اسلام کا خدا کہاں ہے

اسلام  میں  خدا  کہاں  ہے

خدا کا معنی

خدا فارسی لفظ ہے ، خدا کا اصل لفظ تھا خود آ اس کے معنی تھے خود بخھود آنے والا ، جس کو کسی نے نہ لایا ہو اور نہ ہی آنے میں کسی کا محتاج ہو اس کو فارسی میں خود آ کہتے ہیں یہ بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے خود آ سے بدل کر خدا کا لفظ ہو گیا ۔


 خدا کے وجود کی دلیل کیا ہے؟

ایک عرب بدو سے سوال کیا گیا کہ خدا کے وجود کی دلیل کیا ہے ؟ اس نے کہا: " سبحان اللہ! مینگنی اونٹ پر دلالت کرتی ہے، قدم کے نشان چلنے والے پر دلالت کرتے ہیں، تو برجوں والا آسمان، کشادہ راستوں والی زمین اور موجوں والا سمندر کیا اس ذات پر دلالت نہیں کریں گے، جو بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے؟" یہ واقعہ ایک عام انسان کا واقعہ ہے. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خالق کی پہچان کا معاملہ اتنا زیادہ آسان ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے طور پر اپنی قریب ترین مثال سے سمجھ سکتا ہے. خالق کی دریافت کے لیے کسی لائبریری میں جانے کی یا کسی دور کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں. شرط یہ ہے کہ آدمی متلاشی( seeker) ہو." 
خدا ہے ، اس کی کیا دلیل ہے

جہاں انسان کی زبان بند ہو جائے اس کا اگلا مرحلہ خدا کے وجود کو ظاہر کرتا ہے ، ہمیں ہماری ماں کی زبان پر اتنا کامل یقین ہوتا ہے کہ اس کے بتانے پر ہم اس شخص کو باپ مان لیتے ہیں جن کو ہم نے دیکھا تک نہیں ماں سے سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ ماں آپ کے کہنے پر ہم کسی کو باپ کیوں مان لیں اس وقت نسل خطرہ میں پڑ جاتی ہے وہاں ہماری زبان بند ہوجاتی ہے نہیں سمجھ میں آتا ہے عقل کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں بس یہی وہ مقام ہے جہاں سے زبان بے ساختہ اللہ پکار اٹھتی ہے یہ سب سے بڑی دلیل ہے ۔

خدا نہیں ہےاس لیے کہ نظر نہیں آتا ہے

کسی چیز کا نظر نہ آنا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی چناں چہ جنات نظر نہیں آتا ہے ، لیکن وہ ہے کرنٹ نظر نہیں آتا ہے لیکن اس کے وجود پر سب کو یقین ہے ، چناں چہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ لائٹ روشن ہے اس لیے کہ بجلی ہے انسان کی زندگی ہے اس لیے  کہ دل کی دھڑکن چالو ہے ، دن روشن ہے اس لیے کہ سورج نکلا ہوا ہے ، دنیا میں بہت ساری چیزیں نظر نہیں آتی ہیں تو کیا اس کا وجود بھی نہیں ہے ایں خیال است و محال اس جنوں 

اللہ کا الف

دہلی کے جامع مسجد کے سیڑھی کے پاس ایک پاگل آیا انتہائی پراگندہ حال ، وہ سیڑھی کے پاس بیٹھا ہو تھا اس کے آلہ تناسل میں دھاگے بندھے ہوے تھے دھاگے کا ایک سرا اس پاگل نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور زور زور سے چلا رہا تھا یہ اللہ کا الف ، اللہ کا الف لوگ بھیڑ لگائے اسلام کا مذاق ہوتے دیکھ رہے تھے کسی سے کچھ بن نہیں پا رہا تھا غالبا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح حیات تھے ان کے کانوں میں جب یہ خبر لگی تو تڑپ اٹھے اور اپنا عصا مبارک اٹھایا چل پڑے اس دیوانے کی خبر لینے وہاں پہونچ کر عجیب ماجرا نظر آیا لوگوں کی بھیڑ تھی اس بھیر مین ایک پاگل اپنے آلہ تناسل کو ڈورے سے باندھ کر کھینچ کھینچ کر بتا رہا تھا یہ اللہ کا الف ، یہ اللہ کا الف حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح نے ان کو دیکھ انکے آلہ تناسل پر زور سے ایک ڈندا مارا اور کہا کمبخت اگر یہ اللہ کا الف ہے تو اسکے نیچے دو نقطے کہاں سے آئے وہ پاگل اپنے آلہ تناسل کی طرف دیکھ کر ایک ہی بار میں خاموش ہو گیا ، تو کبھی اس طرح علاج کرنا پڑتا ہے ملحدوں کو بھی اسی قسم کے علاج کی ضرورت ہے ۔

مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

6 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی