عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۳

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6
اللہ حیات اللہ اور ولی اللہ کے ساتھ خیانتوں میں برابر کا شریک تھا اس جماعت کا امیر بنایا گیا ۔ اور یوں یہ جماعت مکمل طور پر چوروں اور لٹیروں کے قبضہ میں آئی ۔ ان چاروں لیٹروں نے یتیموں ، بیواوا ، مدارس مساجد اور دیگر فلاحی کاموں کے نام پر ہلال احمر اور سعودی حکومت سے بے پناہ مال حاصل کر کے 95فیصد پیسوں کو اپنی اپنی جیبوں میں ڈال دیا ۔ یہاں تک کہ اس چوری اور خیانت میں ، ہلال احمر کے کچھ عرب اور افغان کارکن بھی شریک تھے اور اس حرام رقم سے پلازے ، بارگین اور مکانات بنائے ۔ پشاور شہر کے قریب بشنغری میں خان کلب کے نام پر ایک کلب بھی بنایا گیا ۔ جس میں شراب خوری اور زنا کاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہورہا ہے پاکستان اور بیرون ممالک سے بڑے بڑے زنا کار یہاں آ کر ان کیلئے سب کچھ مہیا کیا جا رہا ہے مختصر یہ کہ اس جماعت کے یہ بے ضمیر افراد اسلام افغانستان اور افغانوں کے ساتھ خیانت کر کے بدنامی کا باعث بنے . ہم دونوں بھائیوں کا گناہ صرف اور صرف یہی تھا کہ ہم ان مفسدین کے جرائم سے مسلمانوں کو مطلع کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے جرائم کے سامنے بند باندھا جائے ۔ انہوں نے ہمیں راستے سے ہٹانے کیلئے مجھ پر تین بار قاتلانہ حملہ کیا لیکن الله تعالی نے ان کی مراد پوری نہ ہونے دی ہم نے حوصلہ نہ ہارا اور ان کے خلاف مزید تیز تر ہوگیا ۔ جب گیارہ نومبر امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو امریکہ نے اس کا الزام اسامہ بن لادن پرلگایا اور کہا کہ یہ کام القاعده والوں نے کیا ہے یہی بہانہ بنا کر امریکہ نے افغانستان پر بڑا حملہ کیا ۔ ہم نے امریکہ کے اس عمل کی قلم اور زبان سے شدید مذمت کی ۔ حملے سے پہلے بھی ہم نے امریکہ کے ظالمانہ اور تکبرانہ پالیسی کی بھر پور مذمت کی تھی او کلنٹن پر بھی طنز کیا تھا ۔ امریکہ نے حملے سے پہلے پاکستان کے خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کو کہا کہ ہمیں ایسے افغانوں کے نشاندہی کی جائے جو افغانستان میں ہمارے لئے کام کر یں ہمیں یہ بات جماعة الدعوة کے قریبی اور کلیدی اشخاس نے بتائی ہے ۔ ایجنسیوں نے اپنی کٹھ پتلی جماعة الدعوة کے کچھ مخلص افراد کی فہرست امریکہ کے حوالے کی ، امریکہ نے ان افراد کو اپنے خفیہ اداروں میں متعین کیا انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم تمہارے لئے کام کریں گے لیکن جماعت سے مثلث خبیثہ نے سب سے خیانت کی مسلمانوں سے بھی اور کفار اور منافقین کے سرغنوں سے بھی مختصر یہ کہ امریکہ جب تکبر اور غرور کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تو وہاندھا ہو گیا تھا ، ہرسردار اور منافق کو ڈالر سے نوازتا تھا تا کہ ان سے منجری کروا کر معلومات حاصل کر لے ۔ جماعة الدعوات کے چار مفسد سمیع الله ، روح اللہ حیات اللہ اور ولی الله کیلئے یہ ایک سنہری موقع تھا ۔ انہوں نے امریکہ سے ........ ۱۵ ایک صد پچاس ملین ڈالر سینکڑوں سیٹلائٹ فون اور دوسرے وسائل حاصل کئے ۔ امریکہ نے یہ ڈالر پوست کی کاشت روکنے ، جہادی کمانڈروں ، سرداروں اور تحریک طالبان کے اعلی رتبه اشخاص کو خریدنے کیلئے دئے تھے مگر آئی ایس آئی اور ان چار مفسدین نے یہ تمام رقم اپنے درمیان تقسیم کی ۔ امریکہ کو جعلی فہرستیں دیں ، فہرست میں ایسے افراد کے نام بھی تھے جن کا دنیا میں وجود ہی نہ تھا بعض نام ایسے تھے جن کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا تھا اور بعضوں کو تھوڑی سی رقم دی گئی لیکن کئی گنازیادہ لکھا گیا تھا کچھ علاقوں میں پوست تلف کرنے کا نیا ڈرامه رچایا گیا افیون حاصل کرنے کے بعد پوست کی فصل تعلف کر کے اس کی ویڈیو تیار کر لی . جس زمیندار کو سو ڈالر دیئے تھے تو اس کے کھاتے میں دس ہزار ڈالر لکھ دئے اور جس کو دو سو ڈالر دئے تھے اس کے کھاتے میں میں بیس ہزار ڈالر لکھدئے . افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پاکستانی اور افغانی جماعة الدعوة کے یہ مفسدین  دوسرے دوھوکوں اور فریب کے علاوہ عرب اور دوسرے غیرملکی افراد کے پکڑنے کیلئے متحرک ہوئے اور یوں ڈالر حاصل کرنے کے لئے مسلم فروشی کی تجارت کا نیا باب کھول لیا افغانی جماعة الدعوة کے ان چاروں ڈاکووں اور پاکستانی جماعة الدعوة نے آپس میں مل کر عربوں اور دوسرے خارجیوں کے ساتھ تین طرح کی چال چلائی بعضوں کو بتایا کہ ٹیلی فون کے ذریعے اپنے اپنے گھروں سے بڑی رقم طلب کریں اور ا نہیں آئی ایس آئی کے ذریعے ائیر پورٹ کے مخصوص دروازوں اور دوسرے راستوں سے نکال دیا غریب اور نادار عربوں کو امریکہ کے حوالہ کیا اور بعض عربوں سے پیسے اور گاڑیاں لینے کے باوجود امریکیوں کے حوالہ بھی کیا ............ ان ڈالروں کے حساب اور دوسری جعل سازیوں کے نتیجے میں امریکیوں نے روح اللہ کو گرفتار کر کے گوانتا نامو جیل بھجوا د یا انشاءاللہ آگے اس پر مزید بحث کریں گے ۔ دوسری طرف ان چاروں مفسدوں نے ہما رے وہ سب میگزین منشورات اور اخباری مضامین کو جو ہم نے امریکہ کی مخالفت میں لکھے تھے تر جمہ کر کے 99 فیصد ، جھوٹ کے ساتھ امریکیوں کے حوالہ کیا اور یوں ہمیں بھی ڈالر کے عوض آئی ایس آئی کے ذریعہ گرفتار کر کے امریکیوں پر فروخت کر دیا اس تمام بے شرمی کے باوجود مذکورہ جماعت والے اب دوبارہ اپنے پرانے آقاؤں کے اشاروں پر جہاد کی بھی باتیں کر رہےہیں اور خفیہ ادارے دو بارہ پھر ان کو ہمارے اوپر مسلط کرنے کی بے جا کوشش کر رہے ہیں ۔ ہمارے خلاف جھوٹ پر مبنی گواہی دی اور ہماراتعلق طالبان ، اسامہ بن لادن ( القاعدہ ) اور دنیا کی دوسری اسلامی تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی ، جو ہماری گرفتاری اور گوانتانامو تک پہنچنے کا ذریہ بنا . اب ہم اس مقدمے کے بعد گوانتانامو سے رہائی کی داستان اور دیگر حقیقتوں پر درج ذیل روشنی ڈالیں گے ۔ 
گھر سے گوانتانامو اور گوانتانامو سے گھر تک
 ہم پشاور میں خیر ہسپتال کے عقب میں واقع اکیڈمی ٹاؤن کے قریب کرایہ کے گھر میں سکونت پذیر تھے ۱۳۴۲ ہجری یکم رمضان المبارک بمطا بق سترہ نومبر ۲۰۰۱ عیسوی کو ہم تینوں بھائی مولوی سید محمد و حد تیار عبدالرحیم مسلم دوست اور استاد بدر ہمارے ساتھ موجود دوسرے مہمان عبدالعلیم ہمت ، نور البیب شار ، درویش ، قاری غلاموں اور میرے بیٹے عبدالاحد ، عبدالوھاب اور دوسرے مہمان اپنے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رات کے وقت ساڑھے گیارہ بجےکے قریب ڈاکووں کی طرح پاکستانی پولیس اور آئی ایس آئی کی بھاری نفری میرے گھر میں داخل ہوئی ہمارے گھر کے داخلی دروازے کے اندر دائیں جانب کتب خانہ اور حجرے کے دروازے کھلے تھے اور ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ محفل میں محو گفتگو تھے کہ ا چانک پولیس اور آئی ایس آئی کے افراد حجرے کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے کلاشنکوف کی نالیوں کو ہماری طرف سیدھا کرتے ہوئے کہا کہ خبردار اپنی جگہ سے ہلیں نہیں میں نے اٹھ کر انہیں بتایاکہ کیا بات ہے ؟ تم چور ہو یا پولیس ؟ تم کس قانون اور جواز کے تحت ڈاکوؤں کی طرح ہمارے گھر میں گھسے ہو ؟ ہم تو شہر کے اندر پرامن طور پر رہتے ہیں ، ہم نہ تو مفرور ہیں اور نہ ہی یہ کہ کوئی قبائلی علاقہ ہے ۔ اگر ہمارے ساتھ تم لوگوں کا کوئی کام تھا تو ہمیں اطلاع کرتے ہم خود حاضر ہو جاتے ۔ ایک پنجابی اہلکار ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑ کر ہمارے رو برو کھڑا تھا ۔ ہم نے اسے اردو میں بتایا کہ آپ آرام سے بیٹھیں ہم نہ تو مجرم ہیں اور نہ ہی بھاگنے والے وہ کسی کی بات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ادھر ادھر پریشانی میں دیکھتا رہا ۔ ایک گنجا پنجابی کرنل ، ایک لمبا پختون ، چھوٹی داڑھی والا تھانیدار اس کے علاوہ کچھ اور افراد بھی ان کے ہمراہ تھے دو کالے رنگ کی عورتیں بھی ان کے ساتھ موجود تھیں وہ دونوں ہمارے گھر کے اندر چلی گئی اور مرد اہلکار کتب خانے میں تلاشی لینے لگے ۔ پورے کے پورے کتاب خانے کو چھان مارا ۔

الماریوں کی تلاشی لی بعض رسالے ، اخبار مجلوں اور فائلوں کو سمیٹ کر باہر کھڑی گاڑیوں میں ڈالد یا کتب خانے میں موجود ، قران کریم ، تفاسیر ، احادیث اور دوسری فقہی کتابوں کے ساتھ انہوں نے بڑا توہین آمیز سلوک کیا وہ انہیں الماریوں سے نکال کر بہت بے ادبی سے نیچے پھینک کر جوتوں سمیت ان پر چلتے پھرتے رہے گھر کے اندر زنانہ پولیس کی تلاشی لینے کے باوجود آئی ایس آئی کے اہلکارخودبھی اندر داخل ہوئے اس وقت ہمارے اہل خانہ محوخواب تھے ۔ میں نے انہیں کہا تم مسلمان ہوا اور نہ ہی انسان بےغیر تو ہمارے گھر سے نکل جاؤ میری آواز سن کر تھانیدار نے کلاشنکوف کا رخ میری طرف کر کے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی ، میں نے اسے کہا ہے غیرت مجھے مارد و آخر کس بات کا انتظار ہے ۔ زنانہ پولیس نے دروازے کے قریب جا کر ہماری عورتوں کو ایک کمرے کے اندر جانے کا حکم دیا ، چھوٹے چھوٹے بچے خواب سے بیدار ہوئے اور خوف کے مارے ادھر ادھر دیکھنے لگے ظالموں نے گھر کے اندر بھی ہر کمرے کی زبردست تلاشی لی اور گھر کے سارے سامان کو بکھیر دیا ۔ ہمارے پاس گھر میں دو پستول تھے ، ایک کو ہم سے لیا اور دوسرے کو زنانہ پولیس نے نکالا ۔ پہلے ایک کمرے کی مکمل تلاشی لی اور اس کے بعد دوسرے کمرے کی تلاشی لی نقدی رقم قیمتی پتھر ، سونا کمپیوٹر شخصی اسناد اور دستاویزات کو جودو بریف کیسوں میں تھیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ۔ ہم دونوں بھائیوں مسلم دوست ، استاد بدر اور ہمارے بڑے بھائی سید محمد اور دوسرے مہمان عبدالعلیم ہمت کو پکڑ کر اپنے ہمراہ لے گئے ۔ دوسرے مہمانوں اور میرے بیٹوں کے بارے میں پوچھ کر رہے تھے کہ یہ کون ہیں اور کیوں آئے ہوئے ہیں ؟ وہ چاہتے تھے کہ انہیں بھی پکڑ کر اپنے ساتھ لے جائیں لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں ، یہ ہماری روایت اور غیرت گوارا نہیں کرتی کہ تم ہمارے مہمانوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جا و دراز قد پختون سپاہی نے پنجابی افسر کو کہا کہ سر ہم نے تو ان سے ہتھیاری لے لئے اور گھر کے سر پرست افراد کوبھی اپنے ساتھ روانہ کیا ، اس علاقے کا امن و امان اتنا اچھا نہیں لہذا ان دونوں بھائیوں میں سے ایک کو چھوڑ دیتے ہیں ؟ پنجابی افسرنے کہا ایک ہی رات کی تو بات ہے ۔ یہ بات سن کر بے اختیار پختون خاموش ہو گیا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پختون بھی کرنل ہے اور آئی ایس آئی کا اہلکار ہے لیکن پنجابی کرنل کے سامنے بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا کیونکہ تینوں صوبوں پر پنجاب کی چوهد راہٹ ہے ۔ یہ بات ہمیں اس وقت بھی اسی طرح معلوم ہوئی کہ جب کوئی پختون فو جی ہمارے قریب چوری

چھپے آجاتے اور کہتے تھے کہ ہمارے اختیارات پنجابی اہلکاروں کے ہاتھوں میں ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ ہمیں کہا دو عدد کمبل بھی اپنے ساتھ لے جا و تم ہمارے ساتھ ایک دودن کے مہمان ہوں پھر اپنے گھر چلے جاؤگے ۔ ہمارے گھر کے آس پاس سارے علاقے کا محاصرہ کیا گیا تھا ۔ اتنے زیادہ فوجی اور پولیس گاڑیوں میں آئے تھے کہ شاید کسی بارڈرکو فتح کرنے کیلئے آئے ہوں . میری رہائی کے بعد اس علاقے کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے گھر کے ارد گرد کا سارا علاقہ فوجیوں نے محاصرے میں لے لیا تھا جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتا ہے . ہم نے ان سے بار بار کہا کہ یہ دونوں مہمان ہیں انہیں چھوڑ دیں مگر انہوں نے ہماری ایک بھی نہ سنی ، ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھی ، باتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائی اور بغیر نمبر پلیٹ گاڑی میں بٹھایا ہمیں پتہ تھا کہ یہ آئی ایس آئی کے اہلکار ہیں لیکن نہیں جانتے تھے کہ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں ؟ ہمارے گھر والوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ ہمیں کہاں اور کس مقصد پرمنتقل کیا گیا ہم سوچتے تھے کہ ہمیں کس وجہ سے پکڑا گیا ہے آخر ہم نے کیا جرم کیا ہے جس کی پاداش میں میں پکڑا گیا ہے ہمیں یہ معلوم تھا کہ آئی ایس آئی کے حلقہ بگوش غلام ، ملا سمیع اللہ نجیبی ، حاجی روح الله ، حاجی حیات اللہ اور ماسٹر ولی اللہ کے ساتھ ہماری دشمنی ہے اور حاجی روح الله نے ہمیں ٹیلی فون کے ذریعے دھمکی بھی د ی تھی کہ آئی ایس آئی کے ذریعہ تمہاری گردنوں کو توڑوں گا ۔ لہذاہمیں پہلے سے معلوم ہوا کہ ہم کو کس نے پکڑا ہے اور کیوں پکڑا ہے کچھ دیر بعد گاڑی کو کھڑی کر کے ہمیں اتارا گیا ۔ وہاں کھڑے افراد ہم سے پوچھنے لگے ان کے ساتھ وافعانی غلام جوہمارے گھر آئے تھے وہ بھی ایک طرف کھڑے تھے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے کہا عبدالرحیم اس نے کہا اپنا پورا نام لے اس کا مطلب تھا کہ تخلص بھی بتاؤ میں نے اپنا نام اور تخلص بھی بتایا بعد میں پتہ چلا کہ ہم پشاور میں شامی روڈ کے قریب آئی ایس آئی کی خفیہ جیل میں ہیں یہ خفیہ جیل باہر سے ایک گھر جیسی تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ جیل ہے جیل کی عمارت کچھ اسطرح کی تھی کہ نیچے سے کنکریٹ کی چند سیڑھیاں بنی ہوئی تھی ۔ اس سے آ گے گاڑیوں کی دھلائی کی جگہ بنائی گئی تھی جیل کا بڑا گیٹ لکڑی سے بنا ہوا تھا اور دروازے کے اندر چھوٹی سی گلی تھی دائیں اور بائیں جانب دو کمرے تھے گلی کے آخری سرے پرلوہے کی سلاخوں کا بنا ہوا سیاه گیٹ تھا ۔ دروازے کے اس طرف ایک اور راستہ تھا جو دائیں اور بائیں جانب مڑتا تھا ۔ اس کے سامنے ایک باتھ روم تھا جس میں کموڈ بھی تھا ۔ اس میں پانی کا کوئی نلکا نہیں تھا بلکہ دیوار کے پیچھے ایک چھوٹے سے سوراخ
part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی