یہ بھی ایک درد ہےـ سوجن والا حفظ بھی کیسا ہوگا

یہ بھی ایک درد ہےـ سوجن والا حفظ بھی کیسا ہوگاـ طنزومزاح اور علمائے امت


 السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

               سوجن والا حفظ               

سن 2000عیسوی کی بات ہے کہ عربی چہارم میں دارالعلوم دیوبند میں میرا داخلہ ہوا تو عید الاضحی کی تعطیل میں بندہ اپنے سگے بھائی اختر حسین سے ملنے دیوبند سے شاہ جہاں پور میرٹھ کے مدرسے  پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت خراب ہے؛ اس لئے درسگاہ میں موجود نہیں ہیں پھر تھوڑی ہی دیر میں معلوم ہوا کہ طبیعت خراب ہوئی نہیں ہے؛ بلکہ اسے پیٹ پیٹ کر طبیعت خراب کردی گئی ہے یعنی سبق وغیرہ نہ سنانے کی وجہ سے ان کے استاد صاحب نے اتنا مارا تھا کہ بدن کے جس حصے پر بھی نظر پڑی وہ سوجا ہوا تھا ان کی یہ کیفیت اور تکلیف دیکھ کر فطری طور پر مجھے  بہت تکلیف ہوئی اور میں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ قرآن کریم تو میں نے بھی الحمدللہ حفظ کیا ہے ؛ لیکن یہ سوجن والا حفظ پہلی بار دیکھنے کا اتفاق ہوا جس سے بےانتہاء تکلیف ہوئی 

 پھر کیا تھا  میں دارالعلوم دیوبند پہنچا اور ایک ہفتہ گذرتے گذرتے اپنے بھائی کو اپنے پاس بلا لیا اور میں خود اسے  قرآن کریم کا حفظ کروانے لگا 

نمازِ فجر کے بعد میں سبق اور سبق پارہ سن لیتا تھا اور بارہ بجے کے قریب آموختہ سن لیتا تھا

سونے کے لئے اپنے پاس ایک بستر کی جگہ تھی 

آدھے بستر پر میں سوتا تھا اور آدھے  پر میرے بھائی

اور دنیا جانتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں ہر ایک داخل طالب علم کو دو روٹی ملتی ہے تو مجھے بھی دو روٹی ملتی تھی

ایک روٹی  میں کھاتا تھا اور ایک روٹی میرے بھائی؛ اسی حالت میں وہ سال گذرا یعنی ہم دونوں بھائیوں نے وہ سال دونوں ٹائم آدھا ہی پیٹ کھاکر گذارا

 اللہ تعالی کسی کو ایسی آزمائش میں مبتلاء نہ کرے آمین ثم آمین 

خوشی کی بات یہ ہوئی کہ اسی بےکسی کے عالم میں میرے بھائی کا حفظ قرآن کریم  مکمل ہوگیا 

الحمدللہ آج بھی قرآن کریم انہیں بہت ہی اچھا یاد ہے

 حفظ قرآن کریم کے بعد باضابطہ عالم کا کورس بھی مکمل کیا اور فی الحال وہ سنگمیشور رتنا گیری میں امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں 

اللہ تعالیٰ انہیں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے آمین ثم آمین 

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

محمد ابصار قاسمی

24/02/2023_

یہ قصہ پڑھ کر مجھے اپنے طالب علمی کا زمانہ یاد آگیا واقعی طالب علمی کا زمانہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے وہ روکھا سوکھا کھانے پر مرغا بنا کے چمڑی ادھیڑنا عجیب ہوتا تھا استاد ہمیشہ غلطی پر نہیں ہوتے اور طالب علم بھی ہمیشہ غلطی پر نہیں ہوتے ہیں بہت سی مرتبہ دیکھا گیا کہ طالب علم کی کوی غلطی نہیں ہوتی ہے لیکن بلا ضرورت پٹ جانا پڑتا ہے

خود راقم الحروف کے ساتھ بھی تقریبا ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا ہوا یہ تھا کہ قصص النبیین کی کاپی کسی طالب علم نے چرالی تھی اس میں میری کوی غلطی نہیں تھی لیکن اللہ ہدایت دے اس مدرس کو انہوں نے مجھے مسلسل چار گھنٹے مرغا بنا دیا چہ جائیکہ وہ ڈھونڈھنے کے لیے کہتے بانس کی قمچی لے کر کھڑے ہوگئے 

تھوڑا سا کان چھوڑا کہ ادھر قمچی کی بارش دے چوتڑ اوردے پیٹھ پر سارا کچھ سیاہ ہو گیا تھا صبح کے ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک یہی سلسلہ رہا پتہ نہیں حضرت جی کس پاپ کی سزا دے رہے تھے نہیں معلوم ـ ساڑھے بارہ بجے جیسے ہی مجھے کہا چل نکل جا ـ میں اپنی درسگاہ میں پہونچا اور تھوڑی سی تگ و دو کیا تو میری کاپی کسی دوسری جگہ پڑی ملی اب بتائیں اس میں میری کیا غلطی تھی جو اس طرح سے مجھے سزا ملی ـ

بڑوں سے سنتے تھے کہ پڑھ لکھ کر سکون ملتا ہے لیکن  سوائے ٹینشن کے اور کچھ نہیں ـ 

مولوی کی عمر ویسے بھی مدرسے میں پندرہ سے بیس سال کٹ جاتی ہے باہر نکل کر کسی شعبہ میں ملازمت نہیں ہوتی بحر حال ـ یہ حال ہے ہم مولویوں کا اللہ خیر کرے ہم مولویوں پرـ

مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

3 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام27 فروری

    ماشاء اللہ بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام20 مارچ

    اللہ امت مسلمہ کو حفاظ کرام کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام04 مئی

    سبحان اللہ

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی