انسانی کــــتےیا کتا نما انسان
کیا آپ نے اس نسل کے کتوں کا مشاہدہ کیا ہے ؟ جو کتا نما انسان یا انسان نما کتے کے قبیل سے ہوں،اگر نہیں تو آءیے ہم آپ کو ایسے کتوں سے متعارف کرواتے ہیں جو انسان کے بجاے کتے بن کر رہنا پسند کرتے ہیں جی ہاں ہم نے جو کبھی گمان نہیں کیا تھا آج شوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں ایسے کتوں سے متعارف کرادیا گیا،کچھ عرصے سے ٹرانس جینڈر کا مسلہ اٹھا اس کے بعد ہم جنس پرستی نے سر ابھارا،ہم جنس پرستی سے بھی سکون نہ ملا تو اب انسان اپنی ہیت ہی بدلنے پر تیارہوچکا ہے فی الحال "ہیومین ڈوگز" (انسان نما کتے جسے آپ مصنوعی کتا بھی کہہ سکتے ہیں ) کا بڑا چرچا ہے۔ یہ دراصل انسان ہی ہیں جو اپنے کو کتے کی طرح دکھنا ہی نہیں بلکہ کتے کی شباہت اختیار کرنا پسند کرتے ہیں اور ایسے لاکھوں کی تعداد میں انسان ہیں جنہوں نے اپنے چہرے اپنی زبان کی مکمل سرجری کرواکر کتے کی شکل اختیار کر لی ہے کتے کی طرح رہنا ، کتے کی طرح ہگنا ، کتے کی طرح ٹانگ اٹھا کر موتنا ، کتے کی طرح کھانا ،اپنی تمام حرکات و سکنات کو بہ تکلف کتے کی طرح بنالیا ہے ،انہوں نے اپنے لئے الگ جھنڈا تیار کر لیا ہے۔ کتے کو چونکہ ہڈی چاہئے، اس لئے اس جھنڈے کے وسط میں بھی بڑی ہڈی کی تصویر ہے، جسے آپ شوشل میڈیا پر پھیلے ہوے ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایسا پہلے پہل یورپ میں دیکھنے کو ملا تھا لیکن اب یورپ کے بعد کینیڈا میں انسانی کتے جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں لگتا ہے کہ وہ اصل میں انسان نہیں، کتے ہیں ماں کے پیٹ سے نہیں بلکہ انسانی آزاد کتیا کے پیٹ سے جنم لیا تھاانہیں جنم لینے کے بعد احساس ہوا کہ ہم تو انسان نہیں ہو سکتے ہیں ہمیں تو کتا ہونا چاہیے لہذا کتوں کی طرح ہی رہتے ہیں۔ چہرے پر کتے والا ماسک، پیچھے دم، زبان باہر کی طرف بالکل کتے کی طرح نکلی ہوئی، گلے میں پٹۤا، کتوں کی طرح کھانا پینا، بھونکنا اور غرانا اور وہی رہن سہن۔یہ ان کی اپنی آزادی ہے جیسے چاہیں جس طرح چاہیں جی لیں یہ چند روزہ زندگی ان کے باپ کی جاگیر جو ہے۔عجیب بات ہے کہ مگربی ممالک میں کویی اس موضوع پر سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ آخر ایک انسان کتے کی طرح رہنا کیوں اور کیسے پسند کر سکتا ہے۔
ٹورنٹو سے ایک ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اب پبلک بسوں میں سفر کرتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا کہ کسی وقت بھی انسانی کتا آپ پر بھونک سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ آپ کو کاٹ بھی لے۔ماضی میں کسی بھی دن کا بدلہ وصولنے کے لیے وہ کتا آپ پر چڑھایی بھی کر سکتا ہے اس لئے احتیاط کیا کیجئے۔ اب اس قبیل کے جانوروں کا مطالبہ ہے کہ ان کیلئے بھی پبلک ٹرانسپورٹس میں کتوں والی الگ سیٹیں رکھی جائیں، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ عام سیٹوں میں انسانوں کی طرح بیٹھنا ان کی توہین ہے۔ ایسے جانوروں کی تعداد صرف برطانیہ میں 10 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ حیرت کی بات کہ بیشتر ایسے انسانی کتے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان میں کتے بھی ہیں اور کتیاں بھی۔ حد تو یہ ہے کہ برطانیہ کی لندن پولیس نے ایسے ہی دو کتوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ انہیں پولیس میں بطور کھوجی کتے کے طور پر بھرتی کیا جا چکا ہے۔ چند روز قبل ہی ان کی تصویر وائرل ہوئی تھی کہ دو پولیس والے انہیں زنجیروں سے پکڑ کر کسی ملزم کو تلاش کر رہے تھے۔ یہ ہے وہ آزادی جو یورپی تہذیب کا تحفہ ہے۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کویی جنگل کے درندوں میں نہیں
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
یورپی تہذیب اپنے آپ کو دراصل سب سے زیادہ ترقی یافتہ سب سے زیادہ مہذب اور سب سے زیادہ آزاد خیال جانتا ہے،ان کا اصل مقصد ہے نفس کو جس سے سکون ملے ہر وہ کام ان کے نزدیک جایز کے درجے میں ہے،آزادی کے نام پر عریانیت کی ابتدا سے لے کر کتے کی شباہت تک کے سفر پر بغور جایزہ لیا جاے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب نے اتنا لمبا سفر بس نفس کے سکون اور راحت کے لیے کیا ہے چاہے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہوں لیکن سرسری جایزہ سے ہم اسی نتیجے تک پہونچ سکتے ہیں کہ انسان جب خدایی تہذیب چھوڑ کر انسانی تہذیب اختیا کرتا ہے تو ایسی تہذیب اور معاشرہ کا انجام یہی ہوتا ہے آج تو ہم نے یہ دیکھا اور سنا کہ انسان کتے بن رہے ہیں کل کو شاید یہ خبر بھی مل جایے کہ انسان اب سور بننے کی تیاری کر رہا ہے اللہ حفاظت فرماے ایسی تہذیب سے۔
جہاں تک جنس کی تبدیلی کا مسلہ ہے وہ تو ویسے بھی شریعت نے بلاضرورت شدیدہ جنس کی تبدیلی تو درکنار عورتوں کی شباہت اختیا کرنے سے منع فرمایا ہے ایک موقع پر بیٹھنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ کتے کی طرح مت بیٹھا کرو ،اندازہ شارع علیہ السلام کا فرمان کہ کتے کی شباہت اختیا کرنے سے منع فرمارہے ہیں اگر کویی انسان اپنی ہیت اصلی کو بدل کر کتے ہی کی طرح کرلے تو اسے کیا نام دیں گے۔
ویسے اصلی کتے اور انسانی کتے میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ یہ فرق آگے چل کر مٹ جاے اور پہچاننا مشکل ہو جایے کہ کون اصلی اور کون انسانی کتا ہے ویسے کچھ اصلی کتے ہیں جو مجھے بھی پہچانتے ہیں آپ کو یاد ہوگا پچھلے سال پندرہ اگست کے موقع سے ایک اصلی کتا میری چپل چرا کر بھاگ گیا تھا جو مبنی بر حقیقت تھا آپ اگر اسے پڑھنا چاہیں یہاں کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں
بہرحال میں کہہ رہا تھا کہ کتے کچھ میرے علاقے میں ایسے ہیں جو مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں اور مجھ پر نظر بھی رکھتے چوں کہ ان کی میں نے کیی بار خاطر خواہ تواضع بھی کی تھی آپ جامع انور شاہ کے راستے دارالعلوم وقف کی طرف آییں گے تو زم زم نام کے ایک ہوٹل سے پہلے ایک دوکان ہے جس کا شٹر ہمیشہ بند پڑا رہتا ہے اس جگہ کو دیوبند کے تمام کتوں نے اپنا اسٹیشن بنایا ہوا ہے شام ہوتے ہی سارے کتے ایک لاین سے آرام فرمانے لگتے ہیں چھوٹی سی لمبی جگہ ہے بالکل دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو کر سو جاتے ہیں کل رات جب میں وہاں سے گذرا تو خیا ل آیا کہ ان بیچاروں کا زیادہ حق ہے یوروپی کتوں کے مقابلے میں کہ دنیا کو ان کا تعارف کرایا جاءے ان کی پہچان عام ہو ویسے بھی کچھ کتوں نے شکایت درج کرایی ہے کہ ہماری نسل میں کچھ ڈبلی کیٹ کتے داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ان سے ہماری نسل کو بچانے کا اہتمام کیا جاے یہ وہ اوریجنل کتے تھے جن کا معاشرے میں کویی وقار نہیں ایک مغرب کے انسانی کتے ہیں جو اپنے علاقے کے بڑے بڑے عہدوں پر بھی فایز ہیں ان کے بینک کھاتے ہیں ان کے نام کی زمینیں رجسٹرڈ ہیں اور ہمارے علاقے کے کتوں کے نام سواے لاٹھی ڈنڈے کے اور کچھ نہیں۔