اہل اسلام کے امام کی غریبی

آہ ہمارے مالدار سڑکوں پر پڑے بے یارومددگار کو ٹھنڈی کا سامان بانٹتے رہے لیکن مسجد کا خیال کسی کو بھی نہیں آیا , کسی نے بھی یہ تک نہیں سوچا ہوگا کہ گاؤں دیہات کی مسجد میں موجود اماموں کے پاس لحاف اور گدے اوڑھنے بچھانے کے لیے بھی کچھ ہے یا نہیں , یہ ذمہ داری کس کی ہوتی ہے ؟

مالداروں کی سخاوت

 آہ ہمارے اہل  اسلام سڑکوں پر پڑے بے یارومددگار کو ٹھنڈی کا سامان بانٹتے رہے لیکن مسجد کا خیال کسی کو بھی نہیں آیا , کسی نے بھی یہ تک نہیں سوچا ہوگا کہ گاؤں دیہات کی مسجد میں موجود دین و ایمان اماموں کے پاس لحاف اور گدے اوڑھنے بچھانے کے لیے بھی کچھ ہے یا نہیں , یہ ذمہ داری کس کی ہوتی ہے ؟ 

اہل  اسلام کی بے توجہی اور حادثات کے شکار ائمہ کرام

آئے دن اہسے حادثات ہوتے رہتے ہیں پچھلے دنوں بوسیدہ مکان کے رہائشی ایک امام صاحب کی موت مکان گرنے سے ہوئی انکی ساری فیمیلی بوسیدہ مکان کے نیچے دب کر مر گئی , ایک امام کے بارے میں خبر ملی تھی کہ بھوک کی وجہ سے انکی موت ہو گئی تھی آج ایسی ہی ایک خبر راجولی گاؤں منن پور کی مسجد سے آرہی ہے جو قوم مسلم کےچہرے پر زوردار طمانچہ ہے,

اہل  اسلام کی توجہ صرف مساجد کی خوبصورت تعمیر پر نہ کہ اسکو آباد کرنے اور کروانے والے امام پر ہے

سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کہاں مر گئے جو بابری مسجد جیسی سو عالیشان مسجدیں تعمیر کرنے کی ہمت رکھتے تھے بابری مسجد پر کیس لڑنے کو , اس پر سیاسی روٹی سیکنے کو باعث ثواب سمجھتے تھے کیا ان لوگوں کو غریب علاقے کی مسجدیں اور انکے امام کی ضروریات کا خیال نہیں آتا ہے , عجیب ماجرا ہے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ جو قوم دنیا کی شاندار سے شاندار اور بے مثال مساجد اور عمارتیں تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے انکے امام آج اپنے روم میں سرد ترین راتوں میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر موت کی آغوش میں پہونچ جاتے ہیں, افسوس قوم کے امام کے پاس سردی سے بچنے کا سامان بھی مہیا نہیں, اور مقتدی شاندار مساجد کی تعمیر کاڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ڈھول ہیں جو بظاہر بڑا اور اندر سے کھوکھلا ہے وہ سوائے پٹنے کے اور کچھ کام نہیں آتا,

مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اب بابری مسجد کا پیچھا چھوڑ کر باقی ماندہ مساجد کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاہئے, وجہ صاف ظاہر ہے کہ مساجد کو آبادی کے لحاظ سے مصلیان نہیں ملتے ہیں اگر مصلیان مساجد کو باسانی دستیاب ہونے لگے تو کسی قدر توجہ امام پر بھی پڑتی ہے اور لوگ امام کی ضروریات کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں , لیکن اگر عوام مسجد کا رخ ہی نہ کرے تو انہیں امام کی ضروریات کا خاک پتہ چلے گا !

اگر ہماری قوم کا یہی حال رہا تو پھر انہیں عید کی نماز پڑھانے والا بھی میسر نہیں ہوگا میں نے بذات خود کتنے ہی مولویوں کو دیکھا ہے پکوڑا تلتے ہوئے, روٹی پکا کر بیچتے ہوے, گٹکھا پان مسالہ بیچ کر گذر بسر کرتے ہوئے,

قارئین یقین مانئے میں خود ان لوگوں سے مل چکا ہوں اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے لاک ڈاؤن کے بعد سے امامت کرانے سے توبہ کیا تھا اور اب وہ انتہائی خوشحال نظر آرہے تھے,فی الحال میں ابھی سیر میں ہی لگا ہوں راجستھان کے ایک دیہات میں میرا جانا ہوا تھا مسجد کا پتہ پوچھنے پر ایک ایسی عمارت کی ہمیں نشاندہی کی گئی جو کسی بھی طرح سے بظاہر اسلامی عبادت گاہ نظر نہیں آرہی تھی میں ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا تو میری نظر ایک کتبہ پر پڑی جس کو پڑھ کر دل میں خوشی کا احساس تو ہوالیکن بوقت ظہر یہ دیکھ کر مایوسی ہو گئی کہ اتنی بڑی مسلم آبادی کے با وجود دس سے زیادہ مصلی نہیں تھے جبکہ وہ سکھوں سے بازیاب کرائی ہوئی مسجد تھی لیکن اسکے با وجود یہ حال تھا اللہ حفاظت فرمائے,

ایک دوسرا پہلو عوام کا یہ بھی ہے اکثر مساجد پر ان پڑھ یا ادھ پڑھے مولوی مسند امامت پر قابض ہیں انکی قراءت سنیں وہ قران کو اتنا چبا کر پڑھتے ہیں کہ سن کر دل چاہتا ہے کہ نیت توڑ دی جائے وہ عوام کی خوشی کے لئے جائز کو نا جائز اور ناجائز کو جائز بتاتے رہتے ہیں اور ایسے ہی امام کو عوام پسند بھی کرتے ہیں ,

مطلب یہ کہ ایسے مولوی عوام کو اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ایسے عوام اپنے مولوی کو اپنی چاہت کی تنخواہ اور شرط پر رکھتے بھی ہیں اور وہ مولوی جانتا ہے کہ میری اتنی کپاسیٹی ہے نہیں لہذا اتنے پر ہی گذر بسر کرو,,

قارئین کرام : میرا کسی کو بھی زچ پہونچانا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصد ہے کہ جہاں جان کا خطرہ ہو وہ کام ہی ہم کیوں کریں ؟اور مسند امامت تو بہر حال اعلی ترین مقام ہے آپ اپنے علم کی قدردانی خود کیجئے ضروری نہیں ہے کہ عالم بن کر مدرسہ اور مسجد ہی کو پکڑا جائے, کچھ بھی کیجئے مگر حلال کیجئے شرم اور کمزوری, احساس کمتری , کو بالائے طاق رکھئے اترئیے میدان عمل میں آپ کے اند ہر جوہر موجود ہے ہر صلاحیت موجود ہے لیکن برائے مہربانی اپنے قیمتی علم کو نا اہلوں کے پاس لیکر مت جائیے-

3 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی