اسلام اور مسلمانوں پر حملے

مسلمانوں پر حملے
جے پور ممبی اکسپریس کا تازہ ترین معاملہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اب بہت کچھ بڑا ہونے والا ہے گولی کانڈ آتنکی کا کہنا تھا کہ اگر بھارت میں رہنا ہے تو یوگی مودی کرنا ہوگا یعنی بھارت اکیلے ان کی جاگیر ہے جنہیں بھارت کی با معلوم نہیں ہندوستان کی ہا معلوم نہیں اور انڈیا کی آئی معلوم نہیں وہ بھارت کو اپنی سمپتی بتانے پر تلے ہوئے ہیں۔
مسلمان پر حملے ہوں تو اس کے کوئی معنی نہیں اس لیے کہ مسلمان کی کوئی قیمت ہی نہیں جب چاہو انکی مسجد پر ان کے گھر پریوار پر حملے کر دو کوئی پوچھنے والا نہیں اس لیے کہ مسلمان اپنی اوقات بھول چکے ہیں وہ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ان کے اجداد کی بے مثال قربانی سے ان کو اس دیش پر حق ملا ہے لیکن آج وہ دیش بھکتی ہی ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں وہ بھی ایسی دیش بھکتی جو صرف جے شری رام اور وندے ماترم کہنے سے ثابت ہو جائے کتنا سستا سودا ہے کہ وندے ماترم اور جے شری رام بولو تو دیش بھکت ہوورنہ دیش کے غدار کہلاوگے۔
دوسری طرف یہ کہ مسلمانوں کی تاریخ مکمل طور پر مسخ کرنے کی بھرپور سرکاری طور پر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،حق بولنے پر گرفتاری ، پرسوں ایک خبر نظر سے گذری کے ایک صاحب جو مسلمان تھے ان کی بائیک سے ایک چوہا مرگیا وہ بے چارا چوہا کیا مرا اس کے بدلے اس مسلمان کو جیل جانا پڑ گیا ، تاج محل کا نام تیجو مہالیا علی گڑھ کا نام ہری گڑھ ایجوکیشن سے مسلم بہادروں کی تاریخ ہٹا کر غدار ساورکر کی تاریخ ڈالی جارہی ہے جب سب ختم ہو جائے گا تو پھر کس بنیاد پر مسلمان کہیں گے کہ ہمارے باپ دادا نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں ثبوت تو ختم ہو چکا ہوگا۔
لیکن ایک چیز جو ہمیں کافی دنوں سے پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ یہ ہندو جو واویلا کر رہے ہیں کہ ہندو خطرے میں ہے ، پتہ نہیں کس چیز سے ان کو خطرہ ہے ، اس دیش میں نہ تو عیسائیوں کو خطرہ ہے نہ بدھوں کو نہ سکھوں کو نہ دیگر مذاہب والوں کو ،ہندووں کو خطرہ کب سے ہونے لگا اور کن سے ہونے لگا یہ سمجھ سے باہر ہے، دیکھ رہا ہوں جب سے کیسری خیمہ اقتدار میں آئی ہے تب ہی سے ہندووں کو خطرہ ہونے لگا ہے سوچنے والی بات ہے، کیسری خیمہ کی سیاسی طاقت ، سیاسی قوت فکر کتنی مظبوط ہے کہ وہ اسی فیصد آبادی والے ہندو قوم سے یہ کہلوانے میں کامیاب ہیں کہ ہندو خطرے میں ہے کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں انتہائی عیاری سے کبھی بھی ہندووں کو ایک ہونے نہیں دیا تھا پورا ملک شانت تھا بھائی چارگی تھی، کیسری خیمہ نے اس کے برعکس ہندووں کو ایک کرنے کا کام کیا اور دشمن کے طور پر مسلمان کو پیش کر کے بیس فیصد کے مقابلے میں اسی فیصد کو ڈرا نے میں کامیاب ہوگیا آج پورا دیش جل رہا ہے۔
لیکن یہ سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ کیا ہندو مسلم کرنے سے کس کا بھلا ہوگا اور کس کا بگڑے گا ظاہر سی بات ہے کہ ہندو راشٹر کی مانگ کرنے والے جو اس گمان میں ہیں کہ ہندو راشٹر بنے گا کیا یہ ممکن ہے کیا دوسری قومیں خاموش رہیں گی کیا ملک مین ہریالی آئے گی مثال موجود ہے نیپال جو کچھ سالوں پہلے ہندو راشٹر تھا اب جمہوری ہو گیا ہندوراشٹر کے زمانے میں نہپال نے کیا ترقی کی نیپالی خود کہتے ہیں کہ ملک کا ستیاناس ہو چکا تھا ہم نے بڑی محنتوں سے اسے جمہوری بنایا ہے۔
ہمارے اس پیارے سے دیش کی ترقی اور بھلائی اس کے جمہوری رہنے میں ہی ہے پتہ نہیں کس خبیث کی نظر بد میرے ملک کو لگی ہے کہ آج تک ہمارا ملک جل رہا ہے اللہ حفاظت فرمائے
ابوالحبیب

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی