حلالہ کی شرعی حیثیت

حلالہ
حلالہ آج کے دور میں بدنام زمانہ لفظ بن چکا ہے جس کو معلوم ہے وہ بھی اور جسے معلوم نہیں وہ بھی حلالہ ہی کے بارے میں بکتا جاتا ہے ، حلالہ کو غیروں سے زیادہ اپنوں نے بدنام کیا ہے حلالہ کے نام پر دوکان کھول کر غلط فتوے دے کر اپنی دوکان چمکانے میں لگے ہیں ، حلالہ کو لے کر آئے دن مولویوں کو بدنام کرتے ہیں لیکن مولوی سے حلالہ کیا ہے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔
آئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ حلالہ کیا ہے ، عام الفاظ میں شوہر اور بیوی کے درمیان ہونے والی ملاقات (جماع یا ہمبستری کی شکل) کو حلالہ کہتے ہیں آپ تعجب میں نہ پڑیں اس لیے کہ آپ نے جو سن رکھا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی بیوی کو اپنے لیے دوبارہ حلال کروانے کی نیت سے دوسرے کے پاس ایک دورات سونے کے لیے بھیجنے کو حلالہ کہتے ہیں، یہ آپ نے سن رکھا ہے جو کہ سراسر غلط اور افواہ پر مبنی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپسی ملاقات کو حلالہ کا نام دیا گیا ہے اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ، تین طلاق کے بعد شرعا دونوں کا رشتہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے اب دوبارہ ملنے کی حقیقت میں کوئی صورت موجود نہیں ہے اب ظاہر سی بات ہے کہ زید کی بیوی فاطمہ کو ابھی زندگی گذارنی ہے لیکن اس کا کوئی سہارا نہیں ہے زندگی گذارنے کے لیے اسے کوئی سہارا چاہیے اب اس نے اپنے علاقے میں ہی آپسی صلاح و مشورے سے دوسری شادی بکر نامی مرد سے کرلی، فاطمہ کی زندگی اچھی گذرنے لگی ، اسی درمیان حادثہ یہ ہوگیا کہ بکرکی نوکری چھوٹ گئی اب بکر پریشان رہنے لگا کوئی روزگار نہی کوئی نوکری نہیں دماغی الجھن میں مبتلا رہنے لگا آئے دن فاطمہ پر بھی غصہ اتارنے لگا شراب پینے لگا روز بروز فاطمہ کے ساتھ مارکٹائی ہونے لگی یہ روز روز کا ہنگامہ دیکھ کر فاطمہ بھی بے چین رہنے لگی اسی بے چینی کے درمیان فاطمہ کو خیال آیا کہ اس سے بہتر تو میرا پہلا شوہر (زید) ہی تھا جو کبھی کسی بھی حال میں مجھ پر ظلم نہیں کرتا تھا اسی بے چینی کی وجہ سے فاطمہ نے بکر سے طلاق لینے کی ٹھان لی کہ روز روز اس کے مار کھانے سے اکیلے رہنا بہتر ہےاس نے پھر اس سے بھی طلاق لے لی اب ہوا یہ کہ کچھ دن تو گذر بسر ہو گئے لیکن پھر وہی گھر چلانے کی پریشانی سامنے آگئی،فاطمہ پھر اپنا مسئلہ لے کر مولانا صاحب کے پاس گئ اور کہا کہ میرا پہلا شوہر زید ہی اچھا تھا کیا اس سے میرا نکاح ہو سکتا ہے مولانا صاحب نے کہا ہاں ان سے نکاح درست ہو جائے گا اس طرح فاطمہ پھر اپنے پہلے شوہر کے پاس لوٹ آئی،
حلالہ کمپنی چلانے والے اب سمجھو کہ حلالہ کس کو کہتے ہیں مسئلہ مذکورہ میں فاطمہ نے جو دوسری شادی کی تھی کچھ دن بکر کے ساتھ رہی بھی لیکن اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ بکر سے دوسری شادی نہیں چل سکی اور بکر سے بھی طلاق ہو گئی ، اس مسئلہ میں (۱)بکر کے ساتھ شادی کرنا (۲)اس کے ساتھ چند دن گذارنا (۳)طلاق کی نوبت کا آنا (۴)واپس زید کے ساتھ نکاح کا سلسلہ جڑنے کی نوبت کا آنا، یہ چار چیزیں ہے جس کا باضابطہ طور پر پہلے سے کوئی پلاننگ ارادہ اور نیت نہیں تھی اس کے ساتھ ہم پانچویں چیز بھی جوڑ لیتے ہیں (۵) بکرکے ساتھ شادی کر کے چند دن گذار کر طلاق لے کر زید سے واپس شادی کی نیت کا نہ ہونا، ان پانچ باتوں کوشریعت نے حلالہ کا نام دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حلالہ اس غیر ارادی امر کو کہتے ہیں جس میں دوسری شادی پر طلاق کی نوبت آجائے اس کے بعد پھر پہلے شوہر کی طرف لوٹنا مقصود ہو، تو میری ا س تحریر سے آپ حلالہ کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے۔

حلالہ کی شرعی حیثیت

حلالہ کرنا ، حلالہ کروانا دونوں حرام ہے ، اللہ کے نبی نے حلالہ کرنے اورکروانے والے دونوں کے لیے بدعا فرمائی ہے ہاں اگر غیر ارادی طور پر حلالہ کی صورت بن جائے تو جائز ہے بلکہ یہ کسی کرشمہ سے کم نہیں ہے ، یہ حلالہ حلال اس لیے ہے کہ عورت دوسری شادی دوسرے مرد سے جو کرتی ہے واپس طلاق لینے کے ارادے سے نہیں بلکہ مکمل زندگی گذارنے کے ارادے سے شادی ہوتی ہے لیکن اگر حادثاتی طور پر دوسری شادی نہیں چل پائی اور طلاق کی نوبت آگئی انہیں غیر ارادی حالات کو شریعت نے حلالہ کا نام دیا ہے یہ جائز ہے ، اب نہ سمجھنے والوں کو کیا کہیں گے۔

پلاننگ کے تحت دوسری شادی کرنا پلاننگ کے تحت طلاق لینا اس کو حلالہ کا نام دینا شریعت کے ساتھ کھلواڑ اور مذاق ہے جو بالکلیہ حرام ہے۔

حلالہ کی شرائط

حلالہ کے صحیح ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں ۱:دوسری شادی کرنے کے وقت عورت اور مرد دونوں پوری طرح سے آزاد ہو، ۲:ہمیشہ ایک ساتھ رہنے کے ارادے سے نکاح کر رہے ہوں ، ۳:طلاق جیسی صورت حال بنانے کا کوئی ارادہ نہ ہو ، ۴:دوسری شادی عورت اپنی پسند سے کررہی ہو، ۵:مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کو پسند ہوں ، ۶:جھگڑے اور ان بن اس حد تک پہونچ جائے کہ طلاق تک نوبت آجائے تو اس صورت میں دونوں طرف کے رشتہ دار قرآنی اصولوں کے مطابق فہمائش کریں اگرہرممکن کوشش ناکام ہو جائے تو طلاق کا راستہ اختیار کیا جائے قرآن و سنت کے مطابق۔اس طرح کی نوبت اگر پہونچ جائے تو اسے حلالہ کہیں گے۔

حلالہ کی نیت سے نکاح

حلالہ کی نیت سے نکاح حرام ہے ، اللہ کے نبی نے حلالہ کرنے اورکروانے والے دونوں کے لیے بدعا فرمائی ہے ، ایسے لوگوں کو ملعون قرار دیا ہے ، ممبئی وغیرہ میں جو حلالہ سینٹر ہے اس کو زنا سینٹر کہا جا سکتا ہے اس میں حلالہ ہی کی نیت سے چند دنوں کے لیے مشروط نکاح ہوتا ہے جوحرام ہے۔

حلالہ کرنے کا طریقہ

شرعی طور پر حلالہ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے آپ حلالہ کرنے کا طریقہ اس لیے ڈھونڈھ رہے ہیں کہ آپ نے حلالہ کو سمجھ ہی نہیں ہے اس لیے آپ پہلے اوپر والا مضمون مکمل سمجھ کر پڑھ لیں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

راقم:ابوالحبیب

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی