ایک کار ڈرائیور اور میری حالت

ابھی کل کی بات ہے الله نہ کرے کسی کے ساتھ ایسا حادثہ ہو جائے اور وہ بندہ موت کے منہ میں چلا جائے میرے ساتھ خود ایسا ہوا کے جان جاتے جاتے بچی میری میرے رب نے مجھے دوبارہ نئی زندگانی عطا فرمائی میں جتنا بھی اس پاک پروردگار عالم کا شکر ادا کروں کم ہے ،

ہوا کچھ اس طرح کے میں کل فجر کی نماز پڑھا کے باہر نکلا اور اپنے مسند پر براجمان ہو گیا روز مرہ کے تسبیحات میں مصروف تھا کے اچانک ایک بندہ پانی پر دم کرانے آیا میں نے اس کے پانی میں زبردست طریقے سے دم کر دیا پھر تسبیح میں مصروف ہو گیا جب میں میری تسبیح سے فارغ ہوا تو دل میں خیال آیا ،

کہ چلوں چل کر ایک چائے نوش جاں کر لوں اس ارادے سے باہر نکلا ایک صاحب خیر شاید میرا منتظر تھا یا چائے پیتے ہوے پکڑا گیا اب آپ کو تو معلوم ہے کے کوئی آدمی اگر چائے پی رہا ہو اور just اسی وقت اسی جگہ پر اگر کوئی مولوی پہونچ جاتا ہے تو اسے چائے پلانا پڑ جاتا ہے ،

وہی نا ہنجار بندہ ہو گا جو مولوی کو دیکھر چائے کونہ  پوچھے بہر حال میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا اس بندے نے مجھے پوچھ لیا کے مولوی صاحب چائے لیں گے میں نے کہا ضرور پئیں گے میں پینے ہی کے ارادے سے آیا ہوں ،

اس بندے نے میرے لئے بھی چائے کا آرڈر کر دیا چائے میرے سامنے آئ مجھے دیکھ کر مسکرائی شاید چائے مولوی کے سامنے رکھے جانے کو غنیمت سمجھ رہی تھی اور مولوی چائے کو غنیمت سمجھ رہا تھا میں نے چائے اٹھائی اور ڈکا ڈک حلق کے اندر ،،،،

میں باہر نکلا چائے پی کر ایک صاحب کے ساتھ عصر حاضر پر محو گفتگو تھا بات چل رہی تھی شاہین باغ کے بارے میں اسی درمیان میں کیا دیکھتا ہوں کے ایک کار ڈرائیور فل سپیڈ کے ساتھ کار چلاتے ہوے گزر گیا پھر تھوڑی دیر کے بعد واپس سینٹر میں اسی تیز رفتاری کے ساتھ داخل ہوا ،

ہم سب وہاں موجود تھے اور ہم سب دیکھ رہے تھے لوگ انہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے لیکن پتہ نہیں وہ کسی کو مارنے ہی آیا تھا یا اسکا ارادہ کیا تھا الله جانے ہم سب اپنا مضمون چھوڑ کر اسکے بارے میں چرچہ کرنے لگے کہ کیسا ڈرائیور ہے کسی کا ایکسیڈنٹ کر دیگا کس نے اسکو لائسنس دے دیا اس طریقے کی باتیں کرنے لگے وہ بھی اپنی کار سے اتر کر چائے کی دکان میں داخل ہو کر اس نے بھی اپنے لئے ایک چائے کا آڈر دیا ہم انہیں سمجھانے لگے ،

پھر کیا ہوا معلوم نہیں کہ اچانک میری شکل بگڑنے لگی سب لوگ میری طرف متوجہ ھوۓ پھر اچانک میری شکل درست ہو گئی لوگ پوچھتے کیا ہوا آپ کو میں نے انہیں جواب دینے کی کوشش جیسے ہی کی پھر میری شکل بگڑ گئی لوگوں نے سمجھا کے شاید دورہ پڑا ہے لوگوں نے میرے منہ پر پانی کی چھینٹیں ڈالی پھر میری شکل درست ہو گئی لوگ پوچھنے لگے مولوی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے ،،

میں نے جیسے ہی انہیں بتانے کی کوشش کی پھر میرا چہرہ بگڑا اس مرتبہ ایسا بگڑا کہ بگڑتا ہی چلا گیا میں نے لوگوں سے اپنے چہروں کو چھپانے کے لئے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا اور ایک زوردار چھینک ماری جسم کا سارا حصہ باہر آگیا پھر بھی میں زندہ تھا اور میں نے سکھ کی سانس لی اور اس پر الحمدللہ کہا ،

اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوے اپنے گھر کو روانہ ہو گیا اور لوگ تعجب بھرے انداز میں مجھے دیکھتے ہی رہ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے میں اپنے کمرے میں روپوش ہو گیا.  

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی