اسلام میں فاتحه اور بے حيايي

فاتحہ کی آڑ میں بے حیائی 
ابھی گیارہویں کا زمانہ چل رہا ہے الله معاف کرے سال میں جب بھی یہ موقع آتا ہے تو ہمارے بریلوی مکتب فکر کے علماء کی عید ملاپ ہو جاتی ہے چونکہ راقم الحروف کا بھی تجربہ رہا ہے لوگ فاتحہ پڑھانے کے لئے بلاتے ہے اگر یہی فاتحہ باہر کے احاطے میں مردوں کے بیچ میں ہو تو بدعت سے قطع نظر کوئی ہرج نہیں لیکن سب سے بڑا المناک معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب گھر کے اندر فاتحہ خوانی ہوتی ہے چاروں طرف سے عورتوں کا ہجوم ہوتا ہے 
بیچ میں مصلی ہوتا ہے ،مصلی پر قسم ہا قسم کے کھانے سجے ہوتے ہیں ،مصلی کے ایک کنارے پر مولوی صاحب براجمان ہوتے ہیں ،
پھر مولوی صاحب اپنی کاروائی شروع کرتے ہیں ،
سورہ بقرہ کی ابتدائی و انتہائی آیت تلاوت کی جاتی ہے 
سورہ یاسین کی چند ابتدائی آیت پڑھی جاتی ہے
وغیرہ وغیرہ ،،،،،،،،،
اب قارئین آپ ہی سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ 
دوران تلاوت سامنے رنگ برنگ موجود کھانے پر
دوران تلاوت سامنے بیٹھی ہوئی گھر کی عورتوں پر نگاہ پڑے ،اور منہ میں لڈو نہ پھوٹے یہ ناممکن ہے ،
منہ سے رال نہ ٹپکے یہ بھی مشکل ہے ،
 مزید مولوی اور عورت میں قربت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب مولوی مصلی پر بیٹھا ہو اور عورت اسکے سامنے جھک کر دیپ جلا رہی ہو اس وقت دونو کے چہروں کے درمیان صرف مشکل سے پانچ سے چھ انگشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے ،اس وقت سامنے موجود جلتی ہوئی عود کی خوشبو ،اور وہاں
کیا یہ عبادت ہے یا بے حیائی ،
بریلوی مکتب فکر کے علماء اس چیز کی کیسے اجازت دیتے ہیں ،کیا فاتحہ کے نام پر گھر کی عزت پر ڈاکہ نہیں ہے ؟
الله حفاظت فرمائے ایسے خرافات سے . 

<-------------->
"حضرت جی پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم" کے ہندوستان آمدپرلکھاگیا مضمون

✍🏻جناب ندیم واجدی صاحب ( دار العلوم دیوبند انڈیا)

وہ آئے اور ہمیں بھولا ہوا سبق یاد  دلا  گئے
پاکستان سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ صوفی بزرگ حضرت مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ العالی ان دنوں ہندوستان تشریف لائے
اس دورِ قحطِ الرجال میں حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی کا وجود کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں وہ اس امت کا ایک زندہ معجزہ ہیں انہیں
لفظ’’ پیر‘‘ سے لگتا ہے کہ وہ کوئی بہت ہی بوڑھے اور عمر رسیدہ بزرگ ہوں گے جنہیں لوگوں کے سہارے سے چلنا پڑتا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے وہ ابھی ساٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے ماشاء اﷲ صحت بھی اچھی ہے، بلند قد و قامت اور معتدل جسامت کے ساتھ ان کی صحت قابل رشک ہے۔ ہم نے اپنے بہت سے بزرگوں کو دیکھا ہے جن پر نگاہ پڑتی تھی تو ہٹنے کا نام نہیں لیتی تھی، بعینہٖ یہی کیفیت پیر صاحب کی ہے، چہرہ ایسا منور تر وتازہ اور شاداب کہ نگاہ پڑے تو ہٹنا بھول جائے ،
مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی کی پیدائش 1953ء کو صوبہ پنجاب پاکستان کے شہر جھنگ میں ایک کھرل خاندان میں ہوئی، ان کے والدین نہایت دین دار اور عبادت گزار تھے، گھر میں نماز ، تلاوت کا بڑا اہتمام تھا، یہاں تک کہ تہجد کی بھی
’’والدہ ماجدہ بھی پابند صوم و صلوٰۃ  تھیں، راقم جب تین برس کی عمر کا تھا تو رات کے آخری پہر میں والدہ صاحبہ کو بستر میں موجود نہ پا کر اٹھ بیٹھتا ، دیکھتا تھا کہ وہ سرہانے کی طرف مصلّٰی بچھا کر نماز تہجد پڑھنے میں مشغول ہیں، راقم منتظر رہتا کہ نماز کب ختم ہوگی، والدہ صاحبہ نماز کے بعد دامن پھیلا کر اونچی آواز سے رو رو کر دعائیں مانگتیں، راقم نے اپنی زندگی میں تہجد کے وقت جس قدر اپنی والدہ صاحبہ کو روتے دیکھا ہے کسی اور کو اس قدر روتے نہیںدیکھا ، بعض اوقات والدہ صاحبہ راقم کا نام لے کر دعائیں کرتیں تو راقم خوشی سے پھر بستر پر سو جاتا۔‘‘ (حیات حبیب ص 744)
یقینا یہ والدہ محترمہ کی دعائے سحر گہی اور نالۂ نیم شبی کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے بیٹے کا نام پورے عالم میں گونج رہا ہے اور ان سے دلوں
مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی کی تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی۔ انہوں نے کئی عصری کورس کئے 1972ء میں بی ایس سی الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری حاصل کرکے اسی شعبے سے وابستہ ہوگئے، پہلے اپرنٹس الیکٹریکل انجینئر ، پھر اسسٹنٹ الیکٹریکل انجینئر بنے ، اس کے بعد چیف الیکٹریکل انجینئر بن گئے ، جس زمانے میں وہ انجینئر بن رہے تھے اس زمانے میں جمناسٹک ، فٹ بال ، سوئمنگ کے کیپٹن اور چمپیئن بھی رہے۔ ان حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی طالب علم دین کی طرف مائل بھی ہوسکتا ہے، مگر یہ معجزہ ہوا، انہوں نے عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ ناظرہ بھی پڑھا ، ابتدائی دینیات ، فارسی اور عربی کی کتابیں بھی پڑھیں ، قرآن کریم بھی حفظ کیا، یہاں تک کہ جب وہ لاہور یونیورسٹی  میں زیر تعلیم تھے ان کا تعلق عمدۃ الفقہ کے مصنف حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحبؒ سے ہوگیا، جو نقشبندیہ سلسلے کے ایک صاحب نسبت بزرگ تھے، شیخ ذوالفقار احمد نے ان سے مکتوبات مجدد
مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی کو علماء دیوبند سے بڑی عقیدت ہے اور یہ عقیدت ان کی ہر تقریر اور تحریر سے جھلکتی ہے آپ ان کی کوئی بھی تقریر سن لیں، یا کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو علماء دیوبند کا ذکر ضرور ملے گا، یہ عقیدت ہی ان کے ہندوستان آنے کا سبب بنی ، افسوس انہیں بعض مقامات کا ویزہ نہیں مل سکا ، ورنہ تھانہ بھون ، گنگوہ، نانوتہ، رائے پوراور سہارن پور جیسے مقامات پر جہاں کبھی بزرگوں کی خانقاہیں ہوا کرتی تھین ان کا دل جانے کے لیے بڑا بے چین رہا، جب کوئی سبیل جانے کی نہ نکل سکی تو دہلی
حضرت کی زبان میں تاثیر بہت ہے ، تقریریں تو بہت لوگ کرتے ہیں ، گھنٹوں گھنٹوں کرتے ہیں، الفاظ کا سماں باندھ دیتے ہیں لیکن جب لوگ مجلسوں سے اٹھتے ہیں تو ان کے پلے کچھ بھی نہیں ہوتا ، جیسے آئے تھے ویسے ہی رخصت ہوجاتے ہیں۔ حضرت پیر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عام سی، سادہ سی باتیں اس سوز کے ساتھ کرتے ہیں کہ دل پر اثر انداز ہوتی ہیں، ہرچہ از دل خیزد بردل ریزدکا صحیح مشاہدہ حضرت پیر صاحب کی تقریریں سن کر ہوا، وہی باتیں جو باربار کتابوں میں پڑھیں ، وہی قصے جو زندگی بھر پڑھتے اور سنتے رہے ان کی زبان سے سنے تو بالکل نئے محسوس ہوئے ، ان کی آواز کا سوز ، اور دل کا اخلاص سننے والے کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہزاروں کامجمع تقریر کے دوران بالکل ساکت و صامت ہوجائے اور ماحول پر ایسا سناٹا طاری ہوجائے کہ سوئی گرے تو اس کے گرنے کی آواز سنائی دے ، حضرت پیر صاحب جب تقریر شروع کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور بدشوق سے بدشوق انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب تقریر شروع ہوئی اور کب ختم
تقریریں تو بہت سنی ہیں ، لیکن اتنی جامع ، مرتب، حسب حال اور پر اثر تقریریں کم ہی سنی ہیں۔ حضرت کے ایک خلیفہ نے راقم کے استفسار پر بتلایا کہ حضرت پیر صاحب ہر تقریر سے پہلے مکمل تیاری کرتے ہیں، نوٹس تیار کرتے ہیں ، احادیث کا متن نوٹ کرتے ہیں، حوالے تلاش کرتے ہیں، حسب حال واقعات اور اشعار کے ذریعے اپنی ہر تقریر کو سجاتے سنوارتے ہیں، تقریر سے کچھ دیر پہلے تنہائی اختیار کرلیتے ہیں اور رب کریم سے رو رو کر دعا کرتے ہیں کہ اے اﷲ میری تقریر میں اثر دے ، میری زبان میں حق بات کہنے کی صلاحیت پیدا فرما ، حضرت پیر صاحب خود فرماتے ہیں کہ میں الہامی تقریر نہیں کرسکتا، رات رات بھر مطالعہ کرنے کے بعد سامعین کو مخاطب کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر موضوع کے دائرے میں رہتی ہے ، حشو و زوائد سے پاک اور نہایت مرتب، حضرت پیر صاحب کی تقریروں میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا رنگ جھلکتا ہے، جن کے وعظ ہم نے سنے نہیں ہیں پڑھے ضرور ہیں، جو حضرت کے باکمال شاگردوں نے کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر من و عن نقل کئے، ماضی قریب میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کی تقریریں بھی سادگی، پرکاری، شگفتگی، اثر انگیزی اور برجستگی کے لحاظ سے بے نظیر تھیں، راقم کو حضرت ؒ کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی تقریریں سننے کی سعادت حاصل رہی ہے، حضرت پیر صاحب کی تقریریں سن کر مجھے اپنے ان دونوں بزرگوں کی یاد آگئی، اﷲ نے آج  حضرت پیر صاحب کو یہ خصوصیت عطا کی ہے بلاشبہ یہ کوئی کسبی ملکہ نہیں ہے بلکہ خالص وہبی چیز
 حضرت پیر صاحب جدید تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں، ان کا مطالعہ بڑا وسیع ہے، مشاہدہ گہرا ہے، وہ مغربی تہذیب کے مظاہر دیکھ چکے ہیں ، اس کی برائیوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور دینی تعلیم کی برکت سے ان برائیوں کا علاج بھی خوب جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے استفادہ کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ڈاکٹروں ، انجینئروں اور عصری علوم سے وابستہ لوگوں کی بھی ہے۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ جس قدر جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے اسی قدر دینی تعلیم سے وابستہ لوگ بھی ان کے دامن سے وابستہ ہورہے ہیں۔ آج سے چند سال پہلے انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا،خاص طور پر ہندوستان میں تو ان سے کوئی واقف بھی نہیں تھا ، دس پندرہ سال پہلے وہ
دیوبند میں ان کے تین بڑے اجتماعات ہوئے، تینوں میں حاضرین کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے اگر یہ کہا جائے کہ اجتماع گاہوں میں سر سے سر بج رہا تھا تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا ، تینوں جگہ انہوں نے الگ الگ موضوع پر خطاب کیا لیکن تینوں موضوع کا تعلق ایک ہی موضوع سے تھا جسے ہم تصوف و طریقت ، سلوک اور احسان کہتے ہیں، یہ ایک ہی مفہوم کے مختلف عنوانات ہیں۔ عام طور پر تصوف کے بارے میں بڑی غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف کا مقصود محض ذکر ہے، آپ جب کسی شیخ سے بیعت کرتے ہیں تو وہ آپ کو کچھ اذکار  و  اور اد  بتلا دیتا ہے آپ
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس 9)
’’وہ شخص کامیاب ہوا جس نے نفس کا تزکیہ کرلیا۔‘‘
اور جس کا ذکر ہمیں اس ارشاد ربانی میں ملتا ہے:
وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ (البقرۃ 129)
’’اور وہ رسول ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں تزکیے کا ذکر ہے جس کے معنی ہیں پاک صاف کرنا ۔ شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انسان
تصوف و سلوک کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے، اس تعلیم سے سالک کی زندگی پر بڑا خوش گوار اثر مرتب ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط ہوجاتا ہے
سلوک و معرفت کے جتنے بھی سلسلے ہیں سب کے مشائخ یہی ایک کام کررہے ہیں ، یعنی دلوں کی دنیا آباد کررہے ہیں اور انہیں خدا سے قریب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں سب کا انداز جدا جدا ہے، مگر ایک چیز سب کے یہاں قدر مشترک کے طور پر ہے اور وہ ہے اﷲ کے ذکر
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُ اﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً o
’’اے ایمان والو اﷲ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرواور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو۔‘‘
کبھی ارشاد فرمایا :
اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدً وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (آل عمران 191)
’’یہ وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے اﷲ کا ذکر کرتے ہیں ۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے دو باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں ، ایک یہ کہ اﷲ کا ذکر ہر حال میں کرو اور دوسرے یہ کہ ہر وقت کرو صوفیائے کرام کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو ذکر الہی اور یاد الہی کی طرف مائل کرتے ہیں اور اس راستے سے انہیں قرب الہی تک لے جاتے ہیں جو مومن

شیخ کی مجلسوں میںجس طرح لوگ پہنچے اور جس ذوق و شوق کے ساتھ ان کو سنا اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں میں تشنگی کا احساس ہے ان کے دل بے چین ہیں، اور ان کی نگاہیں کسی مرشد کامل کے انتظار میں ہیں۔ علماء کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں مقرر بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں لکھنے والے بھی بے

2 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی