دہشت گرد

دہشت گردکا معنی ہے pdf
دہشت گرد کی حیثیت اسلام میں کیا ہے پڑھنے کے لیے اوپر کی تصویر پر کلک کریں
 دہشت گردکا معنی ہے انسانیت میں خوف و ہراس پھیلانا،خوف زدہ کرنا،آسان زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ناجایز طریقے سے داداگیری کرنا اسی کا نام دہشت گردی کرنا ہے،

دہشت گرد کے معنی کی وضاحت کے بعد آپ بخوبی اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ آج جو دنیا میں دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے اس کا مصداق اصل میں کون ہے ۔

اسلام اور دہشت گردی

اسلام کبھی بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی اس کی تایید کرتا ہے بلکہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا حکم ہے ،انصاف پسند حضرات اگر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو ان کے سامنے یہ بات عیاں ہو جاے گی کہ اسلام دہشت گردی کا کس قدر مخالف ہے،پھر سوال  پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام دہشت گرد نہیں ہے تو دنیا بھر میں جو دہشت گردی کو اسلام کی طرف منسوب کیا جارہا ہے وہ کیا ہے اگر اسلام دہشت گرد نہیں ہے تو پھر دہشت گرد ہے کون،

دہشت گرد کون ہے

دنیا میں جب سے امریکہ کا وجود ہوا ہے تب سے ہی یہ دہشت گردی کا ہوا کھڑا ہوا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے دہشت گردی نہیں تھی ایسا نہیں ہے پہلے بھی تھی لیکن دہشت گردی کی اصطلاح امریکہ کے وجود میں آنے کے کیی دہایی بعد وجود میں آیی ہے،غالبا امریکہ پر ناین ایلون حادثہ کے بعد دہشت گردی کے لفظ کا جنم ہوااور اس کے بعد مسقلا اس لفظ کا استعمال کر کے ایک خاص قوم کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے دہشت گردی کا نام اسلام کے خلاف اتنا استعمال کیا گیا کہ آج کے دور میں گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق براہ راست اسلام سے ہے،حالاں کہ حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے،امریکہ نے اپنے مفاد کے لیے افغانستان پر بمباری کی اور کافی عرصہ تک افغانستان پر ظلم و جبر کرتا رہا ،جب دیکھا کہ افغانستان کا سنبھلنا ممکن نہیں تو ہار مان کر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا دیا،اپنے مفاد کے لیے شام پر بمباری کی تو دہشت گردی کے لفظ کا سہارا لے کر،عراق کو خاک و خون میں نہلایا تو اس میں بھی دہشت گردی کے لفظ کا سہارا لیا،اور بھی بہت سارے ممالک پر دہشت گردی کے لفظ کا سہارا لے کر بمباری کرتا رہا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، الغرض دہشت گرد کا لفظ وہ جادویی چھری ہے جس کا سہارا لے کر آپ کسی بھی مسلم ممالک پر حملہ کر سکتے ہیں،

اوپر کے سطور میں جو دہشت گرد کے لفظ کی وضاحت کی ہے اس لحاظ سے کون دہشت گرد کے زمرے میں آتا ہے آپ بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں۔یاد رکھیے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے،اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ، اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے لڑنا ہرگز دہشت گردی نہیں کہلا سکتا ہے ، ناجایز کسی کی جان و مال پر قابض ہو جانا ، جبر ا کفرو شرک کروانا،عزت و آبرو لوٹنا یہ دہشت گردی ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں