عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۲

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6
خیال کیا جاتا ہے کے میرا کبر خیبر کو روسیوں نے مارا تھا اس لیے کہ وہ ایک طرف تو بیرک کا بل کا سخت رقیب تھا اور دوسری جانب اس کے قتل کا الزام داؤد کے سر پرڈالا تا کہ کیمونسٹ داؤدخان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کمیونسٹوں نے اس کی لاش کو کابل کے گلی کوچوں میں گھمایا پھرایا تا کہ داؤد خان کے خلاف کیمونسٹوں کے جذبات بھڑکائیں اور یوں داؤد خان اور کمیونسٹوں کے درمیان تعلقات اور روابط بہت خراب ہو گئے ۔ یہاں تک کہ روسیوں سے مشورے کے بعد خلق دھڑے نے  ۱۹۷۸ ٫ ۴ ٫ ۲۷ کوجنرل عبدالقادر اور دوسرے کیمونسٹوں کے تعاون سے داؤد کے خلاف خونریز فوجی بغاوت کی ۔ اسے محل کے اندر محاصرہ کرکے ختم کرنے کی زبردست کوشش کی گئی مگر داود خان نے کمیونسٹوں کے خلاف زبردست مقابلہ کیا اور زندگی کی آخری سانس تک ہے جگری سے لڑتے رہے بالآخر فضائی بمباری کے ذریعے اسے قتل کیا گیا خلق دھڑے نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور نور محمد ترکئی شلاق دھڑے کا سر براہ تھا افغانستان کا صدر اور انقلابی شوری کے سربراہ کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ببرک کا بلی کو جو پرچم والے کا سربراہ تھا نائب صدر اور انقلابی شوری کا معاون بنایا گیا ۔ یوں دونوں دھڑوں کے درمیان حکومت مساویانہ طور پرتقسیم کر دی گئی . پاکستان میں موجود مسلمان تنظیموں نے اپنی کوششیں تیز تر کر دیں اور کیمونسٹ حکومت کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کیا ۔ پاکستان نے مجاہد ین کو امریکی ساخت پر مار پور ، ہندوستانی ساخت جی تھری بندوق اور کچھ پرانے زمانے کی انگریزی او درہ آدم خیل میں بنائی گئی بندوقیں حوا لے کی گئیں اور یوں پاکستان میں مقیم مجاہدین اور پاکستانی خفیہ اداروں کے درمیان روابط قائم ہو گئے جنرل ضیاءالحق نے 6/7/1977 کو ذوالفقارعلی بھٹوکو قومی انقلاب کے دور سے گرفتار کر کے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے خود فوجی حکمران بن بیٹھا ضیاءالحق کے دور میں پاکستان ملٹری انیلی جنس اینی بہت مستحکم اور مضبوط ہوگئی اور آئی ایس آئی کی مضبوط بنیادڈالی گئی جو افغانستان کے حوالے سے اور بھی متحرک ہوگئی ترکئی ، امین ، ببرک اور نجیب انہی کے دور میں برسر اقتدار آئے ۔ سن  ۱۹۷۹میں  ترکی کے وفادار شاگر حفیظ الله امین نے بغاوت کر کے ترکی کو ہلاک کردیا اور اقتدار پر قابض ہوا اور ایک ماہ کے ۱۹ تاریخ کو انقلابی شوری کا سربراہ اور ملک کا صدر بنا ۔ نومبر ۱۹۷۹ کو ایک محدود تعداد میں روسی فوجی بگرام ائیر پورٹ پراتارے گئے اور یہ بہانہ بنایا گیا کہ افغانستان پر اچانک حملے کی صورت میں وہ دفاع کریں گے لیکن 27 دسمبرکور وسی فوجیوں نے افغان صدر حفظ الله امین کوقتل کر دیا اور اسی طرح روسی فوجیوں نے افغانستان پر زمینی یلغار کر دی اور برک کارمل کو لا کر افغانستان کا صدر مقرر کیا ۔ ببرک کارل نے ریڈیو تاشقند سے کابل ریڈیو کی فریکوی پر بیان جاری کیا اور وہاں سے روسی فوجی کے قافلے کے ساتھ افغانستان داخل ہوا افغانستان میں روسی افواج کی تعداد پہلے ( 80000 ) کی تعداد میں تھی مگر یہ تعداد بعد میں ایک لاکھ پچاس ہزار تک جا پہونچی پھر سن 1986 میں ہیر کابل کواستعفی کیلئے مجبور کیا گیا اور ڈاکٹر نجیب الله کو انقلابی شوری کا سربراہ بنادیا گیا سن ۱۹۸۹ فروری کے مہینے روسی افواج افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئیں ۔ ببرک کارٹل نے پہلے سے ایک نسلی گروپ تیار کر رکھا تھا اور اسے انجنیر احمد شاه مسعود کے سپرد کیا جو بات اخر شمالی اتحاد کے نام سے منظر عام پرآئی نجیب حکومت کے سقوط کے فورا بعد پہلے سے تیار کردہ منصوبے کے تحت شمالی اتحاد کے دستے کابل میں داخل ہوئے یوں نجیب کا اقتدار ختم ہوا اور افغانوں پر بہ زور زبردستی مسلط شدہ معاہدہ پشاور کے مطابق صبغت اللہ مجددی کا برائے نام دو مہینے پرمشتمل اقتدار رشید دوستم کی ملیشیا کے سائے میں ختم ہوا ، اور پھر برہان الدین ربانی کو اقتدار حوالے کیا گیا شمالی اتحاد میں تھی ، ستمی پرچمی برائے نام اوانی مسعود منگھو پیر بالے نجم الدین کا پانی فرید مزوک ، عبدالرشید دوستم ، جنرال مون ، پلی کلی ، پیگیری آصف دلاور ، بابا جان اور دیگر قوم پرست نام شامل تھے انہوں نے کابل شہر کوبھی افراتفری اورلوٹ مار سے دو چار کیا امن و امان اور حکومتی عملداری کا خاتمہ ہو گیا ہر طرف راستوں میں پھاٹک بنا کر مقای کمانڈروں نے اپنے اپنے علاقوں میں الگ ریاستیں قائم کر لیں ۔ کابل ظلم ، بے انصافی ، لوٹ مار چوری چکاری اورقتل وغارت گری کے اندھیروں میں ڈوب گیا ربانی اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اہل حل و عقد کے نام سے شوری کا ڈرا مہ ر چا کر مسند اقتدار پر جما رہا یہاں تک کہ طالبان کے دور حکومت میں بھی اپنے آپکو افغانستان کا قانونی صدر کہتا تھا اور افغانستان میں واقع چودہ صوبوں میں صدر کی حیثیت سے چھپتے چھپاتے گھومتا پھرتا اور اپنی حکومت کی اسٹیمپ اپنی جیبوں میں رکھتا تھا ۔ یہاں تک کہ برہان الدین ربانی نے ، شاه شجاع ، امیر عبدالرحمان اور بیرک کابل کی یادیں تازہ کر دیں اور بالآخر امریکی افواج کے قافلے کے ساتھ کابل میں داخل ہوا امریکہ نے ربانی کو استعمال کر کے اس کو لات ماری اور یوں ربانی باقی دنیا کے سامنے ذلیل ہو گیا اس سے پہلے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں ہم ایک بار پھر سے جہاد اور مزاحمت پر روشنی ڈالیں گے اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں گے ۔

افغانستان کی اسلامی تنظیموں کاراہ عمل

پاکستان میں موجود افغانی اسلامی تنظیموں کے ارتقائی مراحل کا خلاصہ یہ ہے کہ حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے بعد دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی وجود میں آ گئیں مثلا جبہہ نجات ملی،محاذ ملی، و غیره ایک باران سب پارٹیوں کو متحد کرنے کیلئے کوششیں ہوئیں اور حرکت انقلاب اسلامی کے نام سے مولوی محمد نبی محمدی کی قیادت میں سب پارٹیاں متحد ہوئیں مگر مولوی محمد یونس خالص اپنے حواریوں کے ساتھ اس اتحاد میں شامل نہ ہوا چونکہ وہ پہلے انجینیر گلبدین حکمت یار کی قیادت میں حزب اسلامی کی تنظیم میں تھا تو انہوں نے حزب اسلامی ( خالص ) کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کی . جب حرکت انقلاب اسلامی کا یہ اتحادختم ہوا تو اس سے مزید پارٹیاں وجود میں آئیں اور حرکت انقلاب اسلامی کے نام سے جو اتحاد بنا تھا اس کا نام برقرار رکھتے ہوئے مولوی محمد نبی اس کا سربراہ بنا اور یہ نام مولوی محمد نبی محمدی کی پارٹی کے نام سے موسوم ہوا جب بھی اتحاد ہوا تو اس سے مزید پارٹیاں وجود میں آئیں ۔ اتحاد کے ختم ہونے کے بعد حزب اسلامی حکمتیار پاؤں پر کھڑی ہوئی تو مولوی خالص نے اپنی پارٹی حزب اسلامی کے نام کو الٹ کر اسلامی حزب کا نام رکھ لیا ۔ جب پروفیسر عبدالرب رسول سیاف کابل کی پل چرخی جیل سے رہا ہو کر پیشاور آیا تو ایک بار پھر اتحاد کی کوششیں تیز ہو گئیں جس کے تنے میں چنظیموں نے جس میں حزب اسلامی ، اسلامی حزب ، حرکت انقلاب اسلامی ، جمعیت اسلامی سے جبہہ نجات ملی ، اور محاذملی شامل تھیں مجاہدین اتحاد اسلامی کے نام پر یکجا ہوئے اور استاد سیاف اس اتحاد کا امیر مقرر ہوا ۔ افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد دنیا میں پل مچ گئی اور پوری دنیا جاگ گئی ، بحر ہند کے گرم پانیوں تک روسیوں کی آمد اورخلیجی ممالک کے تیل پر روسیوں کے قبضہ ہو جانے کا خطرہ اور اندیشہ پیدا ہو گیا افغانستان کے اندر مجاہدین کی کاروائیوں اور جہادی سرگرمیوں میں شدت آگئی ۔ بڑے پیا نے پر افغان عوام ہجرت کرنے لگے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کیلئے خیمہ بستیاں قائم کی گئیں بہت سے افغان ایران بھی ہجرت کر گئے ۔ امریکہ اور دوسرے ممالک کو اندیشہ لاحق ہوا کہ روسیوں کا اصل ہدف بحر ہند کے گرم پانیوں اورخلیجی ممالک کے تیل پر قبہ کرنا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی توجہ افغانستان کی طرف ہوئی ۔ پاکستان نے بھی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا تیمم نبودگنج خدا بود ، اموخته شدم اسود شدم " کی ضرب المثل پاکستان کیلئے سچ اور حقیقت ثابت ہوئی . افغان جہاد اور ہجرت پاکستان کیلئے بیش بہا خزانہ ثابت ہوا ۔ پوری دنیا نے پاکستان کے ساتھ تعاون کا سلسلہ شروع کیا اور بارش کیطرح ہر طرف سے مال و دولت برسنے لگی ۔ پاکستان نے بھی اس موقع کو غنیمت جان کر پوری دنیا سے مدد اور تعاون کرنے کی استدعا کی ۔ آئی ایس آئی اور افغان کمشنر یٹ میں معمولی نوکری کیلئے لاکھوں روپے رشوت دی جاتی تھی اور ہر کوئی کوشش کرتا تھا کہ ان کے دفتروں میں نوکریاں حاصل کریں اور یوں افغان مہاجرین کیلئے آنے والی امداد میں خرد بردکر کے اپنی جیبیں بھریں ۔ آئی ایس آئی نے افغانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ۔ پاکستان نے اپنی افواج کیلئے افغان مجاہدین کے نام پر ینگر میزائل تک کا ہتھیار حاصل کیا ۔ آٹے میں نمک کے برابر مجاہدین کو بھی دیا اور باقی اپنے لئے محفوظ رکھا ۔ پاکستانی بینک افغانوں کے لئے امدادی اداروں کے پسیوں سے بھر گئے سڑکیں دورویہ ہوئیں اقتصادی حالت اچھی ہوگئی یہاں تک کہ ایٹم بم بنانے کے بھی قابل ہو گیا ۔ صرف سعودی حکومت نے امریکہ کی ہدایت پر مہاجرین کے کیمپوں کے کرایہ کے نام پر سالانہ تین سو ستر ملین ڈالر پاکستان کے حوالہ کیا اس کے علاوہ عرب ممالک یورپ اور امریکہ نے مہاجر کیمپوں کیلئے جو امداد کی وہ ان کیمپوں کی زمین کی اصل قیمت سے تین گنا زیادہ ہے ۔ اس کے علاوہ تیل سمیت خوردنی اشیا بھی پاکستان روانہ کرتا تھا مختصر یہ کہ افغانوں کی قربانی میں پاکستانی قوم کو بہت بڑا فائدہ ہوا اور چاروں انگلیاں گھی میں ڈوب گئیں سینکڑوں خیراتی اداروں نے پاکستان کے فلاحی کاموں میں حصہ لیا گھروں اور دفاتر وں کے کرایہ بڑھ گیے مگر پھر بھی پاکستانی حکمران یہ واویلا کرتے تھے کہ پاکستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں افسوس کی بات تو تھی کہ افغانوں کی کوئی اپنی آوازنہ تھی اور افغانوں کی وکالت پاکستان ہی کر رہا تھا ۔ جہادی لیڈر آئی ایس آئی کے مرہون منت ہوکرکھل کر بات نہیں کر سکتے تھے خلیجی اور دوسرے ممالک سے جوق در جوق مسلمان جو افغانستان میں جہاد کیلئے پاکستان آئے ۔ بہت سے ممالک کے مجاہدین کیلئے تو پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہ تھی اور پاسپورٹ کے بغیر آزادانہ طور پر پاکستان اور اپنے وطن آتے جاتے تھے ۔ چناچہ الجزائر ، المغرب ( مراکش ) ، تونس و غیره عرب ممالک کے کئی خاندان پاسپورٹ کے بغیر پاکستان میں مقیم تھے ان تنظیموں اور شخصیتوں نے مہمان خانے بنائے اور ہر کوئی اس کوشش میں لگا رہا کہ آنے والے مہمانوں کو اپنے اپنے مہمان خانوں میں ٹھہرا کر ان سے مالی تعاون حاصل کر یں اور جوانوں کو جہاد کے لیے بھیج دیں اسامہ بن لادن ، عبداللہ عزام اور بہت سے اشخاص اور اداروں نے اس میں بڑا کردار ادا کیا عبداللہ عزام رحمہ اللہ علیہ نے پشاور میں مکتب الخدمات کے نام سے ایک بڑا دفتر بنایا ۔ الجہاد کے نام پر ماہانہ عربی رسالہ نکالتا تھا اور اس نے عرب ممالک سے سب سے زیادہ تعاون حاصل کیا ۔ پشاور میں عرب ممالک سے آنے والے مجاہد نو جوانوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ہر ملک نے اپنے لئے خصوصی مہمان خانے بنائے افغانستان کی مشہور پارٹیوں کے علاوہ مزید کئی چھوٹے چھوٹے گروپ اور دھڑے بھی بن گئے تھے جن میں حرکت انقلاب اسلامی سے علیحدہ ہونیوالا نصرالله منصور اور رفیع الله موزان کے دھرے ، اسی طرح مولوی محمد افضل کی سر پرستی میں دولت انقلاب اسلامی اورشوری انتظام کے دھڑوں کے نام قابل ذکر ہیں ۔ پاکستانی حکمرانوں ، فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے افسران یعنی جنرل ضیاء الحق ، جزل اختر عبدالرحمان ، جنرل حمید گل ، کرنل سلطان امیر تارڑ جو کرنل امام کے نام سے مشہور تھے ان سب نے مسئلہ افغانستان کو اپنے ہاتھ میں لیا اور سب کچھ خود کرنے لگے ۔ آئی ایس آئی نے آہستہ آ ہسته مجاہد تنظیموں میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا دیا ۔ کمانڈروں کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کر لئے یہاں تک کہ بہت سے جہادی کمانڈراپنی اپنی پارٹیوں سے بغاوت کر کے براہ راست آئی ایس آئی کے ماتحت کام کرنے لگے ۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ کمانڈر حضرات اسلام آباد کی خاطر افغانستان کے مفادات بھی قربان کرنے لگے تاریخ کے اس طول وعرض میں 1405قبل المسیح سال میں الجماعة السلفیہ کے نام سے بھی ایک چھوٹی سی جماعت کی بنیاد ڈالی گئی اس جماعت نے جامعة الدعوی الي القران والسنہ کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ۔ کچھ عرصہ بعد جماعة السلفيه کا نام تبدیل کر کے جماعة الدعوة الى القران والسنه کردیا سن تاسیس کے مونوگرام میں ۱۴۰۵ ہجری قمری سال کی جگہ ۱۳۸۴ ه ق لکھ د یا تا کہ یہ جماعت قدیم نظر آئے ہم نے اس جھوٹے دعوے پر شدید احتجاج اور مخالفت کی مگر کسی نے نہ سنی حزب اسلامی کارکن اور صوبہ کنٹر کا باشند و مولوی حسین اخونزادہ جو بعد میں مولوی جمیل الرحمان کے نام سے مشہور ہوا پہلے اس تنظیم کا امیر بن گیا ۔ اس تنظیم میں شامل افراد کی اکثریت حکمت یاری حزب اسلامی کے سابقہ ارکان تھے اور کچھ افراد دوسری تنظیموں سے بھی آ کر اس میں شامل ہوئے تھے مثلا مرحوم شارقی اور اس کے ساتھی حضرات ہم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو جماعة الدعوة کے اس خوبصورت نام سے دھوکہ کھا کر اس میں شامل ہوئے تھے ۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ تنظیم قران وحدیث میں عقیدہ اور افغان عوام کے مفاد اور بہتری کیلئے مخلصانہ جد و جہد کر یگی اگر یہ مقصد نہ ہوتا تویہ تنظیم بنانے کا کوئی جواز نہ تھا چاہیے تھا کہ تنظیموں کو محدود کیا جائے کیونکہ تنظیموں کی زیادت اختلاف کا باعث بنتی ہیں اور یہ اختلاف اسلام اور اسلامی امت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں بھی اس تنظیم کا سرگرم رکن بنا اور کلچرل کمیٹی کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی ۔ ہم نے شیخ جمیل الرحمان کو دنیا والوں کو متعارف کرایا کویت اور سعودی کے هلال احمر نیز عرب ممالک کے بڑے بڑے تاجروں اور سعودی سلطنت کے بڑے بڑےحکومتی عہدیداروں نے اس تنظیم کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا اور بے حساب مالی تعاون سے نوازا ایک مصری عرب ابوحبیب نے معہد کی بنیاد رکھی جو بعد میں امام بخاری یونیورٹی کے نام سے پہچانا گیا المجاہد کے نام پر ایک عربی رسالہ بھی باقاعدگی سے شائع کیا جو سعودی حکمرانوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے امیر سلمان اور اس کے خصوصی نمائندے کے مشورے سے ہر مہینہ شائع کیا جاتا تھا ۔ اس رسالے میں سعودی حکمرانوں کے مفادات کا خصوصی خیال کیا جاتا تھا ۔ ایک بار ابوصہیب نے سعودی نمائندوں کے مشورے کے بغیر رسالہ شائع کیا جس میں کسی عرب ملک کے حکمران کیلئے طاغوت کا لفظ استعمال کیا گیا تھا سعودی نمائندوں نے اس رسالے کوتقسیم کرنے سے روک دیا اور اس مہینے کے سارے رسالوں کو جمع کر کے آگ میں جلا کر راکھ کردیا ۔ یہ کام اس لیے کیا کہیں سعودی حکمران یہ مطلب نہ نکالے کہ یہ لفظ ہمارے لئے استعمال ہوا ہے ابوحبیب نے امیر سلمان کے خصوصی نمائندہ کو کہا کہ اس سے مراد ایک کمیونسٹ حکمران تھا اس نے جواب میں کہا کہ اگر تمہارا مطلب فرعون بھی ہو پھر بھی مجلے میں طاغوت لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں جماعة الدعوة شیخ جمیل الرحمن کی شخصی ملکیت بن گئی شوری کے ارکان صرف اس لئے مخصوص کئے گئے تھے کہ جب عرب تاجر اور شیوخ تشریف لائیں تو شوری کے ارکان کو جن کی بڑی بڑی داڑھیاں تھی اور بڑے بڑے عمامے پہنے ہوتے تھے ان کے سامنے پیش کر کے انہیں یہ باور کرایا جائے کے ہمارا سارا کام شورائیت پرمبنی ہے اور ہمارے پاس علماء بھی ہیں اس طریقے سے ان سے پیسے بٹورے جاتے تھے ۔ عرب ممالک سے آنے والوں کیلئے اسلام آباد اور پشاور میں مہمان خانے بنائے گئے اور ان مہمان خانوں کا انچارج سعودی ایجنسیوں کا ایک رکن کو بنایا گیا ۔ شیخ جمیل الرحمان کا ایک بھتیجاولی الہ ایک یورپی ملک کے ایک ہوٹل میں برتن صاف کرنے کا کام کر رہا تھا شیخ جمیل نے اسے بلا کر ایک این جی اوز ) خیر یہ مؤسسہ کا سربراہ بنایا پھر کچھ عرصہ بعد به اداره انسانی حقوق کے ادارے کے نام سے موسوم کیا گیا اس نے مغربی ممالک کے کئی کنیساؤں اور انٹیلی جنس اشخاص سے تعلقات استوار کئے اور یوں ایک طرف عرب ممالک سے اسلام کے نام پر اور مغربی ممالک سے انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر مال و دولت اکھٹا کرنے کا دھندہ شروع کیا ۔ پاکستانی آئی ایس آئی سے تعلق اور روابط استوار کرنے کیلئے اپنے دوسرے سوتیلے بیٹے حیات الله کو ذمہ داری سپرد کی حیات اللہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے بڑے بڑے جرنیلوں اور کرنیلوں کو بڑی بڑی رشوتیں اور دوسرے قیمتی تحفے دے کر اس ادارے کی رکنیت حاصل کر لی . اس دوستی میں اتنی ترقی کر لی کہ پشاور میں واقع شامی روڈ کے قریب آئی ایس آئی کے دفتر سے سفارش کر کے ان چھوٹے ملازمین کو راستے سے ہٹادیتے جو ان کی چوهد راہٹ ماننےسے گریز کرتے تھے ۔ یوں جماعة الدعوة سعودی حکومت ، مغربی ممالک اور پاکستانی جاسوسی اداروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی جماعت بن گئی ۔ اس تنظیم کا اصلی مشن پاکستانی آئی ایس آئی کے مفاد کیلئے کام کر ناتھا شیخ جمیل الرحمان کا بھتیجا روح اللہ کوعرب اداروں اور ایجنسیوں کے ساتھ متعارف کرایا گیا تا کہ ان سے مالی تعاون حاصل کرے گویا کہ اب جماعت کا مقصد ہی پیسہ جمع کرناتھا ۔ جماعة الدعوة کے بعض اہم امور بھی شیخ جمیل کے بھتیجوں اور بھانجوں کے مشوروں سے انجام پاتے تھے ۔ بالآخر حیات الله ولي الله اور روح اللہ آئی ایس آئی کے اتنے پکے کٹھ پتلی اور غلام بن گئے کہ شیخ جمیل خود بھی اور برائے نام شوری ان تینوں کی ناجائز حرکات اور کرتوتوں کے سامنے بے بس ہو گئے اور جس منشور پر جماعت میں لوگ جمع ہوئے تھے اس عقیدے اور منشور کو پاؤں تلے روندا اور جماعت محض دنیاوی اغراض کی جماعت بن گئی شیخ جمیل کے تین بھتیجوں کو مثلث خبیثہ کا نام دیا گیا ۔ آئی ایس آئی کے لئے اسمگلنگ ، سیاسی قتل اور جاسوسی کے تمام اموراس مثلثات خبیثہ کے سپرد تھے یہاں تک کہ یہودی پلان میں شیخ عبدالله عزام اللہ کے قتل کا منصو بہ بھی اس تنظیم کے حامی حیات الله کو سونپ دیا گیا حاجی حیات اللہ نے پشاور کے ارباب روڈ میں جوس کارنر کی دوکان کے بہانے ایک کین لیا اور شیخ عبد الله عزام مالٹے کے ارباب روڈ والے مرکز میں دو دن ر یکی کر کے ان کو تیسرے دن ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں شہید کر دیا ۔ یہ راز حیات الله کی تنظیم کے ایک معتمد ساتھی جو بعد میں اس تنظیم کو خیر باد کہہ چکا اس نے افشاں کئے اور اس واقعہ کے تمام شواہد سے ہمیں بھی آگاہ کر دیا اسی دن سے حاجی حیات اللہ کو ایک نئی ماڈل کی گاڑی اور سیکورٹی کے لئے افراد مہیا کئے گئے اور ان کی جماعت پاکستانی ایجنسیوں کی توجہ کا مرکز تھا انہوں نے پشاور ، اسلام آباد اور باجوڑ میں بہت سی زمینیں خرید یں ، بڑی بڑی بلڈنگ اور عمارتیں بنائیں اور نئی ماڈل کی قیمتی گاڑیوں کے مالک بنے خیرات سے پلے ہوئے اخونزادوں کیلئے شراب خوری اور زنا کاری ایک عادی کام بن گیا جھوٹ اور فریب کے کاموں میں بہت ترقی کر لی ۔ ان کی حفاظت کیلئے پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے محافظ مقرر ہوئے آئی ایس آئی نے انہیں ایسے کارڈ جاری کئے تھے جن کو دیکھ کر پولیس ان کے کسی بھی ناجائز کام میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اور جہاں بھی چاہے جا سکتے تھے ہم نے شیخ صاحب کو بہت سمجھایا کہ وہ ان تینوں کو اس کام سے باز رکھیں اور جماعة الدعوة کے دعوے کو اس انراف سے نجات دیں مگر شیخ نے ایک بھی نہ سنی . بالآخر بات اس حد تک پہنچ گئی کہ شیخ جمیل الرحمان نے پاکستانی حکمران کو ایک درخواست کی کہ افغانستان کو پاکستان میں ضم کیا جائے شیخ نے یہ درخواست جو پشتو میں لکھی ہوئی تھی ہمارے سپرد کی اور کہا کہ اس کو اردو زبان میں لکھو . جب میں ( مسلم دوست نے یہ درخواست پڑھی جس میں شیخ جمیل الرحمن نے اس میں پاکستان حکمران کو یہ مشورہ دیا تھا کہ افغانستان کو جہادی پارٹیوں کی تعدا کے برابر 8 حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک پارٹی کے امیر کو ایک ایک حصہ سپردکیا جائے کنٹری نگرهار او لغمان صوبوں کو ایک صوبہ بنا کر اس کا سربراہ مجھے یعنی جمیل الرحمان کو بنایا جائے میں اٹھ کر سیدھا جمیل الرحمان کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ تمہارا یہ کام تو اسلام اور افغانستان کے ساتھ بڑی خیانت ہے ۔ افغانستان تمهاری شخصی ملکیت تو نہیں کہ اسے اپنی مرضی سے فروخت کریں ، افغانستان تمام افغانوں کا مشترک گھر ہے پوری اسلامی امت نے اپنے خون اور مال سے افغانستان کا دفاع کیا ہے پندرہ لاکھ افغان شہید اور لاکھوں معذور ہو چکے ہیں . لاکھوں عورتیں بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم ہوئے ہیں اب جبکہ افغانستان آزادی کے قریب ہے آپ افغانوں کی ان ساری قربانیوں کو انگریزی قانون پرفروخت کرنے کیلئے تلے ہوئے ہیں تمہارے اس کام کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی آدمی کسی ڈاکو اورلٹیرے کو کہدیں کے ہمارے گھر پر قبضہ کر لیں لیکن اس میں موجود ایک کمرہ مجھے بھی دیدیں ۔ آخرآپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ افغانستان کو اس شرط پر پاکستان کے حوالہ کر دیں کہ اس کے ایک گوشے میں ہمیں بھی جگہ دید یں ہم خواہ افغانستان ہو یا پاکستان یا سعودی عرب ، صرف اسلام کے لئے چاہتے ہیں جہاں سے ہم اسلامی خلافت پھیلائے ورنہ ہم نے کسی ملک یا سرزمین کے لیے قربانی نہیں دیا ہے میں تو پاکستان کی اسلامی تنظیموں سے بھی یہی شکایت ہے کہ کشمیر کی زمینی تنازع میں مخلص مسلمان نوجوانوں کو مروا کر کسی کام کے لیئے ٹکڑا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ اللہ تعالی نے تو کشمیر سے بڑا حصہ ہمیں دیا ہے کیا ہم نے اس پر اسلام نافذ کیا ہے ؟ اب جو افغانستان کا فی قربانی اور کاوشوں کے بعد آزادی کے قریب ہے اسے انگریزی قانون کے محافظین کے حوالے کرنا امت مسلمہ سے جھا اور خیانت ہوگی ، کاش کہ پاکستان میں شریعت نافذ ہوتی تو افغانستان تو در کنار تمام دنیا کے مسلمان اس ملک کے ساتھ اپنے الحاق کا اعلان کرتے ۔ اب تو حال میں ثابت ہوا کہ پاکستانی حکومت سینکڑوں عرب اور افغان مجاہد ین کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کررہے ہیں ، جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ہمارے بہن بھائیوں اور شیوخ کو بے رحمانہ طور پر شہید کر چکے ہیں قبائلی علاقوں اور سوات میں امریکیوں کے ساتھ قتل و غارت میں برابر کے شریک ہیں اور سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ملک خداداد میں انگریزی قانون اور کفر کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف معاہدات کئے جا چکے ہیں اور اس عمل میں پاکستان کی بعض اسلامی تنظیموں کے کچھ اہل کار اور عہدے دار انگریزی قانون کے محافظین کے جاسوس بن کر مجاہدین کو فروخت کر رہے ہیں ۔ ہماری قربانیوں کا مقصد تو یہ تھا کہ آزادی کے بعد غلاموں کے غلام بن جائیں ۔ شیخ جمیل الرحمان کی طرف سے اس بیان کا جواب یہ تھا کہ " جس ملک میں میری کوئی حیثیت نہ ہو میرا اس سے کیا کام ؟ " میں نے کہا آخر تم کون سی حیثیت چاہتے ہو ؟ افغانوں کے جہاد اور تجارت کی برکت سے تو آپ ایک تنظیم کے امیر ہیں ۔ بڑی بڑی قیمتی گاڑیاں آپ کیلئے کھڑی ہیں عرب اور عجم کے اموال آپ کے تصرف میں ہیں یہاں تک کہ پوری کی پوری تنظیم کو ایک ہی بریف کیس میں رکھ کر گھومتے پھرتے ہو اور ایک مطلق العنان حکمران بنے ہوئے ہو اگر آپ کی یہ حالت ہے تو ہم آج سے اس طرح کی پارٹی سے الگ ہیں اور دیکھیں گے کہ تمہاری یہ بادشاہت کب تک جاری رہیگی ؟ ہم نے اس پارٹی کے خلاف اپنی مخالفت جاری رکھی اور ہر میدان میں ان کی خیانتوں پر آواز اٹھائی تاکہ عوام کو معلوم ہو جائے کہ اس پارٹی کے سربراہ کتنی بڑی بڑی خیانتوں میں ملوث ہے ۔ اس تنظیم نے عرب ممالک سے کتابوں مدرسوں ، اسلامی دعوت ، مسجدوں ، بیواؤں ، یتیموں او دوسرے فلاحی کاموں کے نام پر بہت سا روپیہ اکٹھا کیا تھا اس ساری رقم کوتینوں مذکور مثلث خبیثہ والوں نے اپنے اپنے ذاتی اکاونٹوں میں جمع کیا جب ہم اس جماعت سے الگ ہوئے تو انہیں خیانت کرنے میں اور بھی سہولت اور آسانی ہوئی کیونکہ ان کے سامنے ہمارے علاوہ کوئی اور شخص بولنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا ۔ کچھ عرصے بعد سعودی حکومت اور پاکستانی آئی ایس آئی کے فرمان سے صوبہ سنٹر میں حزب اسلامی کے خلاف جنگ چھیڑ دی سعودی حکومت نے کروڑوں کے حساب سے رو پیہ بھیج دیا شیخ جمیل نے اس رقم کو وصول کرنے کے لئے حاجی روح الله کو متعین کیا ۔ انہوں نے یہ ساری رقم وصول کر کے کچھ کو اپنے ذاتی اکا ونٹوں میں جمع کیا اور باقی کو گاڑیوں میں باجوڑ منتقل کیا ۔ چونکہ حزب اسلامی حکمت یار اور جماعة الدعوة کے درمیان بہت شدید جنگ جاری تھی اور حزب اسلامی کے مجاہدین افغانی جماعة الدعوة کے جنگی کمانڈروں کوہزیمت سے دو چار کر رہا تھا حاجی روح الله نے اس صورت حال کو غنیمت جان کر شیخ جمیل الرحمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ ایک طرف سارے کا سارا پیسہ اس کے ہاتھ میں آ جائے اور جماعة الدعوة کے پورے اختیار کا مالک بھی خود بن جاے شیخ صاحب جمیل الرحمن اور عبدالله رومی نامی ایک عرب ایک کمرے میں کسی موضوع پر بحث کرنے کیلئے الگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب دوسرے لوگ نماز پڑھنے کیلئے مسجد گئے تو روح اللہ کے پروگرام سے اس موقع کو غنیمت جان کر پہلے شیخ جمیل الرحمان قتل کردیا اور پھر عبدالله رومی پرفائر کر کے شہید کر دیا گیا ۔ جب لوگ فائرنگ کی آواز سن کر یہاں پہنچ گئے تو روح اللہ نے مشہور کیا کہ شیخ جمیل کو عبدالله رومی نے قتل کر دیا ہے اور میں نے شیخ کا انتقام لے کرشیخ رومی کوقتل کر دیا ہے ۔ امریکی حمایت حاصل کرنے کے لئے سال ۲۰۰۷ ء کو اس تنظیم کے شائع شدہ ایک رسالے آفاق میں جماعت الدعوة والوں نے شیخ جمیل الرحمن کی ایک تصویر شائع کیا ہے اور اس کے پیچھے یہ پٹیشن لکھا ہے کہ شیخ جمیل الرحمن کو القاعدہ کے ایک عرب نژاد کارکن نے قتل کیا تھا . انہوں نے اپنی نشریات میں مسلسل القاعدہ اور طالبان کی مخالفت کر کے ثابت کردیا ہے کہ اگر مربع خبیثہ القاعدہ اور طالبان جیسے وقت کے چیدہ اور آزمودہ مسلمانوں کے مخالف ہے تو پھر کسکے حامی ہیں ؟ مولوی سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ ایک بار روح اللہ ، حیات الله اور ولی اللہ نے مجاہدین کے لئے ہتھیار خریدنے کیلئے اپنے شیخ جمیل سے احکام حاصل کئے تھے وہ تینوں میرے پاس آئے اور مجھے دھمکی دی کہ آپ ان احکام پر لکھ دیں کہ یہ ہتھیار خریدا اور پہنچا دیا گیا ہے ۔ میں ان دنوں مالی امور کا انچارج تھا حالانکہ انہوں نے ایک کارتوس بھی نہیں خریدا تھا یوں انہوں نے لاکھوں روپیہ کو ہڑپ کر کے اپنے اپنے اکاونٹوں میں جمع کیا ۔ ان چند حقائق کو ہم نے مثال کے طور پر قارئین کے سامنے پیش کیا تا کہ انہیں معلوم ہوجائے کہ جماعة الدعوة کی تنظیم میں اس مثلث سمیع اللہ نجیبی اور اس کے بیٹوں نے کتنی بڑی بڑی خیانتیں کی ہیں ۔ اس مسئلے پر مزید معلومات مستند دستاویز اور اسناد موجود ہیں جو بہ وقت ضرورت سامنے لائی جائیگی ۔ شیخ جمیل الرحمان کے قتل کے بعد مولوی الله کو جو بہت ضعیف شخصیت کا مالک تھا اور حاجی روح
part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی