عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۴

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6
میں پلاسٹک کا ایک پائپ نظر آ رہا تھا جس میں پانی آ رہا تھا کموڈ میں ایک بالٹی رکھی گئی تھی دروازے میں اندر کیطرف چٹکنی نہیں تھی کہ بند کیا جا سکے ۔ بیت الخلاء کے بائیں اور دائیں جانب دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ، ہر کمرے میں دو دروازے نصب تھے ، با ہرلگا ہوا گیٹ لکڑی کا تھا جس میں دائرے کے شکل میں سوراخ تھا جو باہر سے گھومنے والے لکڑی کے ذریعے بند اور کھولا جاتا تھا کمروں کے اندرونی طرف سیاہ رنگ کے لوہے کے مضبوط دروازے تھے جس سے معلوم ہورہا تھا کہ یہ آئی ایس آئی کے عقوبت خانے ہیں ۔ یہ کمرے اتنے تنگ اور چھوٹے تھے کہ ایک انسان اپنے پاؤں کو نہ پھیلا سکے کمروں کی چھتیں بہت او نچی تھیں ، چھت میں بجلی کا ایک بلب لگا ہوا تھا جس کے بٹن کمرے سے باہر تھے کبھی کبھار ان کمروں میں پڑے ہوئے قیدیوں کو ذہنی اذیت دینے کی خاطر ان بلبوں کو بجھادیتے جس میں دن اور رات کا فرق نہیں ہوسکتا تھا کمرے سیم زدہ تھے ان میں گندا اور پھٹا ہوا برائے نام بستر اور سر ہانه بچھایا گیا تھا جن میں سے گندی بدبو نکل کر کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ، جو انسان تو کیا جانوروں کے رہنے کیلئے بھی مناسب نہ تھے ۔ کمرے کے اوپر دیوار میں ایک فٹ آ ہنی جالیاں تھیں جن میں سے گاڑیوں اور آرمی سٹیڈیم کے تماشائیوں کی آوازیں سنی جاتی تھی ۔ ایک اونچی جگہ پر قیدیوں کی نگرانی کیلئے ایک خفیہ کیمرے کا سٹینڈ لگایا گیا تھا ۔ ہمیں مختلف کمروں میں بند کر دیا گیا ۔ ہماری جیبوں کی تلاشی لی گئی جیب میں موجود تمام رقم کاغذ اور قلم ہم سے لے لئے گئے ہر کمرہ میں رفع حاجت کیلئے رنگ و روغن کے ڈبےرکھے ہوئے تھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی نہیں تھی چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار بیت الخلاء جانے کی اجازت تھی کھانے پینے میں بہت احتیاط کرتے تھے کیوں کہ رفع حاجت کیلئے جگہ نہیں تھی ایک مرتبہ وضو کرنے کے بعد باقی نماز بھی اسی وضو پرادا کر نا پڑ تی اگر بجلی نہ ہوتی تو دن رات کا فرق بھی نہ ہوتا تھا مکمل دو ماہ اور بیس دن ہمیں کمرے میں رکھدیاگیا سورج کی روشنی ہمیں نصیب  نہ ہوئی اور نہ ہی باہر کی ہوا،تر کاری بھی وہی ملتی تھی جو ان سے بچ جاتی روٹی بھی جلی ہوئی ملتی تھی جو کھانے کے قابل تھیں میں روٹی کے جلے ہوئے حصوں کو الگ کرتا ایک دن پنجابی محافظ نے مجھ پر غصہ کیا اور کہا کہ کیوں ایسا کرتے ہو ؟ جیسا بھی ہو کھاؤ اکثر اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ہمیں صرف وہی ہڈیاں دیدی گئی جن میں سے گوشت دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا گیا تھا ۔ آئی ایس آئی کی اس جیل کے تمام

باور چی اور چوکیدار پنجابی تھے ۔ ہم نے اس جیل میں تقریبا تین ماہ گذارے اور ہمیں ایک پختون بھی نظر نہ آیا ماسوائے ایک پختون کرنل جو ہمارے گھر بھی آیا تھا ۔ وہ ہمارے پاس آیا اس نے ہمیں جیل کے پہلے دروازے سے اندر کیطرف ایک ایک کر کے داخل کیا اور تصویری کھینچی. پوچھ گچھ کے بعد ہم سے کہا کیا تمہاری کسی سے دشمنی تو نہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ہماری دشمنی تمہارے حلقہ بگوش غلاموں افغانی جماعة الدعوة کے سربراہوں ملا سمیع اللہ ، حاجی روح الله ، ولی اللہ اور حیات اللہ سے ہے جو حقیقت میں سب کے سب اعداء اللہ ہیں جس وقت میں نے حیات اللہ کا نام لیا تو اس نے کہا وہ شرابی اور زنا کا رحیات اللہ ! " میں نے کہا ہاں وہی ، اس نے کہا وہ تو قتل کے قابل ہے پھر اشاروں اور کنایوں سے مجھے سمجھایا اور چند دن بعد اس کے اسناد اور شواہد بھی مجھے دکھائے اور کہا کہ آپ کی بات صحیح ہے یہی لوگ ہیں ، انہوں نے افغانستان میں ہمارے لئے کچھ کام کئے ہیں لہذا کچھ دو اور کچھ لو کے حساب سے ہمیں بھی ان کیلئے کام کرنا ہوگا اس نے مجھے کہا کہ ہم بے بس ہیں سارے اختیارات اسلام آباد کے ہاتھ میں ہے ۔ افغانی جماعة الدعوة کے یہ اشخاص ہمارے افسروں کو شراب اور لڑکیاں سپلائی کرتے ہیں اسی وجہ سے وہ ان کی باتوں کو مانتے ہیں " ۔ ہمارے کمرے کے قریب دوسرے کمرے میں دو عرب باشندے قید تھے میں نے انہیں واش روم جاتے وقت دیکھا تھا انہیں ہم سے کچھ دن بعد لا یا گیا تھا اور اسی کمرے میں بند کیا تھا جہاں میرے بھائی سید محمد اور عبدالحلیم ہمت کو بند رکھا تھا عشاء کے وقت کچھ افراد نے ہمارے ہاتھوں کو باندھ کر آنکھوں پر پٹیاں لگادی ، ہر قیدی کو الگ گاڑی میں بیٹھا کر سڑک کے اس پار دفتر لے گئے ، جب مجھے دفتر کے پہلے کمرے میں داخل کردیا تو میری آنکھوں سے پٹیاں ہٹادی میں کیا دیکھتا ہوں کہ تین امریکی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ و ہ گنجا پنجابی کرنل بھی موجود ہے جو ہمیں پکڑنے کیلئے ہمارے گھر آیا تھا ۔ پہلے ایک امریکی نے میر ی مختلف انداز میں تصور یں کھینچی اس کے بعد ہاتھوں کی تمام انگلیوں اور ہتھیلیوں کے نشان سیاہ رنگ میں سفید کاغذ پر لگادیے ، پھر مجھے باتھ روم لیجایا گیا ۔ وہاں ہاتھ دھونے کے بعد واپس اسی کمرے میں لے آئے ۔ مجھے کرسی پر بٹھایا میرے دائیں جانب پنجابی کرنل سامنے اور بائیں جانب امریکی بیٹھ گئے ۔ مجھ سے شخصی تعارف کے بارے میں سوالات کئے ، اسم تخلص ، والد کا نام دادا کا نام اور شادی کے

بارے میں پوچھا اس کے علاوہ یہ بھی پوچھا کہ میں کتنی زبانوں کو جانتا ہوں اور کون کونسے کام میں نے کئے ہیں میں نے سب کچھ کہہ یا اور انہوں نے لکھد یا ایک داڑھی والا پختون بھی پنجابی کرنل کے قریب بیٹھا ہوا تھا اور اس کے لہجے سے معلوم ہورہا تھا کے کوہاٹ کا رہنے والا ہے ۔ پھر اس نے اپنا نام طارق ظاہر کیا ۔ یہ دونوں ترجمانی کیلئے بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب پنجابی کو معلوم ہوا کہ میں اردو میں بھی بات کرسکتا ہوں تو پختون کو کمرے سے جانے کو کہا اور وہ چلا گیا ۔ پھر وہ ہمارے قریب نہ آیا ۔ پہلے دو دنوں میں پنجابی کرنل نے اس پر غصہ بھی کیا اور کہا کہ تم صحیح ترجمانی نہیں کرتے ہو بیچارہ بے اختیار پختون اس کے سامنے خاموش ہو گیا میں اتنا جان گیا کہ گنجے پنجابی کرنل نے کئی بار غلط ترجمانی کی اور اپنی طرف سے باتیں شامل کیں ۔ امریکی تحقیق کا ر عمر رسیدہ تھا جن کی عمر تقریبا ستر سال کے لگ بھگ تھی اس کے دو اور ساتھی اس کے بنسبت جوان تھے ۔ ان کے پاس ایک کارٹن بھی تھا جس میں ان کے ضرورت کا سامان پڑا ہوا تھا مختصر یہ کہ انہوں نے میرے بڑے بھائی سید محمد اور عید الحلیم ہمت سے پوچھ گچھ کی تھی میری متعلق بھی ان سے دریافت کیا تھا جو بعد میں مجھے معلوم ہوا ، امریکی تحقیق کاروں نے چار پانچ دنوں میں رات کے وقت کئی کئی بار ہم سے پوچھ گچھ کی ایک رات مجھے دو بارتحقیق کیلئے بلایا انہوں نے جو سوالات ہم سے کئے ان کا خلاصہ یوں ہے ۔ انہوں نے ہمیں کہا : نہ ہم نے آپ کو پکڑا ہے اور نہ ہی ہم نے ان آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو کہا ہے کہ تمہیں پکڑیں انہوں نے خود آپ کو پکڑ کر ہمارے حوالے کیا ہے کہ ہم نے دہشت گرد پکڑے ہیں آئیں اور ان سے پوچھ گچھ کر یں اور اپنے ساتھ لے جائیں ۔ پھر ایک کارڈ اپنے جیب سے نکالا جس میں مولوی سمیع اللہ کی ، حاجی روح الله ، حاجی حیات الله اور حاجی ولی اللہ کے نام درج تھے حاجی ولی اللہ کے نام کوصحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتا کئی بار " دولا دولا کہ کر بالاخر صحیح تلفظ کیا مجھ سے پوچھا کہ ان لوگوں کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں یہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں ، انھی کے ذریعے تمہارے خفیہ ہاتھوں میں آئے ہیں ہمیں پکڑنے والے یہی لوگ ہیں ۔ پنجابی کرنل پر میری یہ بات اچھی نہیں لگی اور میری باتوں کی غلط تر جمانی کی . پھر مجھے بتایا کہ ایسا مت کہولیکن میں نے اس کی بات نہ مانی امر یکی تفتیش کرنے والے کے ساتھ دو بار امریکی عورتیں بھی آئی تھی ایک جوان سال اور دوبلےپتلے جسم کی مالک تھی اور دوسری عمر رسیدہ اور بہت موٹی تھی ۔ امریکی تفتیشی افسر کے سوالات اور میرے جوابات درج ذیل ہیں ۔ 
امریکی : اسامہ بن لادن کو جانتے ہو ؟

مسلم ووست : جی ہاں اس کی پہچان تو آپ لوگوں نے ہمیں کروائی ہے ۔ اب اس کو بچے اور دیوا نے بھی جانتے ہیں ۔ 
امریکی : کیا تو نے اسے دیکھا ہے ؟ 
مسلم دوست : نہیں میں نے نہیں دیکھا ہے اگر دیکھا بھی ہوتا تو اس کا دیکھنا کوئی جرم نہیں اور میں ضرور کہتا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے میں چاہتا تھا کہ اسے دیکھوں لیکن ابھی تک کامیاب نہ ہو سکا ۔ 
امریکی عورت نے چاہا کہ میں اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں تا کہ وہ میری جرات کو آزما سکے وہ غصہ کے لہجے میں کہنے لگی تم نے اسامہ کو ضرور دیکھا ہے میں نے کہا آپ کے پاس کیا دلیل ہے ؟ کچھ تکرار کے بعد و ہ شرمندہ ہوگئی اور اپنی آنکھیں نیچی کر لی ۔
 اسامہ کیسا آدی ہے ؟
 مسلم دوست : میں نہیں جانتا کہ وہ کیسا ہے کیوں کہ جب میں نے اسے دیکھا نہیں تو میں کیسے اس کے بارے میں اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہوں ۔ 
کیا تم نیو یارک ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بارے میں جانتے ہو ؟ 
مسلم دوست : جی ہاں وائس آف امریکہ کے ریڈیو سے سن چکا ہوں ۔ جب تم نے حملے کی خبرسن لی تم خوش ہو ئے یا غمگین ؟
 مسلم دوست: پر فیصلہ کرناا بھی تا ہنوزمشکل ہے کیوں کہ ہمیں پتہ نہیں کہ یہ حملہ کس نے کس پر کیا ہے اور کیوں کیا ہے ؟
 امریکی : امریکیوں سے متعلق کیا کہتے ہو ؟
 مسلم دوست: میں امریکا گیا ہی نہیں ۔ 
امریکی : کیا کسی خفیہ ادارے کے ساتھ کام کیا ہے ؟
مسلم دوست : نہیں
 امریکی : کو نسے ہتھیار کااستعمال جانتے ہو ؟
 مسلم دوست : بندوق اور پستول کا استعال ۔ 
امریکی : کیا آپ نے جہاد میں حصہ لیا ہے ؟

مسلم دوست : ہاں .
 امریکی ۔ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی نے تمہارے گھر کی نگرانی کر کے یہ معلومات حاصل کر لی ہے کہ تمہارے گھر میں ان دنوں ز یا دہ مہمان آتے ہیں کیا صحیح ہے ؟ 
مسلم ووست : صرف ان دنوں نہیں بلکہ ہر وقت ہمارے مسلمان خصو صاہر افغان کے گھر میں زیادہ مهمان آتے ہیں ہم اپنے مہمانوں کی حتی المقدور عزت کرتے ہیں اور انہیں اپنے گھر سے نہیں نکالتے ۔ 
ہمیں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے خلاف تمہارے گھر میں مشورے ہوتے تھے ؟ 
مسلم دوست : یہ بات غلط اور من گھڑت ہے ۔
 امریکی : کیا تمہارے گھر عرب باشندے آتے تھے ؟ 
مسلم دوست : پہلے آتے تھے لیکن اب نہیں آئے ہیں ۔ امریکی ۔ کیا القاعدے کے کارکن آپ کے گھر آئے ہیں ۔ مسلم دوست میں القاعدہ کے کارکن کونہیں جانتا ۔ ہمارے گھر صرف وہ عرب آتے تھے جو امدادی اداروں میں کام کرتے تھے یاکسی تعلیمی اداروں میں استاد تھے ۔ 
امریکی : یہ لوگ کیوں آپ کے گھر آتے تھے ؟ 
مسلم دوست : کتابوں کے مطالعہ مسائل پوچھنے اور عربی قواعد نحو اور صرف کے جاننے کیلئے
 ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ تمہاری ایک بڑی لائبریری بھی ہے ؟ 
مسلم ووست : ہاں یہ خبر ٹھیک ہے ۔
 امریکی : یہ لائبریری تم نے کس مقصد کیلئے قائم کیا ہے ؟ 
مسلم دوست : مطالعہ کے علاوہ اور کیا مقصد ہوسکتا ہے ؟ 
اتنی زیادہ کتابوں پر کیا کرتے ہو ؟
 مسلم ووست : میں مطالعے کا شائق ہوں ، لائبریری کا اس کے علاوہ اور کیا مقتفید ہو سکتا ہے ، کیا لائبریری قائم کرنا اور کتابیں رکھنا جرم ہے ؟
 امریکی : نہیں جرم تو نہیں لیکن کیا یہ کتابیں زیادہ نہیں ؟

مسلم دوست: میں چاہتا ہوں کے اور کتابیں بھی خریدوں لائبریری کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے ۔
 تمہاری لائبریری میں کون کون سی کتابیں ہیں ؟
 مسلم ووست : ہمارے پاس تفسیر احادیث فقہ ، اصول اور ادبی کتابیں ہیں ۔ 
کیا تمہارے گھر میں ہتھیار تھا ؟
 مسلم دوست : ہمارے گھر میں دو پستول تھے جو تمہارے کٹھ پتلیوں نے ہم سے چھین لئے ہیں ۔
 امریکی : کیا تمہارے گھر میں اس کے علا وہ دوسر ے ہتھیار ، ٹی وی اور سیٹلائٹ فون تھا ؟
 مسلم ووست : میں نے تر جمان کو اشارہ کر کے کہا کہ ان لوگوں نے ہمارے گھر کی تلاشی لی ہے اور ایک ایک انچ کے برابر جگہ بھی تلاشی کے بغیر نہیں چھوڑی ، ان ہی سے پوچھو کہ یہ چیز یں ملی بھی ہیں یا نہیں ؟ امریکی تفتیشی افسر نے آئی ایس آئی کے تر جمان سے پوچھا کہ کیا تمہیں یہ چیز نہیں ملی ہیں ؟ 
اس نے کہا نہیں یہ چیز یں نہیں تھیں ۔
 تم کیوں پکڑے گئے ؟
 مسلم دوست : ہم پاکستانی انٹیلی جینس کی کٹھ پتلیوں افغانی جماعة الدعوة کے سرکردہ رہنماؤں سمیع اللہ کی حاجی روح الله ، حا جی حیات اللہ اور حاجی ولی اللہ کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں . انہوں نے آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے سے غلط فائدہ اٹھایا اور ہمیں پکڑوایا ہم نے تو کسی سے درخواست نہیں کی ہے کہ ہمیں پکڑیں ۔ ان سے پوچھو کہ ہمیں کیوں پکڑا ہے ؟ امریکی نے ان سے پوچھا کہ ان لوگوں کو تم نے کیوں پکڑا ہے ؟ ترجمان نے کہا کہ انہوں نے اخبارات میں امریکہ کے خلاف مضامین لکھے ہیں کلنٹن کو قتل کرنے کیلئے پانچ ملین افغانی انعام دینے کا اعلان کیا ہے ۔ 
امریکی : کیا تم نے یہ کام کیا ہے ؟ 
مسلم دوست : ہاں پانچ ملین افغانی سے اس وقت ایک سو تیرہ ڈالر بنتے ہیں دراصل کلنٹن ، امریکی سیاست اور افغانی روپیہ پر ایک طنز ہے جو ایک کارٹون کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ کا صحافت کے میدان میں آزاد ہے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ، بے گناہ عوام کوقتل کیا اور بے حساب گھروں کو مسمار کر دیا لہذا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ تم پر طنز کریں اور اپنا قلم استعمال Page 3

کریں ۔
 امریکی نے مجھے کہا کہ یہ تمہارا حق ہے ہم اخباری مخالفت پرکسی کو نہیں پکڑتے اور نہ ہی قانوں اس کی اجازت دیتا ہے ۔ ہمارے اپنے صحافی بھی سیاست دانوں اور حکومت پر طنز اور تنقید کرتے ہیں ، اس طرح کے لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں ہم ان سب کو تو نہیں پکڑ سکتے ۔ اس کے بعد امریکی کمرے سے باہر چلے گئے اور باہم مشورہ کرنے لگے مگر ہمیں پتہ نہ چلا کہ کیا کہا ؟ ایک بار تر جمان کو موبائل فون پر کال آئی وہ باہر نکل گیا ، اس وقت ایک امریکی نے جلدی میں مجھے سے عربی میں بات شروع کی میں نے بھی عربی بولی اور اس کی باتوں کا جواب دیا ۔ امریکی چاہتا تھا کہ یہ باتیں طول پکڑیں لیکن تر جمان واپس آیا جب اس نے دیکھا کہ امریکی میرے ساتھ عربی میں بول رہا ہے تو وہ بہت پریشان ہو گیا کیوں کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ ہم نے کیا کہا امریکی مجھ سے مذکورہ بالا مربع خبیثہ کے بارے میں سوالات کررہے تھے لیکن معلوم تھا کہ اسے آئی ایس آئی سے چھپاتے تھے اس نے مجھ سے پوچھا تم کیسے جان گئے کہ امریکی عربی بول سکتا ہے ؟ ہم جان گئے کہ انکا بھی آپس میں اعتماد نہیں پھر امریکی نے بات کاٹتے ہوئے انگریزی میں پوچھا
 امریکی : کیا تم ماضی قریب میں جلال آباد گئے ہو ؟ مسلم دوست : ہاں گیا ہوں .
 کب ؟ 
مسلم دوست : جلال آباد کے سقوط سے ایک دن پہلے ایسی حالت میں کہ وہاں جنگ جاری تھی اور امریکی جہاز بمباری کرتے تھے تو آپ وہاں کیوں گئے تھے ؟
 مسلم دوست: جلال آباد اور افغانستان ہمارا وطن ہے ، ہم ہر وقت آتے جاتے ہیں ، وہاں ہماری زمینیں اور مکان ہیں نورستان کے قیمتی پتھر کی کانوں میں کام کرتے ہیں ، جلال آباد میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ ہے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے گیا تھا ۔
 امریکی : کیا وہاں تمہارے اور مدارس بھی ہیں ؟
 مسلم دوست : ہاں ، جلال آبادشہر کی اطراف میں کچھ اورمدارس بھی ہیں ۔
امریکی :
کیا طالبان کے رہنماؤں سے ملنے کیلئے بھی کابل گئے ہیں ؟  مسلم دوست : ہاں . 
امریکی : کس کام کیلئے ؟
 مسلم دوست: اس لئے کہ وہ ہمیں افغانستان میں مدر سے اورا سکول قائم کرنے کی اجازت دیں ۔ 
امریکی : پھر کیا ہوا ؟
 مسلم دوست : دو تین دفعہ گئے لیکن کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا ۔
 امریکی : جب تم آخری بار جلال آباد گئے تھے تو آپ کے ساتھ ایک اور ساتھی  کون تھا ؟ 
مسلم دوست: میرے ساتھ کوئی نہیں تھا بلکہ میں اکیلاگیا تھا ۔ 
کیا آپ کے پاس کوئی دستی بکس تھا ؟
 امریکی : کس راستے سے جلال آباد گئے تھے ؟ 
مسلم دوست : طورخم کے راستے سے ۔
 امر یکی ۔ طورخم کو کتنے بجے عبور کیا تھا ۔ 
مسلم ووست : معین وقت مجھے معلوم نہیں اس وقت پنجابی ترجمان نے مجھے کہا کہ ہر چیز سے تو انکار مت کرو پھرامر یکی تفتیشی افسر پر احسان جتلا کر کہا کہ میں نے اسے یہ کہا ۔
 الحمد للہ میں مکمل مطمئن اور بے پروا ایک ایک ٹانگ دوسری پر ڈال کر بیٹھا ہوا تھا لیکن پنجابی گنجا کرنل امریکی کے سامنے غلام کی طرح بیٹھا ہوا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ رکوع کی حالت میں ہے لیکن امریکیوں کی عدم موجودگی میں مجھے کہتا تھا کہ ٹماٹر جھوٹ بول رہا ہے ۔ آئی ایس آئی کے اہلکار امریکیوں سے ڈالر حاصل کرنے کیلئے غلامی کا کردار ادا کررہے تھے لیکن ان کی عدم موجودگی میں انہیں ٹماٹر کہتے تھے ایک بار امریکی کو پیاس لگ گئی پنجانی کرنل نے منرل واٹر سے بھری بوتل فریج سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دی اس نے ایک گھونٹ پانی پی لیا اور بوتل میز پر رکھ دی . جب کچھ دیر بعد دوسری بار پانی پینے کیلئے بوتل کو ہاتھ لگایا تو کرنل نے اسے کہا : نو سر اس پانی سے اور مت پیجئے جلدی اٹھ کر فریج سے دوسری بوتل نکال لایا اور اس کے سامنے رکھدی ، پہلی بوتل کو اٹھا کر تبرک حاصل کرنے کیلئے خود پی لیا ، مجھے

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی