بابری مسجد کی فریاد بابری مسجد کی زبانی


آہ میں کیسی بد نصیب تھی تم مجھے آباد نہ کر سکے،
تم نے مجھے ویران کر دیا ،
تم نے مجھے دشمنوں کے حوالے کر دیا ،
 تم میری عظمت کو نہ سمجھ سکے ،
لیکن افسوس ہے کہ تم نے مجھے اس وقت سمجھا جب بہت دیر ہو چکی تھی،مجھے دشمن مٹی میں ملا چکے تھے میری ایک ایک اینٹ کو دشمن تبرک سمجھ کر نہیں بلکہ میری عظمت کو خاک آلود کرنے کے لئے وہ سنگھی اپنے گھروں کو بھی لیکر گئے ،انہوں نے میری اینٹوں پر پاخانہ پیشاب تک کیا ،مجھے اپنی بیت ا لخلاوں میں بھی استعمال کیا ،
وہ میری ان گنبدوں پر چڑھ کر جے شری رام کے نعرے بھی لگا رہے تھے ،جہاں سے میرے رب کی صدائیں گونجتی تھیں ،ہائے بربادی میں تو ویران ہو گئی میری ان پر شکوہ عمارتوں کو انہوں نے زمین بوس کر دیا ،میں چیختی رہی ،فریاد کرتی رہی لیکن میری فریاد سننے والا کوئی نہ تھا ،
پھر میری اس زمین کے توے پر ایک لمبے عرصے تک سیاسی پارٹیاں اپنے مطلب کی روٹیاں سکتے رہے ،ہمارے بس میں کچھ نہیں تھا ، ہم دیکھتے رہے ،دیکھتے رہے ،جب انکی روٹیاں اچھی طرح پک کر تیّار ہو گیں ،تو مجھے فیض آباد کی عدالت کی لونڈی بنادی گئیں وہاں لوگ اپنی جھوٹی دلیلوں اور ثبوتوں کو بنیاد بنا کر مجھے نوچتے کھینچتے رہے ،با لآ خر مجھے تین ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ،   

لیکن میرے متوالوں کو میرا ٹکڑا ہونا پسند نہیں آیا انہوں نے میری لاش کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھا کر سپرم کورٹ کے سرد خانے میں دھر آے وہاں بھی میری لاش پر سیاست کی کرسی سجای گئی اور لمبے عرصے تک یہ میری لاش کو نوچ نوچ کر کھاتے رہے جب میرا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا پھر مجھے پانچ بڑے بڑے ججوں کے دستر خواں پر سجا دیا گیا ،
عجیب بے وقوف تھے یہ لوگ میری لاش کے موجود ہونے کے باوجود میرے وجود پر ہی بحث کرتے رہے کبھی مرے وجود کو غیر قانونی بتایا جاتا کبھی شک کے گھرے میں ڈال دیا جاتا ،تو کبھی مجھے کسی مندر کا شہسوار ثابت کیا جاتا ،
تو کبھی میرے معمار کو غدار تو کبھی ظالم اور نہ جانے کن کن الفاظ سے انہیں یاد کیا جا تا ،
میں چیختی رہی چلّاتی رہی او کمبختو مجھے میرے بنانے والوں نے کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنایا ،میں کسی کافر اور مشرک کی رکھیل نہیں رہی ہوں ،میں آباد تھی ،میری پشت پر سجدے ہوتے رہے ہیں ،
میرے جسم کا ایک ایک حصہ میری تاریخ میری عظمت کی گواہ ہے ،میرے سینے پر کدال اور پھاوڑے مارنے والوں کے دل سے پوچھو وہ خود بتائینگے میں کیا تھی ،
ایک انصاف پسند سناتنی سے پوچھو وہ خود میری عظمت رفتہ کی داستان سنائینگے ،انگریزوں کے میوزیم سے میرے ثبوت کی گواہی لے سکتے ہو،انگریزوں کے سیاہ دور سے میری تفتیش کرو ،ماضی میں عدلیہ اور سرکاری کاغذات نے بھی مجھے محفوظ کیا ہے آؤ ،آؤ ، میں خود اپنے وجود کا ثبوت پیش کروں ،مجھے میر باقی نے بابر کے آرڈر پر ایک خاص زمین خرید کر بنایا تھا ،میں کسی کی ہڑپ کی ہوئی زمین پر نہیں بنائی گیی تھی ،میں مسجد تھی ،پھر ایک رات ایک شر پسند نے میری پشت پر ایک پتھر کا بت رکھ دیا ،پھر میں بند کر دی گیی ،اسکے بعد میں زمین میں ملا دی گئی ،
میرے وجود پر بحث کرنے والے عجیب قسم کے لوگ تھے ،ایک طرف میرے وجود کو غیر قانونی بھی کہ رہے تھے پھر میرے مقدمے کو قبول کر کے اڈوانی اور بڑے بڑے نیتاؤں پر مجھے توڑنے کے جرم میں کاروائی بھی کر رہے تھے ،جب میں غیر قانونی تھی میرا وجود غیر قانونی تھا تو پھر یہ مقدمہ کیسا ،یہ بحث کیسی ،میرا معاوضہ کیسا ،
جب میرا وجود غیر قانونی تھا تو میری بنیادوں کو ہلانے کے لئے سنگھیوں کا سہارا کیسا ،
جب میرا وجود غیر قانونی تھا تو میرے ملبے پر ہزاروں انسانوں کا خون مزید کیوں بہایا گیا ،
جب میرا وجود غیر قانونی تھا تو مجھ پر صنم کدہ کی تعمیر میں اتنی تاخیر کیوں ،
جب میرا وجود غیر قانونی تھا تو میری پشت پر اہل الله نے اپنی پیشانییاں کیوں جھکا ئیں، 
 او دھرم کے رکھ والو : آؤ ، آؤ ،میں تمہیں اپنی عظمت کا نشان دکھاؤں ، میرے سینے پر ہتھوڑوں سے وار کرنے والے بلبیر سے پوچھو ،انکے بڑے بڑے نیتاؤں اور انکے اہل خانہ سے پوچھو ،او دھرم کے رکھ والو :ایک دھارمک استھل کو توڑ تمہیں کیا پوننے (ثواب) ملے گا !کیا شری رام جی خوش ہوں گے ! کاش مجھے توڑنے سے پہلے اپنے سناتنی فقیہ سے مسلہ معلوم کر لیتے ،

Babri Masjid History 09/11/2019-supreme court judgment

ہائے میری بربادی : ججوں کی کرسی کے سامنے میرے وجود کی حقانیت پرثبوتوں اور دلیلوں کے انبار لگانے والے راجیو دھون جی بھی تمھارے اپنے تھے جنہوں نے اپنی بے لوث خدمت پر ایک پیسہ بھی نہیں لیا ،
 میناکشی سنہا جی بھی تہارے اپنے تھے ،
اور بھی تھے لیکن جتنا بتا یا جائے کم ہے ،
بھر حال میں تو اب چلی شاید تم مجھے دوبارہ جلا سکو ،اگر نہیں کر سکے تو کم ازکم اتنا کرنا کے میرے نام پر سودا نہ کرنا ،میرے نام پر پانچ ایکڑ کی زمین ہر گز نہ لینا ورنہ میں کبھی معاف نہیں کروں گی ،ہر آنے والی نسلوں کو بتاتے رہنا کے اس جگہ پر بابری مسجد تھی ،ہر آنے والی قوم کو میری نشاندھی کرتے جانا ،،،
الوداع،،،،الوداع،،،،،الوداع،،،،،الوداع،،،،الوداع،،،الوداع،،

پریس ریلیز        برائے اشاعت
جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر:مولاناارشد مدنی
’ریویو پٹیشن ‘پر جمعیة علماءہند کی مجلس عاملہ کا پینل کرے گا فیصلہ

نئی دہلی15نومبر: بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا جائزہ لینے کے لئے آج مرکزی دفترجمعیةعلماءہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی اجلاس زیر صدارت مولانا سید ارشد مدنی منعقد ہوا ، اجلاس مجلس عاملہ کی کارروائی کا آغاز ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔اس اہم اجلاس میںممبران نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی تمام شقوں پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔مجلس عاملہ کی نظر میںبابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ، چاہے اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے ، اس لئے کہ کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیںہے کہ کسی متبادل پرمسجد سے دستبردارہوجائے۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کے خلاف ایک پینل تشکیل ہو جو وکلاءاور ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ ریویو پٹیشن داخل کی جائے یا نہیں۔چنانچہ مولانا سید ارشد مدنی ،مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی، مولانا سید اسجد مدنی، فضل الرحمٰن قاسمی او ر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا گیا۔پینل مستقل وکلاءاور ماہرین قانون کے ساتھ تبادلہ ¿ خیال کررہا ہے ۔مجلس عاملہ نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے جیسا کہ خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے۔اسی بنیاد پرجمعیة علماءہند کا روز اول سے بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میںیہ موقف رہا ہے کہ ثبوت و شواہد اور قانون کی بنیاد پر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا اسے ہم تسلیم کریں گے۔خود سپریم کورٹ نے متعدد بار کہا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ صرف ملکیت کا ہے نہ کہ آستھا کا۔اسی لئے جمعیة علماءہندنے ملک کے ممتاز وکلاءکی خدمات حاصل کیں ،ثبوت وشواہد اکٹھا کئے اور قدیم دستاویزات کے ترجمے کرواکر عدالت میں پیش کئے اور پوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کادعویٰ پیش کیا اور ہم اسی بنیاد پرپر امید تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگامگرجو فیصلہ آیا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ ان تمام حقائق اور شواہد کو نظر انداز کرکے آستھا کی بنیاد پر دیا گیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ صدر جمعیة علماءہندمولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا اور یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیوں کہ پانچ ججوں کی بینچ نے ایک طرف تو اپنے فیصلے میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنانے کا انکار کیا ،بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے ، پھر اسے توڑنے کو غلط ٹھہرا یا ہے اورجگہ انہیں لوگوں کودے دی جنہوں نے مسجد میں مورتی رکھی اور پھر مسجد کو شہید کردیاجس کی ہرگز امید نہ تھی۔مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے آزاد ہونے بعد جب دستور بنا اس وقت بھی وہاں مسجد تھی اور لوگ نماز بھی پڑھتے تھے۔انہوں نے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف نہیں بلکہ تصفیہ ہے ۔یہ فیصلہ ہندوستان کے بڑے بڑے ہندو مسلم ماہرین قانون کو محوحیرت کردیا ہے۔صحافیوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کہ بابری مسجد کے عوض میں سپریم کورٹ نے 5/ایکڑ زمین مسلم فریق کو دی ہے کیا اس کو جمعیة علماءہند قبول کرے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان زمین کا محتاج نہیں ہے ہمیں اسے قبول نہیں کرنا چاہئے اور سپریم کورٹ نے یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی ہے وقف بورڈ کو بھی زمین قبول نہیں کرنی چاہئے۔ ایک اور سوال کہ کیا جمعیة علماءہند بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عالمی عدالت میں چیلنج کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمارا ہے اور ملک بھی ہمارا ہے اس لئے ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور عالمی عدالت میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو بھی کارروائی کی جائے گی وہ ملک کے اندر قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے گی۔میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوںنے اس اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں پر ہمیشہ سے یہ کلنک اورداغ لگا ہوا تھا کہ بابر نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرائی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ میں یہ تبصرہ کہ’ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی‘ یہ کلنک اور داغ بھی مسلمانوں کی پیشانی سے دھل گیا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ثبوت و شواہد کا اپنے فیصلے میںذکر کیا ہے لیکن فیصلہ اس کے برخلاف دیا ہے۔سپریم کورت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ مسجد 1528 میں بابر کے زمانے میں بنی تھی اور 1934 میں فرقہ وارانہ فساد میں کچھ حصے کو نقصان پہنچاتھا، جس کواس وقت کی گورنمنٹ نے ہندوو ¿ ںپر ٹیکس لگا کر مرمت کروائی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات بھی کو تسلیم کیاہے کہ 22 اور23 دسمبر 1949کی درمیانی رات میں کچھ لوگوں نے دیوار پھاند کررام للاکی مورتی کو مسجد کے اندر درمیانی گنبد کے نیچے رکھ دیا تھا۔6دسمبر 1992کوسپریم کورٹ کو یوپی گورنمنٹ نے بابری مسجد کے حفاظت کی ذمہ داری کا حلف نامہ دیا تھاسپریم کورٹ کے آرڈر کے خلاف بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ انہدامی عمل غیر قانونی تھا،کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 1528 سے لیکر 22دسمبر 1949 تک مسلمانوں نے وہاں نماز پڑھی۔کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد آثار قدیمہ نے جو کھدائی کی تھی اور بابری مسجد کے نیچے سے جو ملبہ ملا تھا وہ غیر اسلامی تھا لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مند ر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ کی مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے مسجد کے وجود کو تسلیم کیا،اس کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا، اس میں نماز پڑھنے کو تسلیم کیا،کسی مندر کو گراکر مسجد بنانے کا انکار کیا ہے،لیکن ان تمام ٹھوس ثبوت و شواہد کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ نے پوری زمین رام للا کو دے دی ۔ا س لئے مذکورہ حقائق کے بعد بھی یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔مزید برآںاگر مسجد کی جگہ مسلمانوں کی ملکیت ہی نہیں تھی تو 5 /ایکڑ زمین کا دیا جانا کس چیز کا معاوضہ ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ خود کسی نہ کسی درجے میں ملکیت بھی تسلیم کرر ہا ہے ۔خیال رہے کہ 1949 میںجس وقت جبرا مورتی رکھی گئی تھی اس وقت دفعہ 145کے تحت کورٹ نے اس پراپرٹی کو اٹیچ کرکے ریسیور کے ماتحت کردیاتھا۔مولانا مدنی نے سوال اٹھا تے ہوا کہا کہ اگر 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید نہیں کی گئی ہوتی تو آج کیا سپریم کورٹ یہ ہدایت دیتا کہ مسجد کو شہید کردیا جائے اور زمین رام للا کودے دی جائے۔جہاں تک 5 / ایکڑ زمین کی بات ہے جمعیة علما ءہند کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے اور وہ وقف علی اللہ ہوتی ہے اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے ۔اس لئے کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی متباد ل پر مسجد سے دستبردار ہوجائے۔لہذا زمین لینے کا مطلب ہے کہ ہم مسجد سے دستبردار ہورہے ہیں جس کا ہمیں اختیار ہی نہیں ہے۔اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا تو جب بابری مسجد کی شہادت قانون کی خلاف ورزی تھی تو اس جرم میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی روزانہ کی سماعت کی بنیاد پرجلد ازجلد فیصلہ ہونا چاہیے۔اجلاس مجلس عاملہ میں مرحومین خاص کرمفتی منظور احمد مظاہری قاضیٰ شہر کانپور کے انتقال پرملال پر رنج وغم کااظہاراور ان کے لئے دعاءمغفرت کی گئی ، اس میں ایک تجویز منظورکی گئی اجلاس کی کارروائی صدرمحترم مدظلہ کی دعاءپر اختتام پزیرہوئی ۔اجلاس میں صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی ، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی ،مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی، مولانا فضل الرحمن قاسمی ،جناب گلزار احمد اعظمی ، مولاناحلیم اللہ قاسمی علاوہ ہندوستان کے بڑے وکلاءاور دانشور ان بھی شریک ہوئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی