عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم | مولاناسمیع الحق صاحب

مولانا سمیع الحق کی شہادت کے پس منظر میں

آہ! شہید مولانا سمیع  الحق صاحب !
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
  احمدخان پٹھان
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو آج رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہوئے جگر چھلنی ہورہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانا سمیع الحق صاحب بذات خود عمران خان کے حامی تھے ؛لیکن اس سے سوا یہ کہ انہوں نے ہمیشہ اسلام کی آبیاری اوراس کے ثمر آور برگ و بار کے لیے اپنی قربانی پیش کی ہے ۔ تفسیر و حدیث میں مہارت تامہ کے حامل تھے بالخصوص فن حدیث میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے قبر کو نور سے بھردے آمین ۔کل انہوں نے روالپنڈی کے کسی مقام پر ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کے متعلق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلہ کوجوتیوں کے نوک پر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جس قاضی کو ہم نے فرشتہ صفت سمجھا تھا وہ ابلیس کا آلہ کار نکلا‘‘۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے پس منظر میں کئی وجوہات ہیں جن کو ڈھونڈنا اور حل کرنا لازمی ہے، یہ طے ہے کہ مولانا کی شہادت مظاہرین کے درمیان ناموس رسالت اور عدالت کی بچکانہ فیصلہ کے خلاف ایک چیلنج تھی ، کے پاداش میں ہوئی ہے ۔
پاکستان اب ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے ،جہاں تباہی اور ملک کی سا  لمیت کو اداروں میں بیٹھے افراد سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔آئینی عہدے پر مسلط عمران خان نے ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کے متعلق کہا تھاکہ ’’ہمیں عدلیہ کے فیصلہ کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔عدلیہ کا احترام کرنا چاہیے یہ لازمی ہے ؛لیکن جب قاضی اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دوہرا معیار اپنا ئے تو پھر ایسے قاضی پر از خود اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں معاون سمجھتے ہوئے خود قاضی کے خلاف عدالت قائم کی جاسکتی ہے ۔ثاقب نثار جنہوں نے اہانت عدالت کے سلسلے میں خاطیوں کو بلالیا تھا ، وہ اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت و حقیقت سمجھنے سے قاصر ہے ۔ عوام نے جس ’’نئے پاکستان‘‘ کے نام پر ووٹ دیا ہے ، اب اس ’’نئے پاکستان ‘‘ کے ثمرات و اثرات ؛بلکہ اس کے نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے ؛کیوں کہ نہ توعدلیہ آزاد ہے اور نہ ہی اب آئینی ادارہ میں بیٹھے افراد سچے وطن پرست ہیں ۔ بات سے بات نکلتی جارہی ہے ، ذرا یاد کیجئے کہ آخر کیوں شوکت عزیز کو عہدے سے فارغ کردیا گیا ؟ وجہ جگ ظاہر ہے ۔ اب اسی شق کو دیکھیں کہ ضلعی عدالت اور ہائی کورٹ اسلام آباد نے ملعونہ آسیہ مسیح کی سزائے موت برقرار رکھی تھی اور جس انداز سے ان دونوں عدالت نے سماعت کی ، اس سے سوا ہوکر ثاقب نثار نے سماعت کی ، حتیٰ کہ وکیل مدعی کے دلائل کو سننا بھی گوارہ نہ کیا؛بلکہ  وکیل استغاثہ سیف الملوک کے دلائل کو سن کر اپنا فیصلہ سنادیا ۔ ناموس رسالت صرف پاکستان کے لیے ہی حساس نہیں ؛بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی حساس ترین ہے ،بات جب ناموس ر سالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوتو پھر تمام سرحدیں یکلخت ختم ہوجاتی ہے

، ثاقب نثار کی ڈھٹائی تو یہ دیکھیں کہ اگلے دن وائس آف امریکہ کے نمائندہ کو یہ بیان دے کر خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی عاشق رسول ہے ۔ ایک طرف تماشا تو یہ ہے کہ عمران خان بیچارے یہ دھمکی دے رہا ہے کہ’’ ریاست کو انتہائی کاروائی پر مجبور نہ کیا جائے ‘‘۔ عمران خان کی یہ بھی ڈھٹائی دیکھ لیں کہ کروڑوں کی تعداد میں مظاہرہ کررہے لوگوں کو بیچارہ نے ’’تھوڑے سے لوگ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔جب کہ پاکستان کے تمام شہروں میں ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ، مظاہرین نے پر امن احتجاج کیا ؛لیکن میڈیااوران کے آلہ کار نے احتجاج کو تشدد آمیز قرار دیا ۔ آخر عمران خان یہ بھی بتائیں کہ جن کو وہ لو گ تھوڑے سے بتارہے ہیں وہ کون ہیں ؟ کیاکوئی غیر مرئی مخلوق ہیں، مظاہروں میں نظر آنے والے کوئی اور نہیں ہیں ؛بلکہ وہ تمام انسان ہیں ؟ ۔
  اب پاکستان کا کیا ہوگا ؟ یہ اہم مسئلہ ہے ، تمام دشمن طاقت عالم اسلام میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہیں، آئینی اداروں میں ان لوگوں کو بھیجا جارہا ہے ، جو دل کے کالے ہوتے ہیں ان کا دل نہ توآئین کے تئیں صاف ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ملک کے عظمت و وقار کو سمجھ سکتے ہیں۔آخر عمران خان کو کیا ہوا ؟جو اپنی ریلیوں میں کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان کو ’’مدینہ ‘‘ جیسی مثالی ریاست بناؤں گا ۔ اس شق میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں چور دروازے سے غدار کو داخل کرایا گیا ہے ۔ خود یہ صاف ہے کہ عمران خان

اسی چور دروازے سے اقتدار پر مسلط ہوا ہے کہ جس کی زبان ’’خاتم النبین ؐ پر اٹک گئی تھی ،اس کا تلفظ نہ کرسکا تھا ۔ ایک طرف تو عالمی قوت ہے جو عوام اور ملک کو اپنے اشاروں پر رکھنا چاہتی ہے تو دوسر ی طرف ایسی قوت بھی ہے ، جو اندرونی طور ملک اور عوام کو کھوکھلا کرنے پر آمادہ ہے ۔ایک طر ف تو عدلیہ کا احمقانہ فیصلہ ہے ، تو دوسری طرف ایک سابق سینیٹر، معروف ملکی لیڈر ، نیز لاکھوں عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے مولانا سمیع الحق صاحب کو بہیمانہ طریقہ سے شہادت ۔ اس صورت میں پاکستان میں اتھل پتھل رہے گی ، کئی مظاہرے ہوں گے ، قاتل کی گرفتاری کے لیے احتجاج کئے جائیں گے ۔بلکہ مظاہرین کی اب دو مانگ ہوگی

، ایک تو ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کے حکم کو کالعدم قرار دیا جانا اوردوسرے مولانا سمیع  الحق کے قاتل کی فوری گرفتاری اور قاتل کو اس جرم کی پاداش میں تختہ ٔ دار پر فوراً لٹکایا جانا۔حکومت جو آرمی کے ایماء و تائید سے اقتدار پر مسلط ہے ، وہ یہ نہیں چاہے گی کہ اس سلسلے میں سنجیدہ ہوکر کوئی حل نکالا جائے ۔ دوئم یہ کہ دشمن طاقت یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں امن و امان پیدا ہو؛ اس لیے وہ ایسی سازش کریں گی کہ نقض ا من کی صورت پیدا ہوتی رہے ۔
اب چوں کہ ہمارے سامنے مولاناسمیع الحق صاحب کی خو ن میں لت پت لاش پڑی ہے، جسم سے روح پرواز کرچکی ہے ۔ یقینا عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ خبر بجلی بن کرگری ہوگی کہ مولانا سمیع الحق صاحب پیری اور ضعف کی حالت میں بے دردی سے شہید کردیئے گئے ہیں۔ ان کے مظاہرے میں مزید شدت آئے گی ، اور ممکن ہے کہ وہ پراشتعال احتجاج پر آمادہ نہ ہوجائے ۔ حکومت جو خود کو لائق و فائق تصور کرتی ہے اور عدلیہ خود کو بیدار اور انصاف پسندبھی سمجھتی ہے ، وہ اس سلسلے میں پیش رفت کرے-
ورنہ پھر اس کے نتائج بھیانک ہی نہیں ؛بلکہ بھیانک سے بھیانک تر ہوں گے ۔جس کی ذمہ داری حکومت اور عدالت کے کاندھوں پر ہوگی۔یقینا مولانا نے اپنی شہادت ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے پیش کی ہے، اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ وہ رفیق اعلیٰ سے مل چکے ہیں ، ناموس رسالت کے لیے جان کانذرانہ پیش کرنے والوں میں وہ آج کے مہمان ہوں گے ۔بدر وحنین کے شہدا ان کے استقبال میں ہوں گے اور خود مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری آگے بڑھ کر اپنے فرزند روحانی کو  گلے سے لگارہوں گے، پیشانی چوم رہے ہوں گے ۔ وہ ہم سے جدا ہوگئے ؛لیکن ان کا نظریہ ، ان کا قول و قرار ، عہد و پیمان ہمارے درمیان موجود ہے ہم ان سے اپنے لیے راہیں تلاش کریں۔ مولانا سمیع الحق صاحب کو سچی خراج عقیدت یہ ہوگی کہ ہم ان کے مطالبات کو ملک کے طول وعرض میں پھیلائیں ۔اللہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے تحفظ کے خاطر قربانیوں کو قبول کرے گا ۔ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین
نئے اپڈیٹ کے لئے مزید 

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی