اپنا دفاعی نظام مستحکم نہیں کر لیتے ہماری شرافت ہماری انسانیت دھرے کے دھرے رہ جائے گی



 Dehli news latest

ہم انسانیت شرافت پیش کرنے کے چکّر میں پڑے رہے اور دشمن ہمیں پیٹتے رہے آپ کے سامنے ایک فہرست پیش کر رہا ہوں آپ دیکھتے جائیں دشمن ہمیں کہاں پہونچاۓ گا ؟
1964 Kolkata
1970 bhwandi
1980 muradabad
1983 nellie
1987 hashim pura
1989 bhagalpur
1992 babri masjid
2002 gujarat
2007 malegaon


2008 azamgadh
2013 muzaffar nagar
2020 dehli
یہ فسادات کی list ہے جو بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اسکے ذمہ دار ہم ہی ہیں ،،آپ کو یقینا تعجب ہوگا ،،کیوں ؟ اس لئے کے ہم خواب خرگوش میں مبتلا رہے ہمیں صرف اپنی تعلیم کی تجارت کی اپنے بچوں کی اپنے پیٹ کی ہی فکر سوار رہی سیاسی حکمرانوں کی طرف ہم نے کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اسکے بارے میں نہیں سوچا ،

نتیجہ یہ ہوا کے ہمارے عظیم بھارت کے اقتدار پر ایسے حکمرانوں کی ٹولی کا قبضہ ہو گیا جو صرف اپنے دل کی سنتا ہے اپنے من کی سنتا ہے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے اصول پر گامزن ہے آپ اس فہرست پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کے یہ ایک منظم سازش ہے ،


ہمارے پاس کیا ہے وہی مرثیہ خوانی ،وہی غریبوں بے سہاروں میں کمبل اور رضائی کی تقسیم ،سیلاب زدہ لوگوں میں ضروریات زندگی کی تقسیم یہ سب ٹھیک ہے کے انسانی اخلاق اور اقدار انسانیت شرافت ہم میں ابھی زندہ ہے لیکن انسانیت اور شرافت سے معمور ایسے غیر مسلم بھی گزرے ہیں جنکی کوئی مثال نہیں ہے ،

خود ہمارے ملک میں ایسے ہندو راجہ مہاراجہ گزرے ہیں جنکی شرافت رحم دلی زبان زد عام تھی لیکن وہ مسلمان نہیں تھے ہم بھی شرافت انسانیت کی مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن کردار نبوی سے عاری ہیں یاد رکھیں جب تک ہم اپنے کردار کو بلند کر کے اپنا دفاعی نظام مستحکم نہیں کر لیتے ہماری شرافت ہماری انسانیت دھرے کے دھرے رہ جائے گی اور دشمن اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیگا ،



مجرم کو معاف کرنا صحیح ہے لیکن آپ کے ہاتھ میں اگر کوئی مجرم پکڑا جاتا ہے تو اسوقت رحم دلی کے ساتھ آپ کی ایک آنکھ ما کان لنبی ان یکون له اسری حتی یثخن فی الارض ، اور الفتنہ اشد من القتل پر بھی ہونا چاہئے ہر بار مجرم کے ساتھ رحم دلی اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا ہے اسلئے شرافت انسانیت کے ساتھ کردار اور فکر کا زاویہ بھی تبدیل کرنا ہوگا ،


ورنہ ہمارا ملک ہندو راشٹر بنانے کی تمام تیاریاں مکمل کرنے کے کگار پر ہے الله کے واسطے ابھی جاگو ،،
=========================


 آپ آپس میں لڑنے کے بعد اس مضمون کو فرصت سے پڑھیں
----------------------------------------
مولانا سجاد نعمانی ندوی صاحب کی بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے
1_ آر ایس ایس کے کارکنان  کو سرحد سونپی جائے
2_ہند آرمی پر موہن بھاگوت کا تبصرہ 
 ہندوستانی فوجیوں کو نیچا دکھانے کی کوشش_
عدالت خاموش کیوں؟
موہن بھاگوت سے کون مانگے گا جواب؟
 کیا موہن بھاگوت کے خلاف کاروائی نہیں کی جائے
جی ہاں..! آپ نے سچ سنا، آر ایس ایس ہتھیار چلانا جانتی ہے، اور صرف کچھ ہی دنوں میں  بہت کچھ کرسکتے ہیں آر ایس ایس سے وابسطہ لوگ،..
قارئین حضرات !
سب سے پہلے ہم آپ کو بتانا چاہیں گے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے بارے میں، اگر آپ ابھی بھی آپس میں لڑ رہے ہوں تو جب تھک جائیں تب کچھ سوچیں کہ کیا اب بھی ہمیں بیٹھے رہنا چاہئے؟


قارئین حضرات!
۱۹۲۵ ضلع ناگپور سے سنگھ پریوار کی کہانی شروع ہوتی ہے، لیکن اس کہانی کے کردار ۱۹۱۶ ہی سے منظرِ عام پر آچکے تھے، اور تب اس کہانی کے ہیرو یا رول ماڈل پنڈت مدن موہن مالویہ تھے، لیکن ۱۹۲۵ میں ہندو مہا سبھا کے رکن لالہ لاجپت نے گاندھی جی
کی عدم تشدد پر مبنی تحریک کی مخالفت کی (چونکہ اس میں مسلمانوں کی علیحدہ نمائندگی برقرار رکھے جانے کی بات تھی) اور اسے ہندو اتحاد کے خلاف بتایا، چنانچہ ان حالات میں احساس دلایا گیا کہ اب ہندو دھرم خطرے میں ہے، اور اس خطرے  کو ٹھکانے لگانے کی غرض سے ۲۷ ستمبر ۱۹۲۵ وجے دشمی (دسہرہ) کے موقع پر آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک) نامی تحریک کی بنیاد ڈالی گئی، لیکن ۲۰۰۰ کی پہلی دہائی کے مکمل ہونے سے قبل ہی آر ایس ایس کی مضبوط ذیلی تنظیموں کی تعداد پچیس سے بھی تجاوز کرگئی، اور ہر تنظیم اپنے میدان میں زبردست محنت کررہی ہے تاکہ ہندوستان کو ہندو استھان بنایا جاسکے،.

ذیل میں آر ایس ایس کی تمام بڑی تنظیموں
کے نام ہیں، ان کے طریقہ کار سے قارئین انٹر نیٹ یا مختلف کتابوں کے ذریعہ معلومات حاصل کرسکتے ہیں:

1_راشٹر سیویکھا سمیتی 1932 (آزادی کے بعد انکی حرکتوں کی وجہ سے تین مرتبہ ان پر پابندی عائد کی گئی)
2_اکھل بھارتیہ شکسچھک مہاسنگھ (براے اساتذہ) 1987 (اساتذہ کی ذہن سازی، اور اُنہیں آر ایس ایس کے مقاصد کے لئے تیار کرنا)
3_اکھل بھارتیہ ودِّیارتھی پریشد 1949
4_بھارتیہ واواسی کلیان آشرم پریشد 1977
5_اکھل بھارتیہ ادھوکتا پریشد (براے وکلاء) 1992
6_دین دیال ریسرچ انسٹیٹوٹ 1973
7_سودیشی جاگرن منچ 1991
8_بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا (نئی تاریخ نگاری کا منصوبہ) 1973
9_بھارتیہ جنتا پارٹی 1980
10_بھارتیہ وکاس پریشد 1963
11_پور سینک سیوا پریشد (ریٹائیرڈ فوجیوں کی تنظیم) 1992
12_بھارتیہ گئو سیوک سماج (گٹو رکشکھ) 1966
13_دھرم سنسد 1984
14_وشو ہندو پریشد 1964 (لڑاکا جماعت کی تیاری)
15_بجرنگ دل (نوجوانوں پر مشتمل) 1984، 
16_درگا واہنی (۳۵ سال سے کم عمر خواتین کے لئے) اور مہیلا وبھاگ تینوں بجرنگ دل کے زیرِ اہتمام کام کرتے ہیں
17_ہندو جاگرن منچ (ہندوؤں کو مسلمانوں سے بدظن کرنا)
18_ودِّیا بھارتی 1977
19_بھارتیہ مزدور سنگھ 1955 (دنیا کی سب سے بڑی مزدوروں کی جماعت، جنہیں آر ایس ایس کے مقاصد کے لئے مناسب کام سونپے جاتے ہیں)
20_بھارتیہ کسان سنگھ 1979
21_سنسکرت بھارتی 1966
22_سنسکار بھارتی 1981 (ودیک کلرچ کا احیاء)
23_اکھل بھارتی ساہتیہ پریشد 1966
24_پرگیا پریشد (براے دانشوران) 1987
26_سیوا بھارتی (خدمتِ خلق) 
27_وگیان بھارتی (سائنس و ٹیکنالوجی) 1991
28_مسلم راشٹریہ منچ (زر خرید مسلم علماء و دانشوران کی جماعت جو مسلمانوں کو گمراہ کرسکیں) 2002
جی! قارئین کرام!!! آپ کا اور ہمارا دشمن ۱۰۰ سال سے محنت کر رہا ہے، اور اب اُسکے تمام بازو مضبوط ہوچکے ہیں، اُنہوں نے تعلیمی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور عسکری میدانوں میں مسلسل محنت کی ہے،  یہاں تک کہ موہن بھاگوت نے وضاحت کرتے ہوے کہا کہ صرف تین دنوں میں ہم مضبوط اور منظم فوج تشکیل دے سکتے ہیں، اگر ہمیں سرحد سونپی جائے تو ہم تیار ہیں.
مولانا سجاد ندوی نعمانی صاحب نے تو کھل کر کہا ہے کہ آر ایس ایس اپنے مقصد کے حصول کی تمام تر تیاریاں کرچکا ہے، یہ بات ہندوستان کا ہر باخبر شہر جانتا ہے، کیا مولانا سلمان ندوی صاحب کا یہ سوال غلط ہے کہ ہتھیار کہاں سے آئے اور کس نے بھیجے تمام چیزوں کی جانچ کی جانی چاہئے؟
آئے دن اخبارات خبریں شائع کرتے ہیں کہ آر ایس ایس کی فلاں شاخ کے ہتھیار ضبط، فلاں جگہ آر ایس ایس کا ٹرینئنگ کیمپ کا انعقاد؟ جب سے درست ہے تو کیوں نہیں مانگ کی جاتی کہ کاروائی کی جائے آر ایس ایس کے خلاف؟ افسوس ہم مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی داڑھیاں نوچنے میں لگے ہیں، جلسے جلوس نعروں اور احتجاجی مظاہروں سے ہم اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ طوفان ہندوستانی مسلمانوں اور دلتوں کے سر پر کھڑا ہے، معاف کرنا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم بہت جلد پٹنے والے ہیں،.. قارئین میں ہرگز آپ کے حوصلوں کو پست نہیں کر رہا لیکن کیا کروں کہ میرے پاس جھوٹے الفاظ نہیں ہیں جن سے میں آپ کے سیاسی رہنماؤں کی طرح آپ کے جذبات سے کھیلوں اور مقررین کی طرح اسٹیج سے ڈھینگیں ماروں.بس اتنا کہہ سکتا ہوں.

اب آپس میں لڑنے کا وقت نہیں..طوفان سامنے ہے.کچھ سوچا جانا چاہئے، امن و امان خطرے میں ہے.جمہوریت خطرے میں ہے..یعنی ہندوستان خطرے میں ہے

اگر آپ میری رائے سے متفق ہیں تو اسکو خصوصی طور پر ضرور شیر کریں یہ میری خاص آپ سے اپیل ہے ،،،،،  

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی