اسلام کی تاریخ کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا چور

اسلام کی تاریخ کا عجیب و غریب واقعہ

امام جوزی رحمہ اللہ نے شہر انطاکیہ کے مسلمانوں کے مذہبی قاضی کا ایک عجیب وغریب واقعہ نقل کیا ہےکہ قاضی صاحب ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نےقاضی صاحب کو پکڑ لیا۔چور نے کہا کہ جو کچھ مال آپ کے پاس ہے میرے حوالے کردیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔قاضی صاحب نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے ۔ میں عالم آدمی ہوں اور اسلام میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ میںشہرکا قاضی بھی ہوں لہذا مجھ پر رحم کردواورمجھے معاف کردو۔چور نےبڑی شان سےحیرت انگیز انداز میں کہا :الحمدللہ !اللہ نےآج ایک ایسے شخص کو میرے قابو میں کیا ہے کہ اگرمیں اس کو لوٹ بھی لوں تو شہر واپس جاکر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہےاسے کمی نہیں ہوگی ۔شاید قاضی صاحب کو بھی معلوم تھا کہ چور نے حدیث بھی پڑھی ہے ،قاضی صاحب نے کہا :خدا کے بندے تو نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں سنی کہ اسلام وہ دین ہے کہ جس کو اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اورمذہب اسلام میں سنت وہی ہے جو میرا طریقہ ہے۔ پس جس نے میرا طریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت۔واہ عجب چور کی غضب گفتگو،چور نےبڑے اسٹایل میں کہا :میری جان! یہ حدیث مرسل ہے (جو شوافع کے ہاں حجت نہیں ) اور بالفرض اس حدیث کو درست بھی مان لیا جایئے تو آپ کا اس چور کے بارے میں کیا خیال ہے جو بالکل نادار ہو فاقوں نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دئے ہو ں اور ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرا نہ ہو؟،ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپ کا مال مذہب اسلام کے اعتبار سے بالکل پاک و حلال ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا کہ دنیا اگر محض خون ہوتی تو مومن کا اس میں سے کھانا حلال ہوتا،نیز عالم اسلام کےعلما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کو اپنے یا اپنے خاندان کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال سے فایدہ اٹھانا حلال اور جایز ہے۔اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزررہا ہوںکہتے ہویےدھمکی آمیز انداز میں قاضی صاحب سے کہا کہ شرافت سے سارا مال جو آپ کے پاس ہےمیرے حوالے کردو۔قاضی صاحب نے کہا :اچھا ٹھیک ہے اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو مجھےایک موقع دو کہ میں اپنے کھیتوں میں جاکر وہاں سے کچھ مال جو میرے غلام و خادم نے آج اناج بیچ کرحاصل کیا ہوگا اس میں سےکچھ لیکر واپس آکر آپ کے حوالے کردیتا ہوں ۔چور نے کہا :ہرگز نہیں، ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس نہیں لوٹیں گے،یہ تو پکی بات ہے،میں آپ پر کیسے بھروسہ کرلوں جب کہ آپ ابھی میرے ہاتھوں مجبور ہیں۔قاضی صاحب نے کہا: میں آپ کو قسم دینے کو تیار ہوں کہ ان شاءاللہ میں نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے اسے پورا کروں گا۔
چور نے اتراتے ہویےکہا :سن میری جان !مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نےعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ :یمین المکرہ لاتلزم(یعنی جو انسان مجبور ہوتا ہے اس کی قسم کا اعتبار نہیں کیا جاتا ہے)اس حدیث کی روشنی میں میں آپ کی قسم پر کیسےاعتبار کرلوں ویسے بھی مجبوری کی حالت میں جب کلمہ کفر بولنے کی اجازت ہے تو جھوٹی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے(واہ کیا چور تھا دلیل نقلی سند کے ساتھ بحث کرنے والے اس زمانے کے چور ہوتے تھے ،اللہ اکبر!) ۔اس لیےفضول بک بک کرنے سے پرہیز کریں اور جوکچھ ہے آپ کے پاس میرے حوالے کردیں۔قاضی صاحب اس پر لاجواب ہوگیا اور اپنی سواری ،مال کپڑے سوائے پا جا مے کے اس کے حوالے کردیا۔چور نے کہا:پاجامہ بھی اتار کر دیں۔

قاضی صاحب نے کہا :اللہ کے بندے نماز کا وقت ہوچکا ہے ۔اور بغیر کپڑوں کے نماز جائز نہیں ،پاجامہ حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔چور نےاپنا سینہ ٹھونک کر کہا: اس کا آپ غم نہ کریں کیونکہ ننگے حالت میں آپ کی نماز بالکل درست ہے،(لگتا ہے وہ چور پورا دورہٴ حدیث کر کے چوری کرنے بھڑا تھا)اس لیے کہ مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے کہ :العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم (ننگے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کا امام بیچ میں کھڑا ہو)،نیز امام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پر نظر نہ پڑے۔جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں ۔اور ستر پر نظر پڑنے والی جو روایت آپ نے سنائی اول تو وہ سندکے اعتبار سےدرست نہیں اگر مان بھی لیں تو وہ حدیث اس پر محمول ہے کہ کسی کے ستر کو شہوت کی نگاہ سے دیکھاجائے۔ اور فی الوقت ایسی حالت نہیں اور آپ تو کسی صورت میں بھی گناہ گار نہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ہے خود بے پردہ نہیں ہورہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کررہا ہوں ۔لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہاہوں اس پر عمل کریں۔اس مجتہدالمطلق مفتی اعظم محدث کبیر چورکی بات سن کر قاضی صاحب نے کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے ہم تو جھگ ماررہے ہیں ۔ جو کچھ تجھے چاہئے لے پکڑ لاحول ولاقوۃالاباللہ ۔اور یوں چور سب کچھ لیکر فرار ہوگیا۔

مذہب اسلام Blog

Apne Dimagh Me Hi Upload Karna Sab se Bari Kamyabi hai.

4 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی