مذہب اسلام میں وبا کا کیا حکم ہے

مذہب اسلام میں جب وبا عام ہو
اسلام اپنے ماننے والے کو کبھی بھی مایوس نہیں کرتا بلکہ ہر حال میں مذہب اسلام اپنے ماننے والے کی رہنمائی کرتا ہے، وبا جب آتی ہے توذات پات مذہب نہیں دیکھتی بلکہ جو لپیٹ میں آتا ہے اسی کا جان لے لیتی ہے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں جب وبا پھیل جاتی ہے ہمارا دل کیا کہتا ہے۔
دل کے ارماں کورونا میں بہہ گیے
ہم رشتہ دارہو کے بھی تنہا رہ گیے
زندگی سب بندہو کر رہ گیی،
شادی کے قصے ادھورے رہ گیے۔
ہم رشتہ دارہو کے بھی تنہا رہ گیے
دل کے ارماں کورونا میں بہہ گیے،
شاید انکا آخری ہو یہ بند،
ہر بند یہ سوچ کر ہم رہ گیے۔
ہم رشتہ دارہو کے بھی تنہا رہ گیے
دل کے ارماں کورونا میں بہہ گیے
خود کو بھی ہم نے قیدکر ڈالا مگر،
فاصلے جو درمیاں سے رہ گیے۔
ہم رشتہ دار ہو کر بھی تنہا رہ گیے
دل کے ارماں کورونا میں بہہ گیے۔
واقعی کتنے ارماں ہوں گے جو دل ہی میں دب کر رہ گیے ہوں گے کتنے پلان ہوں گے جو ناکام یا مؤخر کرنے پڑے ہوں گے کتنے گھر ہوں گے جن میں فاقہ بھوک مری نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں گے۔
یہ تو خیال اچانک آگیا جو میں نے آپ کی دل چسپی کے لیے لکھ دیاآتے ہیں اپنے مقصد کی طرف کورونا کورونا بس کورونا ۔Coronavirus کی بارات ہمارے ملک میں اسی وقت داخل ہو گیی تھی جب ہماری سرکار Namaste Trump کی مہم میں مصروف تھی اس وقت تو کسی کو بھنک تک نہیں لگی البتہ tivi chanel پر اس Coronavirus کے تعلق سے بلکل ہلکے انداز میں News چلایا جارہا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے کسی کو کوی احساس ہی نہ ہوحالانکہ ہمارے ملک میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک بڑے بڑے Doctor موجود ہیں شاید انکو بھی پتہ ہوگاکہ اگر یہ ہمارے ملک میں پھیلا تو کس قدر تباہی آے گی۔
لیکن شاید وہ کسی شاہی فرمان کا انتظار کر رہے تھےکہ جب شاہی فرمان آجاے گاتب لوگوں کو اس تعلق سے با خبر کیا جاے گااور ہمارے بادشاہ Trump کی بارات کی سواگت کی تیاری میں مصروف تھے۔ بارات آیی اور انکا بھر پور استقبال ہوا ملک کے ہر عیب کو چھپانے کے لیے جھوپڑ پٹیوں کوخوبصورت بنانے کے بجاے ان پر پردے ڈال دیے گیے اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ہمارا ملک انتہای ترقی کی بلندی پرہے۔ بارات چلی بھی گیی لیکن اسکے بعد کیا ہوا آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ملک انتہای ابتر ی کی حالت میں جا چکا ہےCoronavirus نے اپنا پیر پورے طور پر پسار لیا ہے اسکے بعد بھاییو اور بہنو کو خبردار کیا گیا۔ پھر بڑی عیاری کے ساتھ Coronavirus کی سوئی تبلیغی جماعت کی طرف موڑ دیا گیااور پوری بے حیای کے ساتھ اعلان کر دیا گیا کہ تبلیغ میں چونکہ پوری دنیا کے لوگ آے ہوے تھے اس لیے تبلیغ جماعت سے ہی Virus پھیلا ہے ایک چینل نے تو دارا لعلوم دیوبند تک کو Coronavirus کا Hot Spot کہہ دیا۔ لیکن الحمدللہ ہمارے ملک میں انصاف پسند لوگوں کی کمی نہیں ہےجب بھی کوی ایسی انہونی ہوی انصاف پسندوں نے کھل کر اظہار خیال کیااور انصاف کی بات کی ان کے ذریعہ ہی بہت سی مرتبہ سربستہ رازوں سے پردے بھی اٹھے۔ بہت سے ایسے علاقوں کی انکے ذریعے نشاندہی ہوی جہاں اس وقت تبلیغی جماعت کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن Crona کے Patient کی تعداد وہیں سب سے زیادہ تھے ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ Coronavirus کو کسی خاص قوم کی طرف موڑ دیا جاے۔ نہیں یہ سراسر نا انصافی ہے اسلیے کہ بیماریاں بول کر نہیں آتی اور نہ ہی بیماریوں کے اوپر کسی مذہب کا نام لکھا ہوتا ہےبیماری تو مقدر کی بات ہے جس کو لگنا ہے لگے گی چاہے وہ کوی بھی بڑا سورما ہی کیوں نہ ہو۔ بہت سارے لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا یہ بیماری فاسق و بدکار ظالم کے لیے آیی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا جب پھیلی تو پھیلتی چلی گیی اور اسکی لپیٹ میں کیا مولوی کیا عالم کیا جماعتی کیا سادھو سنت کیا پیر و مرید ہر ایک آتے چلے گیےجن کے مقدر میں بھی بیماری لکھی تھی۔ لیکن افسوس ہے ہمارے رہنماؤں پر ،اس پر قابو پانے کے بجاے اسکا سد باب کرنے کے بجاے اس سے لوگوں کی حفاظت کرنے کے بجاے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے میں مصروف ہو گیے۔ Lock Down کا اعلان ہوا لوگوں کی روزی روٹی بند ہو گیی بھوک مری فقروفاقہ نے گھروں پر ڈیرے ڈال دیے اس وقت صاحب دل افراد نے اپنے خزانوں کے دہانے غریبوں کے لیے وقف کر دیے۔ راشن کٹس بننے لگے چندے جمع ہونے لگےہر ضرورت مند انسان کے گھروں میں راشن پہونچایا جانے لگاضرورت مندوں کی تلاش ہونے لگی لیکن افسوس ہے ایسے جان لیوا وقت میں بھی الزام تراشی سے باز نہیں آے۔
جس وقت Trump کی آمد ہوی تھی اسی وقت سے اگر اس Lock Down کا اعلان کیا جاتا اور سے بچنے کے اسباب پر فوری غور کیا جاتا تو شاید نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔
کچھ ہی دن پہلے ہم اپنے موبایل پر وڈیو دیکھا کرتھے کےفلاں جگہ فلاں صاحب Corona سے متاثر ہو گیے لیکن نوبت بایں جا رسید کہ اب ہمیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہماری گلی میں ہمارے محلے فلاں صاحب Crona سے متاثر ہو گیے اور انکو Quarantine کیا گیا۔ دل اندر سے دھک دھک کر تا ہے کہ پتہ نہیں ہمارا نام Corona List میں ہے یا نہیں ہماری باری نہ آجاے،اتنا قریب،اتنا قریب ہوگا Corona کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
اللہ سے ہماری یہ دعا ہے کہ ہمارے تمام شہریوں کی حفاظت فرماے کرونا جیسی مہلک مرض سے اپنی امان میں رکھے
اسلام میں وبا کے وقت کیا کرنا چاہیے، ایک خبر آئی کہ تامل ناڈو کے شہر رچی میں ایک ہندوحاملہ عورت سلوچنا کو ایک ہاسپٹل میں ایمرجنسی شریک کیا گیا ۔ ڈاکٹروں نے عورت کے خاوند سے خون کی کمی کا ذکر کیا اور فوری خون کا انتظام کرنے کو کہا۔اس لاک ڈاؤن میں کہیں بھی خون کا انتظام نہیں ہوا۔ رشتہ دار دوست احباب بھی بہانے بناکر کنارہ کشی اختیار کر لئے۔ تبھی گھبراہٹ اور بے چینی کے عالم وہ شخص گھر کی طرف نکلتا ہے اور بیچ راہ ایک پولیس افسر اسے روکتا ہے سارا معاملہ وہ پولیس افسر سن کر اس شخص سے اس کی بیوی کا Blood group پوچھتا ہے۔ وہ پولیس افسر کہتا میرا blood group آپ کی اہلیہ کے گروپ سے ملتا ہے چلو ہاسپٹل میں خون کا عطیہ دونگا۔ ساری تفصیلات کے بعد وہ پولیس آفیسر خون کا عطیہ دیتا ہے۔ الحمدللہ کچھ دیر بعد ماں نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا۔ ماں اور بچہ دونوں صحت مند ہے۔ یہ اطلاع محکمہ پولیس کو ملتی ہے جس پر محکمہ پولیس اہے ہونہار آفیسر کے اس کام کے لئے 11000 روپے نقد انعام دیتی ہے۔ یہ پولیس آفیسر وہ 11000 روپے کو اس خاتون دے دیتا ہے۔ کیا آپ جاننا چاہیں گے اس پولیس آفیسر کا نام کیا ہے۔ اس پولیس آفیسر کا نام *سید ابو طاہر* ہے۔ گودی میڈیا یہ خبر کہاں دکھائیگا۔ وہ ہندو مسلم میں مگن

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی