رام مندر حقیقت یا فسانہ |مسلمانوں کا بہیمانہ قتل اور اس پر رد عمل

شکست خوردگی کا احساس بدترین زوال ۔

نقطہ نظر : ڈاکٹر محمد منظور

عالم 

بابری مسجد کی تعمیر 1527 عیسوی میں ہوئی تھی ۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک کسی بھی تحریر ،تقریر شاعری اور کسی طرح کے کلام میں ایسا کوئی تذکرہ اور اشارہ نہیں ملتاہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے ۔ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلا شوشہ 1822 میں چھوڑا گیا جس کے مطابق رام چندر جی کی جنم استھان پر مسجد کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے ہے ۔ یہ دستاویز 1822 میں داروغہ عدالت حفیظ اللہ نے فیض آباد کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ انیسویں صدی کے آخری حصے میں اس معاملے میں بڑی تیزی آئی اور اس تنازعے کی کچھ روایتوں میں فرض شدہ مندر کو ایک مقام مل گیا۔ تاہم 1860 کی دہائی تک یہ روات کمزور ہی رہی ۔ بیسویں صدی کی آمد پر یعنی 1905 میں اس فرضی قصے نے فیض آباد کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر میں جگہ پا لی اگرچہ ابھی بھی ” ایک قدیم مندر “ کے انہدام کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے لیکن اس کے باوجود اس قضیے کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ۔ 1949 میں مسجد کے اندر زبردستی مورتیاں رکھ دی گئی اور مسلسل اسے ہوا دی گئی۔1986 میں ہندوؤں کو متنازع مقام پر اجودھیا کی مقامی عدالت نے پوجا کی اجازت دے دی اور پھر 6 دسمبر 1992 کا وہ سیاہ دن بھی آیا جب آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شرپسندوں نے مسجد شہید کردی اور ملک بھر میں ہندو مسلم فساد کے دوران تین ہزار بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
تاریخی شواہد بتارہے ہیں کہ اجودھیا میں رام کی جائے پیدائش کا انیسوی صدی سے قبل کوئی تذکرہ نہیں تھا ،کبھی بھی کسی ہندو نے یہ نہیں کہاکہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے نہ ہی کسی نے وہاں مندر پائے جانے یا اسے توڑ کر مسجد بنائے جانے کی بات کی۔ انیسوی صدی میں ایک سازش کے تحت بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا ایشو چھیڑا گیا اس کے پس پردہ برہمن وادکو فروغ دینا ، دلتوں کو غلام بنائے رکھنا اور اس نام کا استعمال کرکے مذہبی طور پر ہندوؤں کے جذبات کو بھڑ کانا تھا ۔اکیسوی صدی کی دوسری دہائی میں آج یہ بات بغیر شک و شبہ یقینی ہوچکی ہے ، عوام کو بھی احساس ہوچکاہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعوی اور مندر بنانے کا وعدہ محض چناوی جملہ ہے ۔ جذبات بھڑکا کر الیکشن لڑنے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کا اس سے کوئی بہتر نہیں ہے ۔ مذہبی بنیاد پر اس کا استعمال صرف سیاست میں آنے اور حکومت بنانے کیلئے کیا جارہا ہے اور اس طرح برہمنوں نے اپنے مشن میں بآسانی کامیابی حاصل کرلی کیوں کہ جس چیز کا اجودھیا میں کوئی وجود نہیں تھا آج پورے دعویٰ کے ساتھ اسی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اجودھیا رام کی جائے پیدائش ہے ۔ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر منہدم کرکے ہوئی تھی ۔ یہ بات عام ہندوؤں کو ذہن نشیں کرادی گئی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر ہندو یہی سمجھتا ہے کہ واقعی بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی اور اس طرح وہ رام مندر کے نام پر جذباتی ہوجاتا ہے اور کوئی بھی شرپسندی کرنے سے باز نہیں آتا ہے ۔
ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے ۔ آئین اور دستور پر اس کی بنیاد ہے لیکن ایک طبقہ اور گروہ ایسا بھی ہندوستان میں پایا جاتا ہے جس نے آج تک دل سے آئین ہند کو قبول نہیں کیا ہے ۔ یہ آر ایس ایس اور برہمنوں کا گروہ ہے ۔ یہ خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔دوسری طرف یہ بھی تلخ سچائی ہے کہ ہمیشہ آئین اور قانون کو تسلیم کرنے سے گریز کرنے والے تشدد اور انتہاء پسندی کی راہ اپناتے ہیں جبکہ قانون اور آئین پر بھروسہ رکھنے والے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔ عموماً معاشرہ میں ایک گروہ وہ ہوتا ہے جس کا قانون اور آئین پر بھروسہ ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہوتا ہے جسے آئین پر اعتماد نہیں ہوتا ہے ۔ قانون کے دائر ے میں آنے کی کوشش نہیں کرتاہے ۔ یہ گروہ عموماً تشدد اور انتہاء پسندی کی راہ کو اپناتا ہے ۔ چناں چہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازع کے سلسلے میں ان دنوں جس طرح آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ سپریم کورٹ کی توہین اور تنقید کی جارہی ہے اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ دوسرے فریق کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ قانون پر عمل کرنے کی صورت میں ان کی سیاست ختم ہوسکتی ہے اس لئے وہ قانونی دائرہ میں آنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے اکثریت کے زعم میں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جب کسی بھی ریاست میں قانون کی حکمرانی ختم ہوجاتی ہے تو وہاں انارکی اور خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے ۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعویٰ ،مسجد توڑنے کا عمل اور اب وہاں زبردستی رام مندر بنانے کا منصوبہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے، انہیں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس دلانے کی مکمل سازش اور پلاننگ ہے ۔ یہی وقت ہماری آزمائش اور صبر کا ہے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جن قوموں نے ایسے مواقع پر حکمت عملی سے کام لینے کے بجائے خود پر خوف اور دہشت کو سوار کرلیا تھا ان کا انجام انتہائی افسوسناک اور تباہ کن رہا ۔ اجودھیا جانا ،وہاں اجتماع کرنا ۔ میڈیا کے ذریعہ لاکھوں کی بھیڑجمع ہونے کا پیروپیگنڈہ کرنے کا واضح مقصد مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا تھا ایسے موقع پر اگر کوئی خوف زدہ ہوجاتا ہے ۔ سلینڈر کرجاتاہے تو پھر آئندہ اس میں کچھ بولنے اور حق بات کہنے کی جرات باقی نہیں رہ پاتی ہے ۔ اپنی جان بچانے کی فکر میں اسے ہربات تسلیم کرنی پڑتی اور بالآخر ایک دن اس کی جان بھی محفوظ نہیں رہ پاتی ہے ۔ اندلس اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کے زوال کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ پہلے انہیں طاقت کا استعمال کرکے خوف زدہ کیا گیا ۔پھر اپنی شرطوں کے مطابق جھکنے پر مجبور کیا گیا ۔ جان کی امان دیکر ان سے ان کے حقوق چھین لئے گئے پھر ایک دن وہ بھی آیا جب انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
ہندوستان میں بابری مسجد کا قضیہ اور وہاں رام مندر کا دعوی در اصل مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے او رانہیں اکثریت کی طاقت کا خوف دلاکر اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ مسلمان پھر اس ملک میں کبھی سر نہ اٹھاسکیں ۔ وہ اکثریت کی طاقت کے سامنے ان کی تمام شرطوں پر کو ماننے کیلئے مجبور ہوجائیں ۔ ایسے مواقع کی حقیقت جاننے ۔ سچائی تک پہونچنے اور سازشوں کا علم حاصل کرنے کیلئے تین چیزیں ضروری ہوتی ہے ۔ مختلف مذاہب کی فطرت سمجھنا ۔ قانون کو سمجھنا اور سماج کی فطرت کو سمجھنا ۔
آج جولوگ بابری مسجد سے دستبر دار ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں اس امید پر کہ آئندہ کسی اور مسجد پر دعویٰ نہیں ہوگا ۔ مسلمانوں کو پریشان نہیں کیا جائے گا انہیں مذکورہ تینوں باتو کو سمجھنا اور اس پر غور وفکرنا چاہیئے تبھی حقیقت سے واسطہ پڑے گا ۔ عقل و فراست کام کرے گی اور اندازہ ہوگا کہ اس کے پس پردہ کیا سازش ہے ؟ کیوں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعویٰ کیا گیا ہے ؟ کیوں مسلمانوں کو بابری مسجد سے دستبردار ہوجانے کا مشورہ دیا جارہا ہے اور جب ایک مرتبہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں گے ۔ اکثریت کی طاقت کے سامنے جھک کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شروع ہوجائے گی تو کیا مسلمانوں کیلئے آئندہ اکثریت کا مقابلہ کرنا ،ان کا سامنا کرنا اور اپنے حق پر قائم رہنے کا حوصلہ برقرار رہے گا ! نہیں یہ ممکن نہیں ہے ۔ آئندہ جرأت ختم ہوجائے گی ۔ ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اور چار ہ نہیں ہوگا کیوں کہ نفسیاتی طور پر شکست خوردگی کا احساس کرلینے کے بعد کوئی بھی قوم سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرپاتی ہے ۔ ہمیشہ اسے اپنی جان کی فکر ہوتی ہے اور اس کے تحفظ کیلئے وہ ہر چیز گروی رکھ دینے اور تمام شرطوں کو مان لینے کیلئے تیار ہوجاتی ہے ۔ بالآخر ایک دن وہ بھی آتا ہے جب اس کی جان بھی لے لی جاتی ہے۔ اس لئے سوچنا ہوگا، غور وفکر کرنا ہوگا اور اپنے اندر سے شکست خوردگی کے احساس اور خوف و دہشت کو نکال کر پوری قوت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنی ہوگی ۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہندوستان کا آئین بہت جامع ہے ۔ تمام طبقہ اور مذاہب کو مکمل نمائندگی دی گئی ہے ۔ اس لئے قانونی جنگ لڑکر انہیں آئینہ دکھانا ضروری ہے۔ مسلم قائدین کی کامیابی بھی اسی میں ہے کہ قانون کا سہارا لیکر مسلم عوام اور قوم کو اعتماد میں رکھیں ۔ تاریخی حقائق اور شواہد سے انہیں مطلع کریں اور حوصلہ رکھیں ۔ حالات سے مقابلہ کرنے کی جرأت رکھیں ۔ ورنہ خودسپردگی کے بعد ابھی سے ہماری تباہی و بربادی کی شروعات ہوجائے گی ۔
ایک اہم سوال ملک کے انصاف پسند ، سیکولر اور سول سوسائٹی سے بھی ضروری ہے کہ مضبوط ترین قانون ، مکمل تاریخی شواہد اور حقائق ہونے کے باوجود کیا یہ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اجودھیا میں انہدام کی گئی بابری مسجد کی تعمیر کیلئے جدوجہد کرے ، کیا اس ملک کے انصاف پسند اورسیکولر طبقہ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے ۔ آئین کے وقار کو بلند کرے اسے مجروح ہونے سے بچائے اور ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑے جو ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کیلئے خطرہ بن چکے ہیں او رسرے عام اسے چیلنج کررہے ہیں ؟۔ آئین ہند کے اہم ترین بانی با بابھیم راؤ امبیڈکر ہیں ۔تمام قوموں اور مذاہب کے رہنما نے ان کا ساتھ دیا تھا ۔ لیکن آج جب قانون کے تحفظ اور آئین بچانے کی بات چل رہی ہے تو صرف مسلمانوں سے ہی کیوں قربانیاں طلب کی جارہی ہیں؟ ۔ بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر قانون کی بالادستی کی شناخت ہوگی اور اس کیلئے ان تمام طبقہ کو میدان میں آنا ہوگا جس کا آئین اور دستور پر یقین ہے ۔
 تعداد اور بھیڑ اکٹھا کرنے کی بات کرنے والے ہندو اور مسلمان کے اس گروپ کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے کہ تعداد اور بھیڑ ہمیشہ تخریب کاری کرتی ہے ، مسمار کرتی ہے کبھی بھی وہ تعمیر نہیں کرتی ہے ۔ اگر تعداد سے کام ہوتاتو اکثریت کا دعوی کرنے والی کمیونٹی بہت پہلے رام مندر تعمیر کرلیتی ۔ عقل مندی اور فہم و فراست کا تقاضا یہی ہے کہ آئین کا سہارا لیا جائے ۔ سپریم کورٹ میں مضبوطی کے ساتھ قانونی جنگ لڑی جائے ۔ اپنے دلائل اور تاریخی شواہد پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں ۔ ہر گز کسی کے دباؤ میں آنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔

(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)


زین الانصاری کے بہیمانہ قتل پر پٹنہ میں مسلم بیداری کارواں کا زبردست دھرنا ومظاہرہ
فسادیوں کی گرفتاری نہیں ہوئی تو سیتامڑھی ہیڈکوآرٹر پر بھوک ہڑتال پربیٹھنے کی دھمکی ،ویڈیوکلپ میں نظرآنے والے گنہگاروں کوفوراً جیل میں ڈالنے اور مظلوموں پر کئے گئے مقدموں کی واپسی کا مطالبہ
پٹنہ۔ ۳۰؍نومبر: (رفیع ساگر)  دسہرہ کے موقع پر سیتامڑھی فرقہ وارانہ فساد میں 82 سالہ بزرگ زین الانصاری کے بہیمانہ قتل کے بعد ضلع انتظامیہ کے خلاف اقلیتوں کا غم و غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس کے خلاف آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے زیراہتمام جمعرات کو گردنی باغ پٹنہ میں زین الانصاری کے اہل خانہ اورمتاثرین نے یک روزہ دھرنا اور مظاہرہ کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ دھرنا و مظاہرہ کی صدارت بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم نے کی اور نظامت شاہ عماد الدین سرور نے انجام دیا۔ دھرناگاہ سے احتجاجی مارچ دن کے 2 بجے نکالا گیا یہ مارچ اسمبلی تک جانا تھا لیکن انتظامیہ نے حکومت کے اشارے پر آجانے نہیں دیا اور گیٹ بند کردیا جس وجہ کر احتجاجی مارچ اسمبلی تک نہیں جا سکا۔ اس پروگرام میں زین الانصاری کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کے علاوہ خواتین اور متاثرین کثیرتعداد میں تھے جن کی دُکانیں، گودام، گاڑیاں اور مکانات نذرآتش کردئے گئے ہیں اور اب وہ بے روزگاری کی وجہ سے سڑکوں پر آگئے ہیں۔ بیداری کارواں کا مطالبہ ہے کہ اِنہیں جلد انصاف دیا جائے اور ویڈیوکلپ میں نظر آنے والے دنگائیوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جائے اور اُنہیں جیل بھیجا جائے۔علاوہ ازیں 20؍اکتوبر 2018 کو ہوئے فساد کی اعلیٰ سطحی جانچ کرائی جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں اور گناہگاروں کو سزادی جاسکے اور تماشائی بنے پولیس اہلکار کو کیفروکردار تک پہنچایا جاسکے۔ اس دھرنا و مظاہرہ کو حمایت دینے کے لئے بھاکپا مالے کے تینوں ایم ایل اے سداماپرساد(تراری اسمبلی حلقہ)، ستیہ دیو رام (میروا، سیوان)، محبوب عالم (بلرامپور، کٹیہار) پہنچے اور دھرنا کو خطاب کرتے ہوئے سداما پرساد نے کہا کہ زین الانصاری کے اہل خانہ کو 20 لاکھ روپیہ معاوضہ دے ریاستی حکومت، وہیں محبوب عالم اور ستیہ دیو رام نے کہا کہ سیتامڑھی فساد میں سوشیل کمار مودی کا ہاتھ ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف مضبوطی کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ اس لڑائی میں بیداری کارواں کے ساتھ ہیں بلکہ بیداری کارواں کو ان تینوں ایم ایل اے نہ صاف طور پر کہا کہ اس لڑائی میں وہ خود کواکیلا نہ سمجھیں یہ تینوں ایم ایل اے بیداری کارواں کے ہی ایم ایل اے ہیں۔ بیداری کارواں کے اس احتجاجی مظاہرہ کو انصاف منچ کے بھی حمایت ملی تھی ۔انصاف منچ کے نیازاحمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں اس پورے معاملے میں دنگائیوں کے ساتھ کھڑی ہے ایک مہینہ بیت جانے کے بعد تیجسوی یادو ٹیوٹ سے کام چلاتے ہیں اور جب سیتامڑھی معاملہ پر لگاتار دباؤ بنایا گیا تو اسمبلی میں اپنی عزت بچانے کے لئے اسمبلی میں بولنا مجبوری سمجھا اورآواز بلند کی۔ اگر یہ واقعی اقلیتوں سے ہمدرد رکھتے ہیں تو سیتامڑھی دوڑا کرنا چاہئے اور مہلوکین سے مل کر اسے معاوضہ اور تحفظ کی یقین دہانی کرانی چاہئے تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف ووٹ کی سیاست کررہے ہیں اور کرسی ملنے تک کا انتظار ہے۔ اکرم صدیقی نے دھرنا سے خطاب میں کرتے ہوئے کہا کہ سوشاسن بابو کا سوشاسن ختم ہوچکا ہے اور بھاجپا کے گود میں بیٹھ کر بہار کو دنگا کی آگ میں جھونک چکے ہیں اگر وقت رہتے یہ بھاجپا سے خود کو الگ کر اپنی سیاسی مضبوطی نہیں بناپائے تو ایسا لگتا ہے کہ آنے والے انتخاب میں انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا کیوں کہ جس طرح سے اقلیتوں پر یکطرفہ جان لیوا حملہ کیا جارہا ہے اقلیتوں میں کافی غصہ پایا جارہا ہے جس کا نقصان انہیں آئندہ انتخاب میں اٹھانا پڑے گا۔مہلوک زین الانصاری کے دونوں بیٹوں اخلاق انصاری اور محمداشرف علی دھرنا گاہ میں بتایا کہ پہلے زین الانصاری کی موت کو سیتامڑھی انتظامیہ نے چھپانے کی سازش کی مگر جب ثبوت پیش کیاگیا تو ضلع انتظامیہ نے فورنسک جانچ اور پوسٹ مارٹم کا حوالہ دے کر کہا کہ سیتامڑھی میں فورنسک جانچ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی لاش کو سیتامڑھی لے جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہمیں مظفرپور میں سخت حفاظتی دستے کی نگرانی میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ پولیس کی موجودگی میں جس طرحں فرقہ پرستوں نے ننگا ناچ کیا اس کے لئے ضلع کے ڈیم اور ایس دونوں پوری طرح سے ذمہ دار ہیں۔ فسادیوں کے ہاتھ زین الانصاری کے قتل کے ثبوت کے باوجود تھانہ نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ جب ہم نے ایس پیے سے معاملہ درج کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے بھی ہمیں مقدمہ درج نہ کرانے کی بات کہی اور یہ بھی کہا کہ پولیس خود معاملہ درج کرائے گی، جب کہ فسادیوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی ہے۔ یہ یکطرفہ تشدد ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے زین الانصاری کے لواحقین کو صرف 5 لاکھ کا معاوضہ دیا ہے کہ جب کہ انہوں نے 25 لاکھ کا معاوضہ اور ان کے اہل خانہ سے ایک فرد کو سرکاری نوکری کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں ننھے انصاری نے بتایا کہ زین الانصاری کے قتل دو روز بعد21 اکتوبر 2018 کو ریگا تھانہ میں ان کی گمشدگی کا معاملہ درج کرایا گیا۔ اس معاملے میں ہم نے آئی جی،ڈی آئی جی، ڈی ایم اور ایس پی سے بھی ملاقات کی تھی مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ دھرنا میں شامل کئی افراد نے کہا کہ ایس پی وکاس برمن کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ نوادہ میں ان کے ایس پی رہتے ہوئے پولیس کی موجودگی میں ہی فسادیوں نے اقلیتوں کی دکانیں اور مکانات نذرآتش کئے تھے۔ وہی کہانی سیتامڑھی میں بھی ان کے ایس پی کی مدت کار میں دہرائی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گناہگار پولیس اہلکاروں کے خلاف جلدقانونی کارروائی کی جائے۔ مکھیا نے بتایا کہ فساد کے دوران زخمی صابر انصاری کو انہوں نے خود موٹرسائیکل سے لے جاکرسیتامڑھی کے ڈاکٹر چندن سے علاج کرایا، اس کے سر میں 36ٹانکے لگائے گئے۔ اس کے علاوہ اس میں معین الحق بھی اس فساد میں بری طرح زخمی ہوگئے تھے۔ وہیں اس پروگرام کی صدارت کررہے بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم نے بتایا کہ فسادمیں زخمی لوگوں کے علاج کے لئے ضلع انتظامیہ کی طرف سے کوئی تعاون نہیں دیا گیا ہے جب کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مالی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے۔ مسٹرعالم نے راجد، کانگریس کے نیتاؤں کے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ سیتامڑھی فساد پر سیاست کررہے ہیں نقصان بھگتنے کو تیار رہیں۔ اقلیتی طبقہ اب کسی بھی حال میں ڈر کے ماحول میں ووٹ نہیں کرے گا، جو پارٹی یا حکومت اقلیتوں کے تحفظ کی گارنٹی لے کر اقلیتی طبقہ آئندہ ہونے والے انتخاب میں اُسی کو ووٹ کرے گا۔نظرعالم نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر ریاستی حکومت سیتامڑھی فسادوں کو جیل میں 24 گھنٹے کے اندر اگر نہیں ڈالتی ہے اور متاثرین کو معاوضہ نہیں دیا تو غیرمعینہ مدت کیلئے سیتامڑھی ہیڈکوآرٹر پر بھوک ہڑتال پر بیٹھے گا۔وہیں نظرعالم نے اُمید جتاتے ہوئے کہا کہ بھلے ہی نتیش جی بھاجپا کی چال کو نہ سمجھ پارہے ہوں لیکن جس دن وہ بھاجپا اور راجد کی چال کو سمجھ جائیں گے یقیناًاقلیتوں کے ساتھ انصاف کریں گے اور سیتامڑھی فساد سمیت پورے بہار میں جہاں کہیں بھی فساد برپا ہوا ہے اور اقلیتوں کے ساتھ انصاف کریں گے اور معاوضہ بھی دیں گے۔اگر نتیش کمار جی نے ایسا نہیں کیا تو ہماری تنظیم بڑے پیمانے پر تحریک چلائے گی۔دھرنا سے خطاب کرنے والوں میں بیداری کارواں کے نائب صدرمقصودعالم خان، سلطان اختر(نوادہ)،انجینئرفخرالدین قمر(سکریٹری بیداری کارواں)، اسدرشید ندوی، محمدمطیع الرحمن موتی، محمدہیرا، صفی الرحمن راعین ایڈوکیٹ(بیداری کارواں)، ڈاکٹر راحت علی (ترجمان، کارواں)،قاری محمدسعیدظفر(تارا لاہی)، محمد طالب ، سمیع اللہ ندوی، حافظ حامدحسین، راشد کمال(ضلع صدر، بیداری کارواں مدھوبنی)، صادق عثمانی(یوتھ ویلفیئر)، نیازصدیقی،راکیش سنگھ(بھاکپا مالے)،سورج کمار سنگھ(سکریٹری انصاف منچ، مظفرپور)،نواز شریف، شمس تبریزجگنو(عام آدمی پارٹی)، محمداسلم، محمدجمشید،فداحسین عرف بھٹو قریشی، کلیم الدین انصاری(آرہ) وغیرہ نام شامل ہیں۔ سبھوں نے اپنے خطاب میں سیتامڑھی فساد کی جانچ اور فسادیوں کو فوراً گرفتاری کا مطالبہ کیا اور متاثرین کی فہرست ضلع سطح پر جاری کرنے کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ضلع انتظامیہ پر فوراً کارروائی کرے اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس احتجاجی مظاہرے میں سیتامڑھی سے 21 سے زیادہ متاثرین پہنچے تھے اور سبھوں نے حکومت سے معاوضہ اور انصاف کا م طالبہ کیا جس میں خواتین بھی شامل ہیں جن کے گھروں کو نذرآتش کیا گیا اور سامانوں کو لوٹا گیا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی