عالم اسلام کا گوہرِ نایاب مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب

عالم اسلام کا گوہرِ نایاب 
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی

*تحریر : حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی صاحب ، استاذِ حدیث جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد*

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ ایک عالم ہی نہیں بلکہ سارے عالَم کا قلب ہیں ، وہ عرب و عجم کے شیخ ہیں ، وہ جتنے اہلِ عجم میں مقبول ہیں اس سے کہیں زیادہ اہلِ عرب ان کے مداح ہیں ، وہ موجودہ دور میں علومِ اسلامیہ کے امام اور دورِ حاضر کے سب سے بڑے فقیہ ہیں ، وہ جہاں ایک عظیم مُحدث ہیں ، جنھوں نے فن حدیث میں تکملۂ فتح الملہم جیسی شہرۂ آفاق شرح لکھی وہیں وہ ایک باکمال مُفسر ہیں ، جنھوں نے آسان ترجمۂ قرآن جیسی مقبول عام تفسیر لکھی ، فقہ اسلامی میں پورے عالم میں ان کا کوئی ثانی نہیں ، دنیا کے ساتوں بر اعظموں میں پھیلی اُمتِ مسلمہ کی یہ واحد شخصیت ہیں جن کی بات ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے ، باکمال شخصیات اور قابل علماء کی دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے ؛ لیکن ربّ ذو الجلال نے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کو جو جامعیت عطا فرمائی ہے اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ، فقہ و تحقیق کے شہسہوار بالعموم ادبی چاشنی سے محروم ہوتے ہیں ؛ لیکن حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب خالص علمی و تحقیقی شخصیت ہونے کے باجود شعر و ادب کا نہایت ستھرا ذوق رکھتے ہیں ، ان کی خالص علمی کتابوں میں بھی بے پناہ ادبی چاشنی ملتی ہے ، وہ ایک محقق اور فقیہ ہونے کے ساتھ صاحبِ طرز ادیب بھی ہیں ، کسی نے ان کے متعلق سچ کہا کہ وہ فقیہ الادباء اور ادیب الفقہاء ہیں ، ان کی تحریریں کوثر و تسنیم سے دھلی ہوتی ہیں ، اسی طرح میدانِ قلم کے شہسہوار عام طور پر خطابت کے جوہر دکھانے سے قاصر رہتے ہیں ؛ لیکن حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب تحریری متانت کے ساتھ جوش بیاں سے بہرہ ور ہیں ۔
جہاں تک اخلاق و کمالات کا تعلق ہے تو ان جیسی جامعیت بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہے ، جو علم و فن میں باکمال ہوتا ہے وہ اکثر تواضع و انکسار سے تہی دامن ہوتا ہے ، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب علم کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود نہایت منکسر المزاج ہیں ، بعض علماء باکمال اور متواضع ہوتے ہیں لیکن ان میں بصیرت اور دور اندیشی کی کمی ہوتی ہے ، حضرت مفتی صاحب میں یہ تینوں صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔
عالم اسلام میں اُمتِ مُسلمہ کو جب کبھی مشکل گھڑی کا سامنا ہوتا ہے تو اس کی نگاہیں حضرت مفتی تقی عثمانی پر جاکر ٹک جاتی ہیں ، افریقہ کی بات ہے کہ وہاں قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے تعلق سے عدالت میں مقدمہ زیر دوراں تھا ، دلائل کے ذریعہ عدالت میں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی ضرورت تھی ، ایسے نازک موقع پر افریقی مسلمانوں کی نظر کسی اور کی طرف نہیں گئی بلکہ اس اہم کام کے لیے انہوں نے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا انتخاب کیا ، حضرت مفتی صاحب افریقہ تشریف لے گئے اور دلائل سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں کامیاب ہوئے ، بِلاشبہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب عالمی علمی شخصیات میں سر فہرست ہیں ، ان کی شہرتوں کا سفر بلا توقف جاری ہے ، ان کی زندگی کا ایک تابناک پہلو یہ ہے کہ کثرتِ اسفار اور تدریسی مشاغل کے باوجود وہ عظیم علمی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں ، حضرت مولانا کی علمی صلاحیتوں کا تازہ شاہکار ’’المدونۃ الجامعۃ للأحادیث المرویۃ عن النبی الکریم‘‘ ہے ، یہ شاہکار مجموعۂ احادیث ۴۰ جلدوں پر مشتمل ہوگا ، اس کی ابتدائی جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جو کام حکومتوں کی سرپرستی میں بڑی اکیڈمیوں کے ذریعہ انجام پانا چاہیے وہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی زیر سرپرستی چند نوجوان فضلاء کے ذریعہ انجام پارہا ہے ۔
 حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی مقبولیت اور عالمِ اسلام میں ان کے اعترافِ کمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عرصۂ دراز سے سعودی حکومت انہیں نیشنلٹی دے کر مملکت میں مستقل رہائش کے لیے اصرار کررہی ہے ؛ لیکن حضرت مفتی صاحب نے اپنے ملک میں رہ کر علمی خدمات جاری رکھنے کو ترجیح دی اور سعودی حکومت سے معذرت کرلی ، حضرت مفتی صاحب فی الواقع عالمِ اسلام کے گوہرِ نایاب ہیں ، انہیں مختلف مسلم و غیر مسلم ملکوں کی جانب سے بڑے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ، ابھی گذشتہ ۱۴؍ اپریل کی بات ہے کہ روس میں وہاں کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا ، اُردن کے بادشاہ نے ان کی علمی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا ، یہ وہ عظیم ہستی ہے جنہیں خطابات اور لیکچر دینے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک اور مشہور زمانہ یونیورسٹیوں سے دعوت دی جاتی ہے ، حضرت مفتی صاحب کے علمی و دعوتی اسفار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن پر پوری دنیا میں سب سے زیادہ ٹراویلنگ کرنے والی اگر کوئی شخصیت ہے وہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ہیں ، جس پر پی آئی اے نے انہیں بطورِ اعزاز عمر بھر کے لیے ایک تہائی یا آدھے کرایہ پر سفر کرنے کی سہولت دے رکھی ہے ۔
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب طبقۂ علماء میں وہ واحد شخصیت ہیں جو اردو کے علاوہ دنیا کی دیگر بین الاقوامی زبانوں یعنی عربی ، انگریزی ، فارسی اور ہسپانوی میں عبور رکھتے ہیں ، بالخصوص عربی و انگریزی زبانوں میں انہیں مادری زبان کی طرح مہارت حاصل ہے ، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا انگریزی ترجمۂ قرآن اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایسی شخصیت کا ترجمہ ہے جو عربی اور انگریزی میں یکساں مہارت رکھتی ہے ؛ چنانچہ حضرت کے انگریزی ترجمۂ قرآن کو یورپ میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے والد گرامی کی شہرۂ آفاق تفسیر معارف القرآن کو انگریزی میں منتقل کیا ، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی اردو تفسیر بنام آسان ترجمۂ قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اس تفسیر کا سارا کام اپنے عالمی اسفار کے دوران جہاز کی پرواز میں مکمل کیا ، اس طرح یہ واحد اسلامی اسکالر ہیں جنہوں نے ترجمۂ قرآن کو زمین کے بجائے فضا میں لکھ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ۔
 تصنیف و تالیف تو حضرت مفتی صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان کے اوقات میں بے پناہ برکت رکھی ہے ، حضرت مفتی صاحب کی مختلف کتابوں اور تراجم کی تعداد دیڑھ سو سے متجاوز ہے ، حضرت مفتی صاحب کی تصانیف کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا ، ویسے تصنیف و تالیف کے میدان کے شہسہواروں کی کمی نہیں ہے ؛ لیکن حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے علمی و تحقیقی موضوعات سے لے کر خالص اصلاحی و ادبی موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے ، ان کی تحریروں میں علمی و تحقیقی شان کے ساتھ ادبی چاشنی بھی پائی جاتی ہے ، ویسے حضرت مفتی صاحب کی تمام تصنیفات علم و تحقیق کا حسین مرقع ہیں ؛ لیکن ان میں مسلم شریف کی عربی شرح تکملۃ فتح الملہم کو امتیازی مقام حاصل ہے ، یہ آپ کا ایک قابل فخر علمی کارنامہ ہے ، اس عظیم شرح کا آغاز در اصل شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ نے فرمایا تھا ، کتاب النکاح تک پہونچے تھے کہ تحریک پاکستان کی مشغولیت کی وجہ سے سلسلہ موقوف ہوگیا ، ۱۹۴۹ء میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی وفات کی وجہ سے یہ عظیم شرح ادھوری رہ گئی تھی ، شاید منجانب اللہ اس کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے لیے مقدر کر رکھی تھی ؛ چنانچہ حضرت مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد کے حکم کے مطابق ۱۳۹۴ھ میں کام کا آغاز کیا ، تقریباً ۱۹ سال کے عرصہ میں اس سے فارغ ہوئے ، تکملۂ فتح الملہم اہلِ علم کے لیے ایک گراں قدر علمی تحفہ ہے ، مسلم شریف کی یہ عظیم شرح ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ، ہندوستان کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی نے اس قیمتی شرح کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ نے اپنے پیش رو اور فتح الملہم کے مصنف حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی راہ پر چلنے اور حرف بہ حرف ان کی پیروی کرنے کے بجائے وقت کے تقاضوں کی بھر پور رعایت رکھی ہے ؛ چنانچہ اس تکملہ میں عام شروح احادیث کی خصوصیات کے ساتھ ان پہلوؤں کی بھی رعایت رکھی ہے :
احادیث کی تخریج کا اہتمام اور صحاح اور بعض دوسری کتابوں میں ان کے محل ورود کی نشاندہی علل حدیث پر ضروری گفتگو اور ناقدین و رجال کے کلام سے استفادہ دیگر شراح حدیث کے کلام پر محققانہ تبصرہ اور اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان تطبیق کی کوشش یا ترجیح کے اسباب کا ذکر فقہاء کرام کے درمیان اختلاف اور ان کی آراء و دلائل کا مستند طریقہ پر بیان اختلافی مسائل میں دلائل کی بنیاد پر ترجیح اور بعض جزوئی مسائل میں دوسرے مذاہب کے فقہاء کی رائے کو قبول کرنے یا ترجیح دینے میں منصفانہ رویہ ہر کتاب یعنی مرکزی عنوان کے شروع میں نہایت عالمانہ و محققانہ تمہید عصر حاضر کے شبہات کا ازالہ اور طلاق کی مشروعیت ، غلامی کی حقیقت اور اس سے انسانیت کو نجات دلانے میں اسلام کا رول ، تعدد ازدواج کے اسباب اور حضور اکرم ﷺ کی شادیوں کی حکمت اور اس کے اسباب ، خلافت و امارت کی حقیقت اور سیاسی امور کا بیان ، ثروت اور ملکیت کی حقیقت ، کرنسی اور بینک نوٹ ، سود اور جدید مالی معاملات سے متعلقہ مسائل ، علاج و معالجہ اور تعویذ گنڈوں کے استعمال کی شرعی حیثیت ، طب نبوی ﷺ کی حقیقت اور آپ ﷺ کے تجویز کردہ نسخوں اور بیان کردہ علاج و دوا کی شرعی حیثیت اور اس طرح کے سیکڑوں مسائل ہیں جن کی احادیث کی تشریح یا تمہیدی مقدمات کے دوران آپ نے وضاحت کی ہے ، اور ان کا صحیح شرعی حکم بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے ، جو بِلاشبہ ایک عظیم ، علمی و فقہی ذخیرہ ہے ۔ (مضمون مولانا بدرالحسن القاسمی )
اس کے علاوہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی چند مقبول و معروف کتابیں یہ ہیں :  ( ۱ ) فقہ البیوع  ( ۲ ) قضایا فقہیہ معاصرہ ( ۳ ) آداب الافتاء  ( ۴ ) انعام الباری شرح بخاری ( ۵ ) فتاویٰ عثمانی  ( ۶ ) اصلاحی خطبات ( ۷ ) فقہی مقالات ( ۸ ) اصلاحی مجالس ( ۹ )  فقہی مقالات ( ۱۰ ) اسلام اور سیاست حاضرہ ( ۱۱ ) اسلام اور جدت پسندی ( ۱۲ ) بائبل کیا ہے ؟  ( ۱۳ ) علوم القرآن ( ۱۴ ) ہمارا معاشی نظام ( ۱۵ ) اسلام اور جدید معیشت و تجارت ( ۱۶ ) حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق ( ۱۷ ) درس ترمذی ( ۱۸ ) حجیت حدیث  ( ۱۹ ) تقلید کی شرعی حیثیت ( ۲۰ ) اندلس میں چند روز ( ۲۱ ) دنیا میرے آگے ( ۲۲ ) سفر در سفر ( ۲۳ ) عدالتی فیصلے ( ۲۴ ) اکابر دیوبند کیا تھے ؟ ( ۲۵ ) فرد کی اصلاح  ( ۲۶ ) تراشے ۔
 شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ایک عظیم علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں ، آپ کے والد بزرگوار مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، آپ کے برادر کبیر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب موجودہ مفتی اعظم پاکستان ہیں ، آپ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۳ء میں دیوبند کی مردم خیز سرزمین میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے مدرسہ اشرفیہ میں حاصل کی ، اور اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی ۔ ۱۹۶۷ء میں اسی ادارہ سے تخصص فی الفقہ کیا ، پنجاب یونیورسٹی سے آپ نے عربی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ، نیز کراچی یونیورسٹی سے وکالت کا امتحان پاس کیا ، آپ نے اپنے دور کے تقریباً اہم محدثین سے علم حدیث میں اجازت حاصل کی ہے ، جن میں نمایاں آپ کے والد محترم اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا صاحب کاندھلویؒ ہیں ، چوںکہ آپ کے والد محترم ایک صاحبِ نسبت بزرگ اور روحانی شخصیت تھے ، اس لیے انہوں نے اپنی اولاد کو علومِ ظاہرہ کے ساتھ علومِ باطنہ سے بھی آراستہ کیا ؛ چنانچہ والد محترم کے مشورہ سے آپ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحبؒ خلیفہ حضرت تھانویؒ سے وابستہ ہوگئے اور حضرت کی صحبت بافیض میں رہ کر سلوک کی منزلیں طے کیں ، حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری اور حدیث کی دیگر کتابیں پڑھاتے ہیں ، فقہ اور اصول معیشت بھی آپ ہی سے متعلق ہیں ۔
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی خدمات کا ایک زرین پہلو یہ ہے کہ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ، ۱۹۷۷ء میں ۱۹۷۳ء کے دستور کو سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک مشاورتی باڈی تشکیل دی تھی ، حضرت مفتی صاحب اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے ، آپ نے قرآن میں بیان کردہ سزاؤں پر عمل درآمد کے لیے حدود آرڈیننس کی تیاری میں بھی کلیدی رول ادا کیا ، آپ پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے تقریبا ۲۰ سال تک چیف جسٹس رہ چکے ہیں ، اس دوران حضرت مفتی صاحب نے کئی تاریخی فیصلے صادر کئے ، جن میں سود سے متعلق آپ کا تاریخی فیصلہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے ، آپ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۲ء تک رفاقی شرعی عدالت اور ۱۹۸۲ء سے ۲۰۰۲ء تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلٹ بنچ جج رہے ، آپ نے جج کی حیثیت سے جب سود کو غیراسلامی قرار دیا تو اس کی پاداش میں جنرل پرویز مشرف نے آپ کو برطرف کردیا ، تا حال آپ جن عہدوں پر فائز ہیں وہ درجہ ذیل ہیں :
 ( ۱ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ آف اسٹیٹ بینک پاکستان
( ۲ ) - نائب مہتمم اور شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی
( ۳ ) - چیئرمین انٹرنیشنل شریعہ اسٹینڈرڈ کونسل اکاؤنٹنگ اینڈ ایڈیٹنگ آرگنائزیشن آف اسلامک فائنانشل انسٹیوشن بحرین
( ۴ ) - مستقل ممبر اور نائب صدر انٹرنیشنل فقہ اسلامی اکیڈمی جدہ ، سعودی عرب
( ۵ ) - آرگن آف آگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس
( ۶ ) - ممبر رابطہ عالم اسلامی 
( ۷ ) - چیئرمین سنٹر آف اسلامک اکنامکس ، پاکستان (۱۹۹۱)
( ۸ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ سنٹرل بینک بحرین
( ۹ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ ابوظہبی اسلامی بینک  (U.A.E) 
( ۱۰ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ میزان بینک لمٹیڈ کراچی پاکستان
( ۱۱ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ انٹرنیشنل اسلامک ریٹنگ ایجنسی ، بحرین
( ۱۲ ) - چیئر مین شریعہ بورڈ پاک کویت تکافل کراچی
( ۱۳ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ پاک قطر تکافل کراچی
( ۱۴ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ  "JS"  انویسٹمنٹ اسلامک فنڈز ، کراچی
( ۱۵ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ  "JS" اسلامک پنشن سیونگ فنڈز
( ۱۶ ) - چیئرمین شریعہ بورڈ عارف انویسٹمنٹ پاکستان انٹرنیشل اسلامک فنڈز کراچی
( ۱۷ ) - چیئرمین  "Arcapita" انویسٹمنٹ فنڈز، بحرین
( ۱۸ ) - ممبر متحدہ شریعہ بورڈ اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک جدہ ، سعودی عرب
( ۱۹ ) - ممبر شریعہ بورڈ ، گائیڈنس فائنانشل گروپ ، (U.A.E)  
ماضی میں درج ذیل عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں :
( ۱ ) - جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان  (۱۹۸۰ تا مئی ۹۱۸۲ء
( ۲ ) - چیف جسٹس شریعت ایپلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان (۱۹۸۲ء تا مئی ۲۰۰۲ء)
( ۳ ) - چیئرمین سنٹر آف اسلامک اکنامکس ، پاکستان (۱۹۹۱ء) 
( ۴ ) - ممبر سنڈیکیٹ یونیورسٹی آف کراچی (۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۸ء) 
( ۵ ) - ممبر بورڈ آف گورنمنٹ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد  (۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۹ء) 
( ۶ ) - ممبر انٹرنیشل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس   (۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۸ء) 
( ۷ ) - ممبر کونسل آف اسلامک آئیڈیا لوجی   (۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۱ء) 
( ۸ ) - ممبر بورڈ آف ٹرسٹیز انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد   (۲۰۰۴ء تا ۲۰۰۷ء)
( ۹ ) - ممبر کمیشن آف اسلامائزیشن آف اکانومی ، پاکستان آف پاکستان
 حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ غیر سودی اسلامی بینککاری کا قیام ہے ، موجودہ بینکاری نظام سود پر مبنی ہے ، جو مسلم ممالک کے لیے خدا و رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے ، بلا سودی معاشی نظام ایک خواب تھا ، جس کی بظاہر کوئی صورت ممکن نظر نہیں آرہی تھی ، حضرت مفتی صاحب نے اپنی مجددانہ کاوشوں کے ذریعہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا اور شریعت کے حدود میں رہ کر ایسا بینک کاری نظام وضع کیا جو عصری معاشی تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے اور سود سے پاک بھی ہے ، حضرت مفتی صاحب کا پیش کردہ غیرسودی بینکی نظام اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کی منظوری کے بعد تیزی کے ساتھ عالم اسلام میں مقبول ہونے لگا ، اس وقت عالم اسلام میں درجنوں غیر سودی بینک کام کرر ہے ہیں ، خود حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر ہیں ، نیز مختلف اسلامی مالیاتی اداروں کے چیئرمین بھی ہیں ۔
 آپ کی ملی و سیاسی خدمات کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی ہدایت پر ۱۹۷۴ء میں قادیانی مخالف تحریک میں کلیدی رول ادا کیا ، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی مہم میں آپ نے حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ کے اشتراک سے ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ، اسی طرح نائن الیون کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان کو سامراجی مقاصد کے لیے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا تو حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے بیانات اور کالموں میں کھل کر اس کی مخالفت کی ، اسی طرح حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد قضیہ پر بھی آپ نے کتاب و سنت کی روشنی میں کھل کر اظہار خیال کیا ۔
 آپ عصر حاضر کے تمام اکابر علماء کے نور نظر رہے ، ماضی قریب کے اکابر علماء اور مشائخ نے آپ کے حق میں انتہائی بلند کلمات ارشاد فرمائے :
 حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوریؒ آپ کے تواضع کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ یہ مسکین ابن مسکین ہے ، کبھی آپ کو الشیخ الشاب کہہ کر پکارا کرتے ، جب حضرت بنوریؒ کی عربی شرح ترمذی معارف السنن زیور طباعت سے آراستہ ہوکر آئی تو حضرت علامہ بنوریؒ نے اس کا ایک سیٹ حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کیا ، اس کی پہلی جلد پر جلی حروف میں یہ تحریر لکھی :  ’’اقدم ھذا الکتاب بأجزائہ الستۃ إلی أخی فی اللہ الأستاذ الذکی العالم الذکی الشاب التقی محمد تقی إعجابا بنبوغہ فی کتاباتہ فی المجلۃ الشہریۃ البلاغ‘‘ شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ جو عالم عرب کے مشہور محدث ہیں ، آپ کو تفاحۃ الہند والباکستان کہا کرتے تھے ، علامہ یوسف القرضاوی نے آپ کو الشیخ القاضی الفقیہ الاریب الادیب الکامل جیسے اونچے القاب سے سرفراز فرمایا ، حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے کاروان زندگی میں یوں لکھا : ’’مولانا تقی عثمانی صاحب کی راقم کے دل میں جو قدر و منزلت ہے اس سے اس کے احباب بخوبی واقف ہیں ، اور ان کو بھی غالباً اس کا احساس ہے ، پیر طریقت عارف باللہ حضرت شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ آپ ہمارے پاکستان کے علی میاں ہیں ، مولانا تقی عثمانی جب دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے تو منتظم جلسہ نے آپ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ مولانا تقی عثمانی دنیا بھر میں دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ہیں ۔

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام02 فروری

    اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے ان اکابرین کا سایہ تا قیامت ھم پر قائم رہیں

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی