عوام کی مثال کے بارے میں کسی نے صحیح کہا ہے کہ
العوام كالأنعام أذا دخل دخل كله واذا خرج خرج كله عوام کی مثال اس گدھے کی طرح ہے کہ گدھا جفتی کرنے کے وقت ڈالتا ہے تو پورا دخول کر کے ہی چھوڑتا نہیں تو وہ اندر باہر نہیں کرتا ہے ،،
عوام سے میں نے دوستی کیا کی انہوں نے تو میرے سامنے ایسے ایسے مسائل رکھنے شروع کر دئے کہ میں ہی دنگ رہ گیا ایک دن ایک
آدمی آکے کہنے لگے مولی صاحب میں آپ سے ایک مسلہ پوچھنا ہے آپ کیا بھی سمجھو نکو ،
مسلہ بہت گہرا ہے اور شرم بھی آتی ہے لیکن مجھے پوچھنا ضروری ہے میں نے کہا ٹھیک ہے بھائی بولو،
تو وہ سامنے سے کہنے لگے مولی صاحب تنہائی میں چلو ،میں نے کہا چلو وہ چلے ،
جب ہم تنہائی میں گئے تو الامان والحفیظ ایسے ایسے مسائل پوچھنے لگے میں حیران ہو گیا کہ ہماری قوم کی ذہنیت ایسی ہے ؟!مسلہ یہ تھا کہ وہ کہیں سے منہ کالا کر کے آیا تھا
اور جس طرح سے انہوں نے منہ کالا کیا تھا وہ پورا طریقہ بتا کر سوال کرنے لگا کے مولی صاحب اس طرح سے کر سکتے ہیں یا نہیں ، نیز یہ کام کرنے والا ناپاک ہوتا ہے یا نہیں ،
مجھے انکا کارنامہ اور سوال بڑا اچنبھا سا لگا ،
میں نے پوچھا کہ بھائی جس کے ساتھ تم نے منہ کالا کیا ہے وہ تمھاری بیوی تھی یا نہیں ،انہوں نے کہا نہیں ،
میں نے کہا پھر تو یہ کام ہی حرام ہے تم کو توبہ کرنا لازم ہوگا ،انہوں نے کہا اسکا مطلب کام صحیح نہیں تھا !
میں نے کہا با لکل نہیں ، تو وہ کہنے لگا کہ اس کا مطلب کام صحیح نہیں ہوا تو مجھے پانی نہانے (غسل کرنے )کی ضرورت بھی نہیں ؟ میں نے کہا بھائی تم نے منہ کالا کرنے کے وقت میں دخول کیا تھا یا نہیں ،انہوں نے پوچھا دخول بولے تو کیا مولی صاحب ، میں نے کہا بھائی پوری طرح اندر گھسیڑا تھا یا نہیں ؟ انہوں نے کہا بالکل نہیں بلکہ میں نے صرف ہاتھ گھسیڑ کر چھوڑ دیا تھا ،
تو میں نے کہا کہ یہ بتاؤ تمھارے ذکر سے پانی کی قسم کی کوئی چیز نکلی تھی انہوں نے کہا ،نہیں؟
تو میں نے کہا کہ پانی نہانے کی ضرورت نہیں ہے صرف ہاتھ دھو لینا کافی ہے وہ کہنے لگا مولی صاحب میں نے ہے نا پورا ہاتھ گھسیڑ کو بھی غسل نہیں!!!!! کیا!!!! او.... ،،،،،،،
میں نے کہا عزیزم : غسل کے واجب ہونے کے لئے شرط یہ ہے کے آپ کے شرمگاہ سے شہوت کے ساتھ گاڑھا پانی نکل جائے ،تب غسل واجب ہو جاتا ہے ،
وہ کہنے لگا مولی صاحب میں نے سنا ہے کے پانی تین قسم کا ہوتا ہے ،،میں نے کہا کہ ہاں بات صحیح ہے آپ نے صحیح سنا ہے ،پہلی قسم ہے منی ، مزی ،ودی،
منی :سب سے زیادہ گاڑھا اور انتہائی شہوت کے ساتھ نکلنے والے پانی کو کہتے ہے
مزی : انسان اپنی بیوی سے بوس و کنار کرنے کے وقت یا بد نظری یا برے خیالات کی وجہ سے نکلنے والے پانی کو مزی کہا جاتا ہے ،
ودی : استنجا کرنے کے وقت میں کبھی کبھی سفید پانی کے نکلنے کو ودی کہا جاتا ہے ،
میں نے سائل سے پوچھا کہ اب تم بتاؤ کے تمہارا کونسا پانی نکلتا ہے تو وہ کہنے لگا کے مجھے تو پتا نہیں لیکن ابکی بار جب نکلے گا تب سونگھ کے بتاونگا ،،،،
پھر میں نے کہا آج کے زمانے میں ہوا پانی کے تبدیل اور انسان کے اندر کمزوری کی وجہ سے یہ پتا لگانا مشکل ہے کے اسکا نکلنے والا پانی مزی ہے یا منی ہے اس لئے مفتابہ قول کے مطابق مطلقا غسل واجب ہو جائیگا احتیاطا ،،
پھر انہوں نے ایک سوال داغا کے مولی صاحب کیا ایک عورت کے شرمگاہ کو چوم چاٹ سکتے ہیں ؟
میں نے کہا میرے بھولے بھائی وہ تو حرام ہے اسکا کرنے والا شیطان اور خبیث الباطن ہے ،
مرد و عورت دونو ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چومنا تک بھی حرام ہے ،،
قارئیں کرام : یہ واقعہ تو ہے حقیقی، لیکن اسکو پیش کرنے سے میرا مقصد بالکل کسی کی تذلیل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کے ایک دین کے رہبر اور قائد کو اپنی قوم میں کس طرح گھل مل کر رہنا چاہئے کے ہماری قوم کا ہر بچہ اور نوجوان بوڑھا باسانی ہر قسم کے مسائل بلا جھجک پوچھ سکے ہمارے سامنے دین کا جو مکمل نقشہ آج موجود ہے اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ الله کے نبی اپنے صحابہ کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے اور صحابہ بھی کھل کر ہر مسلہ آسانی کے ساتھ پوچھتے تھے ،ہماری سب سے بڑی بھول یہی ہوتی ہے کے ہم بہت ہی شان بان ٹھاٹ باٹ سے رہنے کے عادی ہیں جسکی وجہ سے لوگ ایسے اندرونی مسائل پوچھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگ ڈر سے نماز وغیرہ میں بھی نہیں آتے ہیں ہمیں بہت سے ایسے احباب ملے جن کوسلسلہ بول کی بیماری ہے ان سے پوچھنے پر وہ یہی بہانہ بتاتے ہیں،
لیکن انکو مسلہ پوچھنے میں شرم آتی ہے نہ وہ مسلہ پوچھتے ہیں اور نہ ہی نماز کو آتے ہیں ،
اب اس میں غلطی کس کی ہے ،؟
کیا شان جمانے والے ملزم نہیں ہیں ،؟
شیروانی عبا جبہ چڑھانے والے مورد الزام نہیں ہیں ؟
میں حلفیہ اس بات کو کہ سکتا ہوں کتنے ہمیں ایسے دوست ملے ہیں جو اس بات کا شکوہ کرتے نظر آئے کے ہمیں ایسے مسائل (اندرونی مسائل )بڑے لوگوں سے پوچھنے میں شرم اتی ہے ،،
بھائی ہم شروانی عبا جبہ چڑھا کر لوگوں کے جیب سے پیسے تو بٹور سکتے ہیں ، اپنے بڑے پن کا دھاک بٹھا تو سکتے ہیں ،لیکن ضروریات دین اپنی قوم کو نہیں دے سکتے ہیں ،
ہماری قوم کسی ایسے قائد کی متلاشی ہے جو انکے ہی درمیان سادگی اور دوستانہ ماحول میں رہ کر انکی ہر ضروریات دین کو پوری کر سکیں ،،،،
مسلہ بہت گہرا ہے اور شرم بھی آتی ہے لیکن مجھے پوچھنا ضروری ہے میں نے کہا ٹھیک ہے بھائی بولو،
تو وہ سامنے سے کہنے لگے مولی صاحب تنہائی میں چلو ،میں نے کہا چلو وہ چلے ،
جب ہم تنہائی میں گئے تو الامان والحفیظ ایسے ایسے مسائل پوچھنے لگے میں حیران ہو گیا کہ ہماری قوم کی ذہنیت ایسی ہے ؟!مسلہ یہ تھا کہ وہ کہیں سے منہ کالا کر کے آیا تھا
اور جس طرح سے انہوں نے منہ کالا کیا تھا وہ پورا طریقہ بتا کر سوال کرنے لگا کے مولی صاحب اس طرح سے کر سکتے ہیں یا نہیں ، نیز یہ کام کرنے والا ناپاک ہوتا ہے یا نہیں ،
مجھے انکا کارنامہ اور سوال بڑا اچنبھا سا لگا ،
میں نے پوچھا کہ بھائی جس کے ساتھ تم نے منہ کالا کیا ہے وہ تمھاری بیوی تھی یا نہیں ،انہوں نے کہا نہیں ،
میں نے کہا پھر تو یہ کام ہی حرام ہے تم کو توبہ کرنا لازم ہوگا ،انہوں نے کہا اسکا مطلب کام صحیح نہیں تھا !
میں نے کہا با لکل نہیں ، تو وہ کہنے لگا کہ اس کا مطلب کام صحیح نہیں ہوا تو مجھے پانی نہانے (غسل کرنے )کی ضرورت بھی نہیں ؟ میں نے کہا بھائی تم نے منہ کالا کرنے کے وقت میں دخول کیا تھا یا نہیں ،انہوں نے پوچھا دخول بولے تو کیا مولی صاحب ، میں نے کہا بھائی پوری طرح اندر گھسیڑا تھا یا نہیں ؟ انہوں نے کہا بالکل نہیں بلکہ میں نے صرف ہاتھ گھسیڑ کر چھوڑ دیا تھا ،
تو میں نے کہا کہ یہ بتاؤ تمھارے ذکر سے پانی کی قسم کی کوئی چیز نکلی تھی انہوں نے کہا ،نہیں؟
تو میں نے کہا کہ پانی نہانے کی ضرورت نہیں ہے صرف ہاتھ دھو لینا کافی ہے وہ کہنے لگا مولی صاحب میں نے ہے نا پورا ہاتھ گھسیڑ کو بھی غسل نہیں!!!!! کیا!!!! او.... ،،،،،،،
میں نے کہا عزیزم : غسل کے واجب ہونے کے لئے شرط یہ ہے کے آپ کے شرمگاہ سے شہوت کے ساتھ گاڑھا پانی نکل جائے ،تب غسل واجب ہو جاتا ہے ،
وہ کہنے لگا مولی صاحب میں نے سنا ہے کے پانی تین قسم کا ہوتا ہے ،،میں نے کہا کہ ہاں بات صحیح ہے آپ نے صحیح سنا ہے ،پہلی قسم ہے منی ، مزی ،ودی،
منی :سب سے زیادہ گاڑھا اور انتہائی شہوت کے ساتھ نکلنے والے پانی کو کہتے ہے
مزی : انسان اپنی بیوی سے بوس و کنار کرنے کے وقت یا بد نظری یا برے خیالات کی وجہ سے نکلنے والے پانی کو مزی کہا جاتا ہے ،
ودی : استنجا کرنے کے وقت میں کبھی کبھی سفید پانی کے نکلنے کو ودی کہا جاتا ہے ،
میں نے سائل سے پوچھا کہ اب تم بتاؤ کے تمہارا کونسا پانی نکلتا ہے تو وہ کہنے لگا کے مجھے تو پتا نہیں لیکن ابکی بار جب نکلے گا تب سونگھ کے بتاونگا ،،،،
پھر میں نے کہا آج کے زمانے میں ہوا پانی کے تبدیل اور انسان کے اندر کمزوری کی وجہ سے یہ پتا لگانا مشکل ہے کے اسکا نکلنے والا پانی مزی ہے یا منی ہے اس لئے مفتابہ قول کے مطابق مطلقا غسل واجب ہو جائیگا احتیاطا ،،
پھر انہوں نے ایک سوال داغا کے مولی صاحب کیا ایک عورت کے شرمگاہ کو چوم چاٹ سکتے ہیں ؟
میں نے کہا میرے بھولے بھائی وہ تو حرام ہے اسکا کرنے والا شیطان اور خبیث الباطن ہے ،
مرد و عورت دونو ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چومنا تک بھی حرام ہے ،،
قارئیں کرام : یہ واقعہ تو ہے حقیقی، لیکن اسکو پیش کرنے سے میرا مقصد بالکل کسی کی تذلیل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کے ایک دین کے رہبر اور قائد کو اپنی قوم میں کس طرح گھل مل کر رہنا چاہئے کے ہماری قوم کا ہر بچہ اور نوجوان بوڑھا باسانی ہر قسم کے مسائل بلا جھجک پوچھ سکے ہمارے سامنے دین کا جو مکمل نقشہ آج موجود ہے اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ الله کے نبی اپنے صحابہ کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے اور صحابہ بھی کھل کر ہر مسلہ آسانی کے ساتھ پوچھتے تھے ،ہماری سب سے بڑی بھول یہی ہوتی ہے کے ہم بہت ہی شان بان ٹھاٹ باٹ سے رہنے کے عادی ہیں جسکی وجہ سے لوگ ایسے اندرونی مسائل پوچھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگ ڈر سے نماز وغیرہ میں بھی نہیں آتے ہیں ہمیں بہت سے ایسے احباب ملے جن کوسلسلہ بول کی بیماری ہے ان سے پوچھنے پر وہ یہی بہانہ بتاتے ہیں،
لیکن انکو مسلہ پوچھنے میں شرم آتی ہے نہ وہ مسلہ پوچھتے ہیں اور نہ ہی نماز کو آتے ہیں ،
اب اس میں غلطی کس کی ہے ،؟
کیا شان جمانے والے ملزم نہیں ہیں ،؟
شیروانی عبا جبہ چڑھانے والے مورد الزام نہیں ہیں ؟
میں حلفیہ اس بات کو کہ سکتا ہوں کتنے ہمیں ایسے دوست ملے ہیں جو اس بات کا شکوہ کرتے نظر آئے کے ہمیں ایسے مسائل (اندرونی مسائل )بڑے لوگوں سے پوچھنے میں شرم اتی ہے ،،
بھائی ہم شروانی عبا جبہ چڑھا کر لوگوں کے جیب سے پیسے تو بٹور سکتے ہیں ، اپنے بڑے پن کا دھاک بٹھا تو سکتے ہیں ،لیکن ضروریات دین اپنی قوم کو نہیں دے سکتے ہیں ،
ہماری قوم کسی ایسے قائد کی متلاشی ہے جو انکے ہی درمیان سادگی اور دوستانہ ماحول میں رہ کر انکی ہر ضروریات دین کو پوری کر سکیں ،،،،
وما علينا ألا البلاغ
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ ہر گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امت مسلمہ کو
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ عوام کو صحیح سمجھ عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریں