عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۵

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6
اس کی یہ ذلت آمیز حرکت بہت بری معلوم ہوئی شاید امر یکی کوبھی اپنا یہ غلام بہت برا لگا ہوگا میرے خیال میں تو امریکی ایسا کام خود وائٹ ہاؤس میں بھی نہیں کرتے ہیں کہ ایک بوتل سے ایک گھونٹ پی کر دوسرے گھونٹ کیلئے دوسری بوتل لے لیں لیکن یہ چاپلوس اور کم بخت ڈالر حاصل کرنے کی خاطر سب کچھ کرتے ہیں اور ہر کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ 

آئی ایس آئی کے خفیہ سیل اور ڈالرز دہ قیدی

 آئی ایس آئی کے بہت زیادہ خفیہ جیل خانے ہیں ، لیکن شامی روڈ کے قریب جیل میں ہمارے قریب اور بھی قیدی لوگ تھے ۔ ایک بار میرے کمرے کے باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ دوعرب باشندے بالترتیب دروازے کے سامنے سے گذر گئے ، ایک نے میری طرف دیکھا اور اشارتا کہا کہ میرے لئے دعا کرو ، پھر اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے گئے لیکن پتہ نہ چلا کہ کہاں گم ہو گئے کیونکہ میں نے انہیں بگرام جیل ، قندھار اور گوانتانامو جیل میں بھی نہیں دیکھا ۔ ایک اور قیدی تقریبا 13-14سال کا نوجوان تھا ۔ ایک دن میں نے اس لڑکے سے بات چیت کی ۔ یہ لڑکا بنگلہ دیش کا رہنے والا تھا ۔ پاکستان میں بعض بے ضمیر تاجر بنگلہ دیش کے لوگوں کی خراب اور کمزور اقتصادی حالت سے بے جافا ئدہ حاصل کرتے ہیں وہاں سے بنگہ دیشی عورتوں کو بہت کم قیمت پرخریدکر یہاں پاکستان میں عورتوں کی فروخت ہونیوالی خصوصی منڈیوں میں فروخت کر دیتے ہیں ۔ اس لڑکے نے اپنی کہانی یوں بیان کی میری ماں کو پاکستانی تاجر نے بنگلہ دیش میں خرید کر پاکستان منتقل کر دیا چونکہ میں چھوٹا تھا اس لئے میں بھی اپنی ماں کے ساتھ پاکستان کے شہر کراچی آیا ۔ وہاں میری ماں کو ایک پنجابی چوحدھری نے بیس ہزار روپے کے عوض خریدا وہ میری ماں اور مجھے اپنے ساتھ لے گیا . وہ میری ماں کو ایک رکھیل کی طرح استعمال کرتا تھا اور گھر کے تمام مشکل کام میری ماں کرتی تھی میری ماں کی زندگی اجیرن ہوگئی اور میں بھی اپنے ماں کے ساتھ بدبختی کے جال میں پھنس گیا ۔ اگر چہ میری ماں اور میں اس چودھدری کے گھر میں خلوص سے کام کرتے تھے مگر پھر بھی وہ بد بخت ہمیں ہر وقت بری طرح مارتا تھا ۔ یہاں تک کہ پولیس بھی اس چو ہدری کے ساتھ تھی اور ہماری آہ وفر یادنہیں سنتے تھے ایک دن میری ماں تنگ آ کر تھانہ چلی گئی اور پنجابی چوھدری کے خلاف شکایت کی لیکن بجائے اس کے کہ مظلوم عورت کی فریادسنی جائے تھانیدار نے چودھری کو اطلاع کر دی کہ بنگلہ دیشی عورت آپ کے خلاف تھانے میں شکایت کرنے آئی ہے ۔ چوھدری صاحب نے میری ماں کو پکڑ کرٹر یکٹر کے پیچھے باندھا اور دور تک گھسیٹتے رہے جس کے نتیجے میں میری ماں کے بدن پر زخم آئے ہم دونوں انکے کے مظالم سے تنگ آگئے اور موت کو ترجیح دینے لگے جب میں اس عمر تک پہنچ گیا جو آپ مجھے اس وقت دیکھ رہے ہیں تو میری ماں نے مجھے بھاگنے کا مشورہ د یا ، میں وہاں سے بھاگ گیا کسی نے مجھے بتایا کہ اگرتم چودھری سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو افغانستان چلے جاؤ وہاں کے لوگ بہت غیرت مند ہیں وہاں چوہدری کا ہاتھ نہیں پہونچ سکتا ہے ۔ یہاں پاکستان میں جہاں بھی جاؤ گے اسی جگہ سے تمہیں پکڑ کر دوبارہ چوہد ری کے حوالے کر دیا جائے گا جب میں طورخم پہنچا تو یہ لوگ مجھے پکڑ کر یہاں لائے . یہ مجھے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہندوستان کے جا سوس ہو حالانکہ اس لڑکے کی عمر اس قابل نہ تھی کہ اپنے ملک سے دوسرے ملک میں جا کر کسی تیسرے ملک کے لئے جا سوسی کا کام کرے جب آئی ایس آئی کے اہلکار ان کو مارتے تھے تو کبھی کبھار اس کی چیخ میری کانوں میں آتی تھی اس بچے کی زندگی کا افسوسناک واقعہ میرے دل میں ہمیشہ داغ بن کر تازہ رہے گا ۔ اس کے علاوہ چارمزید عرب باشندوں کو بھی یہاں لایا گیا ، دو کو ایک کمرے میں اور دو کو دوسرے کمرے میں بند کردیا ان میں سے بعض زخمی بھی تھے ان چاروں میں سے ایک یمن کا دوسرا سعودی عرب ، تیسرا اور چوتھا تیونس کا تھا ۔ ایک بار مجھے بھی ترجمانی کیلئے ان کے پاس لے گئے تھے ہم سے پہلے انہیں نیلی رنگ کی وردی پہنائی گئی اور کہا گیا کہ تمہیں ایک اچھی جگہ پر روانہ کر دیں گے ان میں سے تین کو تو ہم نے قندھار اور گوانٹانامو کے جیل میں دیکھ لیا مگر سعودی باشند ے کو نہ دیکھا ، اس سے ملنے کیلئے سعودی سفارت خانے سے کئی افراد بھی آئی ایس آئی کے خفیہ سیل آئے تھے ۔ اسے امریکیوں سے بھی خفیہ رکھا گیا تھا ۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اسے خطیر رقم کے بدلے میں سعودی حکومت کے حوالہ کیا گیا ہے ، یہ بات ہمیں ان کے باقی ساتھیوں نے قندھار اور گوانتانامو میں بتائی آئی ایس آئی کے خفیہ سیل میں ایک اور قیدی حاجی ولی محمد صراف تھا جس کو ہمارے ساتھ یکجا با گرام ، قندھار اور گوانتا نا موجیل منتقل کر دیا گیا پھر ہمیں معلوم ہوا کہ حاجی ولی بہت اچھے انسان ہیں اور بے گناہ پکڑا گیا ہے حاجی ولی محمد صوبہ بغلان کا باشندہ اور پشاور کے چوک یادگار میں منی چینجر کا کام کر رہا تھا مگر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسے پکڑ کر امریکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا ۔ حاجی ولی محمد نے بعد میں میں گوانتا نامو میں بتایا کہ جب آئی ایس آئی نے مجھے کپڑ ا تو مجھے راستے میں کہا کہ تم پشاور میں صرافی کا کام کاج کر رہے ہو مگر ہمارا خیال نہیں کرتے جاجی ولی محمد نے کہا کہ میں نے انہیں بتایا کہ میں صرافی کا کام کرتا ہوں نہ کہ ہیرون کا تمہارا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اب مطلب تیری سمجھ میں آجائے گا ۔ کچھ دن بعد صراحتا مجھ سے پسیوں کا مطالبہ کیا لیکن میں نے دینے سے انکار کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے القاعدہ کے نام سے امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا حاجی ولی محمد نے کچھ ایسے افراد کے نام بھی لئے جو آئی ایس آئی کے ایجنٹ تھے ، حاجی صاحب نے مزید کہا کہ میرا ان پرقرض تھا بار بار مطالبے سے تنگ آکر انہوں نے میرے خلاف منصوبہ بنایا اور مجھے گرفتار کر وا یا ایک اور قیدی اردنی تھا میں نے ایکبار اس کی ترجمانی بھی کی تھی وہ عمارتی رنگ کا کام کرتا تھا وہ سیر سیاحت کیلئے نکلا تھا اس کے پاس پاسپورٹ اور ویز ابھی تھا مگر آئی ایس آئی والوں نے اسے بھی پکڑا تھا جو بعد میں بھاری رشوت لے کر رہا کردیا گیا ۔ 

استاد بدرالزمان بدر کی سرگزشت

 جیل میں پہلی رات جو رمضان کا مہینہ تھا سحری کے وقت میری ایک جلی ہوئی چپاتی اور تھوڑے سے سالن سے تواضع کی گئی . اللہ جانتا ہے کہ اسی رات ہمارے گھر والوں نے غم اور پریشانی سے سحری بھی کی ہوگی یانہیں مجھے بھی معلوم نہ ہوا کہ رات کیسے گذری اور سحری کا وقت کیسے پہونچا ؟ فجر کی نماز تیمم کر کے پڑھی رات کی بے خوابی نے مجھ پر غلبہ کیا نیم خوابی کے عالم میں پڑا ہوا تھا کہ میرے کانوں میں آواز گونج اٹھی لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ کیا کر رہے ہیں ۔ کچھ دیر بعد میرے کمرے کا دروازہ بھی کھلا کیا دیکھتاہوں ؟ کہ وہی گنجا پنجابی کرنل جس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارنے کی قیادت کی تھی اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں سفید کاغذ او رقلم بھی تھا ۔ ایک دوسرے اہلکار کو ہدایت دی کہ ہم سے ابتدائی تحقیقات کریں ۔ ابتدائی تحقیقات کے وقت اس کے ساتھ ایک پختون اہلکار بھی تھا جو مجھے اور پنجابی اہلکار کی طرف بار بار دیکھتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ مجھے کوئی بات بتائیں انہوں نے میرے فنگر پرنٹ لئے ابتدائی پوچھ گچھ صرف اتنی تھی کہ اسم ولد یت سکونت قومیت تعلیم پیشہ اور ذمہ داری کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی کیا تھا کہ میں نے پاکستان میں کن کن شہروں کو دیکھا ہے ، باہر کی دنیا میں کون کون سےممالک کا سفر کیا ہے مجھے اس سوال کے بارے میں آخر میں پتہ چلا اور سمجھ گیا کہ اس کاکیا مقصد ہے پورا دن سوچ اور فکر میں گزرا اور رات کی تاریکی چھا گئی عشاء کے بعد میرے کمرے کے قریب کمرے میں صلاح مشورے ہونے لگے کچھ دیر بعد میرے کمرے کا دروازہ کھلا مجھے اٹھا کر پختون کرنل کے سامنے پیش کیا گیا اس نے میری زندگی کے بارے میں چند سوالات کئے پھر القاعدہ اور طالبان کے ساتھ تعلق کے بارے میں پوچھا میں نے نفی میں جواب دیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کا نام کرنل عزیز تھا . وہ چاہتا تو ہمارے ساتھ تعاون کرتا مگر اس کا بھی نوکری پرایمان تھا وہ اللہ سے نہیں اسلام آباد والوں سے ڈرتا تھا ، وہ جن فائلوں پرلکھتا تھا ان پر Top secret ( بہت مخفی  ) الفاظ لکھے گئے تھے ۔ پوچھ گچھ کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ کچھ دن کے بعد اسلام آباد سے کچھ امریکی اہلکار آرہے ہیں وہ بھی تم سے پوچھے چھ کریں گے ۔ کرنل کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کی کسی سے دشمنی یا سیاسی مخالفت ہے ؟ میں نے کہا ہاں تمہارے کٹھ پتلی غلام جماعة الدعوة سے شدید مخالفت ہے ، جماعة الدعوة کے سرکردہ لیڈروں حاجی سمیع اللہ نجیبی ، حابی ولی الله ، حاجی حیات الله ، حاجی روح اللہ اور دیگر اللہ کے دشمنوں نے ہمیں قتل کرنے کی کئی بار کوشش کی ہیں لیکن چونکہ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے لہذا ان کی ساری کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں انہوں نے اس مقصد کیلئے بہت سا روپیہ لگایا ہے اور اب بھی لگارہے ہیں پختون کرنل نے اپنا سر ہلا کر کہا کہ بس اصل بات واضح ہوگئی مسلم دوست صاحب نے مجھے بتایا کہ جب مجھ سے بھی یہی سوال ہوا اور میں نے الله والوں کے تمام نام گننا شروع کئے اور جب حاجی حیات اللہ کے نام پر آیا تو اس نے کہا اچھا و شرابی اور زانی ؟ وہ تو جان سے مارنے کے لائق ہے کرنل صاحب نے قتل کرنے کی بات ہم سے کی لیکن اس کی شکل سے لگتا تھا کہ شراب اور دوسری فحش مجالس میں کرنل صاحب نے خود شرکت کی تھی ۔ بعد میں آئی ایس آئی کے چھوٹے عہد یداروں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ تمہارے مخالفین ہمارے بڑے بڑے افسروں کو لڑکیاں اور شراب سپلائی کرتے ہیں ، پاکستان اور افغانستان میں بھارتی ایجنسیوں کے لئے بہت سی خدمات سرانجام دی ہیں لہذا ضروری ہے کہ ہمارے افسر بھی ان کا کہا مان لیں اور ان کیلئے کام کر یں آئی ایس آئی کے ایک عہدیدار نے ہمیں بھی بتایا کہ حاجی حیات اللہ کے حیات آباد میں ایک فیمیلی لیڈی ڈاکٹر سے بھی ناجائز تعلقات ہیں وہ بہت حسین اور خوبرو ہے اسے ہمارے افسروں کو بھی پیش کرتا ہے ۔ خیر یہ باتیں تو بعد میں تفصیل کے ساتھ آنے والی ہیں اب آیئے میر ی کہانی سنیں ۔
آئی ایس آئی کی ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد خاموشی ہوئی ہم پر ایک پنجابی محافظ متعین تھا وہ ہمیں چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار لیٹر ین میں لے جاتا تھا ایک ہفتہ بعد وہی گنجا پنجابی کرنل ایک اور کرنل کے ساتھ جس نے واسکٹ اور چترالی ٹوپی پہنی ہوئی تھی بظاہر تو پختون نظر آ رہا تھا لیکن پشتو زبان میں بات چیت نہیں کرسکتا تھا ۔ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ تم سے تفتیش کی جارہی ہے ، ہم چاروں قیدیوں کو باری باری نکال کر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالی اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہم سب کو بغیر نمبر پلیٹ والی لینڈ کروزر گاڑی میں بٹھا کر دس منٹ سفر کے بعد ایک بنگلے میں پہنچا دیا کمرے کے اندر میری آنکھوں سے پٹی ہٹادی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ گنجے پنجابی کرنل نے فورا کھڑکی کے پردے بند کئے لیکن میں نے کھڑکی سے باہر بڑاسبز لان اور وہاں ایک بڑا درخت دیکھ لیا یہ چمن بہت بڑا اور وسیع تھا کمرہ بھی بہت صاف ستھرہ اور شاندار تھا ۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا سامنے ڈرائنگ روم میں ٹی وی بھی رکھا ہوا تھا دوسرے گھروں سے آوازیں بھی آرہی تھی میری کرسی کے سامنے تین اور کرسیاں پڑی ہوئی تھیں اور دیوار کے قریب ڈبل بیڈ بھی پڑے ہوئے تھے ۔ اس بھلے کا رنگ و روغن اچھا تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ آئی ایس آئی کا ( Safe house ) سیف ہاؤس ہے ، وہ اصطلاح جو میں نے پہلے اخباروں میں پڑھی تھیا ، یہ بھی انھی سیف ہاؤس میں سے ایک ہے جوانٹلی جینس مقاصد کیلئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اس سیف ہاؤس کا ایک مقصد بڑے بڑے معزز مہمانوں کے بٹھانے کا ہے ۔ میں نے گنجے پنجابی کرنل کونماز پڑھنے کے بارے میں بتایا اس نے کہا تفتیش اور پوچھ گچھ ختم ہوجانے کے بعد پڑھو پھر کہا جلدی جلدی پڑھوا ہم مہمان آپ سے ملنے کیلئے آئے ہیں . میں نماز عصر میں کھڑا تھا کہ کرنل نے میرے کمرے کے دروازے سے آواز دی اور کہا He is waiting for you ( وہ تمہارا انتظار کررہے ہیں . اس کے جواب میں کمرے کے سامنے ڈرائنگ روم سے جواب آیا کہ : ( We are ready ) " ہم تیار ہیں " اس وقت پنجابی کرنل کے ساتھ تین اور افراد کمرے کے اندر داخل ہوئے جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ دو امر یکی عورتیں اور ایک مرد کمرے میں میرے قریب کھڑے ہیں کرنل نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہا لیکن میں نے اپنی تسبیحات پوری کرنے کی ٹھان لی کرنل کو اپنے آقاؤں کے سامنے خوشامد کرنے کا موقع مل گیا اور انہیں بتایا کہ They are very very religious people " یہ بہت مذہبی لوگ ہیں " میری نماز اور تسبیحات سے کرنل کو اچھے دلائل ہاتھ آئے تا کہ اپنے آقاؤں کو یہ ثابت کرائیں کہ اس نے واقعی دہشت گرد پکڑے ہیں شاید اسی مقصد کیلئے مجھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی دی تھی ۔ کرنل نے جب نماز پڑھنے کے
بعد مجھے زور سے اٹھنے کو کہا تو امریکیوں نے کہا : Let him complete his prayer " چھوڑ دو کہ اپنی نمازمکمل کرے ، پھر ہمیں معلوم ہوا کہ امریکیوں نے نماز کے بعد ہمارے تسبیحات اور دعا و نماز کا حصہ سمجھا تھا اس لئے کرنل خاموش ہوا ۔ جب میں خود اٹھ کر کرسی پر بیٹھا تو امریکن میرے سامنے بیٹھ گئے کرنل میرے بائیں جانب موجود ڈبل بیڈ پر بیٹھ گیا ، اس وقت ایک دبلا پتلا ایک جوان قلم کاغذِ ہاتھ میں پکڑے ہوے کمرے میں داخل ہوا ، ڈبل بیڈ کے اخری کونے پر بیٹھ کر نظارہ کرنے لگا اور لکھنا شروع کیا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ لکھنے والا پشاور شہرکا رہنے والا پشتون ہے لیکن سارے اختیارات پنجابی کرنل کے ہاتھ میں ہے ۔ پو چھ گچھ شروع ہوئی کرنل صاحب چاہتے تھے کہ ترجمانی کے فرائض انجام دیں لیکن جب امریکیوں نے مجھ سے پوچھا کہ ? Do you speak English کیا تم انگلش میں بات کر سکتے ہو ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا وہ میرے اس جواب کو سن کر بہت خوش ہوئے مگر کرنل بہت پریشان ہوا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر ترجمانی کرے ۔ مجھے یہ بات اس وقت معلوم ہوئی جب مسلم دوست نے مجھے پنجابی کرنل کی ترجمانی کی ایک کہانی سنائی ۔ امریکیوں نے پہلے اپنا تعارف کرایا ، تینوں نے اپنے خودساختہ نام بتائے ۔ میرے سامنے جوان سال امریکی مرد ، بائیں جانب دبلی پتلی امریکی لڑکی اور دائیں جانب پچاس ساٹھ برس کی تجربہ کار موٹی عورت بیٹھ گئی جوتفتیش کے دوران مجھے پوری توجہ سے دیکھتی تھی سارے سوالات چھوٹی اور کم عمر لڑکی نے کئے نوجوان امریکی مرد نے صرف میری ساری انگلیاں کاغذ پر لگا دی ۔ چالاک لڑکی کے ہاتھ میں ایک ڈیجیٹل کیمرہ بھی تھا جس سے میری کئی طرح کی تصویر یں اتار یں ، ایک تصویر مجھے بھی سکرین پر دکھائی . اسی چالاک لڑکی نے میرے سر سے پکول ( چترالی ٹوپی ) اٹھا کر کہا کہ مجھے یہ بہت پسند ہے ، پکول کا الٹ پلٹ کر اچھی طرح معائنہ کیا جس سے میں سمجھ گیا کہ یہ پکول میں کوئی چیز تلاش کر رہی ہے میں نے اسے کہا کہ لیڈی ڈیانا کوبھی یہ پکول پسند تھی ۔ شاید تم نے لیڈی ڈیانا کی سفید پکول میں تصاویر دیکھ لی ہوگی یہ پکول افغانوں کو بھی بہت پسند ہیں اور اب یہ ہمارے قومی لباس کا حصہ بن گیا ہے وہ مسکرائی اور کہنے لگی کہ یہ بہت بہترین لباس ہے ۔ پکول کے بارے میں اصل بات صحافتی اصطلاح میں Warm up یا مخاطب کو بات کرنے کیلئے ابتدائی طور پر آمادہ کرنے کی وہ باتیں ہوتی ہیں جو اصل موضوع میں داخل ہونے کیلئے راستہ ہموار کرنے کیلئے کی جاتی ہیں اصل موضوع شروع ہوا اور مجھ سے سب سے پہلے مخترسی معلومات کے بارے میں پوچھا گیا میں نے مختصر جملوں میں اپنا نام ، ولدیت ، سکونت ، قومیت تعلیم اور پیشہ کے بارے میں معلومات فراہم کیں اس کے بعد مجھ سے پوچھا
امریکی : تم آخری با رافغانستان کب کہاں اور کیوں گئے تھے اور وہاں کتنا وقت گذارا ؟ 
بدر : میں دوڈھائی ماہ پہلے اپنے گاؤں ( صا حبا توکلی ) میں اپنی زمینوں کے حالات حاصل کرنے کیلئے گیا تھا میرے اس جواب کے سننے کے فورا بعد ایک بڑا نقشہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور مجھے بتایا کہ اس نقشے میں اپنے گاؤں پرانگلی رکھو میں نے کوٹ کے تحصیل پرانگلی رکھی ۔ انہوں نے پوچھا یہاں سے تورا بورا  کتنا دور ہے ؟ میں نے کہا میں نے تورا بورا نہیں دیکھا ہے البتہ اتنا جانتا ہوں کہ تورا بورا بھی جلال آبادکی اس سمت میں ہے ۔
 امریکی : تمہارا بڑا بھائی مسلم ووست کب کس جگہ اور کتنے وقت کیلئے افغانستان گیا تھا ؟
بدر : میرا بڑا بھائی مسلم دوست چند مہینے پہ نورستان میں واقع قیمتی پتھروں کی کان میں خریداری کرنے کیلئے پندرہ دونوں کیلئے گیا تھا کیوں کہ پتھروں کی خرید وفروخت کی ذمہ داری اسی کی ہے ۔
 امریکی : تمہارے دوسرے بھائی کہاں رہتے ہیں اور وہ کیا کام کاج کرتے ہیں ؟ 
بدر: میرا سب سے بڑا بھائی جو اس وقت یہاں قید ہے اور مجھ سے بڑا بھائی دونوں شہد کا کاروبار کرتے ہیں دوسرے بڑے بھائی کا سعودی عرب میں تنور ہے ۔ امریکی : کیا وہ افغانی نان پکاتا ہے ؟
 بدر:  ہاں . 
امریکی : مجھے افغانی نان بہت پسند ہے ۔
 بدر : ہاں افغانی نان اور افغانی کھانوں کو ساری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے ۔
 امریکی : تمہاری بات ٹھیک ہے امریکہ میں بعض افغانوں کے ریسٹورینٹ ہیں ، بہت سے امریکی وہاں کھانا کھاتے ہیں ، ہم بھی نیو یارک میں افغانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں ۔ 
بدر: میں نے بھی ایساہی سنا ہے ۔ 
امریکی : کیا تم امریکہ گئے ہو ؟
بدر : نہیں 
امریکی : آپ نیو یارک اور واشنگٹن میں گیارہ نومبر کے واقعہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
بدر: مجھے ان حادثات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں صرف میڈ یا پر دیکھے ہیں ۔ 
امریکی : کیا تم ایسے عرب یا طالبان کو جانتے ہو جن کا اس حادثے میں ہاتھ ہو ؟
بدر: میں کسی کو نہیں جانتا ۔ 
امریکی : تمہارے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ کس وقت سے تعلقات ہیں ؟
بدر: ان دونوں سے ہمارا سرے سے کوئی تعلق نہیں امریکی : کیا تمہارے گھر عرب نہیں آتے ہیں ؟ 
بدر : ہمارے گھر کوئی عرب نہیں آیا ہے ۔ 
امریکی : یعنی تم نے کسی عرب کو نہیں دیکھا ہے ؟
 بدر:  کیوں نہیں روس کے ساتھ جہاد کے وقت عربوں کو دیکھا ہے ۔
 امریکی : پاکستان اور افغانستان میں ان میں سے کسی کوالقاعدہ کے کارکن کے طور پر جانتے ہو ؟.
بدر : مجھے معلوم نہیں کہ کونسا عرب القاعدہ کے ساتھ ہے اور کونسا عرب نہیں ۔
 امریکی : اسلامی اور ملا عمر کے ساتھ آپ کی آخری ملاقات کب ہوئی ہے ؟ 
بدر : ان کے ساتھ میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی ہے ۔ 
امریکی : کیا تمہارے بعض مضامین میں القاعدہ کے کچھ رہبروں کے نام موجود ہیں ؟
 بدر: ہاں موجود ہیں لیکن ان کے نام تو آپ لوگوں نے ہی مشہور کیئے ہیں ، ان کے نام تو انٹرنیٹ پربھی آتے ہیں . ان کی زندگی کے بارے میں تو میرے جیسے بہت سے صحافیوں نے مضامین لکھے ہیں ۔ کیا تم لوگوں نے مجھے اس جرم میں پکڑا ہے ؟
 امریکی: نہیں ہم کسی کو اس جرم میں نہیں پکڑتے ہم آزادی بیان کا یقین رکھتے ہیں یہی ہمارا جمہوری حق ہے ، پوری دنیا میں ہمارے کروڑوں مخالفین ہیں اگر ہم انہیں صرف آزادی بیان کی وجہ سے پکڑیں یہ تو بہت بری بات ہوگی ۔ 
بدر : پھر تم کیوں ہم سے تفتیش کیلئے آئے ہو ؟
 امریکی : نہ ہم نے تم کو پکڑا اور نہ بی آئی ایس آئی کو تمہارے پکڑنے کیلئے کہا ہے . یہ تمہارے اور ان کے
درمیان معاملہ ہے رہ گئی بات یہاں آنے کی بات تو ان لوگوں نے ہمیں بلایا ہے کہ یہاں آ کر تم سے پوچھ گچھ کر یں ، ہمارے درمیان یہ طے ہوا ہے کہ جب بھی یہ کسی مشکوک دہشت گرد کو پکڑیں تو ہمیں بلاتے ہیں کہ ان سے تفتیش کریں ۔ یہ کہتے ہیں کہ تم دہشت گرد ہو ۔
بدر :  تم نے ہمارے خلاف تفتیش کر کے کیا پایا ؟
 امریکی : ہم چند اور سوالات بھی کریں گے ۔ 
بدر : تم کر سکتے ہو کہ اپنے سوالات جاری رکھو ۔ امریکی : تم نے سیٹلائٹ فون کہاں چھپایا ہے ؟ 
بدر : میں نے تو اپنی پوری زندگی میں سیٹلائٹ فون دیکھا ہی نہیں ؟
 امریکی : کیا تمہارے بھائی کے پاس بھی یہ فون نہیں ہے ؟ 
بدر : نہیں اس نے بھی پوری زندگی میں سیٹلائٹ فون استعمال نہیں کیا ۔ 
امریکی : تمہارے گھر میں ڈش انٹینا ہے ؟ 
بدر : نہیں 
امریکی : عام ٹی وی تو موجود ہوگا ؟ 
بدر : نہیں ٹی وی بھی ہمارے گھر میں نہیں ہے ۔ امریکی : تو پھر اپناوقت کیسے گذارتے ہو ؟ 
بدر : ہمارے پاس اکثر وقت کم ہوتا ہے ۔
 امریکی : اس لئے کہ تم اہم لوگ ہو ۔
بدر : اس میں اہم اور غیر اہم کی بات نہیں بلکہ ہم اپنے کام کاج میں مگن رہتے ہیں ۔
 امریکی : تمہارے گھر میں تو سیاسی مجالس بھی ہوتی ہیں ؟ 
بدر : نہیں یہ بات غلط ہے آخرسیای مجاس سے ہمارا کیا تعلق ہے ؟
 امریکی : تو پھر کیوں اتنے زیادہ لوگ آپ کے گھر آتے جاتے ہیں ؟ 
بدر: مہمان نوازی تو ہمارے دین اور ہماری ثقافت کا اہم جز ہے ۔ 
امریکی : کس طرح کے مہمان آپ کے گھر آتے ہیں ؟
بدر : ہمسایہ ، رشتہ دار اور ہمارے دوست عزیز اقارب ہمارے گھر آتے ہیں ۔
 امریکی : طالب اور عرب بھی ؟
بدر: طالب اور عرب ان حالات میں شہروں بازاروں اور ہمارے گھر میں کیا کرتے ہیں ؟
 امریکی : تم آخری بار یورپ اور امریکہ کب اور کس مقصد کیلئے گئے تھے ؟
بدر : میں یورپ اور امریکہ نہیں گیا ہوں ۔ 
امریکی :  تو تمہیں انگریزی کیسے آتی ہے کہاں سے سیکھی ہے ؟
بدر : انگر یز ی تو بہت سے لوگوں کو آتی ہے میں نے کالج اور پھر یو نیورسٹی میں سیکھی ہے ۔
 امریکی : تمہارے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے اتنا پیسہ کہاں سے حاصل کیا ہے ؟ 
بدر : یہ بات بالکل جھوٹ ہے اگر ہمارے پاس پیسہ ہوتا تو کم ازکم اپنا گھربار ہوتا اور کرایہ کے مکان میں نہ رہتے امریکی : آپ کے جوابات کا شکر یہ ہم دس گیارہ منٹ تفریح کرتے ہیں وہ ایک دوسرے پرنظرڈال کر باہر چلے گئے پندرہ منٹ بعد دو بارہ آئے ان کے ہاتھوں میں بہت سے کا غذات بھی تھے وہ مہر بھی مجھے دکھائی جو ہمارے گھر سے آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ہمارے گھر سے برآمدکی تھیں اور مجھے کہا کہ یہ مہر کس کی ہیں ؟ 
میں نے ایک ایک عمر کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو ثقافتی اور ذاتی کاروبار کی مہر تھیں مہروں میں ایک مہر Khyber Enterprises خیبر انٹر پرائزز کے نام پرتھی ۔ جو تجارتی لائسنس حاصل کرنے کی خاطر بنائی گئی تھی لیکن ابھی نامکمل تھی اس مہر کے بارے میں خصوصی دلچسپی لی اور بہت سے سوالات کئے چودرجہ ذیل ہیں ۔
 امریکی : کیا تم نے اس کے ذریعے بیرون ملک مال بھی بھیجایا منگوایا ہے ؟ 
بدر : نہیں تو ابھی تک پایہ تکمیل تک بھی نہیں پہنچا ہے ۔ ہم تو ایکسپورٹ لائسنس بنانے والے تھے ابھی تک نہیں بنایا ۔ 
امریکی : تم نے خیبر کا نام کیوں انتخاب کیا ؟
بدر : درہ خیبر یہاں ہمارے پختونخوا ں کا مشہور علاقہ ہے پختونخواں کا نام سننے پنجابی کرنل کے ماتھے

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی