دیوبندکے حرامخور کمبخت کتے | اور پندرہ اگست کی رات چوری | فائیو اسٹار کمرہ | مہمان خانہ | دارالعلوم وقف

دیوبندکے حرامخور کمبخت کتے اور پندرہ اگست کی رات چوری

 دیوبندکے کم بخت کتے اور پندرہ اگست کی رات
بیس یا پچیس دن پہلے کی بات ہوگی میں اپنی آفس میں بیٹھے اپنے یومیہ کام میں مصروف تھا، موسم بہت خراب تھا، سخت اور موسلا دھار بار ش ہورہی تھی، لوگ اپنے اپنے کمروں میں،گھروں میں دبکے پڑے تھے، دوپہر کے بارہ بجے جب میں اپنی آفس بند کرکے تیسری منزل میں موجود اپنے کمرے کے دالان میں داخل ہوا تو بائیں طرف موجود مہمان خانہ کے کمرے پر میری نظر پڑی، جس میں خوبصورت چارپائی پر نرم نرم گدے سرخ اور انتہائی خوشنما چادر بچھی ہوئی تھی،وہ ایک مہمان خانہ ہی نہیں بلکہ ایک فائیو اسٹار کمرہ تھا جس میں ہیٹر،اے سی،رنگ برنگے پردے،خوبصورت قسم کے مہنگے ٹائلس،اٹیچ یورپی باتھروم،فلش، واش بیسن،مہنگے نل،کمرے سے متصل سیڑھی پر سجے ہوئے رنگ برنگے پھولوں کے گملے،باہر کی ہوا کھانے کے لیے گیلیری سمیت مہمان کی سہولت کی ساری چیزیں مہیا تھیں،ہر خاص مہمان کا قیام اسی میرے کمرے سے متصل مہمان خانہ میں ہواکرتا تھا،میری نظر بیڈ پر پڑے ایک غیر مانوس جسمانی حصے پر پڑی،اول وہلہ میں، میں نے سمجھا کہ شاید کوئی مہمان ہوں گے!  	لیکن جب میں نے اپنا سر مہمان خانہ کے دروازے کے اندر ڈال کر جھانکا تو حیرت کی انتہا نہیں رہی،دیکھتا کیا ہوں کہ”ایک خارش زدہ کتا حالات  بادوباراں سے لاچار اس خوبصورت سی بیڈ پر بڑے آرام سے محو خواب تھا“،حیرت ہوئی کہ یہ کون سا مہمان ہے اور کس قسم کا مہمان ہے،جو اتنے آرام اور بڑے طمطراق کے ساتھ بے خوف ہوکر مزے کی نیندلے رہا تھا، میں نے ظاہری نظر سے سمجھا کہ شاید یہ کوئی پالتو اور شریف النسل کتانما انسان ہوگا؛ لیکن جب اندر داخل ہوکر قریب سے بغور مشاہدہ کیا تو جگہ جگہ جسم پر کیچڑ اور خارش نے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگنے دی کہ یہ دیوبند کے ماضی کے شا ہان مغلیہ کے  خاندانی کمبخت شریف زادہ کتا ہے۔  	میری شرافت اب جواب دے چکی تھی،میں اپنے آس پاس لاٹھی ڈنڈا تلاش کرنے ہی والاتھا کہ دل و دماغ نے کہا کہ اوئے کمبخت، کاروائی سے پہلے ثبوت تو اکٹھی کرلے،بس پھر کیا تھا جیب سے موبائل نکالا اور بستر پر پڑے محوخواب شاہی خارش زدہ کتے کی ہر پوز سے تصویریں لینے لگا۔وہ کمبخت کتا بھی اٹھ بیٹھا اور بڑے آرام سے مجھے گھورنے لگا گویا یوں زبان حال سے گویا ہو۔ع  تصویر کے ساتھ دردبھی کھینچ لے او مصور  ملے ہیں جواپنوں سے تحفے میں مجھے  لے ادھر سے بھی لے لے،اس پوزسے بھی لے لے،سنبھال کر اپنے سینے میں بسا لینا میری تصویر کو،ہر طرف سے کئی تصویریں لینے کے بعد میں نے اپنا موبائل اپنے جیب میں سنبھا ل کر رکھا اور بغل میں پڑے موٹا ڈنڈا اٹھا نا تھا کہ وہ شریف زادہ کود کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگا میں دروازے پر ڈنڈے کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھاجیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلا میں نے سرپر زوردار ڈنڈا رسید کردیا وہ شریف زادہ پانچ منٹ تک ایک ہی ڈنڈے میں بے ہوش پڑا رہامیں سمجھا کہ شاید مر گیا میں اسے ڈنڈسے باہر کی طر ف ڈھکیلنے لگا کہ کتا اچانک اٹھ بیٹھااور میری طرف معافیانہ انداز میں گویا ہوا: ”بس کر او ظالم اب دوبارہ نہیں آؤں گا“:اور آہستہ آہستہ سیڑھی کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے گویا ہوا ”تو باہر آ سالے تجھے بتاؤں گا“اور پھر بھاگتے ہوئے باہر نکل گیا۔  	اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ جب بھی میں علی الصبح چائے ناشتے کے لیے ہوٹل کی طرف جاتا وہ کتا راستے میں ملتا اور مجھے گھورتا رہتا شاید وہ مجھ سے بدلا لینے کا بہانہ تلاش کر رہا تھا اور مسلسل دس سے پندرہ دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہمیشہ میں اسے اسی راستے میں پاتا جس راستے سے میرا گذر ہوتا تھا،آخر بدلے کا وہ دن جس کا وہ شریف زادہ کمبخت کتا تلاش کررہاتھاآہی گیا۔   	اتوار کا دن تھا پندرہ اگست کی رات تھی میں اپنی آفس سے عشاء کی نماز کے لیے نکلا تو دیکھا میری چپل غائب تھی تلاش کرنے لگا ادھر ادھر نظر دوڑائی،باتھروم، نالے، طلبہ کے کمروں کے سامنے، آس پاس کے نالے اور جھاڑیوں میں،ہرممکن جگہ تلاش کرڈالا؛لیکن تلاش بسیار کے باوجود جب میری چپل نہیں ملی، تو ایک بچہ جو مجھے بہت دیر سے کسی چیز کو تلاش کرتے ہوئے اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا اس نے دریافت کیا کہ کیا ڈھونڈھ رہے ہیں، میں نے کہا کہ بھئی میری چپل کھوگئی ہے کہیں دیکھے ہو کیا؟  	تو اس بچے نے پوچھا کہ آپ کی چپل بھوری کلر کی تھی میں نے کہا کہ ہاں،مہرون کلر تھا (جس کو بچے نے بھورے رنگ سے تعبیر کیا تھا)بتا یا کہ وہ لال رنگ کا کتا اپنے منہ میں دبائے پہلے دارالعلوم وقف کی طرف نکلا پھر واپس چپل اپنے منہ میں دبائے اعظمی منزل کے کونے کی جھا ڑیوں کی طرف آکر جھاڑی کے اندر داخل ہوگیا۔میرا ماتھا ٹھنکا کہ اوہو! وہی کتا جو مجھ سے مارکھانے کے بعد پندرہ بیس دن تک مجھے گھورتا رہا اسی نے یہ کاروائی کر کے اس دن کی مار کا بدلہ چپل چراکر لیا ہے!  	آج پندرہ اگست کا دن ہے سب آزادی کے جھنڈے لہرانے میں مصروف ہیں اور یہ راقم الحروف اپنی چپل اور اس کتے کی تلاش میں۔تادم تحریر چپل اور کتا دونوں غائب ہے آپ کو پہچاننے میں آسانی ہو اس لیے اس وقت کی لی ہوئی ایک تصویر بھی اس مضمون کے ساتھ چسپاں کر رہا ہوں دیکھئے گا اگر کہیں نظر آجائے تو کمنٹ باکس میں اس کا ایڈریس ضرور فراہم کیجئے گا۔جب چپل اور کتا دونوں مل جائے گا تو ان شاء اللہ آپ کو اسی بلاگ کے ذریعہ اطلاع کر دیں گے۔دیوبندکے حرامخور کمبخت کتے | اور پندرہ اگست کی رات چوری | فائیو اسٹار کمرہ | مہمان خانہ | دارالعلوم وقف

بیس یا پچیس دن پہلے کی بات ہوگی میں اپنی آفس میں بیٹھے اپنے یومیہ کام میں مصروف تھا، موسم بہت خراب تھا، سخت اور موسلا دھار بار ش ہورہی تھی، لوگ اپنے اپنے کمروں میں،گھروں میں دبکے پڑے تھے، دوپہر کے بارہ بجے جب میں اپنی آفس بند کرکے تیسری منزل میں موجود اپنے کمرے کے دالان میں داخل ہوا تو بائیں طرف موجود مہمان خانہ کے کمرے پر میری نظر پڑی، جس میں خوبصورت چارپائی پر نرم نرم گدے سرخ اور انتہائی خوشنما چادر بچھی ہوئی تھی،وہ ایک مہمان خانہ ہی نہیں بلکہ ایک فائیو اسٹار کمرہ تھا جس میں ہیٹر،اے سی،رنگ برنگے پردے،خوبصورت قسم کے مہنگے ٹائلس،اٹیچ یورپی باتھروم،فلش، واش بیسن،مہنگے نل،کمرے سے متصل سیڑھی پر سجے ہوئے رنگ برنگے پھولوں کے گملے،باہر کی ہوا کھانے کے لیے گیلیری سمیت مہمان کی سہولت کی ساری چیزیں مہیا تھیں،ہر خاص مہمان کا قیام اسی میرے کمرے سے متصل مہمان خانہ میں ہواکرتا تھا،میری نظر بیڈ پر پڑے ایک غیر مانوس جسمانی حصے پر پڑی،اول وہلہ میں، میں نے سمجھا کہ شاید کوئی مہمان ہوں گے!

لیکن جب میں نے اپنا سر مہمان خانہ کے دروازے کے اندر ڈال کر جھانکا تو حیرت کی انتہا نہیں رہی،دیکھتا کیا ہوں کہ”ایک خارش زدہ کتا حالات  بادوباراں سے لاچار اس خوبصورت سی بیڈ پر بڑے آرام سے محو خواب تھا“،حیرت ہوئی کہ یہ کون سا مہمان ہے اور کس قسم کا مہمان ہے،جو اتنے آرام اور بڑے طمطراق کے ساتھ بے خوف ہوکر مزے کی نیندلے رہا تھا، میں نے ظاہری نظر سے سمجھا کہ شاید یہ کوئی پالتو اور شریف النسل کتانما انسان ہوگا؛ لیکن جب اندر داخل ہوکر قریب سے بغور مشاہدہ کیا تو جگہ جگہ جسم پر کیچڑ اور خارش نے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگنے دی کہ یہ دیوبند کے ماضی کے شا ہان مغلیہ کے  خاندانی کمبخت شریف زادہ کتا ہے۔

میری شرافت اب جواب دے چکی تھی،میں اپنے آس پاس لاٹھی ڈنڈا تلاش کرنے ہی والاتھا کہ دل و دماغ نے کہا کہ اوئے کمبخت، کاروائی سے پہلے ثبوت تو اکٹھی کرلے،بس پھر کیا تھا جیب سے موبائل نکالا اور بستر پر پڑے محوخواب شاہی خارش زدہ کتے کی ہر پوز سے تصویریں لینے لگا۔وہ کمبخت کتا بھی اٹھ بیٹھا اور بڑے آرام سے مجھے گھورنے لگا گویا یوں زبان حال سے گویا ہو۔ع

تصویر کے ساتھ دردبھی کھینچ لے او مصور

ملے ہیں جواپنوں سے تحفے میں مجھے

لے ادھر سے بھی لے لے،اس پوزسے بھی لے لے،سنبھال کر اپنے سینے میں بسا لینا میری تصویر کو،ہر طرف سے کئی تصویریں لینے کے بعد میں نے اپنا موبائل اپنے جیب میں سنبھا ل کر رکھا اور بغل میں پڑے موٹا ڈنڈا اٹھا نا تھا کہ وہ شریف زادہ کود کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگا میں دروازے پر ڈنڈے کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھاجیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلا میں نے سرپر زوردار ڈنڈا رسید کردیا وہ شریف زادہ پانچ منٹ تک ایک ہی ڈنڈے میں بے ہوش پڑا رہامیں سمجھا کہ شاید مر گیا میں اسے ڈنڈسے باہر کی طر ف ڈھکیلنے لگا کہ کتا اچانک اٹھ بیٹھااور میری طرف معافیانہ انداز میں گویا ہوا: ”بس کر او ظالم اب دوبارہ نہیں آؤں گا“:اور آہستہ آہستہ سیڑھی کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے ایک بار پھر کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے گویا ہوا ”تو باہر آ سالے تجھے بتاؤں گا“اور پھر بھاگتے ہوئے باہر نکل گیا۔

اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ جب بھی میں علی الصبح چائے ناشتے کے لیے ہوٹل کی طرف جاتا وہ کتا راستے میں ملتا اور مجھے گھورتا رہتا شاید وہ مجھ سے بدلا لینے کا بہانہ تلاش کر رہا تھا اور مسلسل دس سے پندرہ دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہمیشہ میں اسے اسی راستے میں پاتا جس راستے سے میرا گذر ہوتا تھا،آخر بدلے کا وہ دن جس کا وہ شریف زادہ کمبخت کتا تلاش کررہاتھاآہی گیا۔ 

اتوار کا دن تھا پندرہ اگست کی رات تھی میں اپنی آفس سے عشاء کی نماز کے لیے نکلا تو دیکھا میری چپل غائب تھی تلاش کرنے لگا ادھر ادھر نظر دوڑائی،باتھروم، نالے، طلبہ کے کمروں کے سامنے، آس پاس کے نالے اور جھاڑیوں میں،ہرممکن جگہ تلاش کرڈالا؛لیکن تلاش بسیار کے باوجود جب میری چپل نہیں ملی، تو ایک بچہ جو مجھے بہت دیر سے کسی چیز کو تلاش کرتے ہوئے اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا اس نے دریافت کیا کہ کیا ڈھونڈھ رہے ہیں، میں نے کہا کہ بھئی میری چپل کھوگئی ہے کہیں دیکھے ہو کیا؟

تو اس بچے نے پوچھا کہ آپ کی چپل بھوری کلر کی تھی میں نے کہا کہ ہاں،مہرون کلر تھا (جس کو بچے نے بھورے رنگ سے تعبیر کیا تھا)بتا یا کہ وہ لال رنگ کا کتا اپنے منہ میں دبائے پہلے دارالعلوم وقف کی طرف نکلا پھر واپس چپل اپنے منہ میں دبائے اعظمی منزل کے کونے کی جھا ڑیوں کی طرف آکر جھاڑی کے اندر داخل ہوگیا۔میرا ماتھا ٹھنکا کہ اوہو! وہی کتا جو مجھ سے مارکھانے کے بعد پندرہ بیس دن تک مجھے گھورتا رہا اسی نے یہ کاروائی کر کے اس دن کی مار کا بدلہ چپل چراکر لیا ہے!

آج پندرہ اگست کا دن ہے سب آزادی کے جھنڈے لہرانے میں مصروف ہیں اور یہ راقم الحروف اپنی چپل اور اس کتے کی تلاش میں۔تادم تحریر چپل اور کتا دونوں غائب ہے آپ کو پہچاننے میں آسانی ہو اس لیے اس وقت کی لی ہوئی ایک تصویر بھی اس مضمون کے ساتھ چسپاں کر رہا ہوں دیکھئے گا اگر کہیں نظر آجائے تو کمنٹ باکس میں اس کا ایڈریس ضرور فراہم کیجئے گا۔جب چپل اور کتا دونوں مل جائے گا تو ان شاء اللہ آپ کو اسی بلاگ کے ذریعہ اطلاع کر دیں گے۔

مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

2 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام22 جنوری

    تھکان اتارنے کے لئے کچھ دیر آیا ملا دیوبند کے کتے کو بھی

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام12 فروری

    بہت خوب مضمون

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی