اسلام میں محبت کی حد

میں نے دوبار محبت کی

پہلی بار میں نے اپنے دیش سے محبت کی اور دوسری بار میری پارو سے

میری پارو کے لیے میں نے کیا کیا نہیں کیا، وکلانگ ڈونیشن میں لنگڑا بن کر پچاس ہزار روپے سے میری پارو کے لیے میں نے ایل سی ڈی ٹی وی خریدی، اپنی کڈنی بیچ کر ایپل موبائل ان کے برتھ ڈے پر گفٹ کیا،وہ کڑاکے کی سردی میں ،یخ بستہ سینے کو چیر دینے والی ہواؤں کے درمیان، رات کے سناٹے میں،گھر کے پچھواڑے سے پائپ کے ذریعے ان سے ملنے ان کی چھت پر جاتا تھا، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ رات کے اندھیرے میں پائپ چڑھتے چڑھتے پڑوسی کے گھر پہونچ جاتا، معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کونسی پائپ میری پارو کی طرف جاتی ہے اور کونسی پائپ پڑوس کی طرف۔

وہ میری پارو تھی پاروایسی ویسی نہیں۔

جن کی موجودگی سے سرددلوں میں گرماہٹ ،مردہ دلوں میں زندگی پیدا ہوجائے۔جن کے دیدار سے حسین خواب کی تمنائیں پیداہونے لگے ،جن کے الفاظ میں بلا کا جادو،جن کے لب گویا لب شیریں، جن پر انار نچوڑ دیا گیا ہو،لاکھوں میں ایک حسینہ ،دلکش، مہرو و مہ جبیں، میرے دل کیملکہ تھی میری پارو،سوتا تو ان کی یادیں اپنی باہوں میں سما کر،بیدار ہوتا تو ان کے حسین سپنے لے کر،جن کے نام سے اپنے کام کی ابتداء کرتا، جن کے دیدار کی تمنائیں لے کر اپنے دن کی انتہا ء کرتا،سڈول اور حسین صورت وخوبصورت، نازک اندام بدن، گویا وہ ایک خوبصورت مورت تھی میری پارو۔

کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا جب ان کی یا دیں میرے دل ودماغ میں نہ چل رہی ہوں،کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے دیدار کے لیے ان کے گھر کی گلیوں کے چکر نہ کاٹے ہوں،اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا، صرف پارو کو حاصل کرنے کے لیے ،اپنی زمین ،جائداد، اپنی بائک، اپنا موبائل، اپنی پرانی سائیکل، حتی کہ کڈنی بھی بیچ دی میری پارو کے لیے۔سب کچھ میری پارو کے لیے ۔

بازار میں کپڑوں کو تاڑتا کہ کون سا رنگ میری پارو کے سنہرے جسم کو مناسب ہوگا، کون سی مٹھائی میری پارو پسند کر ے گی ،میری پارو کونسی گاڑی میں سوار ہونا پسند کرتی ہے، دل دماغ میں اگر کچھ چل رہا ہوتا، تو وہ تھی صرف اور صرف میری پارو۔

کبھی مسوری کی حسین وادیوں میں، کبھی کشمیر کی برفیلی چٹانوں میں، کبھی حسین باغ وبہار میں ،اپنی پارو کو لے کر نکل جاتا، ایک مرتبہ اپنی پارو کو لے کر شیر میسور ٹیپو سلطان کے تاریخی مقامات کی طرف چل پڑا ،دوپہر کا وقت تھا ،موسم صاف تھا، کھانے کا وقت بھی ہوا جارہا تھا ،میری پارو کہنے لگی ڈارلنگ، آج میں اپنے ہاتھ سے آپ کو پکا کر کھلاؤں گی ۔میرے دل نے کہا،! ہوئے! ہوئے! میری قسمت جاگ گئی، میں نے جلدی جلدی سب انتظام مکمل کر دیا ۔

میری پارو ایک چٹان کے نیچے کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگی، اور میں، میری خوشی کی تو انتہا نہیں تھی، میں خوشی میں ناچنے جھومنے لگا،ناچتے جھومتے اچانک میرے کان میں چلانے کی آواز پڑی اور پھر میری چوتڑ میں گرمی کا احساس ہوا میریآدھی رضائی جل چکی تھی ،اب میری چوتڑ کی باری تھی، چوں کہ ناچتے اور جھومتے میں اپنے بستر سے نیچے جل رہی آگ کے برتن میں لحاف سمیت گر چکا تھامیری بیوی کو اللہ سلامت رکھے کہ انہوں نے خواب کی حالت میں بڑبڑاتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور پھر وقت پر پہونچ گئی اور غصہ سے بولنے لگی آج کل آپ خواب بہت دیکھتے ہیں۔

میں نے کہا تیرے خواب کی ایسی کی تیسی تونے میری پارو کا مڈر کر دیا میری محبت کا تونے خو ن کر دیا اب میں کیا کروں بولی پہلے اپنی لنگی بدلو منہ کا ن دھو لو صبح آٹھ بج چکے ہیں۔


7 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی