حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی حسرت
حضرت عبداللہ بن مبارک اپنی جوانی میں زن جمیل پر فریفتہ تھے ۔ ایک رات اس نے کہا کہ میرے گھر کے باہر انتظار کرنا میں ملاقات کیلئے آوں گی ۔ آپ سردی کی پوری رات جاگتے رہے ٹھٹرتے رہے اور انتظار کرتے رہے ۔ وہ عورت وعدہ کے مطابق آئی ۔ جب صبح کی اذان ہوئی تو آپ کے دل پر چوٹ پڑی ۔ آپ نے سوچا کہ میں ایک حسینہ کی خاطر ساری رات جاگتا رہا اور مجھے حسرت و افسوس کے سوا کچھ نہ ملا کاش کہ میں الله تعالی کی یاد میں ساری رات جاگتا مجھے رحمت میں سے ضرور حصہ نصیب ہوتا پس آپ نے سچی توبہ کی علم حاصل کر کے ذکر محبت کے ساتھ اور تصفيہ قلب کے مراحل سے گزرے اور بالآخر امیرالمومنین فی الحدیث ۔
-------------------------تاثیر ذکر پر بوعلی سینا کا اشکال
خواجہ ابوالحسن خرقانی ہمارے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگ تھے ۔ ایک مرتبہ وہ اسم اعظم کے فضائل سنارہے تھے اس وقت کامشہور فلسفی اور حکیم بوعلی سینا بھی وہاں گیا آپ فرمارہے تھے کہ اسم ذات سے انسان کی صحت میں برکت انسان کے عمل میں برکت انسان کے رزق میں برکت اور انسان کی عزت میں برکت ہوتی ہے عقلی بندے تو عقلی ہی ہوتے ہیں لہذا اس پارے کی عقل بھی پھنس رہی ۔ چنانچہ محفل کے اختتام پر اس نے حضرت سے پوچھا کہ حضرت اس ایک لفظ کا ذکر کرنے سے اتنی تبدیلیاں آجاتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے خرتو چہ دانی یعنی اے گدھے تجھے کیا پتہ اب جب مشہور آدمی کو بھرے مجمع کے سامنے گدھا کہا گیا تو اس کے پسینے چھوٹ گئے حضرت بھی نباض تھے لہذا انہوں نے اس کے چھرے پر پسینہ اترتے ہوئے دیکھا تو پوچھا حکیم صاحب ! پسینہ آرہا ہے وہ کہنے لگا حضرت ! کیا کروں آپ نے بھرے مجمع میں لفظ ہی ایسا کہ دیا ہے حضرت نے فرمایا حکیم صاحب ! میں نے بھرے مجمع میں ایک لفظ گدھا کہا اور اس کی وجہ سے تمہارے تن بدن میں تبدیلیاں آ گئیں کیا اللہ کے لفظ میں اتنی تاثیر نہیں کہ وہ بندے کے دل میں تبدیلی پیدا کردے ۔
Tags
واقعات و حوادث
کیا کہنے
جواب دیںحذف کریںنباض وقت تھے۔
اللہ تعالیٰ اپنی معرفت ہر ایمان والے کو عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت ہی عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںآمین
جواب دیںحذف کریں