سعدبھکت نےپھرکی بدتمیزی | ندوہ کودی دھمکی



سعدبھکت نےپھرکی بدتمیزی 
ندوہ کودی دھمکی 
اگرمولوی سعدکےخلاف بولےتو ندوکوبنگلہ دیش بنادونگا 

مولانا سعد کے حامی ندوہ کے ایک ملازم نے استاد ندوہ مفتی محمد زید ص کے ساتھ کی بدتمیزی،

تبلیغی جماعت میں جو اختلاف اپنی تمام حدود کو پارکرتاجارہاہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے،یہ اختلاف مولانا زبیر الحسن ص مرحوم کے انتقال کے بعد کھل کر سامنے آیا،بہت سے علمی وانتظامی اختلافات کی وجہ سے مرکز میں مقیم قدیم اکابرین نے مرکزکو چھوڑا،مولانا سعد ص کے بارے میں دیوبند ودیگر مدارس کے فتاوی بھی سامنے آٸے،کام والے ساتھی بھی ملکی پیمانہ پر دو جماعتوں میں تقسیم ہوٸے  شہر شہر دو دومرکز قاٸم ہوٸے،اس سارے اختلافی ماحول میں دارالعلوم ندوہ کا موقف سکوت کارہا،اور وہاں عملا مولاناسعد ص کی ترتیب ونہج کے مطابق کام ہوتارہا،اور عملا انکی تاٸید ہوتی رہی،دوسری طرف ندوہ کے بہت سے اساتذہ اور طلبا مولانا سعد ص سے اختلاف علمی کے باوجود خاموش رہے اور اپنے بڑوں کے فیصلہ کو قبول کیا،ندوہ کی یہ عمدہ روایت رہی ہےکہ اسکے اکثر فیصلوں کی بھنک باہر کے لوگوں کو بہت کم لگتی ہے،اور ندوہ کے سارے اساتذہ وطلبا انتظامیہ کے ہر فیصلہ کو قبول کرتے ہیں،اگر کسی فیصلہ
آج مورخہ ٨دسمبر کو تقریبا دس بجے صبح جب کے درجات میں پڑھاٸ ہورہی تھی اور اساتذہ احاطہ ندوہ میں ادھر ادھر آجارہے تھے،کلیة اللغہ کی عمارت کے نیچے یہ تکلیفدہ صوتحال پیش آٸ کہ ندوہ کے امتحانات کے نگراں مولانا محبوب ص نے ندوہ کے موقر استاد مفتی زید ص کے ساتھ بدتمیزی کی،موصولہ اطلاعات کے مطابق مارنے کے لٸیے ہاتھ بھی اٹھایا(خداکرے ہاتھ اٹھانے کی بات جھوٹ ہو)اور انکے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ میں بلند آواز سے بات کرتے ہوٸے کہا کہ لوگ آپکو قتل کردیں گے اور طلبا بھی آپ کو پیٹیں گے،واضح رہے کہ مفتی زید ص نے جماعت کے غلو اور مولانا سعد ص کے علمی وفکری انحرافات کے سلسلہ میں انتہاٸ سنجیدہ علمی اسلوب میں کٸ کتابیں اور مضامین تحریر کٸے ہیں،اور وہ مولانا سعد ص سے بالمشافہ گفتگو بھی کرچکے ہیں،مولوی محبوب مولانا سعد کے حامی ہیں اور تبلیغی ذہن رکھنے والے طلبا کے سرپرست ہیں اور اکثر ان طلبا کےدرمیان دیکھے جاتے ہیں،لیکن آج محبوب ص نے


ساتھ یہ بدتمیزی کیوں کی اور دھمکی کیوں دے ڈالی،جب کہ مفتی ص بیچارے یہ کہتے رہے کہ آپ علمی اختلاف کریں  گالی گلوچ نہ کریں؟


ندوہ کا ایک محب












کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلاف کی باقیات کے نام پر امت کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہو ! یا یہ کرسی اور منصب کی لڑائی ہو !
ان تمام چیزوں میں جنکا نام سر فہرست ہے وہ ہیں مولانا سعد صاحب ،
قارئیں ہمیں اس بات کا پورا احساس ہے کے مولانا علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ،لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کے حضرت مولانا کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے کھیلا جا رہا ہے ،اس وقت ہمارے زہن میں وہ تحریر پوری طرح عیاں ہے جس میں بتایا گیا تھا کے حضرت کے خصوصی مجلس میں عموما گورے لوگ ہوتے ہیں جو ایک سے بڑھ کر اک ڈاکٹر انجینیر دیکھنے میں معلوم ہوتے ہیں کہیں یہ لوگ کہیں یہ لوگ دشمنان اسلام کے ایجنٹ تو نہیں ہیں جو ہمارے بھیس میں ہمارے ساتھ مل کر لڑنے پر مجبور کر رہے ہیں ،ان تمام چیزوں کی اگر تحقیق کی جائے تو شاید مسلہ آسان ہو جائے گا ،
دوسری چیز جو سوچنے والی بات ہے کے آخر یہ کھیل بنگلہ دیش میں ہی کیوں ہو رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کے اس کے پیچھے کوئی مضبوط ہاتھ ضرور ہے جسکی ڈال انڈیا پاکستان میں علماء نے نہیں گلنے دی تو اب وہ اپنی ڈال بنگلہ دیش میں گلانے میں لگے ہیں اس طرف فوری
محترم حضرت مولاناسعد صاحب!خدارا!اس دینی  تحریک کوضیاع سے بچالیجیے!










لیکن آج کی خبر ہم اہل السنہ والجماعۃ اہل دیوبند کے اوپر بجلی بن کر گری کہ وہ جماعت جو دنیا کی سب سے زیادہ  امن پسند، نظم وضبط والی اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والی سمجھی جاتی تھی اب وہ خونریزی پر اترآئی ہے۔اس کا امن وسلامتی کاپیغامبر ہونے کا عنوان اب جھوٹا ہونے
یقین جانیے کہ جب سے جماعت کا اختلاف ہوا ہے امت کے شب بیدار اورفکر مند علماء بے انتہا بے چین و پریشان ہیں اور اپنے اکابر کے لگائے ہوئے اس شجر طوبی کے حوالے سے بے انتہافکر مند ہیں۔علماء کے ساتھ ساتھ عوام بھی دو طبقوں میں بٹ کررہ گئے ہیں۔جب دیکھو،جہاں دیکھوایک اختلاف کی کیفیت بنی ہوئی ہےاور لوگوں کواب جماعت کی یکجائی کے آثارموہوم نظر آرہے ہیں۔

آج ان حالات پریشاں کو دیکھ کر امت کے اکابر علماء گریہ کناں ہے ۔ وہ فریاد کرنا چاہتے ہیں مگرکس سے کریں۔وہ بات کرنا چاہتے ہیں مگر کس سے کریں۔دونوں طرف وہ لوگ ہیں  جو بہت عرصہ سےاس مشن میں اپنی زندگی کھپائے ہوئے ہیں۔اس لیے فکرمند دلوں میں انتہائی بددلی کی کیفیت ہے اور پژمردگی کا احساس جاگزیں ہوگیاہے کہ اب آخر ہم سب کیاکریں؟ہمیں یہ غم کھائے جا رہاہے کہ ہم اپنی اتنی عظیم تحریک کو ٹوٹتا اور بکھرتابلکہ اس سے جڑے ہوئے لوگوں کو دشمنوں کی طرح باہم دست وگریباں کیسے دیکھیں؟ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع کیسے دے دیں؟ 

اس لیے خیال ہوا کہ چھوٹامنھ بڑی بات کی ہمت کرتے ہوئے آپ ہی کے سامنے اپنی معروضات رکھیں۔

محترم مولانا!یہ صرف آپ ہی کی ذات والاصفات ہے جو جماعت کے دونوں دھڑوں کو اکٹھاکر سکتی ہے۔جو ملت کے بکھرے شیرازہ کو یکجا کرسکتی ہے۔ آپ ہمارے
آپ تو ایک عظیم خانوادے کے فرزند ہیں لہذا آپ کے سامنے سرورکائنات ﷺ کے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا کردار یقیناآپ کے سامنے ہوگا جنھوں نے خلیفہ برحق ہونے کے باوجود امت سے  انتشاردورکرنے کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبرداری کا اعلان کردیا اور اس ملت کو مزید انتشار سے بچالیاتھا۔
آپ کے سامنے تو وہ حدیث بھی ہوگی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترک المراء وإن کان محقا "کہ میں  اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن
بہت ممکن ہے کہ میری یہ بات صدا بہ صحراثابت ہولیکن میں مایوس نہیں ہوں بلکہ کوئی بھی معتدل الفکر ناامید نہیں۔لیکن میں جانتاہوں کہ جس جگہ آپ بیٹھے ہیں اور جس مقام پر آپ فائز ہیں وہاں سے آپ کا دستبردار ہونابہت مشکل ضرورہے لیکن ناممکن نہیں۔اگر آپ نے ملت کی شیرازہ بندی کی ٹھان لیاتو یقین جانیے کہ اللہ آپ کو دنیاوآخرت میں بے پناہ سرخروئی عطا کرے گا۔

گجرات کے بزرگ عالم دین اور مرکز کے پرانے بزرگ حضرت مولانا ابراہیم دیولہ صاحب سے اختلافات کے بعد اور انکے مرکز چھوڑ کر چلے جانے کے باوجود عیادت کے لئے آپ ان کے گھر تشریف لے گئے تھے جس کا ملت پر بڑا ہی مثبت اثر پڑا تھا۔۔
کاش اسی طرز عمل کو ایک بار پھراپنا کر اپنی اعلی ظرفی اور اپنی اعلی نسبی کا مظاہرہ کرکے امت کے سامنے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی مثال کو زندہ فرمادیں ۔ مجھے یقین کامل ہے کہ آپکی اس پیش قدمی سے پوری امت ایک بہت بڑے فتنہ اور فساد سے محفوظ ہو جائے گی اور اسکا بے پناہ اجر آپ کو اللہ تعالی عطا فرمائے گا۔

خدارا ہم پر احسان فرمائیں اور ملت کی اس عظیم امانت کو بچا لیں..
اللہ آپ کو ہمت دے اور آپ کو ملت کے حق میں حسنی کردار (دو جماعتوں کی یکجائی) کو دہرانے

از: ابوسمیہ



Nizamuddin Ke itayat karnese wale purano Ki 5 din Ki jor Tongi me hota tha. Lekin Pakistani sura or deoband Ki nam pe ualama ne Tongi ko jabardasti kabja kar k rakkha ta... 
Jor k liya Sab sathi Tongi maydan pouche lekin Sab gate par jamai huye. Or Waha par hi talim kar rahi the. Police v moujud tha.  Achanak gate Ki andar se bare bare int(bricks) andar se Bahar Ki majma k upar fekne lage... Usime ek sathe ki sar forgaye or intekal farmagaye... 
For Sab ne milkar

Bahi Riyazuddin from Bangladesh 


تبلیغی جماعت؛یہ نظام خود اپنے ہاتھوں خود کشی کررہا ہے،

اسلامی تاریخ اصلاحی و تجدیدی تحریکات و جمعات سے بھری ہوئی ہے،کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں اصلاح و ارشاد اور تبلیغ و تزکیہ کی کوشش نہ ہوئ ہو،صحابہ کرام کے مقدس دور کو تو خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم،کے ذریعہ سند اعتماد عطا کردی گئی تھی،لیکن بعد کے ادوار میں بھی آپ ہزاروں مجددین و مصلحین دیکھیں گے،عمر بن عبد العزیز،سعید بن المسیب،حسن بصری،وغیرہ تابعین کے دور کے مجددین ہیں تو بعد کی صدیوں میں ہر فتنہ کے سامنے ہزاروں سرفروش،علماء و صلحاء پائیں گے،جو یہ نعرہ مستانہ لگاتے نظر آئیں گے
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 
دیکھنا  ہے  کتنا زور  بازوئے  قاتل میں  ہے 

اللہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی لحد مبارک کو نور سے بھر دے،آپ نے سلسلہ دعوت و عزیمت تحریر فرما کر تاریخ اسلامی کی اصلاحی و تجدیدی تحریکات و کارناموں کو دلنشیں اسلوب میں پیش کیا،تفصیلات کے لیے کتاب مذکور کی تمام جلدوں کا مطالعہ کافی ہوگا،اسی طرح مورخ امت محمد میاں علیہ الرحمہ  کی علماء ہند کا شاندار ماضی اس موضوع پر لا جواب کتاب ہے،
ان تحریکات و تجدیدی کوششوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک تاریخی حقیقت سامنے آتی ہے،کہ ہر تحریک برپا ہوئ اور اپنا کردار ادا کر کے تاریخ کے پردوں میں گم ہوگئ،اس سلسلہ میں تاریخ ہند سے کچھ نام بطور مثال کے پیش کریں گے،تحریک سید احمد شہید علیہ الرحمة،اپنے وقت کی زبردست اصلاحی و جہادی تحریک لیکن اس وقت وہ تاریخ کا ایک باب ہے،تحریک ولی اللہی تاریخ
ان جھلکیوں سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے،کہ اصلاح و تجدید کی سینکڑوں تحریکات برپا ہوئیں،اپنا کام انجام دیا اور پھر اپنے ہی ذمداران و کارکنان کی ہوس پرستی،دنیاداری،جاہ پسندی،کرسی و عہدہ کی پرستش کے سبب تباہ و برباد ہوگئیں،آپ اگر ان کی بربادی کے اسباب کو تلاشیں تو کرسی و عہدہ کی جنگ ان میں ضرور ملے گی،اور یہ اخلاص کی کمی کی دلیل ہوتی ہے، 
مورخ دعوت و عزیمت مولانا الیاس اور ان کی اصلاح و دعوت کو ہر گز فراموش نہیں کر سکتا،دراصل یہ ایک خاموش انقلاب تھا،جو میوات کی سرزمین سے شروع ہوا،اور بڑھتے بڑھتے پورے ملک  ہی نہیں پورے عالم کو اپنی اصلاح و تجدید کی آندھی میں لپیٹ لیا،ہزاروں دلوں کی اصلاح اسی راستہ سے عمل میں آئ،کتنے
تقریبا ایک صدی سے یہ تحریک دلوں کی فاتح بنی ہوئ ہے،اور بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کی سب سے کامیاب، مشہور ،اور عالمگیر اثرات کی حامل تحریک دعوت و تبلیغ رہی،لیکن اس وقت یہ عالمگیر شہرت یافتہ تحریک بگاڑ و فساد کی انتہا کو پہنچ گئی ہے،بات علمی اختلاف سے نکل کر جہالت دنگے اور ہاتھا پائی تک جا پہونچی،بنگلادیش میں جو ہوا وہ نہایت شرمناک و کربناک ہے،گزشتہ کل کے ہنگامہ کے بعد تاویل و خوش فہمی کے تمام بت مسمار ہوگئے اور کہیں نہ کہیں اس بات کا اظہار بہی ہوا کہ یہ عالمی اصلاحی تحریک عالمگیر فساد کا سبب بنتی جارہی ہے،اور اگر حالات اسی رخ پر آگے بڑھے تو امت کا اللہ ہی حامی و ناصر ہو
بہر حال  تنقید و تبصرے سے ہٹ کر ہم اصلاح کے علمبردار بنیں اور متوقع فساد کے سامنے بند بنانے کی حتی الامکان کوشش کریں،اس وقت شوری اور امارت دونوں گروپ کے سربراہان کے تقوی و للہیت کی آزمائش کا سب نازک دور ہے،جو بہی اپنے حق سے دستبردار ہوگا عند اللہ وہی ماجور اور امت کا سچا رہبر ہوگا،لہذا امت کے حساس لوگوں کو آگے آکر اس ہیجانی کیفیت میں اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے


ایک بات اور قابل ذکر یہ ہے کہ اگر یہ جماعت اسی طرح باہمی رسہ کشی کا شکار رہی تو عوام جو
اگر یہ جماعت ناکام ثابت ہوتی ہے تو بہت جلد اس کا عوامی بدل فراہم کرنا اس وقت کے علماء کا سب بڑا فریضہ ہے جس سے چشم پوشی بھیانک و خوفناک ثابت ہوگی،لہذا سوقیانہ تبصروں اور تحقیر و تنقیص سے بلند ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے، اللہ ہمیں اس نازک مرحلہ پر صحیح راہنمائ فرما کر،قبول فرمائے
محمد عثمان ندوی

بنگلہ دیش ہی کیوں؟؟؟؟
🖋 محمد نوید سیف حسامی
۔📱 +91 99668 70275

بنگلہ دیشی ایک جذباتی قوم ہے، یہ احساس کمتری کا بھی شکار ہیں، کپڑے کی پیداوار میں پوری دنیا کے مقابلہ میں تیسرے نمبر پر ہے اس کے باوجود آدھے سے زیادہ ملک خط غربت سے نیچے زندگی گذارتا ہے، ، عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب و امارات میں مزدور طبقہ کی اکثریت بنگلہ دیشیوں پر مشتمل ہے، بچہ مزدوری یہاں غیر قانونی نہیں ہے...

15 دسمبر 1971 تک یہ خطہ مشرقی پاکستان اور موجودہ پاکستان مغربی پاکستان کہلایا جاتا تھا...16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان نے لاکھوں لوگوں کا خون بہا کر اپنے دوسرے حصہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور یوں اسلام کے نام پر 1947 میں قائم ہونے والی ایک بہت بڑی ریاست قومیت کے نام پر دو لخت ہوگئی...

زیر نظر تحریر میں بنگلہ دیش کے جغرافیائی حدود و قیود و معدنی پیداوار پر بحث نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ کے نام پر کل گذشتہ

راقم نے تحریر کی اولین سطر میں بنگلہ دیش کے لئے جو جذباتی قوم کا لفظ استعمال کیا وہ صرف جذبات میں نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر کیا ہے، موجودہ پاکستان سے علیحدگی کے لئے بھی بنگلہ دیشیوں کے جذبات کو کافی بھڑکایا گیا تھا، پڑوسی ریاست؛ اسلام کے نام پر قائم ہونے کی بنا پر آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی تھی، کاری ضرب لگانے کے لئے ایک بہت بڑے حصہ کو جو ملک کی معاشی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا تھا علیحدگی کی ترغیب دی گئی، نہ صرف ترغیب بلکہ اپنے ہی اسلامی بھائیوں سے لڑنے کے لئے اسلحہ بھی فراہم کیا گیا، بنگال قوم کے ساتھ پاکستانیوں کی

آج بھی اس قوم کے جذبات کا سہارا لے کر انہیں دعوت و تبلیغ کے اس نازک مسئلہ میں متشدد بنایا جارہا ہے بلکہ بنایا جاچکا ہے...

غور طلب بات یہ ہے کہ انتشار کا نقطہ اولی ہندوستان، مرکز ہندوستان لیکن فتنہ و فساد بنگلہ دیش میں...حالانکہ اجتماعات یہاں پر بھی ہورہے ہیں وہ بھی پر امن... ابھی دہلی سے صرف130-100 کلو میٹر کے فاصلہ پر بلند شہر میں تاریخی اجتماع منعقد ہوا لیکن نہ کوئی گڑبڑ نہ کوئی ہنگامہ، اورنگ آباد کا اجتماع بھی مکمل اطمینان کے ساتھ اختتام کو پہونچا، کرنول اجتماع کی تیاریوں میں شوری کے حمایتی بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں...

مسئلہ کی ابتداء ہی سے بنگلہ دیش نے سختی کا اصول اپنایا ہوا ہے، وفود کی یکے بعد دیگرے دارالعلوم آمد، مشاورتی نشستیں، پھر مولانا سعد صاحب کا بائیکاٹ، بنگلہ دیشی حکومت سے سعد صاحب کو روکنے کے لئے ملاقاتیں، وہاں کے علماء کے نام سے آنے والی اردو تحریروں

صرف پاکستان ہی نہیں برطانیہ آسٹریلیا افریقہ جہاں کام کی ایک مضبوط لہر اور قربانی والے تبلیغی ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ہے وہاں بھی اتنی سختی آپس میں نظر نہیں آتی...

اورنگ آباد میں دو چار دن قبل شوری کے نظام کو ماننے والوں نے علماء کا جوڑ رکھا جس میں سینکڑوں اہل علم صبح سے شام تک موجود رہے لیکن کسی سعدیانی نے ہنگامہ برپا نہیں کیا، واضح رہے کہ یہ وہی اورنگ آباد ہے

بنگلہ دیشی قوم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت استعمال کیا جارہا ہے، ہندوستانی و پاکستانی علماء  ایک حکمت کے ساتھ اس معاملہ کو ڈیل کررہے ہیں، یہاں کے اہم علم نے سمجھداری کے ساتھ دونوں جماعتوں کو لے کر چلنے کا

یقینا وہاں ان دو دھڑوں کے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو فتنہ کی چنگاری کو مسلسل بھڑکائے رکھنا چاہتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں، اس قسم کے لوگوں کی

ایسے موقعہ پر بنگلہ دیشیوں کو چاہئے کہ جذبات میں آنے اور فریق مخالف کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر کوئی درمیانی راہ نکالی جائے ورنہ حالات بد سے بدتر بھی ہوسکتے ہیں...


♻Ⓜ♻


*📚 علماء و تبلیغی أحباب بنگلادیش پر لہولہان حملہ و موجودہ حالات پر تفصیلی رپورٹ ...!!!*

حضراتِ جیسے کہ آپ میں سے بہت سے حضرات جانتے ہونگے اور کچھ نہیں بھی جانتے ہونگے کہ دعوت و تبلیغ کے مبارک کام کے جس نے ساری دنیا میں ایک نور کی فضاء قائم کی ایک سعد کاندھلوی نام کے فتین کی وجہ سے اب دو حصے ہو چکے ہیں

 ایک طرف تو ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش کے وہ بڑے اکابر ہے جنہوں نے پچھلے پچاس سال تبلیغ کا کام کرتے ہوئے دین کی سربلندی کے لئے زندگی گزاردی جن میں ہندوستان کے بزرگ مولانا ابراہیم دیولہ صاحب دامت برکاتہم و مولانا احمد لاٹ صاحب ندوی دامت برکاتہم العالیہ اور بڑے بڑے مشائخین وغیرہ ہے ،اسی طرح بنگلادیش مرکز شوری کی اکثریت و تمام علماء بنگلادیش اور ہمارا مرکز رائیونڈ بھی شامل ہے جن میں سے ابھی کچھ دن پہلے حضرت حاجی عبد الوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ انتقال فرما گئے.یہ سب آپس میں متفق ہے الحمد للہ 

لیکن دوسری طرف سعد کاندھلوی ہے جو تبلیغ کے کام کو اپنے خاندانی میراث سمجھتے ہیں اور جیسے جی چاہے بنا مشورہ کے من مانی اپنی چلانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ حاجی عبد الوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ اور مولانا ابراہیم دیولہ صاحب دامت برکاتہم جیسے بزرگوں کے رہتے ہوئے اپنے آپ خود امیر ہونے کا اعلان کردیا جسے حضرت حاجی عبد الوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ نے اپنی حیات میں ہی منہ توڑ جواب دیا تھا الحمدللہ.
https://youtu.be/LKkma6nLn44
 اتنا ہی نہیں سعد کاندھلوی نے بیان میں من گھڑت تفسیر اور علماء کرام و مشائخ پر خانقاہوں پر طنز کرنا شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے علماء دیوبند نے نظام الدین سابقہ مرکز ہندوستان والے سعد کاندھلوی کے خلاف مضبوط انداز میں فتوی جاری کیا.سعد کاندھلوی کے خلاف علماء دیوبند کے اس فتوے کو اور مولانا ابراہیم دیولہ صاحب اور حاجی عبد الوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ کے موقف سے ہندوستان پاکستان و بنگلادیش کے علماء اکرام نے اتفاق کیا. لہٰذا رائیونڈ مرکز، بنگلادیش مرکز کے علماء و اکابرین اور ہندوستان کے علماء و اکابرین نے اعلان کردیا تھا کہ اب تبلیغ میں مولوی سعد کی غلط بیانی اور من مانی نہیں چلے گی بلکہ حاجی عبد الوہاب صاحب رحمت اللہ علیہ کی بنائی ہوئی شوری کے تابع ہوکر تبلیغ کا کام ہوگا. اور مولانا یوسف صاحب رحمت اللہ علیہ کے زمانے سے نظام الدین میں مقیم تمام حضرات نے سعد کاندھلوی کو مسترد کردیا. جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ

2018 جنوری میں عالمی تبلیغی اجتماع بنگلادیش سے پہلے بنگلادیش کے معروف و بزرگ ہستی مفتی اعظم علامہ مفتی احمد شفیع صاحب مد ظلہ العالی جو شیخ الہند حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اعلان کردیا تھا کہ سعد کاندھلوی بنگلادیش میں قدم نہ رکھیں جب تک وہ اپنے اساتذہ، اکابر اور علماء دیوبند کی ہدایات پر عمل نہ کریں. لیکن اس کے باوجود سعد کاندھلوی نے مالی ریل پیل کے ذریعے بنگلادیش ایرپورٹ پہنچ گیا لیکن جیسے ہی علماء کو اطلاع ملی علماء

واصف سعدیانی ایجنٹ ہے جو بنگلادیش میں سعد کاندھلوی کا غنڈہ ہے بہت دن سے کوشش کر رہا تھا کہ مولوی سعد کو بنگلادیش کسی حال بلایا جائے اور ایک اجتماع عالمی اجتماع میدان میں علاحدہ سے سعد کاندھلوی کی فتنہ پرور من گھڑت ترتیب پر ہو جس میں علماء کرام و اکابرین رائیونڈ، مرکز، بنگلادیش مرکز، اور علماء دیوبند کا کوئی دخل نہیں ہوگا. حالانکہ سب علماء کرام نے کہا بھی کہ جو اجتماع علماء کرام کی نگرانی میں ہونے والا ہے اسی میں شامل ہو جائیں لیکن سعد کاندھلوی کے اندھے بھکت نہیں مانے. جس پر علماء کرام نے حکومت کو فوری متنبہ کیا تھا کہ عالمی اجتماع صرف علماء کرام کی نگرانی میں ہونا چاہیے نہ کہ کوئی علاحدہ نظام الدین والوں کا جس حکومت نے واصف الاسلام کو نوٹس بھیج دی تھی کہ وہ عالمی اجتماع میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں اور انتشار نہ کریں. 

لیکن یہ سب بتانے کے باوجود کل رات سے سعد کاندھلوی کے فرقہ والے کچھ کرائے کے غنڈوں کے ہمراہ گاڑیوں میں بھر بھر کر بنگلادیش عالمی اجتماع کے میدان پر جمع ہونے لگے. جب پولیس کو اطلاع کی گئی تو پولیس پانی والی اور گیس والی گاڑیاں اجتماع میدان پر روانہ کہ اگر سعدیانی غنڈے علماء کرام اور تبلیغی أحباب کی طرف کچھ غیر قانونی کارروائی کریں تو ان کو روکا جائے لیکن جب ان سعدیانیوں نے جب دیکھا بھیڑ جمع ہوگئی ہے تو تقریباً صبح 8 بجے کے قریب اچانک اجتماع میدان تونگی کے ایک باب داخلہ پر حملہ کرکے اسے توڑ دیا اور اندر آکر وہ خون کی ہولی علماء کرام پر کھیلی جس کی تصویریں گواہ ہے. 

علماء کرام اور تبلیغ کے ساتھی جو بزرگوں سے متفق ہے وہ عنقریب ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع اور چار ماہ لگائے ہوئے احباب کے جوڑ   کی تیاریوں میں مصروف تھے خدمت میں مصروف تھے اور کچھ حضرات میدان کے دروازوں پر پہرا دے رہے تھے سعد کاندھلوی

https://www.facebook.com/AskSumon/videos/2375137902516297/

اوپر والے لنک میں بدنام زمانہ سعد کاندھلوی کے فرقہ والے علماء کرام پر بے دردی سے وار کرتے ہوئے.

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2233493333639094&id=1870389419949489

واہ سعد کاندھلوی واہ عالمی اجتماع میدان کا گیٹ توڑنے کی آج تک کسی نے ہمت نہیں کی لیکن تمہارے بدنصیب سعدیانیوں نے گیٹ توڑ کر علماء کرام پر حملہ کیا.

کیا اتنی خواہش تھی سعد کاندھلوی کے دل میں امیر بننے کی...؟ ؟
کیا مولانا الیاس صاحب رحمت اللہ علیہ، مولانا یوسف صاحب نے کبھی اپنے کو امیر منوانے یہ سب کچھ کروایا. اگر اتنی غنڈہ گردی کرنی ہے تو وزیر اعظم بنجاتے لیکن تبلیغ کا کام یوں بدنام نہ ہوتا.

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

پورا بنگلہ دیش سعد گروپ کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج، 
مظاہرین کا حکومت سے ملزمین کو سخت سزا دینے کا مطالبہ، کل بھی مظاہرہ جاری رکھنے کا اعلان
ڈھاکہ- ۲/دسمبر: (ڈھاکہ سے اشرف عالم قاسمی ندوی کی گراونڈ رپورٹ/بی این ایس) گزشتہ کل تبلیغی جماعت کے دو دھڑوں میں ہوئے خونریز تصادم کے خلاف آج پورے بنگلہ دیش میں مولانا اشرف علی  شیخ الحدیث ومہتمم جامعہ  مالی باغ بنگلہ دیش کی قیادت میں زبردست احتجاج کیا گیا ، اس احتجاجی مظاہرے میں مشہور مقرر، جامعہ عربیہ رحمانیہ کے شیخ الحدیث وصدر تحریک مجلس الشباب بنغلہ دیش مولانا مامون الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حملہ کرنے والے
احتجاج  کی ابتداء بنگلہ دیش کی   قومی مسجد بیت المکرم سے ہوئی- واضح رہے کہ گزشتہ کل ٹونگی میں امارتیوں کے حملے میں تقریبا ایک درجن جاں بحق اور سینکڑوں علماء و طلباء شدید زخمی ہوگئے تھے، آج جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ہے اور زخمیوں کا علاج جاری ہے کچھ زخمیوں کی حالت انتہائی نازک ہے علمائے بنگلہ دیش نے پوری دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کشیدگی کے خاتمے کیلیے دعا کریں اور تبلیغی جماعت میں اتحاد و امن کی کوششوں کیلیے پہل کریں.علماء کرام نے حکومت کے سامنے جو چھ مطالبات رکھے ہیں وہ یہ ہیں
1 حملہ کے اصل مجرم واصف الاسلام، شہاب الدین اور نسیم
2، تمام زخمیوں کا نقصان تلافی کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ علاج کا بندوبست کیا جائے ۔
3, ٹونگی اجتماع کا میدان اب تک جس طرح تھا اسی طرح شوریٰ والوں کو سپرد کیا جائے ۔
4, جلد از جلد کاکرائیل مرکز  کو واصف اور نسیم جیسے مجرموں سے خالی کرایا جائے 
5،پورے ملک میں علماء طلبہ اور اہل شوریٰ حضرات کے لیے پرامن ماحول بنایا جائے تاکہ ان پر مزید کوئی پریشانی نہ آنے پائے 
6. ٹونگی میدان میں طے شدہ تاریخ میں ہی عالمی اجتماع اٹھارہ، انیس، بیس جنوری  2019  میں منعقد کرنے کے لیے تمام کارروائی مکمل کی جائے 
پریس کانفرنس میں شارکین حضرات میں شیخ الحدیث نور حسین قاسمی  علامہ اشرف علی  مولانا زبیراحمد (ممبر عالمی شوریٰ) مولانا مامون الحق وغیرہ شریک رہے

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام19 جنوری

    اللہ اپنے کام کی اور اکابرین کی ہر فتنے سے حفاظت فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی