خدا کا وجوداور اس پر دلیل

اللہ  کہاں  ہے  اس  کی  دلیل  کیا  ہے


خدا کا وجوداور اس پر دلیل 
فلسفیوں اورمتکلمین نے خدا کےوجود کیلئے کئی ایک منطقی دلائل وضع کیے ہیں ، جیسے تکوینیاتی دلیل (Cosmological Argument)، وجودی دلیل (Ontological Argument)، مقصدی دلیل (Teleological Argument)، پاسکل کاداؤ(Pascal’s Wager) وغیرہ۔ملحدین ان منطقی دلائل پر منطقی اعتراضات وارد کرکے انھیں مسترد کردیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ چونکہ خدا کے دعوے کیلئے بارِثبوت (Burden of proof) ماننے والوں پر ہے اور ان کے پاس اب خدا کے اثبات کی کوئی منطقی سقم سے مبرا دلیل نہیں رہی، چنانچہ ثابت ہوگیا کہ الحاد کامقدمہ خودبخود(By Default) درست ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ایک مذہبی انسان کی زندگی میں جو خداکاعقیدہ شامل ہوتاہے، وہ اس بنا پر نہیں ہوتاکہ اس نے منطقی اصول سیکھ کردلائل کے ذریعے خداکے وجود کو مان لیا ہے،بلکہ وہ خدا کے وجود کو ایک مذہبی روایت کے ذریعے تسلیم کرتاہے۔ 

خدا کے وجود کی دلیل

یہ مذہبی روایت کسی پیغمبر کی دلیل پر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک یہودی خدا کے وجود کو اس لیے نہیں مانتاکہ اس کی عقل کاسمولوجیکل دلیل پر مطئمن ہوچکی ہے، بلکہ اس لیے مانتاہےکہ حضرت موسیٰ نے خدا کو دیکھا اوراس سے کلام کیا۔ایک مسیحی کے خداپر اعتقاد کا سبب بھی وجودی دلیل کی صحت(Validity) نہیں ہوتی، بلکہ اس کاسبب یہ ہے کہ حضرت عیسٰی نے خداکی بادشاہت کااعلان کیا۔اسی طرح ایک مسلمان بھی خدا پرایمان اس وجہ سے نہیں رکھتاکہ اس نے کائنات میں نظم(Design) دیکھ کر اس سے ایک ناظم (Designer) کے وجود پر استدلال کرلیا ہے، بلکہ اس وجہ سے ایمان رکھتاہے کہ حضرت محمد نے بتادیا کہ ایک خدا ہے جس نے ان پر اپنی کتاب نازل کی۔ خدا کاپیغمبر خداکا براہِ راست تجربہ کرتاہے اور اس کی شہادت خداکے وجود پر پیغمبری دلیل (Prophetic Argument) ہوتی ہے۔اس دلیل میں انسان پہلے ایک پیغمبر کی نبوت پر ایمان لاتاہے اور پھراس کے توسط سے وہ خدا، فرشتوں اور قیامت پر ایمان لاتاہے۔


خدا اور عقل کی دلیل

 اس کے بعد اگر وہ خدا کے وجود پر کچھ منطقی دلائل بھی سوچتاہے تو یہ محض عقل کے مزید اطمینان کیلئے ہوتاہے۔ عقل اورتجرباتی مشاہدہ اگر عقیدے کی توثیق کردیں تو اس سے عقیدے کو تقویت حاصل ہوتی ہے ، مگر عقیدہ ان پر استوار نہیں ہوتا۔ حکیم الامت علامہ اقبال سے ایک بار کسی نے دریافت کیاکہ آپ نے فلسفہ پڑھ رکھا ہےتو کیا آپ فلسفے سے خدا کے وجود کو ثابت کرسکتے ہیں ؟اس کےجواب میں علامہ نےفرمایا:”نہیں۔۔۔میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہےکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہہ دیا کہ خدا ہے،اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔

خدا کے وجود پر دلیل کیوں

باپ کے باپ ہونے پر تو ہم کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف ماں کی زبان پر بھروسہ کر کے کسی کو باپ مان لیتے ہیں اسی طرح ہم خدا کو کسی "ثبوت" کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلی دلائل اور وجدان کی گواہی کی بنیاد پر مانتے ہیں، ارے بھئی جس چیز کا ثبوت سامنے آجائے اس کا انکار کوئی کیسے کرسکتا ہے؟ اور اس پر ایمان کا مطالبہ کیسا؟ ایمان تو ہمیشہ لایا ہی اُس چیز پر جاتا ہے جو اگرچہ ظاہر کی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی، لیکن اُس کی موجودگی کے نشان و آثار اس قدر واضح اور ٹھوس ہوتے ہیں کہ عقل کے سامنے اُس کے وجود کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ باقی نہیں رہتا۔ کیا کہا ؟ وہ کیسے؟ ارے بھِئی کشش ثقل کو مانتے ہو؟ دکھائی تو وہ بھی نہیں دیتی ۔ اور نہ ہی حواس خمسہ میں سے کوئی حس اُس کے وجود کا کوئی تجربہ کرسکتی ہے لیکن اُس کی موجودگی کے ناقابل تردید اثرات ہی کا اثر ہے کہ کوئی شخص بقائم ہوش و حواس اونچی عمارت سے یہ سوچ کر چھلانگ نہیں لگادیتا کہ میں نے چونکہ کشش ثقل دیکھی نہیں ہے لہذا میں اسے مانتا نہیں، یہی رویہ عقل کے مطابق اور عین علمی ہے۔ ایمان بالغیب مذہب ہی نہیں سائنس میں بھی اختیار کیا جاتا ہے، یہ علم کا وہ میدان ہے جہاں حواس خمسہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور عقل انسان کا ہاتھ تھام کر اُسے معلوم سے لامعلوم کا سفر طے کراتی ہے، علم کی دنیا میں اسے استنباط یا انفیرنس Inference کہتے ہیں، ان سین ورلڈ تک پہنچنے کا یہی واحد راستہ ہے جو انسان دریافت کر سکا ہے اس میدان میں inference کے سوا جو مطالبہ بھی کیا جائے گا غیر عقلی بھی قرار پائے گا اور غیر علمی بھی۔ 

3 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی