حضرت اویس قرنی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت




حضرت اویس قرنی اور ماں کی خدمت

حضرتِ اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی ﷺ کى زیارت نہیں کر سکے لیکن دل میں حسرت بہت تھى کے حضور کا دیدار کر لوں.بوڑھى ماں تھیں اور ان ھی کى خدمت آپ کو حضور کے دیدار سے روکے ہوئے تھى.ادھر حضورﷺ یمن کى طرف رُخ کر کے کہا کرتے تھے کے مجھے یمن سے اپنے یار کى خوشبو آ رہی ہےایک صحابی نے کہا حضورﷺ آپ اُس سے اتنا پیار کرتے ہیں اور وہ ہے کہ آپ سے ملنے بھى نہیں آئےتو آپﷺ نے فرمایا کہ اُسکى بوڑھى اور نابینا ماں ہے جس کی اویس بہت خدمت کرتا ہے اور اپنی بوڑھی ماں کو وہ تنہا چھوڑ کر نہیں آ سکتا۔آپﷺ نے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے دور میں ایک شخص آئے گا جسکا نام ہو گا اویس بن عامر، قد ہو گا درمیانہ، رنگ ہو گا کالا، اور جسم پر ایک سفید داغ ہو گا۔ جب وہ آئے تو تم دونوں اس سے دعا کرانا کیونکہ اویس نے ماں کی ایسی خدمت کی ہے جب بھی وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ اس کی دعا کبھی رد نہیں کرتا۔حضرت عمرؓ دس سال خلیفہ رہے اور ہر سال حج کرتے ہر حضرت اویس قرنی کو تلاش کرتے لیکن انہیں اویس نہ ملتے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے سارے حاجیوں کو میدان عرفات میں اکٹھا کر لیا اور کہا کہ تمام حاجی کھڑے ہو جائیں پھر کہا کہ سب بیٹھ جاو صرف یمن والے کھڑے رہو تو سب بیٹھ گئے اور صرف یمن والے کھڑے رہے۔ پھر کہا کہ یمن والے سارے بیٹھ جاو صرف قبیلہ مراد کھڑا رہے پھر کہا مراد والے سب بیٹھ جاو صرف قرن والے کھڑے رہو تو صرف ایک آدمی بچا اور حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم قرنی ہو تو اس شخص نے کہا ہاں میں قرنی ہوں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ اویس کو جانتے ہو؟ تو اس شخص نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں وہ تو میرے سگے بھائی کا بیٹا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اویس ہے کدھر؟ تو اس شخص نے کہا کہ وہ عرفات گیا ہے اونٹ چرانے، آپ نے حضرت علیؓ کو ساتھ لیا اور عرفات کی طرف دوڑ لگائی جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اویس قرنی درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے ہیں اور اونٹ چاروں طرف چررہے ہیں۔ آپ دونوں آکر بیٹھ گئے اور حضرت اویس قرنی کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب حضرت اویس نے سلام پھیرا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کون ہو بھائی؟ تو حضرت اویس قرنی نے کہا میں اللہ کا بندہ، تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ سارے ہی اللہ کے بندے ہیں لیکن تمھارا نام کیا ہے؟ تو حضرت اویس نے کہا کہ آپ کون ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ یہ امیرالمومنین عمر بن خطاب ہیں اور میں علی بن ابی طالب ہوں۔حضرت اویس کا یہ سننا تھا کہ وہ تھرتھر کانپنے لگے اور کہا کہ جی میں معافی چاہتا ہوں میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا میں تو پہلی دفعہ حج پر آیا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تم اویس ہو؟ تو انہوں نے کہا ہاں میں ہی اویس ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہمارے لیے دعا کرے وہ رونے لگے اور کہا کہ میں دعا کروں؟ آپ لوگ سردار اور میں نوکر آپ کا اور میں آپ لوگوں کے لیے دعا کروں؟ تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں اللہ کے نبیؐ کا حکم تھا کہ اویس جب بھی آئے تو اس سے دعا کروانا۔ پھر حضرت اویس قرنی نے دونوں کے لیے دعا کی۔⁦

6 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. .. انشاء اللہ بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام18 جنوری

    ماشاء اللہ بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام20 جنوری

    اللہ ہر مسلمان کو ماں باپ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. گمنام18 فروری

    بہت زبردست پوسٹ اللہ ہر ایمان والے کو اپنے والدین کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. گمنام28 اپریل

    ماشاء اللہ

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی