مذہب اسلام اور چاءے کی تجارت

 چھکن میاں کے پے ٹی ایم

پے ٹی ایم پر دس روپے پراپت ہوئے (مخصوص آواز و انداز میں)،پے ٹی ایم پر ایک روپے پراپت ہوئے،پے ٹی ایم پر پینتیس روپے پراپت ہوئے،پے ٹی ایم پر چالیس روپے پراپت ہوئے،یہ آواز آپ نے بھی سنی ہوگی آج کل ہوٹلوں پر اس کا چلن تقریبا عام ہوتا جارہا ہے۔

بڑی شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے ،جب کوئی برسر عام ہمارے کھانے کے خرچ کا اعلان کر رہا ہوتا ہے،گویا یہ جملہ ’’پے ٹی ایم پر دس روپے پراپت ہوئے‘‘بر سر عام مشین یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ دیکھو یہ آدمی اتنے کا کھا کے چلا:لیکن اگر صرف مشین ہی بولتی رہے توکیا ہوگا۔

ہمارے ساتھ بھی ایک صبح ایسا ہی ہوا جب میں اور میرے دوست چھکن میاں چائے نوشی کی غرض سے ایک ہوٹل پہونچے تو آدھی پیالی چائے پینے کے بعدیہ آواز’’پے ٹی ایم پر دس روپے پراپت ہوئے‘‘۔

چائے کی چسکی لیتے ہوئے ہمارے کانوں میں گونجی،میرا دل دھک سے رہ گیا کہ پورا ہوٹل سناٹا ، کڑاکے کی سردی ،صرف ایک ٹیبل اور کرسی پر میں اور چھکن میاں بیٹھے تھے،کائونٹر پر صرف ایک شخص موجود تھا، باقی اور کہیں کوئی انسان بھی نظر نہیں آتا تھا،میں نے چھکن میاں سے پوچھا چائے کے پیسے کس نے دیئے، چھکن میاں نے کہا معلوم نہیں کسی نے پیسے ڈالے ہوں گے۔

خیر سے ہم سوچتے ہی رہ گئے :لیکن پتہ نہیں چل سکااور ہماری چائے کی پیالی بھی خالی ہوچکی تھی، میں نے پیسے نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا :کہ کرتا دوسرا پہن لیا ہوں جس کرتے میں پیسے تھے وہ کرتا گھر پر ہی ٹانگا رہ گیا،میں نے چھکن میاں سے کہا :میاں پیسے آج دے دو میں کل دے دوں گا، وہ کہنے لگے ارے کاہے کے پیسے ،پیسے تو دے دیئے گئے، میں نے کہا بھئی وہ کسی اور نے ڈالے ہوں گے۔ چھکن میاں بولے بس سمجھ لو وہ اپنا ہی ہے، میں نے کہا کہ بھئی پے ٹی ایم سے آواز صرف دس روپے کی آئی ہے، ہم دونوں کے تو بیس روپے بنے ہیں دو چائے کے۔

چھکن میاں بولے ارے بس چائے پی لی، کھسک لوپتلی گلی سے ،میں نے کہا کہ بھئی کیا کر رہے ہو، پکڑے جائو گے ،تو بڑی بے عزتی ہوجائے گی، چھکن میاں بولے: پہلے ہی اپنی کون سی عزت ہے چپ چاپ کھسک لو،میں نے کہا کہ بڑی بے غیرت انسان ہو یا ر،ابھی ہم دونوں کے درمیان بحث ہی چل رہی تھی کہ کائونٹر پر بیٹھا شخص کسی کام سے اندر داخل ہوا میں نے چھکن میاں سے کہا کہ تم ٹھہرومیں آتا ہوں میں شرافت اور سلیقے کے ساتھ اس طرح ہوٹل سے باہر آگیا کہ جیسے میں نے چائے کے پیسے ادا کئے ہوں ۔

چھکن میاں اندر بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا میں نے چپکے سے باہر سے اشارہ کیا کہ اوئے میں تو باہر آگیا اب تو سمجھ، اتنے میں کائونٹر والا بھی کائونٹر پر آگیا تھا،اب چھکن میاں برُی طرح پھنس چکا تھا، وہ آہستہ آہستہ کائونٹر پر آیا اور جیب میں پیسہ نکالنے کے بہانے ہاتھ ڈالا اور پورے اسٹائل کے ساتھ نو دو گیا رہ ہوگیا،ہوٹل والا چلاتا رہا ،اوتیری ماں کا سالا چائے پی کے بھاگ گیا۔

میں اپنے گھر پر آکر جیب سے پیسے نکالے اور ہوٹل کی طرف چل پڑا، کہ جو بھی ہو چھکن میاں میرے دوست ہیں، میں نے بیس روپے ہوٹل والے کی طرف بڑھاتے ہوئے معذرانہ انداز میں کہا، کہ بھئی وہ میرا دوست تھا مجھے اس کی عادت معلوم نہیں تھی، یہ آپ رکھ لیجئے تو وہ بیس روپے دیکھ کر کہنے لگے بھئی ایک کے پیسے تو آگئے تھے ایک ہی کے باقی تھے، میں نے کہا کہ یہ جرمانے کے طور پر اور دس روپے رکھ لو۔

لیکن وہ ہوٹل مالک بھی کچھ زیادہ ہی شریف بن رہا تھا، اس نے دس روپے واپس کر دئے ،میں نے دل میں سوچا ٹھیک ہے بے لا، (در اصل وہ دس روپے پے ٹی ایم پر کسی رونگ سائڈ سے آگئے تھے ہوٹل والے نے ہم دونوں کو الگ سمجھ کر مانا کہ ایک نے فون پے کیا ہے اور ایک کیش کر یں گے )چھکن میاں بغیر کیش کئے ہوئے نکلے نہیں تھے وہ تو نودو گیارہ ہوگئے تھے۔


مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

5 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام27 دسمبر

    بہت خوب بھائی
    یہ تو مسجد سے میخانہ تک کے ہو بہو ہے
    وہی پیارا انداز, ہنسی مزاح, اداسی و غمی اور معصومیت سے پُر

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام16 جنوری

    rizwanrabbani8609@gmail.com
    UPI ID... 9813118609@ybl

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام21 جنوری

    مزیدار لگی چھکن میاں کی کہانی

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی