت اسی سے ہمبستر بھی ہوتی تھی جس کے نتیجے میں بندر کی یہ اولاد پیدا ہوئی ،

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی