تحریک ریشمی رومال

 تحریک ریشمی رومال کا ایک درخشندہ ستارہ 
سر زمین 18ہزاری موضع لوہاراں والا ضلع جھنگ میں جنم لینے والا ایک بچہ جسے دنیا آج قطب الاقطاب، امام الاولیا، قائد ثانی تحریک ریشمی رومال، مولنا خلیفہ غلام محمد دینپوریؒ صاحب کے نام سے یاد کرتی ہے۔
دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جھنگ کی زمین ایسی ذرخیز زمین ہے کہ جس نے اپنے بطن سے بہت سے ” بے باک، نڈر، مجاھد، موحّد، اولیاء، علماء، خطباء، صوفیا، شعراء، توحید و سُنّت کے پروانوں، اصحاب و اہلبیتِ عُظّام کے دیوانوں “  کو جنم دیا جن کے اسماء و اوصاف کی تفصیل کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں،
مذکورہ تمام اوصاف کو اپنے اندر سموئے ہوئے ( 1835ء) کو موضع عالمے خان ( لوہاراں والا ) کے اندر ایک بچے نے جنم لیاکسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس بچے نے بڑے ہو کر کے دنیا کے اندر دین احمد ﷺ کا مظہر بننا ہے،اور ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بننا ہے،آیئے اُس ہستی کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیے۔
اسم گرامی : ” غلام محمد “ تھا۔
سلسلہ نسب : ” غلام محمدؒ بن نور خانؒ بن چراغ خانؒ بن حسین خانؒ بن محمد خانؒ بن رحیم داد خانؒ بن عالم خانؒ عرف عالمے خان بن عاقل خانؒ عرف آکی خان۔
 قومی پس منظر
مغل بادشاہ ہمایوں نے اپنے کھوئے ہوئے پایہ تخت دہلی پر جب لشکر کشی کی تو اس کے ساتھ مشہور سردار میر چاکر خان رند بلوچ کی قیادت میں دس ہزار جنگجو بلوچ موجود تھے بہادر بلوچوں نے جنگ کا پاسہ پلٹ کر رکھ دیا شکست خوردہ سلطان کو یوں بلوچوں نے دوبارہ تاج و تخت دلوادیا اسکے بعد ہمایوں نے برصغیر کے مختلف حصوں میں بلوچوں کو بھیج کر آباد کروایا پھر انہیں بلوچوں میں سے عاقل خان کو بہت شہرت حاصل ہوئی اس عاقل کا ایک بیٹا عالَم خان تھا پھر اسکی اولاد میں ایک چراغ خان تھا چراغ کا بیٹا نور خان جو غلام محمدؒ کے والد تھے جس کا ذکر حضرت والگویا آپؒ کا تعلق بلوچوں کی اعلٰی ترین شاخ رند بلوچ سے ہوا اور کبھی عاقل خان کی طرف نسبت کرکے اکیانہ بلوچ بھی کہا جاتا ہے۔
ایسے درویشوں سے ملتا ہے ہمارا شجرہ نسب
جن کے قدموں  میں کئی تاج  پڑے  رہتے تھے
ترک وطن۔
آپؒ کے والد نور خانؒ کی دو شادیاں تھیں ایک بیوی سے ایک بیٹا محمد اسماعیل تھا اور وہ بیوی انتقال کرگئیں اور دوسری بیوی سے دو بیٹیاں اور دو بیٹے غلام محمد اور غلام رسول پیدا ہوئے آپکے والدؒ نے اپنی جائیداد بڑے بیٹے اسماعیل کے حوالے کی اور اپنی بیوی اور چاروں بچوں سمیت حجاز مقدس حجرت کے ارادہ سے 18ہزاری سے روانہ ہوئے غلام محمد صاحبؒ تقریباً سات سال کے تھے اور باقی چھوٹے تھے ریاست بہاولپور شہر رحیم یار خان میں مختصر قیام کے دوران اچانک آپؒ کے والد نور خان علیل ہوئے اور انتقال فرما گئے جسکے بعد مجبوراً میزبانوں کے اصرار پر اس قافلے کو وہی قیام کرنا پڑا اور غلام محمد صاحبؒ کی والدہ اپنے بچوں سمیت الگ ایک جھونپڑی میں رہنے لگیں۔
یہاں پر ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ سر زمین 18ہزاری جھنگ کے معروف بزرگ اور اللہ والے حضرت مولنا حکیم عبداللطیف صاحبؒ خلیفہ غلام محمد صاحبؒ کے قریبی رشتہ دار تھے تیسری پشت یعنی چراغ خانؒ پہ جاکر دونوں ہستیوں کا سلسلہ مل جاتا ہے نیز سر زمین 18ہزاری جھنگ کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم محمدیہ خلیفہ غلام محمدؒ کی طرف کی ہی منسوب ہے حضرت حکیم صاحبؒ کی سوانح حیات بھی عنقریب اپنے اسی پیج پہ منظر عام پہ لاؤنگا۔
تعلیم و تربیت
آپؒ نے قرب میں واقع بستی مولویاں سے تعلیم کا آغاز کیا اور تقریباً دس سال وہاں پڑھا زمانہ طالبعلمی میں ہی آپنے حافظ محمد صدیق بھرچونڈیؒ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت کی اور 28،27 سال اُنکی خدمت میں گزارے چالیس سال کی عمر میں شیخ نے آپکو خلافت سے نوازا اور دُور خانپور کے قریب جنگل میں آباد ہونے کا حکم فرمایا آپؒ وہاں گئے اور جنگل میں بستی کا نام دین پور شریف رکھ دیا اور وہاں پہ لوگوں کو اللہ اللہ سکھانا شروع کردیا ۔
جہاں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے ، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
خُلفاء کرام
آپکے ویسے تو بہت سے خلفاء ہیں لیکن مشہور خُلفاء یہ ہیں
 1 شیخ العرب و العجم حضرت مولنا حسین احمد مدنی صاحبؒ
 2 شیخ التفسیر مولنا احمد علی لاھوری صاحبؒ
 3 ثانی سائیں صاحبزادہ عبدالہادی صاحبؒ
شادیاں
آپکو آپکی والدہ اپنی خواہش کے مطابق دوبارہ تحصیل 18ہزاری( جھنگ ) لے آئیں اور محمد خانؒ کی بیٹی فاطمہ سے غلام محمدصاحبؒ کی شادی کرکے رشتے داروں کے واپس نہ جانے کے اصرار کے باوجود بہو کو لیکر دوبارہ واپس رحیم یار خان چلی گئیں اس بیوی سے یکے بعد چار بیٹیاں پیدا ہوئیں پھر ایک بیٹا سراج احمد پیدا ہوا جو چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا اور دوسرا بیٹا عبدالہادیؒ تھا جو آپؒ کا جانشیں بنا اور ثانی سائیں کا لقب پایا اور اس بیوی سے آپکا  بیٹا عبدالرشید بھی تھا پہلی بیوی کی وفات کے بعد امام انقلاب مولنا عبیداللہ سندھی صاحبؒ کی بیٹی سے شادی ہوئی سندھی صاحبؒ دورہ کابل پہ تھے واپس آکر اپنی بیٹی کے سرپرست مولنا عبدالقادرؒ کے اس فیصلے کو سراہا اور اس بیوی سے دو بیٹے عبدالحقؒ اور ظہیرالحقؒ پیدا ہوئے عبدالحقؒ بچپن میں فوت ہوگئے اور دوسرے عالم باعمل بنے۔
خصوصیات
حضرتؒ سخاوت، قناعت، اطاعت، شجاعت، ولایت، تقوٰی، علم، حلم، اور خاموش مزاجی میں اپنی مثال آپ تھے۔
اپنی مثال آپ تھا ائے قطب وہ نصیرجو اپنی آب و تاب دکھا  کر چلا  گیا
مشاہیر علماء کرام کی دینپور شریف آمد
مولنا عبیداللہ سندھیؒ کی دینپور شریف آمد
مولنا عبیداللہ سندھی صاحب مسلمان ہوکر دینپور تشریف لائے مجلس ذکر شروع تھی خلیفہ غلام محمد صاحب نے اس نوجوان کو دیکھ کر بلایا اور سینے سے لگایا بس سینے سے لگتے ہی عبیداللہ کا سینہ ٹھنڈا ہوگیا اور آپ نے اپنے آپکو دینپور شریف کیلئے وقف کردیا اور پھر دینپور شریف میں ہی تعلیم کا آغاز کیا ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس خانقاہ میں امام انقلام مولنا عبیداللہ سندھیؒ کا کمرہ اور اس کمرے کی دوسری منزل پر حضرتؒ کی لائبریری اب بھی اسی حالت میں موجود ہیں مولنا عبیداللہ سندھیؒ تحریک ریشمی رومال میں دینپور کے اندر مولنا خلیفہ غلام محمدؒ کی سرپرستی میں بطور جرنیل کام کرتے رہے اور عرب و عجم میں اس تحریک کو تقویت بخشی ساری زندگی وہی گزاری انگریز نے انکے بدبخت شاگرد کے ذریعہ حضرت کو زہر دلوایا اور آپ انتقال فرما گئے ثانی سائیں عبد الہادیؒ نے آپکا جنازہ پڑھایا اور اب آپکی قبر حضرت خلیفہ صاحبؒ کے قدموں میں ہے۔
مولنا احمد علی لاھوریؒ کی دینپور شریف آمد اور مولنا عبیداللہ سندھیؒ سے رشتہ داری
مولنا احمد علی لاھوریؒ مولنا عبیداللہ سندھیؒ کے قریبی رشتہ دار تھے مولنا سندھیؒ کی والدہ مولنا لاھوریؒ کے دادا کی بہن تھیں 1895ء میں جب لاھوری صاحبؒ کے والد حبیب اللہ مسلمان ہوئے تو سندھی صاحبؒ انکو ملنے سیالکوٹ تشریف لائے تو لاھوری صاحبؒ کے والد نے لاہوری صاحبؒ کو سندھی صاحبؒ کے حوالے کردیا کہ یہ میرا بچہ ہے اسکو لے جاؤ یہ دین کیلئے وقف ہے تو مولنا عبیداللہ سندھیؒ مولنا احمد علی لاھوریؒ کو لیکر دینپور شریف تشریف لے آئے لاہوری صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا تو سندھی صاحب خلیفہ صاحبؒ کے حکم پر لاھوری صاحبؒ کی والدہ اور تین بھائیوں کو دینپور شریف لے آئے اور بوجہ کفالت لاہوری صاحبؒ کی والدہ سے سندھی صاحبؒ کی شادی کردی گئی اس بیوی کے انتقال کے بعد سندھی صاحبؒ نے دوسری شادی کی اور اس بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والی پہلی بچی کی شادی احمد علی لاہوریؒ سے کی اسطرح حضرت سندھیؒ حضرت لاہوریؒ کے سوتیلے والد بھی ہیں اور سُسر بھی اور سندھی صاحبؒ کی ایک بیٹی کی شادی خلیفہ غلام محمدؒ سے ہوئی تو سندھی صاحبؒ خلیفہ صاحبؒ کے بھی سُسر ہوئے۔
تحریک ریشمی رومال میں اہل دینپور شریف کا کردار
تحریک ریشمی رومال کا مین مرکز دیوبند تھا اور قائد اول شیخ الھند محمودالحسنؒ تھے اور مرکز ثانی دینپور شریف تھا اور قائد ثانی امام انقلاب مولنا عبیداللہ سندھیؒ اور اس مرکز کے سرپرست اعلی خلیفہ غلام محمدؒ تھے اس تحریک میں سعودیہ،ترکی،اور افغانستان کے دورے مولنا عبیداللہ سندھیؒ نے دینپور شریف سے کئے اور ہندوستان کی مسلمان آبادی کو آزادی کی خاطر انگریز کی بغاوت پر برانگیختہ کیا دینپور شریف کے ایک تہخانہ میں باقاعدہ اسلحہ کی ایک فیکٹری بنائی گئی بدقسمتی سے ملتان کے ایک آدمی سے خطوط پکڑے گئے پھر راتو رات اسلحہ کو مریدین کی مدد سے دفن کردیا گیا اور صبح حضرت دینپوریؒ کو بمع رفقاء گرفتار کرلیا گیا لاھور جیل میں قید بامشقت کے ساتھ چھ ماہ بعد حضرت دینپوری رہا کردئے گئے اسی جرم میں مولنا احمد علی لاہوریؒ کو انگریز نے برف کے بلاکوں پہ لٹا کر پوچھا سناؤ ؟ آپنے فرمایا جسم ٹھنڈا ہورہا ہے اور ایمان جوش مار رہا ہے،سبحان اللہ
مولنا اشرف علی تھانویؒ اور فرزند نانوتویؒ محمد احمدؒ کی دینپور شریف آمد
مولنا سندھیؒ فرماتے ہیں کہ مولنا اشرف علی تھانویؒ کی ٹرین جب سمہ سٹہ پہنچی تو تھانوی صاحب بار بار ڈبے سے باہر منہ نکالتے اور فرماتے کہ مجھے کسی اللہ والے کی خوشبو آرہی ہے میں نے کہا کہ دنیا اولیاءاللہ سے خالی تو نہیں اسٹیشن پہ اترنے کے بعد تین گھوڑیاں موجود تھیں سوار ہوکر چلے خلیفہ صاحب استقبال کیلئے سڑک پہ تشریف لائے جب تھانوی صاحبؒ نے دور سے دیکھا تو سواری کو روک کر فوراً نیچے اُتر آئے اور بار بار فرمانے لگے کہ عبیداللہ آج تونے مروا دیا یہ تو اتنے پائے کا ولی سامنے کھڑا ہے کہ جتنے پائے کے ولی مولنا امداداللہ مہاجر مکیؒ تھے اس کے بعد یہ ملاقات کا تسلسل قائم ہوگیا۔
خواجہ غلام فریدؒ کا خلیفہ صاحبؒ سے اظہار محبت
خواجہ صاحبؒ کا جب بھی دینپور شریف کے قریب سے گزر ہوتا آپؒ پالکی پر سوار ہوتے اور دین پور شریف کی حدود سے احتراماً سواری سے اُتر آتے اور فرماتے باخدا غلام محمدؒ نے جنگل میں روحانیت کی آگ لگا رکھی ہے۔
حضرت شیخ الھند محمودالحسنؒ کی دینپور شریف آمد کا پروگرام
1920ء کو شیخ الھندؒ اسارت مالٹا سے رہا ہوئے آپکی صحت بالکل بگڑ چکی تھی وجود ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا گیا گویا مرض الموت شروع ہوچکی تھی خلیفہ صاحب نے انکی تیمار داری کیلئے ایک وفد بھیجا آپنے فرمایا کہ اگر میں تندرست ہوگیا تو انشاءاللہ دینپور شریف ضرور آؤنگا صحت اچھی ہونے لگی تو آپنے تاریخ مقرر کر کے بھیج دی کہ میں آرہا ہوں کہ اچانک طبیعت ناساز ہوئی اور شیخ الھندؒ کا انتقال ہوگیا۔
شیخ العرب والعجم مولنا حسین احمد مدنی کی دینپور شریف آمد
پہلی دفعہ 1961ء میں مدنی صاحبؒ کراچی کی ایک کانفرنس سے واپسی پر دینپور تشریف لائے پھر دوسری مرتبہ آپؒ جب تشریف لائے تو دوپہر کو آکر مسجد کی چٹائی پر سو گئے خلیفہ صاحب جب ظہر کو مسجد میں آئے تو پریشان ہوگئے اور فرمایا کہ حضرت کو بیدار نہ کرو وہ تھکے ہوئے ہیں، بعد میں بھی کئی دفعہ مدنی صاحب کی آمد و رفت رہی اور ہفتہ ہفتہ یہاں قیام فرماتے تھے۔
سید عطاءاللہ شاہ صاحب بخاریؒ کی دینپور شریف آمد۔
ڈیرہ نواب صاحب آمد کے موقع پر عطاءاللہ شاہ صاحب بخاریؒ نے فرمایا کہ ایک ولی کے دنیا میں چرچے ہیں میں اس کی زیارت کا شوق رکھتا ہوں احباب آپؒ کو دین پور شریف لے آئے آپکی نظر جونہی خلیفہ غلام محمدؒ پر پڑی تو فرمانے لگے ھٰذَا وَلِیُّ اللّٰہ یہ تو بھائی واقعی اللہ کا ولی ہے پھر شاہ صاحب کئی کئی دن دینپور شریف میں قیام کیلئے تشریف لاتے تھے ایک دفعہ شاہ صاحب خلیفہ صاحب کے آگے پشت کر کے عرض کرنے لگے  حضرت میری پشت پر ہاتھ پھیر دیں تاکہ جہنم کی آگ حرام ہوجائے شاہ صاحبؒ خلیفہ صاحب کی وفات کے بعد بھی دینپور شریف آتے جاتے رہتے تھے ایک دفعہ خلیفہ صاحب کی قبر کے قریب نلکے پر غسل کر رہے تھے اور یہ شعر بار بار پڑھ رہےتھے۔
آباد  رہے  ساقی  یہ تیرا  ہر دم  مئے خانہ
ہو خیر تیرے گھر کی بھر دے میرا پیمانہ
فریاد  کر  رہی  ہیں  ترسی   ہوئی   نگاہیں
بہت دن گزر گئے ہیں دیکھے ہوئے تمہی کو
حافظ الحدیث مولنا عبداللہ درخواستیؒ
درخواستی صاحب کا مادر علمی دینپور شریف ہی تھا اور آپؒ اسی گلشن دینپور کے ایک پھول تھے،
حضرت خلیفہ غلام محمدؒ مشاہیر علماء کی نظر میں
حضرت شیخ الھند محمودالحسنؒ نے فرمایا:
جو کچھ دوسرے بزرگوں کے ہاں ورد اور اوراد سے بھی نہیں ملتا وہ حضرت دینپوریؒ کی صحبت اور نشست و برخواست سے حاصل ہوجاتا ہے۔
حکیم الامت مولنا شاہ اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا:
حضرت دینپوری کی ولایت مسلّم ہے اور آپؒ مولنا امداداللہ مہاجر مکیؒ کے پائے کے ولی ہیں۔
شیخ العرب والعجم مولنا حسین احمد مدنیؒ نے فرمایا:
کہ حضرت دینپوریؒ نے پیغمرانہ زندگی گزاری۔
چلتا پھرتا کتب خانہ مولنا انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا:
حضرت دینپوریؒ کے چہرے پر نظر ڈالنے سے ہی تصوف کے کئی مقامات طئے ہوجاتے ہیں۔
امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ صاحب بخاریؒ نے فرمایا:
محسوس ہوتا ہے یہ دینپور شریف والے حضرات قافلہ اصحاب رسول ﷺ سے بچھڑ کر پیچھے رہ گئے تھے جو اب رونما ہوئے۔
امام الھند مولنا ابوالکلام آزادؒ نے فرمایا۔
حضرت دینپوریؒ کا امت محمدیہ میں مقام متعین کرنا مشکل ہے۔امام انقلاب مولنا عبیداللہ سندھی صاحب نے فرمایا:
حضرت دینپوری سیاست و طریقت میں مستقل امام تھے۔
شیخ التفسیر مولنا احمد علی لاہوریؒ نے فرمایا:میں بصیرت کی بنا پر کہتا ہوں کہ حضرت دینپوری کا درجہ بڑے بڑے اولیاء کرام سے کسی طرح کم نہیں تھا۔
مولنا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے فرمایا:
کاش میں حضرت دینپوریؒ کو قادیان لے جا سکتا، کیا عجب ! کہ تمام قادیانی آپکے چہرے کو دیکھتے ہی مسلمان ہوجاتے،
مولنا محمد علی جالندھریؒ نے فرمایا:
کہ ایک رات حضرت دینپوریؒ کو ایک خادم دوائی پلارہاتھا پہلی نظر میں میں نے محسوس کیا کہ وہ خادم آپؒ کے چہرے پر لائٹ کیئے ہوئے ہے جب میں قریب پہنچا تو یہ روشنی خلیفہ غلام محمدؒ کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔
تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رشک کرتی ہیں
تمہاری  یاد  آتی ہے، تو  ارماں لڑکھڑاتے ہیں
سفرِآخرت
آپؒ پر زندگی کے آخری دو سالوں میں استغراق کی کیفیت طاری ہوگئی تھی دو سال تک دن رات ہی عشق خدا وندی میں غرق نظر آئےعمر سو سال سے اوپر ہوچکی تھی کمزوری کے باوجود باجماعت نماز نہیں چھوڑی بالاٰخر 24 مارچ 1936ء کو رات کے ساڑھے بارہ بجے رشد و ھدایت کا یہ چراغ غروب ہوگیا۔
ہائے  حسرت  آج  کے  اس قحطِ رجالی  دور میں
کب  ملینگے  آپ  جیسے  ہم  کو   انسان  باشعور
اپنی بے نوری پہ نرگس جب روتی ہے سالہا سال
دیدہ ور کا پھر  کہیں  جاکر  کے  ہوتا  ہے  ظہور
جنازہ و تدفین
آپکا جنازہ مولنا غلام محمد گھوٹویؒ نے پڑھایا اور  آپکی کی قبر مبارک آپکی مسجد کے قریب جہاں پہ اکثر آپ مراقبہ کرتے تھے بنائی گئی پھر آہستہ آہستہ یہ قبرستان بڑھتا گیا اور اب دین پور شریف کا قبرستان کوئی معمولی لوگوں کو اپنے بطن میں میں سمائے ہوئے نہیں ہے بلکہ ایسی ایسی ہستیاں اس قبرستان میں رنگین دنیا سے منہ موڑ کر آرام فرما ہیں جن کی مثل نہ تو ان کے بعد اب تک رونما ہوئی ہے اور نہ ہی شاید ہوسکے ۔
مولنا احمد علی لاہوری رحمة اللہ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا کہ دین پور شریف کا قبرستان کوئی معمولی قبرستان نہیں ہے، دین پور شریف کا قبرستان جنت کا ٹکڑا ہے. 
اس جنت کے مکین مشاہیر علماء اولیاء اور بزرگ یہ ہیں 
امام الاولیا حضرت مولنا خلیفہ میاں غلام محمد صاحب دینپوریؒ
امام انقلام حضرت مولنا عبیداللہ سندھی صاحبؒ
ثانی سائیں میاں عبدالہادی صاحب دینپوریؒ
میاں سراج احمد صاحب دینپوریؒ
میاں زبیر احمد صاحب دینپوریؒ
مولنا عبداللہ صاحب درخواستیؒ
مولنا عبدالشکور صاحب دینپوریؒ
مولنا لقمان علی صاحب پوریؒ
مولنالعل حسین صاحب اخترؒ 
مولنا شفیق الرحمن صاحب درخواستیؒ
مولنا انیس الرحمن صاحب درخواستیؒ
مولنا احسان اللہ صاحب شھیدؒ دیگر بھی بہت سارے اللہ والے۔
دونوں جہان رب کی محبت میں ہار کے
جنت میں سو رہے ہیں شبِ غم گزار کے
جانشین خلیفہ صاحب
امام الاولیاء خلیفہ غلام محمدؒ کی وفات کے بعد آپکے صاحبزادے میاں عبدالہادی صاحبؒ جانشین بنے اُنکی وفات کے بعد اُنکے صاحبزادے میاں سراج احمد صاحبؒ جانشین بنے اُنکی وفات کے بعد اُنکے صاحبزادے میاں مسعود احمد خان جو کہ اب موجودہ جانشین اور ولایت کے کمال درجے کو پہنچے ہوئے ہیں اللہ تعالی حضرت کو صحت و عافیت والی لمبی زندگی نصیب فرمائیں۔آمین 
ماْخذ از ”یدِ بیضاء“
ہزاروں سال نرگس  اپنی  بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ تعالٰی شانہٗ حضرت خلیفہ صاحبؒ کے درجات بُلند فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے اور اُنکی نسبت کی لاج رکھنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔۔۔آمین
آسمان تیری لحد پہ شبنم آفشانی کرے 
سبزہ نورستہ اس گهر کی نگہبانی کرے 
مرقدِ مردقلندر پہ حاضر ہوکر اتنا ہی کہا میں نے کہ جو علّامہ اقبالؒ نے مجدّد الف ثانیؒ کی مرقد پہ کہا؎
حاضر  ہُوا  میں  شیخ  مُجدّد  کی  لحد  پر
وہ  خاک   کہ   ہے   زیرِ   فلک   مطلع  انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
بشکریہ، نیاز مند درگاہِ الٰھی محمّد حبیب اللہ احسن 18 ہزاری جھنگ۔
ماخذ:واٹس ایپ گروپ:علما دانشوران بھاگلپور
رابطہ : 919820365926+

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں