عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۶

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6

پر بل آئے لیکن اپنے آقاؤں کے سامنے کچھ کہنے کی جرات نہ کی . 
امریکی : ہاں خیبراچھانام ہے ۔
 میں نے تو خیبر نام رکھنے کی پوری وجوہات بیان کی لیکن یہ کہ امریکی لڑکی نے خیبر کے نام کو کیوں پسند کیا اس کی الگ وجہ تھی ، وہ یہ کہ مذکورہ تفتیش کار اور محققین مقتدر یہودیوں میں سے تھے ان کیلئے خیبر کا نام بہت اہم ہے انہیں غزوہ خیبر کی تاریخ بہت اچھی طرح معلوم ہے اب بھی پوری دنیا کے یهود با الخصوص اسرائیل دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر مدینہ کے خیبر پر ضرور قبضہ کرلیں گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کھائی ہوئی شکشت کاانتقام ضرور لیں گے جب امریکی تفتیش کار نے کہا کہ خیبر واقعی اچھانام ہے تو اس کا مقصد مدینہ کا خیبر تھا نہ کہ پختونوں کا خیبر جیسا کہ خاطر غزنوی اور خاطر آفریدی کہتے ہیں ۔

 (اشعار کی گرافک صحیح ڈھنگ سے نہ ہو نے کی وجہ سے اسے ترک کر کے ہم آپ کے سامنے اسکا ترجمہ پیش کر رہے ہیں )

ہم خیبر کے جوان ہیں پشتو ہماری شان ہے ۔
 ہم پختون ہیں اور اپنے وطن پر ہماری جانیں قربان ہیں ۔ میں خاطر کی اس رنگین غزل پر حیران رہ جاتا ہوں 
ورنہ خاکی خیبر میں خاک کے علا وہ اور کیا رکھا ہے

 آخر میں انہوں نے وہ پوسٹر دکھائے جس میں ہماری گرفتاری سے پہلے مسلم دوست صاحب نے امریکی بمباری کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور منافقین کی بھی مذمت کی تھی ہمارے مخالفین نے ماضی کے اختلافات اور سازشوں کے علا وہ آخری سازش یہی کی کہ اس پوسٹ کو پاکستانی انٹیلی جینس کے حوالہ کیا تا کہ ہمارے پکڑنے کیلئے راستہ ہموار کرے ۔ 
امریکی : کیا یه پوسٹر تمہارے بھائی نے بنایا ہے ؟ 
بدر: یہ سوال خود میرے بھائی سے کریں وہ بھی تو آپ کی قید میں ہے ۔
امریکی : کیا وہ ہمارا سیاسی مخالف ہے ؟ 
بدر : یہ سوال بھی اسی سے کر لیں
 امریکی : کیا تم امریکیوں کے مخالف ہو ؟ 
میں امریکیوں سے امریکی ہونے کا مخالف نہیں بلکہ امریکیوں کی گندی سیاست کا مخالف ہوں ۔ جیسا کہ افغانستان میں اندھا دھند بمباری  بے گنا وعوام کا خون بہانا ، اور پوری دنیا اور خاص طور پر مشرق و سطی سمیت میں ظالمانہ اور غلط سیاست کا انتخاب کرنا اس کے بعد وہ ایک بار پھر دس منٹ کیلئے باہر چلے گئے ۔ دس پندرہ منٹ بعد جب دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے تو ایک سفید کارڈ پر چار نام لکھے ہوئے تھے وہ مجھے دکھائے میں نے ان ناموں کو پڑھاچاروں نام یہ تھے ملا سمیع اللہ نجیبی ، حاجی ولی اللہ ، حا جی روح اللہ حاجی حیات اللہ 
امریکی ، کیا ان لوگوں کو جانتے ہو ؟
بدر : ہاں یہی تو ہمارے بہت قریب کے لوگ ہیں ۔ 
امریکی : تمہارے ان کے ساتھ کوئی سیاسی مخالفت با دشمنی تو نہیں ہے ؟
بدر : کیوں نہیں ان سے ہماری شدید سیاسی مخالفت ہے انہوں نے تین بار ہمارے قتل خصوصا میرے بھائی مسلم دوست کے قتل کی کوششیں کی ہیں ۔ اور ابھی ہمارے گرفتاری سے دو دن پہلے فون پر ہمیں دھمکی دی تھی کہ تم بہت جلد جیل کی تاریک کوٹھریوں کے پیچھے ہو گے ۔ امریکی : ان کے ساتھ تمہاری مخالفت کیوں ہے ؟
 بدر : میرا بھائی ان کے ساتھ تنظیم میں ثقافتی شعبہ میں کام کیا کرتا تھا ایک مجلہ بھی نکالتے تھے ، یہ آئی ایس آئی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں . جب ہم نے ان کی غلط پالیسی کی مخالفت کی اور تنظیم سے نکلے تو ہمارے خلاف منصوبے اور سازشیں بنائیں ، ان لوگوں نے افغانستان کی عوام کے ساتھ بڑی خیانت اور دھوکہ کیا ہے مگر یہ بڑی بڑی کہانیاں ہیں جو اس وقت بیان نہیں کی جاسکتی ان لوگوں نے ہمیں ہلاک کرنے کیلئے کئی بار بم رکھ دیئے ہیں لیکن الله تعالی نے ہمیں محفوظ رکھا ہے ۔ بالآخر آئی ایس آئی کے ساتھ تعلقات سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں گرفتار کروایا میری یہ باتیں وہاں موجود آئی ایس آئی کے افسروں کو بہت بری لگی تھیں لیکن کچھ نہیں کہتے تھے ۔ ہماری ان
باتوں سے امریکی تفتیش کار بہت ز یادہ متعجب ہوئے ۔ آخر میں مجھے کہا کہ تم ہماری طرف سے فارغ ہو ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ، لو ہم چلتے ہیں ۔ شام کے قریب مجھے دوبارہ اپنے کمرے میں بلایا اور دروازے کو بہت زور سے پیچھے کی طرف بند کروایا عشاء کے بعد آئی ایس آئی کا ایک پختون افسر میرے کمرے میں آیا اور مجھے کہنے لگا تم تو بہت برے آدی ہو . 
بدر : میں نے کہا کیوں میں نے کیا کیا ہے ؟
 آئی ایس آئی اہلکار :  کیا لوگ اس طرح باتیں کرتے ہیں کیا یہ باتیں کرنے کی ہیں ؟
 بدر : میں نے تو ساری حقیقت بیان کی ہے ۔ 
آئی ایس آئی اہلکار : کیا تمہیں پتہ نہیں کہ ہم انہیں واچ کرتے ہیں اور وہ ہمیں واچ کرتے ہیں ۔
 بدر : یہ تو تمہارا اپنا کام ہے لیکن ہمیں تو ڈاچ مت کیجئے نا
 آئی ایس آئی اہلکار : آرام سے بیٹھو یہ ہمارے بڑوں کی باتیں ہیں زیادہ بحث مت کرو
بدر :  دورا تیں گذرنے کے بعد وہ پنجابی کرنل ایک بار پھر آیا اور مجھ سے چند بیہودہ سوالات پوچھنے لگا اکثر مکررسوالات تھے لیکن ان میں زیادہ سوالات افغانی جماعة الدعوة کے بارے میں تھے جب میں نے جوابات دئے تو مجھے کہنے لگا کہ اگر امریکیوں نے تم سے پھر پوچھا تو اس طرح کا جواب نہ دینا تو پھر میں کیا بتاؤں ؟ مت کہو کہ جماعة الدعوة آئی ایس آئی کے لوگ ہیں ، اگر باز نہ آیا تو میں تمہیں ایسی سزا دوں گا جو یادرکھو گے ۔ آئی ایس آئی اہل کار : ایک دو رات کےبعد وہ پختون افسر ایک بار پھر میرے کمرے میں چوری چھپے آیا اور ہر بات کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا اس نے مجھے بتایا یار ! ہم واقعی غلام ہیں ۔ 
بدر : میں نے پوچھا کس کے غلام ہیں ؟
 آئی ایسں آئی اہلکار : ان لال ٹماٹروں کے ۔
بدر : سرخ ٹماٹر کون ہیں ؟
 آئی ایس آئی اہلکار : تاں انگریز یہ امریکی جو گذشتہ رات یہاں آئے تھے ۔ یہ سب ایک ہی لوگ تو ہیں .اس پنجابی افسر نے تو ہمارے ساتھ بہت برا سلوک شروع کر رکھا ہے ۔ ہاں وہ امریکیوں کے سامنے بھی صرف چند ڈالراور ویزہ حاصل کرنے کیلئے کتا بنا ہوا ہے ۔ کیا تم اسے منع نہیں کر سکتے ؟
 آئی ایس آئی اہلکار : نہیں ہم اس کے سامنے بے بس ہیں مرکز میں اس کی بنیاد مضبوط ہے اور سارے اختیارات مرکز کے پاس ہیں ۔ اس افسر سے میری کئی کئی بار بات ہوئی اور ہر بار مجھے معلوم ہوا کہ سرحد کے پختون پنجابی حکام کے سامنے بے بس ہیں ۔ بعد میں ہمیں حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ پختون افسروں کو ہمارے قریب نہیں آنے دیتے اور یہ افسر جو ہمارے پاس آتے تھے خفیہ طور پر آتے تھے ۔ وہ مجھے کہتا تھا کہ میری ڈیوٹی عرب قیدیوں پر ہے میں آپ سے ملنے کیلئے چوری چھے آتا ہوں تم لوگوں پر بڑا ظلم ہوا ہے آپ بے گناہ ہیں . اس کے بعد ایک اور پختون ہمارے کمرے میں آیا او کہنے لگا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں مگر ہمارے بڑے نہیں چاہتے کہ تمہیں رہائی مل جائے کیونکہ تمہارے سیاسی مخالفین اب بھی ہمارے افسروں سے ملتے ہیں انہوں نے افغانستان میں ہمارے لئے بہت کام کیا ہے اب ہمارے بڑوں کو بھی ان کیلئے کام کرنا تو ہوگا ۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے افسروں کوشراب اورلڑکیوں کی ضرورت ہے اور حاجی حیات اللہ اس ضرورت کو پوری کرتا ہے ۔ گذشتہ روز بھی میں نے وہ لیڈی گلم جم ڈاکٹر کو دیکھا تھا کہ ہمارے افسر کے ساتھ بیٹھی تھی ، حاجی حیات اللہ نے اس ڈاکٹر کیلئے حیات آباد میں گھر کرایہ پرلیا ہے اور خرچ بھی حاجی حیات اللہ ہی دیتا ہے ، بہت زیادہ خوبصورت ہے ۔ خود بھی اسے استعمال کرتا ہے اور ہمارے افسروں کو بھی سپلائی کرتا ہے ۔

 دن رات گھڑی کی سوئی کی طرح گذر جاتے تھے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم مختلف چھوٹے افسروں سے سنتے تھے کہ جماعة الدعوة کے رہنما اب بھی ہمارے خلاف متحرک ہیں اور سازشیں تیار کر رہے ہیں چھوٹے افسروں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ہم نے کئی بار اسلام آباد کوخطوط ارسال کئے کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں لیکن وہ ہمیں جواب نہیں دیتے دراصل انہوں نے آپ کوجماعة الدعوة کے کہنے پر یہاں قید رکھا ہے تمہارے منافقین اب بھی ہمارے لئے بہت کام کر رہے ہیں وہ اب امریکی ڈالر اور سعودی ریالوں کو بھی ہمارے افسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تم تو سوکھی گائے ہو اور سوکھی گائے کو لوگ قصاب پر فروخت کرتے ہیں . 

واقعا کہ ہمیں امریکیوں پر فروخت کرنے کیلئے قید کر رکھا تھا اور بالآخر ان ہی پرفروخت کیا ۔ اس دوران ایسا وقت بھی آیا کہ دو تین ہفتوں تک ہم سے پوچھنے اور ملنے کیلئے کوئی نہ آتا تھا صرف ایک پنجابی پہرے دار ہمارے سامنے کھڑا ہوتا تھا ۔

 رفع حاجت بھی ہم پینٹ کے ایک ڈبے میں کرتے تھے جو پنجابی پہره دار چند دن بعد ہمارے ذریعے اٹھا کر باتھ روم میں خالی کرتا تھا کبھی کبھار چند روز بعد ہمیں باتھ روم جانے کی اجازت ہوتی بعض کمروں میں قید افراد پر میری نظر پڑ جاتی تھی لیکن ان کے ساتھ بات کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت عرب قیدیوں کی تھی ۔ 

جب میں اپنے بڑے بھائی مسلم دوست صاحب اور عبدالعلیم ہمت کے بارے میں پوچھتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں مگر میں انہیں دیکھ نہیں سکتا ایک دن ایک افسر ہاتھوں میں کاغذ پڑے ہوئے میرے کمرے میں داخل ہوا اور کہا کہ باہر آ جاؤ . جب میں باہر آیا تو معلوم ہوا کہ مجھے قریب کے کمرے میں قید عرب قید کیوں کی ترجمانی کیلئے لے جارہے ہیں ۔

 تین عرب قیدیوں میں دو نے کہا کہ ہم افغانستان میں رہائش پذیر تھے اور اپنے ملک سے ہجرت کی ہے ۔ مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ آئی ایس آئی کے افسر نے کیا لکھا تیسرے عرب نے کہا جس کا نام عیسی تھا کہ میں بحرین کا باشندہ ہوں کراچی کے آغا خان ہسپتال میں اپنی کمر کے علاج کیلئے پاکستان آیا ہوں اس کے پاس پاسپورٹ بھی تھا اور اس میں بھی یہی بات لکھی گئی تھی ، آئی ایس آئی کے افسر نے جو کا غذات زمین پر رکھے ہوئے تھے ان پر لکھا تھا کی طالبان کے ساتھ تعاون کیلئے افغانستان گیا تھا ، میں حیران ہو گیا ، میں حیرانی کی حالت میں تھا کہ میں نے ہاتھ بڑھا کر کاغذات افسر سے چھین لئے اگر چہ وہ انگریزی ٹھیک طور نہیں بول سکتا تھا مگر پڑھ سکتا تھا وہ سمجھ گیا کہ افسر نے اس کے بارے میں جھوٹ اور غلط بات لکھی ہے عیسی نے افسر سے پوچھا کہ کیا میں طالبان کے ساتھ مدد کیلئے افغانستان گیا ہوں ؟ افسر نے اسے کہا کیا تم انگریز ی جانتے ہو عیسی نے جواب دینے کی بجائے کاغذ کو پھاڑڈالا ۔ اور اسے کہا کہ میں اس وقت تک تمہارے سوالوں کا جواب نہیں دوں گا جب تک کہ تم میرے اور میرے پسند کے وکیل کے سامنے میرے جواب لکھو افسر نے طیش میں آ کر کہا : دیکھتے جاؤ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا ۔

 مجھے بھی وہاں سے نکال کر اپنے کمرے میں لایا اور غضب سے باہر کیطرف دروازے کو بند کر کے چلا گیا ۔ پھر ہم نے عیسی کو بگرام میں دیکھا جوہم سے پہلے وہاں پہنچا دیا گیا تھا ۔
 اسے دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ " تیرے ساتھ کیا سلوک کروں گا " کا مطلب کیا تھاجن عریوں کو میں نے پشاور میں آئی ایس آئی کی جیلوں میں دیکھا میں نے ان میں سے اکثر کو بگرام ، قندھار اور گوانتانامو جیل میں دیکھا لیکن ایک عرب کو جو زخمی بھی تھا اور بعد میں دوسرے عربوں نے کہا کہ وہ بھی تو را بورا میں ہمارے ساتھ تھا ، پشاور کے علاوہ کہیں نہ دیکھا ۔ اگر چہ پشاور میں بھی آئی ایس آئی کے افسروں نے بتایاتھا اور پھر گوانتانامو میں بھی اس خبر کی تصدیق ہوگئی کہ بعض عرب جن کے پشت پر بڑے گھرانے کھڑے تھے سیاسی اثر ورسوخ اور خطیر رقم کے عوض اپنے رشتہ داروں کو آئی ایس آئی اور شمالی اتحاد کے چنگل سے نجات دلا دی یا پھر حکومتوں کے اپنے بندے تھے جو مجاہدین کے بھیس میں ان کی صفوں میں داخل کئے گئے تھے مشکل وقت میں انہیں نکال لیا ، اسی عرب کے بارے میں جو کہ میرے کمرے کےپیچھے قید تھا اور پھر غائب ہو گیا تھا ۔ آئی ایس آئی کے چھوٹے افسروں اور پھر عربوں نے کہا کہ اس کے پیچھے سعودی سفارتخانے سے کچھ لوگ آئے تھے اور اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے آئی ایس آئی کے افسر نے ایک رات پہلے بھی عربوں کو پشاور کے ہوائی اڈے میں امریکیوں کے حوالے کیا اور بتایا کہ ہم صرف ان لوگوں کو امریکیوں کے حوالہ کرتے ہیں جو یتیم ہیں ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نہ آئی ایس آئی سے تعلقات رکھتے ہیں اور نا ہی امریکہ سے ، نہ اپنی اپنی حکومتوں کے آدمی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پیسے ہیں وہ سوکھی گائے کی مانند ہیں اور قصابوں پر فروخت کئے جاتے ہیں وہی لوگ یتیم ہیں ۔

 پاکستانی اور افغانی منافقین بھی ایسا ہی کرتے تھے وہ بھی اپنے امریکی اور آئی ایس آئی کے آقاؤں کو صرف وہی اشخاص حوالہ کرتے تھے جن کے پاس پیسہ نہ ہوتا تھا ۔ البتہ حکومتوں کے بندے تو پہلے سے ان کی حفاظت میں ہوتے تھے ۔ پاکستان نے افغانستان پر امریکی حملے سے پہلے اپنی اہم فوجی شخصیات ، اور طالبان میں اپنے طالب ایجنٹوں کو نکال لیا ، طالبان کے بعض بڑوں نے گوانتانامو میں بتایا کہ پاکستان نے اپنی اہم شخصیات کو نکالنے کیلئے طیارے بھی بھیجے تھے اور باقی ماندہ افراد کوحتی المقدور مددبھی پہنچاتے تھے شمال میں گرفتار کیے گئے پاکستان کے آئی ایس آئی کے چھوٹے افسرز اپنی حکومت کو گالیاں دیتے تھے کہ بڑے افسروں کی تو طیارے میں لے گئے مگر ہمیں یہاں چھوڑ دیا ۔

 اس کے بارے میں مزید معلومات آگے آئیں گی ۔ اب ہم ایک بار پھر آئی ایس آئی کی کال کوٹھڑیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
جن دنوں میرے کمرے میں کوئی بھی افسر نہ آتا تھا تو ان دنوں میں میں نے تین دن تک بھوک ہڑتال کی ، ویسے بھی جلی ہوئی روٹی اور مساله دار جلے ہوئے سالن نے میرے خراب معدے کو مزید خراب کر دیا تھا ۔ بہت کم کھاتا تھا اور میرا وزن دن بہ دن کم ہوتا جار ہاتھا مسلم دوست صاحب جو کہ گھر میں ہر طرح کے ڈالڈا گھی کھانے سے اجتناب کرتے تھے اور چربی یا دیسی گھی کھاتے تھے ایک مہینے تک دودھ اور دہی کھایا کرتے تھے لیکن جب وہ بہت ضعیف اور کمزور پڑ گیا تو مجبوراً وہ بھی آئی ایس آئی کے جلے سڑے سالن اور چپاتی کھانے پر مجبور ہوا کھانا جیسا بھی تھا لیکن اسے ویسے بھی مسالے پسند تھے ۔ پہرہ داروں نے میری بھوک ہڑتال کے متعلق افسروں کو اطلاع دی ، ایک افسر نے آ کر مجھے بتایا کہ تمہاری یہ بھوک ہڑتال کوئی فائدہ نہ دے گی یہاں تمہارے جیسے بہت سے افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہم نے نہروں میں پھینک دئے ہیں ، جب میں نے اپنی بھوک ہڑتال کو جاری رکھا تو ایک پنجابی افسر آیا اور مجھے پوچھا کے تم نے بھوک ہڑتال کیوں کیا ہے ؟ میں نے کہا ہم یہاں کیوں پڑے ہوئے ہیں ہمارے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہورہا ہے ۔
 آئی ایس آئی : اس نے کہا تمہارا کیا جرم ہے ؟ 
بدر : میں نے کہا ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر ہم نے کوئی جرم کیا ہے تو ہمیں بتادیں ۔ 
آئی ایسں آئی ۔ اس نے کہا طالبان آپ کے favorite ( پسند یدہ ) ہیں ۔ 
بدر : طالبان کو ہم سے زیاد تمہیں سیاسی مقاصد کے لئے پسند ہیں ۔ 
آئی ایسں آئی ۔ اس نے مسکراہٹ کے لہجے میں کہا ایسی بات مت کہا کرو
بدر : سچ بات تو یہی ہے کہ جب امریکی ڈنڈا سر پر آیا تو آئی ایس آئی نے اپنے کرتوتوں سے انکار کیا ، پھر ملا عبدالسلام ضعیف اور ملا خیر اللہ خیر خواہ کو امریکہ کے حوالہ کر کے اپنے نمبر بڑھا دیئے اور مولوی کبیر کیطرح ایجنٹوں کو اپنے ساتھ رکھ لیا ۔ 
ہم آئی ایس آئی کے سیلوں میں دو مہینے اور بائیس دن 
ر ہے اس دوران آئی ایس آئی کے افسروں کی زبانوں سے بعض حقائق بھی ظاہر ہوتے تھے ۔ ان میں سے کئی بار میرے سامنے اظہار مافی الضمیر کرتے تھے ۔ جب میں بار بار ان سے پوچھتا تھا کہ ہمارا فیصلہ کیوں نہیں ہوتا ہے تو وہ کہتے تھے کہ ڈالروں کو تو بضم ہونے دو اور کبھی کبھار کہہ دیتے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہی آپ کو نجات دے یہاں کوئی بھی کسی کے کام نہیں آتاہر کسی
کے پاس ڈالر کا غم ہے ۔ 
آئی ایس آئی : ایک دن ایک افسر نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم اس وقت کہاں ہو ؟
بدر : میں نے کہا آرمی سٹڈیم کے قریب 
آئی ایس آئی : اس نے کہا بہت تیز ہو . 
بدر : اس میں تیزی کی کیا بات ہے تمہارے بدنام زمانہ دفتر کا پتہ کس کو معلوم نہیں میں تو پشاور میں چھوٹے سے بڑا ہوا ہوں .
 آئی ایس آئی ۔ ہم تو تم کو یہاں ایسی حالت میں لائے تھے کہ تمہاری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی تم کیسے جانتے ہو کہ یہ آرمی سٹیڈیم کے قریب ہے ؟. 
بدر : میں نے کہا کیا تم یہ آوازیں سنتے ہو ؟
 آئی ایس آئی : کون سی آواز ؟
 بدر : ان لوگوں کی آواز ہیں جو آرمی اسٹیڈیم کے تفریح گاہ  میں بڑے جھولوں سے کھیلتے ہیں اور شام کے وقت یه آواز اور بھی تیز ہوتی ہیں ۔ 
آئی ایس آئی : کسی اور کو یہ بات مت بتادینا . 
بدر : اس شور کے علاوہ اس فقیر کو چھوٹی بڑی گاڑیوں کی آمد ورفت اور ان کی ریورس گیر کے خصوصی ہارن سے جن کی آواز بہت کم ہے میرے کان آشنا ہو چکے تھے ۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ اسی عمارت میں گاڑیوں کا سروس اسٹیشن بھی ہے کیوں کہ ان مجرموں کی بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کی مرمت اور دھلائی بھی خاص جگہ پر ہوتی ہے تا کہ دوسرے لوگوں کو شک و شبہ پیدا نہ ہو جائے اس کے علاوہ جس کمرے میں ہم قید تھے اس کے پیچھے ایک کیچن بھی تھی جہاں سے روٹیاں پکاتے وقت ٹپ ٹپار کی آوازیں سنائی دیتی تھی ۔ ایک بار پہرا دار نے مجھے بتایا کہ اسی کیچن سے ارگرد کے گھروں کو بھی غذا مہیا کی جاتی ہے ۔ باورچی خانے سے موسیقی کی آواز بھی سنائی دیتی تھی جو اکثر پنجابی گانے ہوتے تھے اور بار بار سننے میں آتے ، باورچی خانے میں موجود افراد ایک دوسرے کا نام نہیں لیتے تھے اس کا اندازہ اسی طریقے سے لگا کہ وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے وقت ہیلو ، آو میری جان اورگالیاں دے کر آپس میں باتیں کرتے تھے ۔ 
ایک بار میں نے پہرہ دار سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں یہ گندے الفا ظ بار بار استعمال کرتے ہیں ؟ حتی کہ اپنی آوازوں کو بھی بدل دیتے ہیں ؟ اس نے بتایا کہ یہاں پر نام لینے کی اجازت نہیں اسی لئے ہم یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں ، آئی ایس آئی کے انہی بداخلاق ریچھوں نے اپنے پڑوسی افغانستان کو تباہ کردیا ۔ 
وقت گزرتا گیا بالآخر وہ رات آئی جب آئی ایس آئی کے ایک انسپکٹر جو ہر وقت ہمارے قریب آیا جایا کرتا تھا ۔ ہمارے کمرے میں داخل ہوا اور مجھے کہا کہ آج ہمارے کچھ افسر اسلام آباد سے آرہے ہیں اورتم سے تفتیش اور پوچھ گچھ کریں گے ۔ یہی انسپکٹر جو میرے اور پہرہ دار کے درمیان پاگل شخ کے نام سے مشہور تھا آج بہت گھبرایا ہوا معلوم ہوتا تھا معمول سے اس کی آنکھیں ز یادہ باہر نکلی کی تھی ، میری مکمل تلاشی لے لی اور مجھے کہا کہ میں کچھ دیر بعد آؤں گا ۔ 
عشاء کے بعد یہ پاگل شیخ اور وہ لمبا پنجابی آیا جو پختونوں کیطرح واسکٹ اور پکول پہنا کرتا تھا شکل سے پختون معلوم ہوتا تھا لیکن پشتو زبان نہیں بول سکتا تھا اسی لیے پنجابی کو میں نے اپنے گھر کے سامنے چھاپہ مارنے سے ایک دن پہلے سرکاری گاڑی میں دیکھا تھا اس نے مجھے کمرے سے نکالا اور میری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی ، ہاتھوں کو بھی ہتھکڑیاں پہنائی اورتحقیق کے نام سے مجھے روانہ کیا ، اس بار پاگل شیخ اور لمبا پنجابی کی آنکھیں کچھ زیادہ شرمسار تھیں میرے ساتھ بالکل بات نہ کی ، مجھے گاڑی میں بٹھا دیا گاڑی بھی اسی بغیر نمبر پلیٹ لینڈ کروزر کی طرح تھی جس میں ہمیں گھر سے گرفتار کر کے یہاں لایا تھا اور تحقیق کیلئے لے جاتے تھے ۔

 اس بار بھی تحقیق کے نام پر ہمیں پشاور کے ہوائی اڈے کی طرف روانہ کیا گیا اگر چہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے مجھے بتایا تھا کہ تمہارے بڑے بھائی اور ہمت کورہا کر چکے ہیں لیکن مجھے یقین نہ آتا تھا لیکن بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں واقعی رہا کردیا ہے ۔ یہ امریقینی نہ تھا کہ ہمیں امریکہ کے حوالے کریں گے مگر پھر بھی مجھے شک ہو چکا تھا لیکن میرے دل میں یہ بات آتی تھی کہ اگر ہمیں واقعتا امریکہ کے حوالہ کریں گے تو ہمارے سروں پر سیاه خريطه ( لمبا تھیلا جو منہ پر چڑھایا جاتا ہے ) پہنائیں گے مگر وہ ابھی تک ہمیں نہیں پہنایاتھا ۔ اسی وجہ سے میرا دل قدرے مطمئن تھا کالے تھیلے سب سے پہلے عربوں کو امریکہ کے حوالے کئے جاتے وقت ان کو پہنائے جاتے مجھے اپنے لباس شلوار قمیص اور پکول میں روانہ کیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مجھے یہ خریطہ اس لئے نہیں
پہنایا گیا تھا کہ انہیں جہازآنے کے بارے میں یقین نہ تھا ۔ ہمارے سیلوں سے تفتیشی دفتر تک پانچ منٹ کا اور ہوائی اڈے تک دس منٹ کا فاصلہ ہے مگران ظالموں نے ہمیں اسی رات 25 منٹ تک مال روڈ پر گھمایا اور بالاخر ہوائی اڈے میں داخل ہوئے میں ابھی تک نہیں جانتا تھا کہ ہم کہاں ہیں فروری کا مہینہ اور شدید سردی کا موسم تھا گاڑی میں ھیٹر لگا تھا گاڑی کے شیشے تو پہلے سے اس لئے بند تھے کہ ہم باہر کی آواز نہ سن سکیں جب ہوائی اڈے میں ہماری گاڑی سے ایک آدمی اترا جہازوں کی آواز یں ہم نے سنیں گاڑی میں بٹھاتے وقت مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلم دوست صاحب کو بھی اسی گاڑی میں بٹھایا گیا ہے گاڑی میں بٹھاتے وقت مسلم دوست صاحب کی آواز میں نے سنی تھی لیکن ہمیں آپس میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔
 مجھے اور مسلم دوست صاحب کو آمنے سامنے بٹھایا تھا ایک بار میرے ہاتھ ان کے ہاتھوں سے لگ گئے اور مجھے معلوم ہوا کہ اس کے ہاتھوں کو بھی تھکڑیاں پہنائی گئی ہیں ۔ ہمارے قریب پاگل شیخ اور پختون نما پنجابی کو بٹھایا گیا تھا وہ بھی آپس میں بات کرنے سے منع کیئے گئے تھے لیکن جب ہوائی اڈے میں سامنے سیٹ میں بیٹھا ہوا افسراتر گیا تو یہ دونوں آپس میں کچھ بولنے لگے ہم نے ان کی آواز کو پہچان لیا اس وقت میں نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر سمجھانے کے بہانے سے آنکھوں سے پٹی کو تھوڑا سا سرکایامیں نے دیکھا کہ پاگل شیخ اور پختون نما پنجابی بیٹھے ہیں گاڑی سے با ہر روشنی تھی مگر گاڑی کا شیشہ شبنم کے قطروں سے آبگین تھا ۔ میں نے دیکھا کہ گاڑی کے ایک شیشے پر پختون نما افسر نے لکھا ۔ " کیا یہ طالبان ہیں ؟ " پاگل شیخ نے نہیں میں جواب دیا ۔ 
اس نے دوبارہ لکھا : شاید آج جہاز نہ آئے ، پھر پاگل شیخ نے حیرت کا اشارہ کیا ۔ اب ہمیں یقین آ گیا کہ شاید ہم جہاز کا انتظار کر رہے ہیں ، میں نے اپنے پاؤں کے اشارہ سے مسلم دوست صاحب کے پاؤں پر زور ڈالا اور کہا کہ کیا ہورہا ہے ؟ اس نے کہا حالات ٹھیک نہیں ہے ۔ پھر کہا یہ ہوائی اڈہ ہے اور ہمیں امریکیوں کے حوالہ کر رہے ہیں . اس کی بات بالکل صحیح تھی لیکن میں حیران تھا کہ آخر ہمیں کیوں امریکیوں کے حوالہ کررہے ہیں ۔ پاگل شیخ اور پختون نما پنجابی ہماری باتیں سن رہے تھے مگر ہمیں منع نہ کرتے تھے کیونکہ یہ بے غیرت لوگ ہمارے سامنے بہت شرمسار تھے ہمیں تو بات کرنے کی اجازت ہی نہ تھی لیکن انہیں بھی بات کرنے کی اجازت نہ تھی مگر ہماری خوش بختی تھی کے ہمیں باتیں کرنے کا موقع ملا کیونکہ پہلی سیٹ میں بیٹھے ہوئے بڑا افسر گاڑی سے اتر کر ہوائی اڈے کے اندر رن وے پر آئی ایس آئی کے دوسرے
افسروں اور کرنیلوں کے جمگھٹے میں شریک ہو چکا تھا اگر چہ بند گاڑی میں طیاروں کی آوازیں سنی جاتی تھی مگر ایک جہاز کی آواز آہستہ آہستہ تیز ہوتی جارہی تھی ہمیں محسوس ہورہا تھا کہ جہاز ہماری طرف قریب ہور ہا ہے ، اس وقت ہماری گاڑی کے پیچھے کا دروازہ کھل گیا اور ہمیں کہا گیا کہ نیچے آؤ ہمیں بازؤں سے پکڑ کر نیچے اتارا ، چونکہ میں نے پہلے سے سیاہ نیٹ ورک کی کالی پٹی کو اپنی آنکھوں سے تھوڑا سا ہٹایا تھا تو میں نے دیکھا کہ جہاز سے امریکی فوجی اتر رہے تھے جن کے ساتھ غیر سرکاری لباس پہنے ہوئے افراد بھی شامل تھے اس وقت میں نے مسلم دوست صاحب کی آواز سنی جو بتارہے تھے تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ ہمیں امریکیوں کے حوالے کرر ہے ہو ؟ قیامت کے دن اللہ کے حضور میں کیا جواب دو گے مجھے ایک آدمی نے بازو سے پکڑ کر امریکی فوجیوں کی طرف روانہ کیا انہیں حوالہ کرتے وقت مجھے کہا : " چلواللہ تمہارے ساتھ ہے .
 میں نے جواب میں بلند آواز سے کہا : کیا آپ بھی اللہ پر یقین رکھتے ہیں اللہ میرے ساتھ تو ہے لیکن بہت جلد اللہ تعالی آپ کو ذلیل کر کے دکھائے گا ، امریکی فوجیوں نے مجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیا پہلے میری آنکھوں پر بندھی ہوئی سیاہ پٹی کو ہٹایا اور فورا ایک بوری میرے سر پر چڑھائی بوری سے کیمیکلز کی بو آ رہی تھی اسی اثنامیں میں نے چند سیکنڈوں میں امریکی کمانڈو اور رسیوں سے بندھے ہوئے کتے اور ان کے وفادار حقیقی کتوں کو اکٹھے کھڑے دیکھا ۔ جہاز کا عقبی دروازہ کھلا ہوا تھا اور جہاز کے دونوں جانب امریکی فوجی قطار میں کھڑے تھے صرف وہی چند فوجی جو ہمیں پکڑنے اور سروں پر بوری پہنانے کیلئے مامور تھے اپنے پرائیوٹ لباس والے افسروں کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑے تھے زنجیروں میں بندھے ہوئے ان کے کتے بھونکتے تھے اور آئی ایس آئی کے انسان نما کتے ہمیں خاموشی سے دیکھتے تھے آئی ایس آئی کے کرنل اور جرنیل امریکی فوجیوں کے سامنے نیت باندھتے ہوئے با ادب کھڑے تھے ۔ ہمارے ساتھ وہ بھی ہیں اور ایک فوجی ٹرک میں لاتعداد فوج بھی آئے تھے ایک بڑا میلہ لگا ہوا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو حوالہ کرنے کی محفل سجائی گئی ہے ۔ امریکیوں نے ہمارے سروں پر بوری پہنانے کے بعد ایک مضبوط سلوشن ٹیپ سے اسے باندھا اس کے بعد امریکی فوجیوں نے میرے ہاتھوں سے آئی ایس آئی کی آہنی ہتھکڑی کھول دی ، اور کھولنے کے بعد فورا میرے ہاتھوں کو پیچھے کی طرف سے پلاسٹک سے بنی ہوئی ہتھکڑی سے با ندهد دیا پھر مجھے زمین پر گراد یا انہوں نے یہ کام بہت سرعت کے ساتھ کیا جن میں خوف کا عنصر زیادہ تھا ۔
 زمین پرلٹانے کے بعد زور زور سے چیخیں مارنا شروع کی . اور Don't move " حرکت مت کرو " کی
آواز بھی تیزی سے نکالتے تھے ۔ مجھے زمین پر الٹ پلٹ کر کے میری تلاشی لے لی لیکن پھر بھی کچھ حاصل نہ کیا ہمارے گھر کا تو آئی ایس آئی والوں نے پہلے سے صفایا کیا تھا لیکن میرے ہاتھ میں صرف ایک راڈو گھڑی بچی ہوئی تھی اسے بھی آئی ایس آئی کے چوروں نے ہوائی اڈے پر پہونچنے سے پہلے مجھ سے چھین لیا وہ تو اب مطمن ہو گئے تھے کہ ہم ہمیشہ کیلئے اوجھل ہو گئے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ملا عبدالسلام ضعیف سے بھی چھ لاکھ کی گھڑی چھین لی گئی تھی ۔ گوانتانامو جیل میں ضعیف صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ گھڑی مجھے کسی نے تحفے میں دی تھی اس نے گاڑی کے بارے میں امریکیوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی والوں ہمیں نہیں دی ہے ۔ ملا ضعیف صاحب کو ہماری گرفتاری کے بعد اسلام آباد سے پشاور لایا گیا تھا اور پشاور میں تین دن مہمان بنا کر چوتھے دن پشاور کے ہوائی اڈے میں امریکیوں کے حوالہ کیا گیا تھا ۔ امریکیوں نے ملا ضعیف کو اس کے دوستوں کے سامنے برہنہ کر کے جہاز میں سوار کیا اور بحری بیڑے میں منتقل کیا تھا وہاں سے بگرام قندھار اور وہاں سے کیوبا منتقل کیا تھا لیکن آئی ایس آئی کا جھوٹا اخباری بیان یہ تھا کہ ضعیف صاحب کو طورخم باڈرکے اس پار چھوڑ دیا گیا ہے ۔

 اس کے بارے میں مزید معلومات آگے آرہی ہے حال ہی میں مسلم دوست صاحب کی دوبارہ گرفتاری کے بعد خفیہ ایجنسیاں اور انکی ایجنٹ چاہتے تھے کہ اسے ہمیشہ کیلئے غائب کر دے تو اخبار میں بیان دیا کہ مسلم دوست صاحب جو کہ قیمتی پتھروں کا ایک تاجر ہے کوکسی نے اغواء کر لیا ہے لیکن سب جانتے تھے کہ آج کل کے سب سے بڑے اغوا کا رکون ہیں ہم پشاور ائیر پورٹ پرتھے تلاشی کے بعد دوفوجیوں نے مجھے بازوؤں سے پکڑ کر تیزی سے جہاز کی طرف روانہ کیا ۔ بندھے ہوئے پاؤں سے تیز چلنا میرے لئے پہلا تجر بہ تھا آنکھیں بند تھیں لیکن مجھے اتنا پتہ چلا کہ بلندی کی طرف جا رہا ہوں جہاز میں پہنچنے کے بعد مجھے جہاز کے فرش پر بٹھاد یا مجھے پتہ چلا کہ میرے قریب دو افراد اور بھی ہیں مسلم دوست صاحب کے بارے میں تو مجھے پہلے سے علم تھا کہ وہ میرے ساتھ ہے لیکن ایک اجنبی آواز بھی آرہی تھی کہ میری سانس ڈوب رہی ہے ۔ ہائے میں مر گیا . میں نے یہ آواز کئی بار سنی لیکن نہیں جانتا تھا کہ یہ آواز کس کی ہے ؟ اس وقت مسلم دوست صاحب نے مجھے آواز دی کہ ان فوجیوں کو بتاؤ کہ اس شخص کی سانس ڈوب رہی ہے سانس تو ہماری بھی ڈوب رہی تھی لیکن ہم شکایت نہیں کرتے تھے ۔ میں نے امریکی فوجی کو بتایا کہ وہ سانس نہیں لے سکتا ہے . He cannot breath فوجی پہلے سے زیادہ چلائے اور کہا ۔ Be quite چپ ہوجا .Don't move ہلنامت ، your fucking mouth Shut اپنی زبان بند رکھو . یہ الفاظ تین بار چلاتے ہوئے دھرائے . جب میں نے دوسری بار شکایت کی تو امریکی فوجی نے کہا . You will get used to it " تم اس کے عادی ہو جاؤ گے " . اس جملے کے ساتھ وہ ہمیں ڈرانے کیلئے کتے کو ہمارے قریب لے آیا جو بالکل ہمارے منہ کے سامنے بھونکتے تھے اور ہم پر حملہ کرتے تھے ۔ جہاز میں بہت شور تھا اور بات بہت مشکل سے سنی جاتی تھی میں نے ایک جملہ بھی سنا : The fucking dog knows that a fucking military action is going on یہ کتا جانتا ہے کہ ایک فوجی آپریشن جاری ہے ۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ امریکی Fucking کے الفاظ زیادہ بولتے ہیں جس سے ان کی اخلاقی پستی اور گراوٹ معلوم ہوتی ہے ۔ جہاز میں سوار کرتے اور وہاں بٹھانے کے وقت کثرت سے تصویر کھینچی جاتی تھی ، کیوں کہ ہم بار با فلیش کی روشنی کو محسوس کرتے تھے ہمیں طیارے کے فرش پر ایسا باندھا کہ نہ بیٹھے تھے اور نہ ہی لیئے ہوئے تھے یعنی معلق حالت میں تھے بندھے ہوئے ہاتھوں اور پاؤں کے باوجود ، پاؤں ، پیٹ اور کمر پر ایک لمبی پٹی باندھ لی جو پاؤں اور کمرتک ۱۳۵ ز او یه پرآگئی اگر بیٹھنے کی کوشش کرتے تو ہمیں لاتیں مارتے تھے اور اگر لیٹنے کی کوشش کرتے تو پھر بھی ہم پر مکوں اور لاتوں کی بارش شروع ہو جاتی ہم پر یہ پریکٹس آدھی رات کے وقت شروع کی گئی کہ کوئی بھی مسلمان حتی کہ ہمارے گھر والوں کو بھی محسوس نہ ہور ہا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے خفیہ اداروں کے یہ مجرم آدھی راتوں میں جرائم کرتے ہیں تا کہ ہرقسم کے قانون کی آنکھوں سے پوشیدہ ہو ۔ ہمارے طیارے نے بھی آدھی رات کے وقت پرواز کی اور میں نے اپنے تصور میں ہمیشہ کیلئے امریکی طیارے کے پیچھے تمام پختونخوا ہ اور اپنے گھر والوں سے الوداع کیا طیارہ اپنا سفر جاری رکھا ہوا تھا اور میں اس فکر میں تھا کہ ہم سیدھا کیوبا کی طرف جارہے ہیں کیوں کہ ہم نے آئی ایس آئی کے اہلکاروں سے سنا تھا کہ عربوں کو حوالہ کرنے کے بعد سیدھا کیو بامنتقل کیا جاتا ہے میں نے بھی سنا تھا کہ امریکی قیدیوں کو اپنے سمندری بیڑے میں رکھتے ہیں خیالی طور پر میں خود کو بھی بیڑے میں پڑا ہوا محسوس کر رہا تھا اور کبھی گوانتانامو جیل میں ، میں اتنا جانتا تھا کہ جہاز ہر گھڑی اوپر کی طرف جا رہا ہے ، میں نے یہ بھی سنا تھا کہ
 کیو باتک ۲۰ گھنٹوں کا سفر ہے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد طیارے نے نیچے کی طرف اترنا شروع کیا اور بالاخره ائیر پورٹ پر اترنے کے جھٹکے میں نے محسوس کئے طیارہ کھڑا ہوا اور ہمیں طیارے سے نیچے اتارا گیا ۔ اب

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی