عصر حاضر میں مدارس میں تدریس

 

غور و فکرکے چند گوشے


✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)


مدارس اسلامیہ کی خدمات تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بڑی وقیع رہی ہیں ، مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر اجرت نہیں ، اجر خداوندی کے حصول کی نیت سے تعلیم و تدریس میں ہمارے اساتذہ نے جو وقت لگا یا اور جو رجال کار تیار کیے وہ تاریخ کا روشن باب ہے ، ان اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے کسب فیض کیا، درس و تدریس کے رموز سیکھے اور  اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا کام کیا، ان کے فیض یافتہ طلبہ نے علم و فن کے میدان میں جو انقلاب برپا کیا، اس کی نظیر دیگر علوم و فنون کے لوگوں میں نہیں ملتی ، حالانکہ دیگر علوم و فنون کے اساتذہ نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور تربیت یافتہ اساتذہ سے انہوں نے تعلیم پائی ، مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے لیے تدریسی ٹریننگ اور تربیت کا با قاعدہ اداراتی شکل میں کبھی کوئی نظام نہیں رہا ، ا ن کی تدریسی تربیت “تکرار” کے ذریعہ ماضی میں ہوا کرتی تھی اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے ، یہاں “تکرار” جھگڑے کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا ، اس کو طلبہ کے سامنے اسی طرح دہرانا جیسے استاذ نے اسے پڑھایا، مدارس اسلامیہ میں تکرار کہلاتا ہے۔ طلبہ اس تکرار سے سبق کو سمجھانے کی تربیت پالیتے تھے ، بعض ایسے تکرار کرا نے والے ہوتے تھے جو ہو بہو اساتذہ کی نقل اتارا کرتے تھے۔ان کے تکرار پر استاذ کو اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ غیر حاضر طلبہ کو اس شاگرد کے تکرار میں بیٹھنے کا مشورہ دیا کر تے تھے،بعد کے دنوں میں بعض مدارس میں معین المدرس کے نام سے فارغ ہونے والے با صلاحیت طلبہ کو دو سال کے لیے رکھا جا نے لگا۔ تاکہ متعلقہ مدرسہ میں اس طرح اساتذہ کی کمی پوری کی جا سکے اور اس طالب علم کو پڑھانے کی عملی مشق ہو جائے۔تھیوری کے طور پر اصول تعلیم مدارس میں پڑھانے کا نظام نہیں رہا،سارا زور عملی تعلیم پر ہوا کرتا تھااور اسے کافی سمجھا جا تا تھا۔

لیکن اب تعلیم و تربیت ایک فن ہے ، اور ہر دم تدریس کے خوب سے خوب تر طریقوں کی تلاش کی جا رہی ہے ، ایسے میں اب مدارس میں تدریس کی تربیت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ، اور قدیم طریقہ تدریس کے ساتھ جدید طریقۂ تعلیم کی شمولیت بھی مفید معلوم ہو تی ہے۔اس افادیت کے حصول کے لیے ہمیں از سر نو اپنے تدریسی نظام کا جائزہ لے کر اساتذہ کی تربیت کا بھی ایک نظام بنانا چاہئے ، عصری درسگاہوں کی طرح مدارس کے لیے بھی تدریسی تربیتی ادارے ہو نے چاہئے، جب مضمون نگاری ، تحقیق و تنقید ، فقہی بصیرت اور فتویٰ نویسی کی مشق کے لیے بہت سے ادارے کھلے ہوئے ہیں تو تدریس کے فن میں مہارت اور اچھا استاذ بننے کے لیے بھی ادارے کھولنےکی ضرور ت محسوس ہوتی ہے۔کیوں کہ اب بہت کچھ ماضی کی بہ نسبت بدل چکا ہے۔

ماضی میں جو طریقہ رہا ہے ، اس میں بغیر مطالعہ کےپڑھانے کو ناجائز سمجھا جا تا تھا، کوئی استاد بغیر مطالعہ کے لڑکے کو پڑھاتا نہیں تھا، اگر اس نے رات مطالعہ نہیں کیا تو صبح میں وہ پیچھے کا آموختہ ہی دہرادیتا تھا، یہ بات ہمارے یہاں اب کم نہیں، ختم ہو تی جا رہی ہے۔

مطالعہ کے بعد طریقۂ تدریس میں ایک دوسری اہم چیز ہے جسے ہم لیسن پلان (Lesson Plan)یعنی منصوبۂ تدریس کہتے ہیں ، لیسن پلان کا مطلب ہے کہ آپ کلاس میں بچوں کو کیسے پڑھائیں گے ، آپ یہ طے کریں گے کہ آج بچے کو کتنا ڈوز (Dose) ہمیں دینا ہے، آج کے سبق میں بچے کو ہمیں کیا بتانا ہے اور کیا نہیں بتانا ہے، آپ نے شروحات دیکھ لی، حواشی دیکھ لیا ، بین السطور پڑھ لیا، اب آپ چاہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ بچوں میں منتقل کر دیں، بچے کا ذہن ابھی اس لائق نہیں ہے کہ وہ آپ کے سارے مطالعے کو برداشت کرے، ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے، کہ بعض اساتذہ اپنے مطالعہ کی قے کرتے ہیں“قے” کی تعبیر ہے تو قبیح ،لیکن عملاً ہوتا یہی ہے، آپ دیکھیں کہ بچے کو جو کچھ ہم بتا رہے ہیں وہ کتنا فولو( Follow) کر رہا ہے اور کتنا اس کو سمجھ رہا ہے تلخیص پڑھاتے وقت آپ نے مختصر المعانی پوری پڑھادی، اس سے بچے کو فائدہ نہیں پہونچے گا۔

تدریس میں عملی مشق اور مشاہدات کی بڑی اہمیتِ ہے۔مدارس میں یہ طریقہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔پہلے کی طرح اب بھی قطب تارہ،صبح صادق،فیئ اصلی، مثل اول ،مثل ثانی ،شفق ابیض ،شفق احمر،صبح صادق ،صبح کاذب وغیرہ کو عملی طور پر طلبہ کو دکھانے،سمجھانے اور مشا ہدہ کرانے کی ضرورت ہے۔بڑے مدرسوں میں بھی یہ طریقہ  ان دنوں مفقود ہے۔اسی طرح ہمارے لیے یہ بہت آسان ہے کہ جب طالب علم کو سامان ڈھونے کے لیے مارکیٹ لے جائیں تو صرف جھولا نہ ڈھلوائیں بلکہ خرید و فروخت کرتے وقت بیوع کی بحثیں آسانی سے عملی مشق کے ذریعہ ہم  بچوں کوسمجھا سکتے ہیں۔بایٔع،مشتری،ایجاب،قبول،مبیع،ثمن، قیمت،اقالہ،خیار شرط ،خیار رویت،خیار عیب جیسے مسائل طالب علم جھولا ڈھو تے ڈھو تے سیکھ جائے گا۔ضرورت صرف توجہ کی ہے۔ 

تدریس میں پلاننگ کی بھی بڑی اہمیتِ ہے۔ ہمیں پلانگ کرنی چاہیے کہ 45 منٹ کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں ہمیں کتنا پڑھانا ہے اور کیا کیا پڑھانا ہے؟ ہمیں کتنی دیر بچوں سے سوالات کرنے ہیں؟ کتنی دیر میں عبارتیں صحیح کروا دینی ہیں اور ترجمہ کر کے مطلب کتنا بیان کر دینا ہے، اگر یہ تیاری رات میں ہی آپ نے کر لی تو کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ استاد باہر کھڑا ہے ،گھنٹی لگ گئی ہے اورآپ کا سبق ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔

بچوں کو مارنے ڈانٹنے کے مزاج کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، آپ نے اسے ڈانٹ کر کہا تجھےکچھ نہیں آتا ،کم بخت اتنا بڑا ہو گیا!آپ کی اس ڈانٹ نے اس کے ذہن کے سارے دروازے بند کر دیے، آپ یہ مت دیکھئے کہ بچے نے سبق یاد نہیں کیا، آپ یہ دیکھیے کہ اس بچے نے کیوں سبق یاد نہیں کیا ؟ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟ جس کی وجہ سے بچہ سبق یاد نہیں کر سکا ، آپ جب اسباب پر غور کریں گے، تو ایسا ہوسکتا ہے کہ رات اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہو، ایسا ممکن ہے کہ اس کے باپ آگئے ہوں اور وہ اپنے باپ سے بات کرنے میں لگارہ گیا ہو، ایسا بھی ممکن ہے کہ سبق کو اس نے سمجھا ہی نہ ہو، یااس نے سبق کو سمجھا تو لیکن اپنے مافی الضمیر کو ادا نہیں کر پا رہا ہے، کچھ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔

ایک آدمی نورانی قاعدہ پڑھارہا ہے، نورانی قاعدہ میں بچے نے قل لِلّٰہ صحیح نہیں پڑھا، اب استاد نے اسے دو طمانچہ مارا اور کہا کہ بھاگ یہاں سے، کمبخت تم کو کچھ نہیں آتا ، اس صورت میں یا تو کل سے وہ بچہ نہیں آئے گا  ، یا آئے گا تو کسی سے رٹوا کر آئے گا ، جس کی بنا پر اس کو آئے گا کچھ نہیں، رٹّو ہو کر رہ جائے گا، بچے کی اس غلطی پر آپ کا ذہن فورا ًکام کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ آپ جب اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ تشدید کے عمل کو نہیں جان رہا ہے، وہ پورے لام کو پہچا نتا ہے، آدھے لام کو نہیں پہچانتا ہے، زیر زبر میں غلطی کر رہا ہے، اب آپ نے اس کو پکڑ لیا کہ یہ بچہ فلاں جگہ غلطی کر رہا ہے، پانچ منٹ اس کمی کو دور کرنے کے لئے الگ سے کلاس کے بعد آپ نے اس بچہ کو دے دیا تو دوسرے دن سے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ شریک ہو جائے گا، سبق بھی اس کو یاد ہوگا، وہ شوق سے آئے گا بھی ، پڑھے گا بھی۔اور اگر آپ نے اس کو ڈانٹ کے بھگا دیا تو رٹ کر کے آئے گا ، یا آنا چھوڑ دیگا، پڑھائی چھوڑ دیگا۔ 

اسی طرح آپ حساب پڑھا رہے ہیں، حساب پڑھانے میں 25 سے45 کو آپ نے ضرب کرنے کو کہا ، بچے نے ضرب میں غلطی کر دی، آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ اس کو مار کے بھگا دیجئے ، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ یہ دیکھئے کہ اس بچے نے غلطی کہاں پر کی ، ایسا ممکن ہے کہ اس کا پہاڑا صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ گنتی اس کی صحیح نہیں ہے، ایسا ممکن ہے کہ عدد لکھنے میں اس نے غلطی کر دی، ایسا ممکن ہے کہ عدد کی قیمت کا اس کو پتہ نہیں ہے۔ اس طریقے کو جب آپ اپنا لیں گے، بچہ شوق سے پڑھنے آئے گا اور خوش خوش درسگاہ میں شریک ہوگا۔ 

خواجہ غلام السیدین نے زبر دست بات لکھی ہے کہ اچھے استاد کا کمال ہے کہ وہ اپنے شعور و آگہی میں بچے کو شریک کر لے ، آپ نے جو کچھ پڑھا ہے آپ کے پاس جو کچھ سرمایہ ہے یہ آپ کا کمال نہیں ہے، یہ آپ کے استاد کا کمال ہے کہ انہوں نے اس علم کو آپ کے اندر منتقل کر دیا جو استاد کے پاس تھا،اب اگر ہماری صلاحیت ہمارے بچوں میں ، ہمارے طلبہ میں نہیں منتقل ہو رہی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اچھے استاد نہیں ہیں ، اچھا استاد وہ ہے جو اپنے شعور ، اپنی آگہی اور اپنے علم کو ٹرانسفر Transfer کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور کبھی طلبہ سےمایوس نہ ہو۔

یقینا بعض بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے ہمیں بہت پریشانی ہوتی ہے ، وہ کچھ کر کےہی نہیں دیتے، یہاں پر ہمیں ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب ساری دنیا کسی سے مایوس ہو جاتی ہے ،تب بھی دو ذات ایسی ہوتی ہے جو مایوس نہیں ہوتی ، ایک اس کی ماں اور دوسرا اچھا استاد، اس لیے اگر اچھا استاذ بننا ہے تو طلبہ سے مایوس مت ہوئیے، طریقہ تدریس میں یکسانیت لائیے، اگر طریقہ تدریس میں یکسانیت آئے گی، تو نصاب میں یکسانیت کا فائدہ زیادہ مؤثر انداز میں سامنے آئے گا اور یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ 

اساتذہ کو کبھی کبھی بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طلبہ کی شرار تیں بھی سہنی پڑتی ہیں، مدارس میں تو کم ہوتا ہے اسکول اور کالجیز میں بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن بہت منفی باتوں سے مثبت باتوں کو اخذ کر لینا یہ استاذ کا بڑا کام ہے۔ ایک استاد کو کلاس روم میں آنا تھا، پہلا دن تھا لڑکوں نے سوچا کہ آج اگر ہم ان پر حاوی ہو گئے تو پورے سال ہم ان پر حاوی رہیں گے، اور اگر آج استاد حاوی ہو گئے تو معاملہ ہمارا دب جائے گا ،لڑکوں نے سوچا کہ آج پہلے ہی دن ان کو ایسا سبق دینا ہے کہ یہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہیں، سمجھ لیں کہ یہ لڑ کے بہت شریر ہیں، طلبہ نے ایک ترکیب نکالی کہ کلاس کے گیٹ پر تیل گرادیں گے کہ آتے ہی ان کا پاؤں پھسلے اور گریں ، ہم لوگ خوب ہنسیں گے، استاذڈیمولائز ہو جائیں گے ، نروس ہو جائیں گے، چنانچہ ایسا ہی کیا، استاد کلاس روم میں آرہے تھے، اس بیچارے کو کیا پتہ کہ کیا قیامت آنے والی ہے ، جیسے ہی داخل ہوئے جوتا پھسلا اور دھڑام سے نیچے، استاد فورا کھڑے ہوئے ، اور کہا کہ پیارے بچو! آج کا پہلا سبق یہ ہے کہ زندگی میں گرنے کے بڑے مواقع آتے ہیں ،عقلمند اور ہوشیار وہ ہے، جو گر کر فوراً سنبھل جائے ،تم نے دیکھا، میں کس طرح سنبھل گیا، آپ سوچئے کتنی منفی بات ہے، ہم آپ ہوتے تو پہلے تحقیق شروع ہوتی کہ کس نے ایسا کیا اس کے بعد چھڑی آتی اور پتہ نہیں کتنی کر چیاں بدن پر توڑ دی جاتیں، لیکن اس استاد نے انتہائی خراب بات کو ایسا مثبت رنگ دیا کہ لڑکوں کو ایک سبق مل گیا۔ آپ کلاس روم میں جا رہے ہیں لڑ کا شور کر رہا ہے ، آپ کی طبیعت اتنی مکدر ہو گئی کہ سبق ہی نہیں چل رہا ہے، آپ اس کو اس طرح خوشگوار ماحول میں تبدیل کر دیں کہ بچہ محسوس کرنے لگے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے۔یاد رکھیئے عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کے اساتذہ میں فرق ہے ، مدارس کے اساتذہ دراصل کا رنبوت میں لگے ہوئے ہیں اور وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں دوسرے اساتذہ سے کچھ زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، تدریسی زندگی میں یہ احساس ہمارے اندر وہ سب کچھ کر گذرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جس سے ہماری زندگی اخلاق حمیدہ سے مزین اور ہمارے طلبہ تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل سے گذر کر علوم وفنون میں مہارت اور نفس کو رذائل سے پاک کر کے اچھا مؤمن اور اچھا انسان بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مدارس دینیہ کو انسانیت سازی کا کارخانہ قرار دیا ہے، جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں اور جس سے پوری دنیا میں اخلاق و کردار کی پاکیزگی، قول وعمل میں تازگی اور ظلم وستم کے بازار میں محبت واخوت ، مروت و ہمدردی کی نورانی چادر تنی ہوتی ہے، ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں ہے، اس کام کے لئے اپنے کو تپانا اور کئی دفعہ مٹانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کے اندر مختلف ذہنی سطح کے طلبہ کے مابین اپنے علم کوٹرانسفر کرنے کی اچھی صلاحیت ہر حال میں موجود ہو۔ 

یہ صلاحیت کبھی تو وہبی ہوتی ہے اور کبھی کسبی ، وہبی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کروں گا اس لئے کہ وہ خدا داد بلاکسب ہوتی ہیں، لیکن بیشتر حالات میں ہمارے اندر صلاحیت خدا کے فضل اور محنت سے پیدا ہوتی ہے، اسلئے ”من جد وجد“ کہا گیا ہے۔یہ محنت اور جد جہد کتابوں کے عمیق مطالعے اور اساتذہ کے تجربات سے بڑی حد تک فائد ہ اٹھانے میں مضمر ہے۔ کتابوں کے مطالعہ کی اہمیت، تجربات سے استفادہ اور تدریس کے طریقے کار پر اکابر کی مفید تحریروں کا مطالعہ بھی اساتذہ کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دل و دماغ سفید کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس کاغذ پر مختلف نقوش بنانے اور سب کچھ سکھانے کی ذمہ داری گھر ، ماحول اور خاندان کی ہوتی ہے اس طرح دیکھا جائے تو گھر ماحول، اور خاندان، بچہ کا پہلا اسکول ہوتا ہے ، اور اس میں کارفرما عوامل اس کے پہلے استاد، پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے فطری طور پر بہت کچھ جاننے کی خواہش ہوتی ہے، اور بہت کچھ سکھانا گھر ، ماحول اور خاندان کے بس کا نہیں ہوتا، اس لئے اسے کسی ادارہ کا سہارا لینا ہوتا ہے ادارہ میں جن کے ذریعہ وہ علم حاصل کرتا اور سیکھتا ہے اسے اصطلاح میں استاد کہتے ہیں۔استاد کے کام کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے، اس اعتبار سے اس کا کام آسان ہوتا ہے کہ اس کے اوقات عام طور پر مختصر ہوتے ہیں ، دوسرے کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کی طرح اسے سال کے اڑتالیس یا پچاس ہفتے صبح سے شام تک کام میں جٹار ہنا نہیں پڑتا، لیکن دوسری طرف اس کا کام دشوار اس طرح ہوتا ہے کہ اسے ہر معیار کے بچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کے لئے اسے بڑے دشور ار مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ استاذ کو اس جان گسل مراحل سے گزرنے میں جو چیز اس کی مدد کرتی ہے وہ ہےدوسروں کو کچھ سکھانے کا احساس، طلبہ جب اساتذہ کے پاس آتے ہیں تو انکی دماغی نشونما ادھوری ، عام معلومات ناقص ، اور فکری صلاحیتیں نیم بیدار ہوتی ہیں ؛استاد اپنی معقول تدریس کے ذریعہ ان طلبہ کو نہ صرف نئے نئے حقائق سے روشناش کراتا ہے ، بلکہ ان کی سادہ لوحی کو شعور کی پختگی میں بدلتا ہے اور ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے، استاد کو یہ سب کر کے کچھ ایسا اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے ، جیسا کسی مصور کو رنگوں کی مدد سے سادہ کینوس پر ایک اچھوتی تصویر بنا کر ہوتا ہے یا ایک طبیب کو اپنی بہترین تشخیص کی بدولت یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ زیر علاج مریض کی ڈوبتی ہوئی نبض میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ظاہر ہے یہ مسرت ہر ایک استاد کے حصہ میں نہیں آسکتی ، اس مسرت کے حصول کے خاطر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح جانتا ہو، اس لئے یہ کہنا بجا ہی ہے کہ سیکھنا اور سکھانا لازم و ملزوم ہیں، ہر اچھا استاد ہر سال ہر مہینے ؛ بلکہ اگر ممکن ہو تو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ نئی باتیں ضرور سیکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ہر وقت ندرت اور جدت کا سرچشمہ نہیں بن سکتے لیکن ایک استاد کو اپنے مضامین میں اتنا باذوق ضرور ہونا چاہئے کہ وہ ان پر طلبہ سے دلچسپی کے ساتھ گفتگو کر سکے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو طلبہ ذوق وشوق کے باوجود اس مضمون میں ترقی نہیں کر سکیں گے اس لئے ایک استاذ کو اپنے مضمون کی دلچسپی اور قدر و قیمت میں وہی یقین رکھنا چاہئے جو ایک ڈاکٹر تندرستی میں رکھتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ استاذ مضامین کا انتخاب بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کرے، اور تعلیمی پیشہ اختیار کرنے سے پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے مضمون منتخب کرے، اس کے ساتھ ساتھ اسے طلبہ سے ایک قسم کی رغبت ہو وہ طلبہ کو اپنے لئے بوجھ نہ سمجھے ، اس کے سوالوں سے نہ گھبرائے ، بلکہ ان سے محبت کرے، خود کو انکا مد مقابل نہ سمجھے، کوئی بات اس انداز میں نہ کہے جو کسی کو بری لگے ، اس طرح استاذ بڑی حد تک اداروں میں جاری طلبہ کی سرکشانہ روش سے محفوظ رہ سکے گا۔اچھے استاد کو ایک دلچسپ انسان اور بذلہ سنج ہونا چاہئے تعلیم اس طرح دینی چاہئےکہ رٹی رٹائی باتوں کے دہرانے کے بجائے اپنی بصیرت افروز باتوں کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے ،وہ اگر سوالات کریں تو انکو معقول جواب دیا جائے تا کہ ان کے ذہنوں میں کوئی نئی بات سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔ استاد کا حافظہ قوی ہونا چاہئے ، کمزور حافظہ کا استاد مضحکہ خیز بھی ہوتا ہے، اور خطرناک بھی، دوسری چیز قوت ارادی ہے، اچھے استاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ارادے بالکل اٹل ہوں۔تعلیم کے لئے استاذ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اول یہ کہ اپنے مضمون کو خوب اچھی طرح تیار کرے، دوم یہ کہ طلبہ کے سامنے اچھی طرح بیان کر سکے اور انہیں ذہن نشیں کرا سکے سوم یہ کہ یہ اطمینان کرلے کہ جو اس نے پڑھایا ہے اسے طلبہ نے اچھی طرح یاد کر لیا ہے۔ استاد کو اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ ایک ہمدرد دوست اور مشکلات کودور کرنے والا ساتھی ہے اور مدرسہ کی زندگی طلبہ اور استاد کے مابین مہرومحبت اور شرکت عمل کی زندگی ہے۔یہ سب چیزیں ایک استاذ کے اندر موجود ہونی چاہئیں ، لیکن صرف نصاب کی کتابوں سے یہ چیزیں حاصل نہیں ہو سکتیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق عملی تربیت سے ہے ، اس لیے ایک ایسے مستقل نظام کا ہونا بہت ضروری ہے ، جو مدارس میں تدریس کے لیے تیار کی جارہی اساتذہ کی اگلی کھیپ کو ان بنیادوں پر تیار کر سکے۔

مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی