بابری مسجد انشاء الله ایودھیا میں ہی اپنے مقام پر ہی دوبارہ تعمیر ہوگی

بابری مسجد!تیری شہادت کو سلام


آج 6؍ دسمبر ہے،یعنی ہندوستان کی تاریخ کاسیاہ دن ،آج ہی کے دن 1992 ء میں25؍ کڑوڑ مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ یعنی بابری مسجد شہیدکردی گئی، ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرازم کا گلاگھونٹ دیاگیا،اور ہماری حکومت تماشہ دیکھتی رہی،اور جب دکھ درد سے بے چین مسلمانوں نے پرامن احتجاج کیاتو گولیوں کی بوچھار سے ہندوستانی مسلمانوں کو خون سے نہلادیاگیا،17سال کے لمبا وقفہ کے بعد30؍جون 2009کو جسٹس لبراہن نے اپنی رپورٹ پیش کیا،اورجب مکمل ایک سال تین مہینہ کے بعد 30؍ستمبر 2010کو الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ سنایاتو ہم دنگ رہ گئے، بابری مسجداراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیاگیا ، مسجدکے درمیانی گنبدکاحصہ رام جنم بھومی بتاکر رام مندرکیلئے دیا،دوسراحصہ ہندؤں کے ایک دوسرے فریق نرموہی اکھاڑاکیلئے ،تیسراحصہ سنٹرسنی وقف بورڈ کومسجدکیلئے دے دیا ،یعنی بڑی خوبصورتی سے مسلمانوں سے مسجد کی زمین چھین کر مند رمیں تبدیل کردی گئی۔
تین گنبدوں والی یہ قدیم اور تاریخی مسجد’’بابری مسجد ‘‘کے نام سے مشہور ہے ،اودھ کے حاکم وگورنر میرمحمدباقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی۔ مسجد کے مقف حصہ میں تین صفیں تھیں ،اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے،صحن مسجد چار صفوں کی وسعت تھی،بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز اداکرسکتے تھے،ابتدائے تعمیر کے بعد سے ہی نماز پنج گانہ اور جمعہ کی نماز ہواکرتی تھی،1850ء تک مندرومسجداور رام جنم استھان کانہ کوئی معاملہ اٹھااور نہ ہی کوئی تنازعہ پیداہوا،مسلمان بھی اجودھیامیں رہتے تھے ،اور ہندوبھی اپنی عبادتیں اداکرتے تھے ۔لیکن جب سونے کی چڑیاکہے جانے والے ملک ہندوستان میں انگریزکاعمل دخل شروع ہوا تواس نے اپنی پالیسی ’’لڑاؤاور حکومت کرو‘‘کے تحت دونوں فرقوں کے مابین منافرت پیداکرنے کی غرض سے مندرومسجداور رام جنم استھان کا قضیہ چھڑدیا،اور ایک بدھشٹ نجومی سے زائچہ تیارکروایا،نجومی نے بابری مسجدکے باہر؛لیکن احاطہ میں رام جنم استھان اور سیتارسوئی گھرمتعین کیا،پھرانگریزنے جذباتی قسم کے ہندوؤں کو اکسایا کہ وہ ان دوپوتراستھان کو حاصل کرنے کی جدوجہدکریں، نقی علی خان جوگرچہ نواب واجدعلی (نواب اودھ )کا وزیرتھا؛مگردرپردہ اس کی وفاداریاں انگریزکے ساتھ تھیں، اس نے انجام سے غافل نواب واجدعلی کو راضی کرلیا کہ مسجدسے باہر مگراحاطۂ مسجد کے اندرجنم استھان اورسیتارسوئی گھرکیلئے جگہ دے دی جائے۔چنانچہ صحن مسجدسے باہر بائیں ، پورب طرف جنم ا ستھان کے طوپر21؍فٹ لمبی اور17؍فٹ چوڑی جگہ دے دی گئی، جہاں ایک چبوترہ بنادیاگیا،اس موقع پرلوہے کی سلاخوں سے صحن مسجدکو گھیر دیا گیا ،جواب تک کھلا ہوا تھا ، گویا مسجداور اس فرضی جنم استھان کے درمیان حدفاصل قائم کرکے مسجدکی حفاظت کی طرف سے اطمینان کرلیا گیا۔
اوریہ صرف ہم نہیں کہتے،ہندوؤں میں سے جولوگ بھی محقق ہیں،وہ سیکولرازم پر یقین رکھتے ہیں اور عصبیت کادبیزپردہ بھی ان کے دماغوں پر چڑھاہوانہیں ہے ، وہ یہی بولتے ہیں کہ اجودھیاکورام کی نگری کہنا،اسے رام جنم استھان بتانا،اور بابری مسجدکے بارے میں یہ کہناکہ شاہ بابرنے مندرتوڑکر بابری مسجدبنائی تھی انتہائی مضحکہ خیزہے،چنانچہ1984ء میں ڈاکٹرآر۔ایل شکلااستاذدہلی یورنیورسیٹی نے ایک مقالہ بعنوان ’’رام کی نگری اوراجودھیاجھوٹ یاسچ‘‘ لکھا تھا،اس مقالہ میں لکھتے ہیں: ’’بعض مورخین مہابھارت میں بیان کئے گئے رام کو حقیقی کردارمانتے ہیں،یہ مورخین رام کا زمانہ ڈھائی ہزارسال قبل مسیح مانتے ہیں ،اور مہابھارت کا زمانہ حضرت عیسی ں سے ایک ہزارسال پہلے کا بتایا جاتا ہے ۔ اگر ہم اس تحقیق کو صحیح مان لیں تو رامائن میں جن مقامات کا تعلق رام جی سے بیان کیاگیاہے ان جگہوں میں حضرت عیسی ں سے ڈھائی ہزار سال پہلے انسانی زندگی کے آثارملنے چاہئیں،اسی مقصدکے پیش نظر تین مقامات کی کھدائی ہوئی، فیض آباد ضلع میں ’’اجودھیا‘‘کی۔الہٰ آبادسے35؍کیلومیٹر شمال کی سمت موضع ’’شرنگوپریور‘‘کی۔الہ ٰآبادمیں واقع’’ھاردواج‘‘آشرم کی۔اجودھیا میں کھدائی آج سے تقریباً 25؍ سال پہلے بھی ہوئی تھی۔اس وقت بھی وہاں آبادی کے نشان حضرت عیسی ں سے600؍سال پہلے کے نہیں ملے تھے،اور اب سے تقریباًدس سال پہلے دوبارہ بڑے پیمانے پر وہاں (اجودھیا)میں کھدائی ہوئی تھی، اس کھدائی سے بھی آبادی کے متعلق وہی نتیجہ نکلا، کہ حضرت عیسیٰ ں سے زیادہ سے زیادہ 700؍سال قبل کی آبادی کے نشان پائے گئے۔ اب اگر یہ مان لیاجائے کہ یہی موجودہ اجودھیارام جی کی نگری تھی جو انکی جنم بھومی مانی جاتی ہے تو (سوال پیداہوتاہے )کہ رام جی کے زمانہ سے اجودھیاکے زمانہ کا جوڑکیوں نہیں قائم ہوتا؟ اجودھیاکی آبادی حضرت عیسیٰ ں کے زمانہ سے 600؍سال یا700؍سال پہلے کی ہے، جبکہ رام کا زمانہ عیسیٰں سے2500؍سال قبل یابعض مورخین کی تحقیق کے اعتبارسے اس سے پہلے کاہے، توپھراجودھیارام کی جنم بھومی کیسے ہوسکتی ہے اور اس کا کیاثبوت ہے؟‘‘
اس حقیقت اور اس سچائی کے باوجود1948ء میں ملک کے اندربالخصوص یوپی ، دہلی، میوات، ہریانہ،پنجاب ،وغیرہ صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی، افراتفری کاماحول ہوگیا، اسی اتھل پتھل میں22۔23؍دسمبر1949ء کی درمیانی شب جب کہ پوری دنیامحوخواب تھی، ہنومان گڑھی کے مہنت ابھے رام داس اپنے چیلوں کے ساتھ دیوارپھاندکرمسجدمیں گھس گئے اور عین محراب کے اندرایک مورتی رکھدی ۔اس کے بعددفعہ145کے تحت مسجدکوقرق کرکے اس پر سرکاری تالا لگادیا گیا، پھر 16؍جنوری 1950ء سے مقدمات کاسلسلہ شروع ہوا۔یکم فروری 1986ء کوبابری مسجدپرلگے تالے کو کھولے جانے کا فیصلہ فیض آبادڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے سنادیا،اور پوجاپاٹ کیلئے مسجد ہندؤں کے حوالہ کردی گئی ۔1989ء کے پارلیمانی انتخاب کے بعد بابری مسجدکا مسئلہ نیارخ اختیار کرلیا گیا ۔ وی ۔ پی سنگھ بھارتیہ جتناپارٹیB J P کے تعاون سے وزیراعظم بنے تھے ،اس لئے وشوہند وپریشدنے وی۔پی سنگھ سرکارکو مندرکی تعمیرکیلئے دباؤڈالناشروع کردیا۔2؍دسمبر1990ء کواڈوانی نے اعلان کیا کہ اپنی رتھ یاتراکے ذریعہ آٹھ ریاستوں سے گذرکراجودھیامیں 30؍اکتوبر1990ء کو مندرکی تعمیر کیلئے کارسیواکریں گے ،رتھ یاتراشروع ہوتے ہی گجرات ،راجستھان ،اور یوپی کے کئی علاقوں میں فسادات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔23؍اکتوبر1990ء کوبہارمیں سمستی پور کے علاقہ میں بہارکے ہیرو لالوپرشادکی سرکارنے لال کرشن اڈوانی کوگرفتارکرلیا1990ء میں اترپردیش میں ،اترپردیش بابری مسجدایکشن کمیٹی نے ملائم سنگھ کی مددکی ۔عبداللہ بخاری نے وی ۔پی سنگھ کیلئے اپیل کی ،مسلمانوں کے ووٹ بکھرگئے ، اور اترپردیش میں بے جے پی کی سرکاربن گئی،اور گدی پہ بیٹھے کلیان سنگھ ۔ حلف لینے کے دوسرے دن بعدہی اپنی کابینہ کے ساتھ اجودھیاتشریف لے گئے،اس پر کافی نکتہ چینی بھی ہوئی ، اپوزیشن نے اس اقدام کو عدالت کی توہین اور آئین کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ،تو کلیان سنگھ کا جواب تھا ’’مندر تعمیر کرنے کے عہد کو دہرانے ہم اجودھیا گئے تھے ،یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں تھا یہ تو عقیدے اور جذبے کی بات تھی ‘‘،اور جب مندر بنانے سے متعلق1991 ء میں ان سے انٹریو لیا گیا کہ کیا آپ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے؟ تو بڑی بے باکی سے انہوں نے جواب دیا ’’ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے ‘‘بالآخر 6 دسمبر 1992ء11 بجکر 45؍ منٹ پر بابری مسجد پر حملہ شروع ہوا،وشوہند پریشد کے پٹھو ،کلیان سنگھ کے چہیتے ، مرکزی حکومت کے اشارے پہ ناچنے والی پولیس نے میدان چھوڑدیا ،اور ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب لکھا گیا ،سیکولرزم کا دعوی ٰ کر نے والی پارٹیوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا،اور5؍ گھنٹے میں عظیم تاریخی بابری مسجد464؍ سال کے بعد شہید کردی گئی ۔انا للہ واناالیہ راجعون ۔ رات بھر کارسیوکوں نے ملبہ صاف کیا ،عارضی مندر تعمیر کی ،پوجا بھی شروع کردی گئی ،40؍گھنٹہ کا انہیں موقع دیا گیا ،تب جاکر سنٹرل فورس کو داخلہ کی اجازت ملی ۔
رام بھگت جب اپنی رام بھگتی کے سارے کاموں سے بااطمینان فارغ ہوگئے تو مرکزی سرکار کے زیر انتظام سواریوں کے ذریعہ انہیں ان کے ٹھکانوں تک پہونچایا گیا ، اور مسلمان اللہ کے گھر کی شہادت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی صدیوں قائم مذہبی ہم آہنگی کے ملیامیٹ ہونے کا غم مناتے رہے،اور انہیں اس اپنی بے وزنی اور اجنبی پن کا احساس ہوا اس سرزمین پر، جسے اس نے اپنے خون جگر سے سیراب کیاتھا،سینچااور پروان چڑھایاتھا،اور اس دن پتہ چلاکہ کس طرح سیکولر لبادہ کے اند فرقہ پرست پنپتے ہیں۔
جب جب 6؍دسمبر کا دن آتاہے ہمارازخم تازہ ہوجاتاہے،اور بابری مسجدکی شہادت کا پورامنظر ہمارے سامنے آجاتاہے،کلیان سنگھ کا ہاتھ،اڈوانی کی زبان،اور نرسمہاراؤ کادماغ،اور اس کی پلاننگ کا پوانقشہ ہمارے ذہن ودماغ میں آجاتاہے،کس طرح ہندوستان بھر سے کارسیوک جمع ہورہے ہیں،سنگھ پریوار کے سرکردہ قائدین کی موجودگی اور حکومت کی سیکوریٹی میں گنبدوں پر چڑھ کر کدال سے اللہ کے گھر کو شہید کررہے ہیں،اور نعرہ تحسین بلند کرکے اپنی کامیابی کا پرچم بلند کررہے ہیں،میڈیا،ٹی وی چینلس کے ذریعہ خبریں پوری دنیاتک پہونچ رہی ہیں،مسلمان چینخ رہے رہیں،چلارہے ہیں،سننے والاکوئی نہیں اور ملک کا وزیر اعظم چین کی نیند سورہاہےَ
ہندوستان میں جب تک مسلمانوں کی حمیت ،غیرت ،عزت نفس ،خودداری اور اپنی عبادت گاہوں سے محبت باقی ہے ،بابری مسجد سے محبت اور اس کی شہادت کا غم باقی رہے گا،اسے کوئی ختم نہیں کرسکتاہے،ہم بابری مسجد کی شہادت کی 25؍ویں برسی پر اپنی ناکامی ، کمزیوری اعتراف کرتے ہوئے اس کی شہادت کو سلام پیش کرتے ہیں،اور آج بھی عدالت سے امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں،کہ بابری مسجد کا فیصلہ آئے گا،اور ان شاء اللہ بابری مسجدوہیں بنے گی۔

*دیکھو کیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک ۔۔۔۔!!!*
‼▪‼▪‼▪‼▪‼▪‼
*از۔۔۔۔حفیظ نعمانی۔*
اگر کوئی اکثریت نہیں بہت بڑی اکثریت میں ہے اور اس کی تائید کرنے والے زرخرید اور اندھے ہیں تو پھر یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔بال ٹھاکرے والی شیوسینا کے ممبر پارلیمنٹ سنجے راوت نے ایک بیان مارا ہے کہ ہم نے بابری مسجد 17 منٹ میں گرادی تھی (یہ الگ بات ہے کہ وہ 17 منٹ دن بھر چلتے رہے تھے) تو قانون بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ان کی تعلیم کیا ہے اور یہ بات وہ کس سے معلوم کررہے ہیں کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اور یہ اس خبر کے تین دن کے بعد کہہ رہے ہیں کہ 1984 ء میں سکھ مخالف جو فساد ہوا تھا اس کے مجرموں میں سے دو کو سزا دینے میں 34 برس لگے ہیں اور جانے کتنے مقدمے ہیں جو اس سے بھی زیادہ دنوں سے پڑے ہوئے ہیں تو مسجد مندر کے بارے میں کون بتائے؟
اور مسجد گرانے کی ابتدا تو اس دن ہوگئی تھی جس دن پنڈت گووند ولبھ پنت کی حکومت میں 68 برس پہلے رات کے اندھیرے میں مسجد کا تالا توڑکر چوروں کی طرح مورتیاں رکھ دی گئی تھیں اور اس کے بعد رکھنے والے جھوٹ بولتے رہے مگر اترپردیش کی حکومت اسے مسجد ہی کہتی رہی اور تھانے میں رپورٹ بھی یہی ہے کہ مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں۔
سنجے راوت نے کہا ہے کہ اجودھیا سے قصر صدارت تک بی جے پی کی حکومت ہے پھر مندر بنانے میں کیوں دیر کی جارہی ہے؟ یہ بھی ان کی جہالت ہے ورنہ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر 6 دسمبر 1992 ء کو بھی اجودھیا سے قصر صدارت تک بی جے پی کی حکومت ہوتی تو دس بال ٹھاکرے بھی اگر کوشش کرتے تو ایک اینٹ نہیں گرا سکتے تھے۔ بابری مسجد تو صرف اس لئے گرانے میں کامیاب ہوگئے کہ مرکز اور قصر صدارت میں کانگریس کی حکومت تھی اور فوج وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کے حکم سے گولی نہیں چلا سکتی تھی۔ اس کے لئے نرسمہا راؤ کو حکم دینا تھا جو وہ نہ دے سکے۔
انہوں نے خود اپنی پیٹھ یہ کہہ کر تھپتھپائی ہے کہ ہم نے رام مندر کے لئے بہت قربانی دی ہے۔ ہم نے نعرہ دیا تھا کہ پہلے مندر پھر سرکار ہوسکتا ہے کسی پارٹی کے نزدیک نعرہ قربانی ہوتا ہو لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شیوسینا کی کسی صوبہ میں حکومت نہیں ہے اور وہ پارٹی جس کی حکومت نہ ہو وہ غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے لئے آزاد ہوتی ہے۔
آ ج بی جے پی کی دونوں جگہ حکومت ہے اور کچھ بھی ہوتا ہے تو اسے قوم کو اور دنیا کو جواب دینا ہوگا۔ سنجے راوت کیا یہ نہیں دیکھ رہے کہ وزیراعظم مودی جن پر حکومت بنانے کے ساتھ امن و امان کی بھی ذمہ داری ہے بالکل چپ ہیں۔ بابری مسجد کے جس واقعہ پر ملائم سنگھ کے گولی چلوانے کا بار بار ذکر آتا ہے وہ ایک ملائم سنگھ نام کے ہندو نے نہیں اترپردیش کے وزیراعلیٰ نے چلوائی تھی۔ وہ کلیان سنگھ کی طرح ذلیل اور نااہل بننے کے لئے تیار نہیں تھے اسی لئے آج 80 ویں سالگرہ پر بھی کیک کاٹا جارہا ہے اور ہر ہفتہ میں کسی نہ کسی معاملہ میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے اور ذکر بھی آتا ہے لیکن کلیان سنگھ! ہے کوئی جس کی زبان پر اس کا نام آتا ہو؟
اترپردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے انکاؤنٹر میں چاہے پولیس کے ہاتھوں جتنے مسلمانوں کو بھی مروا دیا ہو رام مندر یا دھرم سبھا کے لئے آنے والوں کے ہاتھوں یہ بھی برداشت نہیں کریں گے کہ کسی مسلمان کی دُکان لوٹی جائے یا کسی مسجد کو گرایا جائے۔ اسی لئے انہوں نے تمام بڑے افسروں اور پولیس نیز پی اے سی اور دوسری ایجنسیوں کے ایک لاکھ کے قریب مسلح جوان لگادیئے ہیں۔ یہ ان کے یا وزیراعظم کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ زمین کی ملکیت کا فیصلہ فوراً کرادیں اس کے ساتھ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ سپریم کورٹ کا احترام باقی رہے اور سب اس کا فیصلہ مانیں۔ سنجے راوت نے بھی وہی جاہلوں والی بات کہی ہے کہ قانون بناکر زمین کو مندر کے لئے لے لیں انہوں نے کہا کہ راجیہ سبھا کے اندر ایسے بہت سے ممبر ہیں جو رام مندر کیلئے ساتھ کھڑے ہیں اور جو مخالفت کرے گا اس کا ملک میں گھومنا دوبھر کردیا جائے گا۔ یہ وہی غنڈہ گردی کی سوچ ہے جو اس وقت تک رہتی ہے جب تک حکومت کی ذمہ داری نہ ہو۔
سنجے راوت اور وہ تمام لوگ اس نازک فرق کو سمجھ لیں جو تین طلاق بل کے لئے آرڈی نینس میں اور رام مندر کے آرڈی نینس میں ہے۔ تین طلاق کسی کی جائیداد نہیں تھی اور تنویر پریس، ہوٹل ردا اور 31 قیصر باغ کا رہائشی مکان میرے بچوں کے ہیں اگر سنجے راوت وزیراعظم ہوں تو کیا ان تینوں عمارتوں کو اپنے باپ کی جائیداد کہہ سکتے ہیں اور اگر ہم عدالت میں چلے جائیں تو کیا وہ آرڈی نینس کے ذریعہ ان پر قبضہ کرلیں گے؟ اگر یہ ہونے لگے تو راج ٹھاکرے اس بلڈنگ پر اپنا دعویٰ کرسکتے ہیں جس کو بال ٹھاکرے نے بنایا تھا۔ ہر پڑھا لکھا آدمی سابق چیف جسٹس مسرا جی کا یہ بیان سن اور پڑھ چکا ہے کہ میں نہ مذہب دیکھوں گا نہ عقیدہ نہ آستھا میں صرف زمین کی ملکیت کا فیصلہ کروں گا کہ وہ زمین جس پر مسجد تھی میر باقی نے خر یدی تھی یا کسی نے انہیں مسجد بنانے کیلئے دی تھی۔ اس ملک میں تو ساکشی مہاراج جیسے لوگ بھی ہیں کہ جامع مسجد کے نیچے سے مورتیاں نہ نکلیں تو مجھے پھانسی دے دینا۔
اگر ملک میں ایسا ہی جنگل راج ہوجائے جیسا بابا لوگ بنائے ہوئے ہیں تو مورتیاں نہ نکلنے پر پھانسی بھی دی جائے گی بابا دیکھ رہے ہیں کہ کسی کو پھانسی کی سزا دینے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور ان کو پھانسی دینے سے ملک کا کیا نقصان ہوگا؟ بہرحال اب بھی جو کچھ ہورہا ہے اور جس کی یوگی نے اجازت دی ہے وہ بھی الیکشن کی ضرورت ہے ورنہ اس سے عقل سے کیا تعلق؟ جس دن عدالت کہتی کہ زمین ہندوؤں کی ہی تھی تو دنیا بھر کے ہندوؤں کو بلا لیا جاتا۔ اس وقت جو بھی ہورہا ہے اور جو بھی کررہا ہے وہ دھرم نہیں ہے الیکشن ہے اور یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ حکومت کے لئے دھرم کو داؤ پر لگایا جارہا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی