پندرہ اگست اور دارالعلوم دیوبند


پندرہ اگست اور دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند میں پندرہ اگست کے موقع پر جشن آزادی کی تقریب منعقد کی گئی جس میں ملک کے چوٹی کے سیاست داں نے بھی شرکت کی مولونا ارشد مدنی نے کہا ، دارالعلوم دیوبند سب سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ آزادی وطن کی تقریب منعقد کرے، دارالعلوم کے سپوتوں نے  ہی آزادیء وطن کی تحریک برپا کرکے ملک کو آزاد کرایا، یہ ملک اگر زندہ رہے گا تو آپسی بھائی چارگی کے ساتھ زندہ رہے گا ورنہ برباد ہوجائے گا : مولانا سید ارشد مدنی

آج دارالعلوم کے پندرہ اگست کے موقع پر جشن یوم آزادی کی تقریب میں ہندوستان کے اس لہراتے جھنڈے کو دیکھ کر میرا رواں رواں خوشی سے شرسار ہے: ڈی ایم آلوک پانڈے 

دارالعلوم کی تاریخ گواہ ہے کہ دیوبند کے علماء نے براداران وطن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آزادی کی جنگ لڑی، دارالعلوم کی نظر اب ملک چلانے پر بھی ہونی چاہئے : ایس ایس پی دنیش کمار 

ایس پی دنیش کمار کے اس نوٹ پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ دارالعلوم کی نظر اب ملک چلانے پر بھی ہونی چاہیے شاید انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمان وہ قوم ہے جس نے ملک کی معیشت پینتیس فیصد بوجھ اپنے کندھے پر سنبھال رکھا ہےمدارس اور مساجد کے ذریعے ورنہ ملک میں بے روزگاری اور زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی۔

جنگِ آزادی کی لڑائی میں سب سے پہلے جو قیدی بناکر مالٹا کی جیل میں بھیجے گئے وہ علماء دیوبند ہی تھے، دارالعلوم دیوبند دنیوی تعلیم کا بھی انتظام کرے : حاجی فضل الرحمن 

پندرہ اگست اور دارالعلوم دیوبند

پندرہ اگست کی اس 73یوم آزادی کے قومی تہوار کو ملک بھر میں دھوم دھام سے منایا جارہا ہے، ملک کے تمام مدارس میں بھی یوم آزادی کے موقع پر بڑی ہی شان وشوکت کے ساتھ ترنگے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، اسی مناسبت سے عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے بھی اس مرتبہ جشن یوم آزادی کے عنوان سے شاندار پروگرام منعقد کرکے اپنے کارکنان اساتذہ و طلبہ کے ساتھ مل کرپندرہ اگست کی جشن یوم آزادی انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منائی، دارالعلوم کے اعظمی منزل کے احاطہ میں فخر کے ساتھ قومی جھنڈا لہرا کر جنگ آزادی میں شہید اکابرین دیوبند کی قربانیوں کو یاد کیا گیا، اور ان کو خراج تحسین پیش کی گئی، پندرہ اگست کے اس منعقد پروگرام میں طلبہ کو ملک کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند اور اکابرین دیوبند کی خدمات سے روشناس کرایاگیا، دارالعلوم دیوبند میں پندرہ اگست کی تقریب میں اس مرتبہ سرکاری افسران و سیاسی لیڈران کو بھی مدعو کیا گیا، ایسا مانا جا رہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی اس نئی پہل سے پورے ملک میں ایک مثبت پیغام جائے گا،(جب کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور نہ ہی دارالعلوم کو اپنی قربانی اور دیش بھکتی کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے جس کو ماننا ہو مانے ورنہ جائے بھاڑ میں،) اس سے ہندو مسلم بھائی چارہ بھی کافی مضبوط ہوگا۔ لوگوں نے اس مثبت پہل کا استقبال کیا ہے، اس طرح کے پروگرام سے سرکاری افسران و لیڈران کو دارالعلوم کی تاریخ سننے اور سمجھے کا موقع ملے گا اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گا، دارالعلوم میں تعطیل ہونے کے باوجود پورا پنڈال لوگوں سے کچا کھچ بھرا ہوا تھا، دارالعلوم کے طلبہ کے علاوہ دیگر مدارس کے طلبہ بھی کثیر تعداد میں موجود تھے جبکہ آگے کی نشت کارکنانِ دارالعلوم کے لئے مختص رکھی گئی تھیں، پورے پنڈال اور اسٹیج کو جھنڈوں سے سجایا گیا تھا، پروگرام کا باضابطہ آغاز مولانا سید ارشد مدنی ،ڈی ایم آلوک کمار پانڈے ،ایس ایس پی دنیش کمار ،ایس ڈی ایم دیوبند راکیش کمار اور ادارہ کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی نے مشترکہ طور پر قومی پرچم لہرا کر کیا ۔ اسی دوران اس پندرہ اگست کے دن راشٹریہ قومی گیت 'جن گن من' محمد احمدخان نے پڑھا، دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 'جن گن من' گیت پڑھنے کو لیکر مختلف قسم کی چہ مگوئیوں کا دور بھی شروع ہوگیاہے۔ پروگرام کے شروع میں تلاوت دارالعلوم دیوبند کے شعبہ تجوید و قرأت کے استاذ قاری شفیق الرحمان نے کی جبکہ پروگرام کی صدارت جمعیتہ علماء ہند کے قومی صدر و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند مولانا سید ارشد مدنی نے کی اور نظامت کے فرائض استاذ تفسیر و عربی ادب مولانا شوکت بستوی  دارالعلوم دیوبند نے انجام دئے ۔ اس موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو ضلع سہارنپور مجسٹریٹ آلوک کمار پانڈے نے خطاب سے قبل تمام لوگوں کو پندرہ اگست کی مبارک باد پیش کی، مولانا ارشد مدنی اور مولانا عبد الخالق مدراسی  کا پروگرام میں مدعو کرنے پر بھی شکریہ ادا کیا بعد ازاں انہوں نے کہا کہ یہاں دارالعلوم میں تعطیل کے ایام چل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں طلبہ، اساتذہ کارکنان اور اہلیان شہر موجود ہیں، جو سب یہاں شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ دارالعلوم مکہ مدینہ کے بعد ایشاء کا سب عظیم دینی و علمی مرکز ہے، مجھے یہاں آکر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے، مجھے پروگرام کے توسط سے دیوبند کی خدمات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، مجھے بتایا گیا کہ یہاں کا ہر طالب علم اپنے اندر ایک مدرسہ ہے، یہاں کا ہر طالب علم قابل و صلاحیت مند ہوتا ہے، میری دعا ہے کہ وہ سب اپنے مقصد میں کامیاب ہوں لیکن ساتھ میں میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ پولیس آفیسر بننے کی پڑھائی بھی پڑھیں، دارالعلوم کے احاطہ میں لہراتے ترنگے کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوں، آپ اس جھنڈے کی حفاظت کریں اور ملک کو آگے بڑھانے میں ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں - بعدازاں علامہ اقبال کا ترانہ سارے جہاں سے اچھا مولوی زکوان نے پیش کیا، پروگرام میں تشریف لائے ایس ایس پی دنیش کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند کا بہت بڑا کردار ہے، دارالعلوم ہمیشہ سے ملک کی ترقی کے لئے کوشاں رہا ہے، ایس ایس پی نے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں سے کسی کو آئی ایس، آئی پی ایس، آئی آر ایس آفیسر بھی تیار ہونا چاہئے، انہوں نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں دارالعلوم میں اب اس طرح کی کلاس بھی شروع کریں، انہوں نے اپنی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم کی نظر اب ملک چلانے پر اور ملک کی باگ ڈور سھنبال نے پر بھی ہونی چاہئے-  سہارنپور ایم پی حاجی فضل الرحمن نے بھی پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا، انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کی آزادی میں ہر طبقہ نے حصہ لیا اور سبھی نے اپنی جان کی قربانی پیش کی، لیکن ان علماء حضرات نے جن کی نسبت علماء دیوبند اور دارالعلوم دیوبند کی طرف ہے ان لوگوں نے ملک کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، انہیں نے علماء دیوبند کی جنگ آزادی میں قربانیوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلی نے ملک کی آزادی کے لئے سب سے پہلے لڑائی لڑی ان کے ساتھ ساتھ مولانا عبد العزیز نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا کہ مسلمانوں پر انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑنا فرض ہے، انہوں نے کہا کہ مولانا محمود الحسن  دیوبندی جن کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی تھے جن کے صاحبزادے مولانا سید ارشد مدنی  ہماری درمیان موجود ہیں انہوں نے جنگ آزادی کے لئے سب سے پہلے ریشمی رومال کی تحریک شروع کی، انہوں نے کہا کہ جنگ آزادی میں سب سے پہلے جو قیدی بناکر مالٹا کی جیل میں بھیجے گئے وہ بھی علماء دیوبند تھے، دارالعلوم کا ہندوستان کی آزادی کے لئے بنیادی کردار رہا ہے، انہوں نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر کسی کے سر پر ٹوپی ہے، چھرے پر ڈاڑھی ہے بدن پر اسلامی لباس ہے تو اس سے منھ پھیر لیا جاتا ہے یہ افسوس ناک بات ہے ان علماء کی قدر ہمارے دلوں میں ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ آج پوری پلاننگ کے ساتھ علماء کی جنگ آزادی میں دی گئی قربانیوں کو مٹایا جارہا ہے، ہمیں از خود اس طرح کے پروگرام (پندرہ اگست) منعقد کرکے اپنی تاریخ دنیا کے سامنے رکھنی ہوگی، اور اپنی تاریخ کی حفاظت کرنی ہوگی، انہوں نے ایس ایس پی  کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ طلبہء دارالعلوم میں سے کسی نہ کسی کو آئی ایس اور آئی پی ایس آفیسر وغیرہ ضرور بننا چاہئے، اور یہ سلسلہ واقعتاً شروع ہونا چاہئے، ایم پی حاجی فضل الرحمن نے مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی تعلیمی نظام میں دنیوی نظام کو بھی جوڑ دیں تو یہ ہماری مسلم قوم پر مزید احسان ہوگا - بعدازاں مولانا سید ارشد مدنی صاحب کا پرمغز خطاب ہوا، انہوں نے اپنے طویل خطاب میں فرمایا کہ یہ آزادیء وطن کی تقریب ہے، اس طرح کی تقریبوں میں ہم لوگ اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں کہ جن کی صدقہ ملک آزاد ہوا اور غلامی کی لعنت سے ہم سب کو آزادی ملی، اس لئے ہمارے فرض بنتا ہے کہ ہم پندرہ اگست کے موقع پر ان کی قربانیوں کو یاد کریں، اور نئی نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کرائیں، مولانا نے اپنے طویل خطاب میں جنگ آزادی کی اصل تاریخ سے متعلق فرمایا کہ سب سے پہلے آزادی وطن کا جہاد بالا کوٹ کے میدان میں سن 1831ء میں ہوا جس میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے دو شاگرد سید احمد رائے بریلی اور شاہ اسماعیل ملک کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے پھر 25 سالوں کے بعد انگریزوں کے خلاف دوسرا جہاد سن1857ء میں شروع ہوا، اس جہاد کے اندر دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی بھی شریک تھے انہوں نے 1857ء کے ٹھیک 6 سال بعد دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد ملک کو انگریزوں سے آزاد کروانا تھا، آج دارالعلوم کو دین کی خدمت کرتے ڈیڑھ سو سال ہوگئے، اس ایک دارالعلوم سے دنیا میں ہزاروں دارالعلوم وجود میں آئے، پوری دنیا کی مسلم قوم اس ادارے کو چلا رہی ہے، مولانا نے فرمایا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی جنہوں نے تحریک ریشمی رومال شروع کی تھی وہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے، ان کی آزادیء وطن کے لئے قربانیاں اور سخت جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں، مولانا ارشد مدنی نے ڈی ایم کو متوجہ کرکے بتایا کہ ہم نے اکھلیش سے مشورہ کرکے سہارنپور میں شیخ الہند میڈیکل کالج قائم کیا تھا، لیکن آج وہ سیاسی جھگڑوں کہ وجہ سے انتہائی خراب حالت میں ہے۔ یہ دیکھ کر ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ جنگ آزادی کے لئے ریشمی رومال تحریک چلا کر فرنگی سے لوہا منوانے والے شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نام سے منسوب ہونے والا وہ کالج آج خستہ حالت میں ہے، نفرت کی سیاست کی آگ نے اس کو نگل لیا ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ملک کے پچاسوں ہزار مدارس شیخ الہند کا نام زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں، انہیں نے ملک کے موجودہ صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے ہوئے کہا کہ جس طرح پیار و محبت کے ساتھ ہندو مسلمانوں نے مل کر ملک آزاد کرایا ہے ملک اگر زندہ رہے گا تو اسی پیار و محبت کے ساتھ زندہ رہے گا اور اگر نفرت کا ماحول پیدا کیا جائے گا تو ملک برباد ہوجائے گا، ملک کو آگ لگ جائے گی، انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا نظریہ ہے کہ بھائی چارگی پیار و محبت سے ملک زندہ رہے گا ورنہ ملک برباد ہوجائے گا، مولانا مدنی نے بتایا کہ دارالعلوم دیوبند اپنے طلبہ کو یہی نظریہ دیتا ہے کہ جہاں رہو پیار و محبت کا کا پیغام دے کر رہو، مولانا مدنی نے ڈی ایم، ایس ایس پی اور ایم پی کے خواہشات پر اپنے خیالات کا اظہار فرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لاکھوں مسجدیں اور مدارس ہیں، ہمیں ان کے لئے لاکھوں امام قاری اور عالم دین پیدا کرنے ہیں، ہم جدید تعلیم کے مخالف نہیں البتہ ہمارے سامنے مجبوریاں ہیں کہ ہم دنیا بھر میں پھیلے مسجدوں مدرسوں کو کیسے آباد رکھیں، پھر بھی مولانا نے کہا کہ ہم نے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے اس کا تجربہ کر رہے ہیں اگر ہمیں اس میں کامیابی ملی تو ہم اس سلسلہ کو شروع کریں گے، دنیوی تعلیم کو بھی اپنے نصاب میں داخل کریں گے، مولانا مدنی نے اپنے خطاب کے آخر میں راشٹریہ گیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس گیت کے اندر کوئی شرکیہ کلمات نہیں ہے، مفتی حضرات نے اس پر عدم جواز کا کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے، اس لئے آپ حضرات اس گیت کے پڑھنے کی وجہ سے کوئی اجنبیت محسوس نہ کریں -  آخر میں مولانا مدنی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا- اس دوران ادارہ کے اساتذۂ کرام، کارکنان اورطلبہ کے علاوہ شاہد معین ، مولانا فضیل، قاری فوزان، اشرف عثمانی، اسجد قاسمی، نجم عثمانی ،جمال ناصر عثمانی، دانیال خان، ،خفیہ محکمہ کی ٹیم ،بڑی تعداد میں پولیس فورس اور شہر کے ہزاروں لوگ موجود رہے ۔آخیر میں مولانا سید ارشد مدنی کی دعاءپر پروگرام اختتام پزیر ہوا ، یوم آزادی کی تقریب کو لیکر دیوبند مدارس کے طلبہ میں جوش وخروش دیکھا گیا، دیوبند کے دیگر مدارس میں بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ جشن یوم آزادی منایا گیا۔
indian flag, tiranga, 15August

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی