عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۱

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6

عبد الرحیم مسلم دوست اور بدرالزماں بدر کی زبانی ایک ناقابلِ یقین کہانی جسے پڑھ کر نہ صرف یہ کہ آپ کا ایمان تازہ ہوگا بلکہ یہ حقیقت بھی کھلے گی کہ انسان خدائی کے نشے میں بدمست ہو کر کیا کچھ کر گذرتا ہے قسط وار پڑھنے کے لئے سبسکرائب کیجئے


قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ جب11 ستمبر2001 کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر طیاروں کے ذ ر یعہ حمله ہوا تو امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر بری اور فضائی راستوں سے افغانستان پر بھر پور حملہ کیا ۔ اس حملے میں کروز میزائیل کے علاوہ محد ود معمولی مقدار میں اسیٹی ، بائیولوجیکل اور بڑے پیانے پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کیا امریکہ نے افغانستان کی جنگ میں وہ نیا ہتھیار بھی استعمال کیا جو اس سے پہلے دنیا کے کسی بھی گوشے میں استعمال نہیں کیا گیا تھا ۔ اس وقت پاکستانی حکمرانوں نے اپنے دوغلی سیاست کی وجہ سے اور ڈالروں کے لالچ میں امریکہ کو اپنے فضائی اڈے حوالے کر کے افغانستان پر امریکی حملے میں حصہ لیا اور بہت سے بے گناہ افراد ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا اس ضمن میں ، ہم دونوں بھائی عبدالرحیم مسلم دوست اور استاد بدر الزمان بدر بھی پاکستانی اور امریکی ظالمانہ چنگل میں پھنس گئے شامی روڈ پر واقع آرمی سٹیڈیم کے قریب آئی ایس آئی کے دفتروں کے اندر خصوسی زندان سے لے کر بگرام ، قندھار اور کیوبا گوانتانامو کے پنجروں تک ہم نے ساڑھے تین سال قید و بند میں گزارے یعنی - ۹-۱۳۴۴هجری قمری سے و -۳ - ۱۴۴۵ ہجری قمری تک جیل میں پرمشقت زندگی گزارنے کے بعد اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آزاد ہوئے ، یہ طویل مدت اسلام اور انسانیت کے خلاف ایسی اذیت ناک اور اند و ہناک کہانیوں سے بھری ہوئی ہے جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اس سے پہلے کہ ہم قارئین کرام کو اپنی سرگذشت بیان کر یں  بہتر ہوگا کہ حالات کی مناسبت سے افغانستان اور خطے کے سیاسی حالات ، جہادی اور سیاسی تنظیموں ، اور بعض بمسایہ مما لک کے سیاسی طرز عمل اور ان کی انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر روشنی ڈالیں گئے ۔ جب سردار داؤدخان نے فوجی بغاوت کے ذریعے شاہ ظاہر شاہ کی بیالیس سالہ شاہی اقتدار کا خاتمہ کر دیا تو انہوں نے افغانستان میں جمہوریت کا اعلان کیا ہم یہاں مختصر طور پر داؤد خان کے فوجی بغاوت کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالیں گے ۔ 

ظاہر شاہ کے خلاف داود خان کی فوجی بغاوت 
جب سردار داؤدخان ۱۳۵۲ ٫ ۳ ٫ ۲۹ هجری شمسی مطابق 17/7/1973  ٫ میلادی سال میں ایک بغاوت کے ذریعہ مسند اقتدار پر قابض ہوا اور شاہ ظاہر شاہ کا بیالیس سالہ اقتدار ختم کیا تو اس وقت شاہ ظاہر شاہ اٹلی کے دورے پر تھے ۔ داؤد خان نے بغاوت کے بعد سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے ینعی صدر کے عہدے سے لیکر وزارت عظمی ، دفاع اور وزارت خارجہ تک کے تمام تر عہدوں کا مالک بن بیٹھا ۔ چونکہ فوج میں موجود کیمونسٹ افسروں نے بغاوت میں داو و خان کا ساتھ دیا تھا چنانچہ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سردار داؤد کا سیاسی محاصرہ کیا اور حکومت وفوج میں اپنا نفوس بڑھا دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ داؤد خان کے دور اقتدار میں مسلمان تنظیموں کے خلاف سازشیں زور پکڑ گئیں داؤد خان نے افغانستان کی ترقی کیلئے دس سالہ منصوبہ تیار کیا ۔ پشتونستان کے مسئلے کو اور بھی ہوادی ؟ یہاں تک کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہت خراب ہونے لگے ۔ چونکہ پاکستان ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کے خاتمے کے بعد ایک مقبول اور ترقی یافتہ افغانستان برداشت نہیں کرسکتا تھا اور پاکستان کویقين تھا کہ داؤد خان کا ماسٹر پلان پاکستان کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تو پاکستان نے افغانستان میں موجود مسلمان تنظیموں کے ساتھ خفیہ روابط قائم کئے ادھر سردار داؤد کے دور حکومت میں مسلمان تنظیمیں ظلم و جبر کا شکار تھیں اس لئے پاکستان نے موقع غنیمت جانا جنرل نصیر الله بابر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں صوبہ سرحد کے گورنر اور انٹیلی جنس ادارے کا ایک فعال کا رکن تھا اس سنہر ے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور افغانستان کی اسلامی تنظیموں کے بڑے بڑے اراکین کو پاکستان میں پناہ دی . اگر چه افغانستان کی اسلامی تنظیموں کے اراکین اور پاکستانی حکمرانوں کے اہداف میں بہت بڑا فرق تھا لیکن مشترک دشمن کو مٹانے کیلئے دونوں نے ایک دوسرے کی مجبور یوں سے فائدہ اٹھایا حکومت ، فوج اور افغانستان کی اسلامی تنظیموں کے ارکان کے درمیان روابط میں نصیراللہ بابر نے بڑا کردار ادا کیا ۔ افغانستان کی اسلامی تنظیم کے کارکن خفیہ راستوں سے پشاور آتے یہاں قلعہ بالا حصار میں میجر رنگ با دشاہ کے توسط سے متعلقہ حکام سے ان کی ملاقات کی جاتی تھی وہ انہیں ٹریننگ کیلئے فوجی گاڑیوں میں چراٹ اور اسلام آباد سے پشاور میں بھیجتے، بیسکواور فقیر آباد میں ان کیلئے دفاتر قائم کئے گئے تھے فوجی ٹر یننگ کے بعد ان کو دشوارگذار پہاڑی راستوں سے واپس افغانستان بھیجا جاتا جس کے نتیجے میں ۱۳۵۳ هجری شمسی میں افغانستان کے مختلف صوبوں اور ضلعوں میں حکوتی اهداف پر مسلح حملے ہوئے ۔ ابتداء میں عوام نہیں جانتے تھے کہ یہ حملہ کون کرر ہے ہیں ؟ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق بات کرتا ۔تا ہم بہت جلد عوام اس حقیقت سے آگاہ ہوئے کہ یہ حملے افغانستان کے ۔ اخوان المسلمین تنظیم کے ارکان کررہے ہیں ۔ اس وقت اسلامی تنظیم کے اراکین نے خفیہ طور پربعض چھاپ شدہ منشور ، لٹریچر اور شبنامے بھی افغانستان پہنچا دیئے جن میں داؤد خان کا مضحکہ خیز ڈرامہ ، فاجعه ۱۲۹ سرطان ( نامی کتاب ) وغیرہ وغیرہ ..... مجاہدین کے مسلح تصادم کی وجہ سے سر کا ر وقت نے اسلامی تحریک کو کچلنے کا پروگرام شروع کیا اور اس سلسلے میں اسلامی تحریک پر حملے کے ضمن میں تعلیم کے کچھ ارکان جیسے مولوی حبیب الرحمان ، ڈاکٹر عمر وغیرہ افغانستان سے فوجیوں کے ہاتھوں پکڑے گئے کچھ اشخاص کو داؤدخان کے دور حکومت میں اور کچھ اشخاص کو کیمونسٹ انقلاب کے بعد شہید کیا گیا اور بہت سے اشخاص ابھی تک لاپتہ ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس دوران اسلامی تحریک کے لیڈروں کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف پیدا ہوا اسلامی تحریک حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے نام سے دو دھڑوں میں بٹ گئیں ایک دھڑے کا سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نامزد ہوا اور دوسرے دھڑے کا سربراہ برہان الدین ربانی حزب اسلامی کا موقف یہی تھا کہ افغانستان میں مسلح جد و جہد جاری رکھی جائے اور جمعیت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ سیاسی گفت و شنید سے کام لیا جائے ۔ بی تنظیم لسانی اورنسلی تعصب کا بھی شکارتھی اسلامی تعلیم کے جوان خفیہ طور پر پاکستان جا کر وہاں فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد افغانستان واپس آتے . یہ سلسلہ جاری تھا کہ داود خان کے اقتدار کے اواخر میں روس اور اور حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ۔ اس لیے کہ روسی حکمران افغانستان کو اپنی کالونی اور داؤد خان کو اپنا غلام تصور کرتا تھا مگر داؤد خان روسیوں کے اس تصور کے خلاف ٹوٹ گئے اور روسیوں کے احکامات ماننے سے انکار کردیا یہی وجہ تھی کہ داؤد خان اور خلق نامی کمیونسٹ پارٹی کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ۔ انہوں نے سویت یونین کے سر براہ برزنف کو رپورٹ دی کہ داؤد خان نے امریکہ سے روابط استوار کر لئے ہیں اور وہاں سے فوجی مشیر مانگے ہیں . ۱۸/۷۱ اپریل کو ۱۹۷۸ کو داؤد خان کو ماسکو کے دورے کی دعوت دی گئی ۔ برژنف نے داؤد خان سے پوچھا کیا یہ بات درست ہے کہ تم نے امریکہ سے فوجی مشیر بھیجنے کی درخواست کی ہے ؟ داؤد خان نے جواب میں کہا : میں ایک آزاد اور مستقل ملک کا سربراہ ہوں کوئی بھی مجھ سے پوچھنے کاحق نہیں رکتھا سردار داؤد نے ہندوستان مصر سعودی عرب ، کویت اور دوسرے ممالک کا بھی دورہ کیا تا کہ اسلامی ممالک سے اپنے روابط کو فروغ دیں ۔ اسی دوران 17/04/1978 عیسوی کو کیمونسٹ پارٹی کے پرچم دھڑے کے ایک لیڈر میرا کبرخیبر ی کوقتل کر دیا گیا ۔


مزید پڑھیں
part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی