عبد الرحیم مسلم دوست داستان ایمان و یقین قسط ۹

part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7   part 8   part 9

سوال ، کیا اپنے بھائی سے ملنا چاہتے ہو ؟
جواب : ہاں .
 مسلم دوست : کچھ دیر بعد میرا بھائی مسلح پہرے داروں کے ساتھ زنجیر میں میرے سامنے لایا گیا ۔ میں تفتیشی خیمے میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اسے خیمے کے دروازے میں کھڑا کیا گیا تفتیش کار بھی اس کے ساتھ کھڑا تھا ، اس نے مجھے بتایا تمہارا بھائی ہے ، جب میں نے اسے دیکھا تو بہت مختلف نظر آیا غور سے دیکھا تو میں نے اس کو پہچان لیا میں اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میں اس کی نظروں میں کیسا لگ رہا تھا اور میرے بارے میں اس کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی میں نے داڑھی میں اس کا پروقار چہرہ دیکھا تھا اب وہ کلین شیومیں تھا اور چہرہ چھوٹا سا معلوم ہوتا تھا ۔ بہت کمزور اور لاغر لگ رہا تھا اس کا چہر غم سے سیاہ اور روتانظر آ رہا تھا اپنے بھائی کو دیکھنے کی خوشی بھی ہوئی اور ان کی اس حالت اور تشدد پر کپکپی سی طاری ہوئی دل کو صدمہ اور سخت تکلیف پہنچی ، اس کی یہ حالت قیامت کے دن تک نہ بھول پاؤں گا اور  موت کے دن تک میرے دل میں رہے گا میں اپنے بھائی کے سامنے مسکرایا تا کہ وہ میرے درد کا احساس نہ کرے ، میں نے اسے خوش آمدید کہا اور پوچھا کیسے ہو ؟ اس نے کہا : الحمد للّہ ٹھیک ہوں ، بس یہی دو جملے ادا ہوتے ہی پہرہ دار اسے میری نظروں سے دور لے گئے ۔ 
مسلم دوست : جب تفتیش کار میرے سامنے بیٹھ گئے تو میں نے اسے کہا : تم تو انسانی حقوق ، جمہوریت اور آزادی کے نعرے لگاتے ہو لیکن یہاں تو انسانی حقوق پاؤں تلے روندے جارہے ہیں تم لوگ تو ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کر رہے ہو ؟ آخر یہ سب کچھ کیوں ؟ اس نے کہا : بڑی بڑی جنگوں ریاستی امور اور ایمرجنسی حالات میں ایسا ہی ہوتا ہے کبھی کبھی گنہگاروں کے ساتھ بے گناہ لوگوں کو بھی عذاب میں مبتلا ہونا پڑتا ہے میں واشنگٹن کو بتا دوں گا کہ یہ دونوں بھائی بے گناہ ہیں اور انہیں آزاد کرایا جائے لیکن وعدہ نہیں کرسکتا کہ تمہارے ساتھ آئندہ کیا ہو گا مجھے فوجیوں کے حوالہ کر کے دو بارہ اپنے خیمے میں ڈالا ۔

قندھار میں میرے قیدی ساتھی
 نہ قندھار جیل میں چند دن بعد مجھے ہسپتال سے خیمے کے قریبی دروازے کے پاس ایک اور خیمے میں منتقل کیا گیا میرا بھائی استاد پر مجھ سے دور ہوائی اڈے کے قریب دیوار کے پہلو میں واقع ایک خیمے میں تھا ۔ میرے ساتھ پہلے حاجی ولی اللہ صراف تھا جو پشاور اور بگرام کی جیلوں میں بھی میرے کمرے کے قریب کمرے میں تھا لیکن قندھار میں ایک ہی خیمے میں تھے ، وہ بہت اچھا انسان تھا ، اسی خیمے میں ہمارا تعارف ہوا دوسرا ساتھی ایران کا ایک چرسی شیعہ تھا جس کا نام عبدالمجید تھا وہ امریکی تفتیش کاروں کو کہتا کہ میں افغانستان منشیات کی خریداری کیلئے آیا ہوا تھا لیکن ہمیں کہتا کہ مجھے ایرانی حکومت نے جاسوسی کیلئے بھیجا تھا ایک نانبائی کی دکان میں رہتا تھا ، کیمرہ اور دیگر سامان بھی اس کے ہاں رکھد یا ہے ؟ بہت احمق اور لاابالی آدمی تھا پھر گوانتانامومیں صلیب بھی اپنے گردن میں ڈال لی وہ امریکیوں کیلئے جاسوسی بھی کرتا تھا اکثر لوگوں پر جھوٹے الزامات بھی لگاتا تھا ۔ ایک دن ایک از بک عبداللہ فاریابی کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے شیشہ کے ایک ٹکڑے سے اپنے ہاتھوں کو تھوڑا سازخمی کر کے امریکی فوجیوں کو کہا کہ عبداللہ نے مجھے زخمی کر دیا ہے وہاں مو جو سارے قیدی اور اس کے ہاتھوں کے زخم اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اسی وجہ سے عبداللہ سزا سے نچ گیا ۔ چند دنوں تک ہم تینوں اکھٹے ایک خیمے کے نیچے رہے پھر مزار شریف کے قاری فضل الرحمان اور اندخوئی کے نور اللہ بھی ہمارے خیمے میں منتقل کر دئے گئے یہ دونوں بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے خصوصا میرے اورنورالله کے درمیان تو بہت محبت اوردوستی پیدا ہوئی ہم آپس میں اپنے حالات زندگی بیان کرتے تھے پر گوانتانامو کے آخری دنوں میں ہماری یہ دوستی اور محبت اور بھی گہری ہوئی نور اللہ بہت قابل متقی اور اچھے اخلاق کا مالک اور بہترین دوست تھا ان کے علاوہ جیل میں میرے ساتھ صوبہ پکتا کے مولوی محمد صدیقی صوبہ ارزگان کے نور اللہ جو امیر المومنین ملا محمد عمر کے رشتہ دار تھے ۔ دیراوت کے حاجی نظر محمد خوست کے حاجی خان زمان ، پکتیا کے قاری عصمت اللہ ، ارزگان کے حاجی امان الله ، فاریاب کے عبداللہ از بک ، عرب باشندوں میں سے عبد الخالق بینی ، محمد حمادی بینی ، سلمان یمنی ، ولید یمنی ، صالح یمنی ، سعید الجزائری ، عبداللہ کردی اور پختونخواہ مالا کنڈ بٹ خیلہ کے طارق تھے

قندھار کی حالت زار

 قندھار میں بھی کوئی انسانی معیار نہیں تھا اور انسانی حقوق پامال تھے ۔ ایک چھوٹے سے تر پال کے نیچےپچیس قیدی زندگی گذار رہے تھے ، جب بارش ہوتی تھی تو تر پال کے نیچے قیدی بارش سے بھیگ جاتے تھے ۔ بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں ہوتی تھی اور سارے قیدی کھڑے رہتے تھے ، تر پال در اصل خیمے تھے لیکن ان سے چوپال بنائے گئے تھے اور اس کے اطراف خالی تھے ۔ بارش کے وقت سارا پانی تر پال کے اندر گر پڑتا اور بچی ز مین تر ہو جاتی تھی ، آسمان صاف ہونے کے بعد بھی چند دنوں تک ترپال سے پانی کے قطرے ٹپکتے تھے ہمیں یہ اجازت نہیں تھی کہ ہم ترپال کو اوپر اٹھا کر جمع شده بارش کے پانی کو نیچے گرادیں ، بار بار شکایت کے بعد فوجیوں نے قیدیوں کو گھٹنوں کے بل پر کھڑا کر کے تر پال کی ان جگہوں کو چاقو سے چیر ڈالا جہاں پانی کھڑا تھا ۔ سخت ہوائیں چلتی تھیں بہت گرد اور غبار اڑتا تھا ، نہ وضو کیلئے پانی ہمیں دیا جا تا تھا اور نہ ہی ہاتھ پاؤں اور چہرے کو دھونے کیلئے- ہم دیوانوں کی طرح گندے رہ رہے تھے تین آدمیوں سے زیادہ لوگ آپس میں بات چیت نہیں کر سکتے تھے قریب کے خیمے میں موجود قیدیوں کے ساتھ جو ایک دوسرے کو دیکھتے تھے مگر بات چیت نہیں کر سکتے اگر کسی پر شک ہوتا کہ اس نے دوسرے قیدیوں کے ساتھ بات چیت کی ہے یا اپنے خیمے کے اندر موجود قیدیوں میں سے تین سے زائد قیدیوں کے ساتھ باتیں کی ہے تو اسے نیچے سے باہر نکال مٹی اور پتھر کے اوپر گھٹنوں کے بل کھڑا کر دیتے اور اسے کہا جا تا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھدیں . دو تین گھنٹوں تک دھوپ میں کھڑ ارہتا ، خیمے سے باہر خالی جگہوں میں تین آدمیوں سے زیادہ قیدیوں کو گھو منے کی اجازت نہیں تھی ، اگر تین سے زیادہ قیدی گھومتے پھرتے تو انہیں گھٹنوں کے بل کھڑا کرتے تھے کبھی کبھی تو قیدیوں کو بلا وجہ سزائیں دی جاتی تھی کوئی قانون نہ تھا ۔ برفوجی کے پاس اپنا اپنا قانون تھا نصف رات میں درجنوں وحشی فو جی آ کر خیموں کے اردگرد کھڑے ہوجاتے اور زور زور سے چلاتے تھے قیدیوں کو کہدیتے کہ جاگ اٹھو ، ان کے پاس کتے بھی ہوتے تھے وہ بھی زور زور سے بھونکتے تھے ، قیدیوں کو نیند سے جگا کر مٹی میں منہ کے بل گرادیتے ۔ ان کے ہاتھوں کو ان کے پشت پر باندھ دیتے ، ان کے اردگردمسلح فوجی کھڑے ہو جاتے ، چندفو جی خیموں کے اندر گھس کر کمبلوں کو ادھر ادھر پھینک دیتے ۔ قرآن کریم کو اٹھا کر زمین پر گرادیتے ، سارے خیمے کی تلاشی لیتے اگر کسی قیدی کے پاس کھانے پینے کی کوئی نئی چیز برآمد کر لیتے تو سارے قیدیوں کو گھٹنوں کے بل کئی کئی گھنٹوں تک کھڑا کردیتے تلاشی کے وقت پہلے ہر ایک قیدی کو کھڑا کر کے اس کی تلاشی لیتے ، پھر زمین پر لٹاکر سارے بدن کی تلاشی لی جاتی یہاں تک کہ مخصوص اعضاء کی بھی تلاشی لی جاتی تھی ، پھر انہیں اسی حالت میں چھوڑ کر بتادیتے کی اپنی جگہ سے کوئی بھی حرکت نہ کرے فوجی خوف کے مارے پیچھے کی طرف بھاگتے اور خیمے کے دروازے کو باہر کی طرف سے بند کر دیتے ۔ اس کے بعد قیدیوں کو حکم دیتے کہ اٹھ جاؤ قیدی مٹی میں لت پت آٹھ جاتے ، اپنے لباس کو گرد سے صاف کرتے قران پاک اور ادھر سے اٹھا کر پاک جگہ پر رکھدیتے کمبلوں کو ادھر ادھر سے اٹھا کر پھر سے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے سو جاتے تھے ۔ 
میں ہسپتال کے قریب مریضوں کے خیمے کے نزدیک ایک خیمے میں قید تھا اسی وجہ سے ہمارے خیمے کی تلاشی زیادہ نہ ہوتی تھی اگر کوئی قیدی اٹھنے میں دور کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی ، ایک رات ایک قیدی نے اٹھنے میں دیر کردی تو ایک بد اخلاق فوجی آیا اور خیمے کے اندر سارے قیدیوں کئی گھنٹوں تک گھٹنوں کے بل کھڑے کر کے سخت سزادی . جس قیدی کو پو چھ گچھ اور تفتیش کیلئے لے جاتے تھے تو سب سے پہلے چند فوجی ہاتھ میں ہتھکڑیاں پکڑے ہوۓ آتے تھے ، اوردروازے کے قریب قیدی کا نمبر بتاتے ، خیمے میں موجود دوسرے سارے قیدی خیمے سے باہر نکل کر گھٹنوں کے بل ایک دوسرے کو پشت کرتے ہوئے بیٹھ جاتے اور اپنے ہاتھوں کو سروں پر رکھدیتے ، ان کے سامنے مسلح سپاہی کھڑے ہو جاتے ، وہ قیدی جس کو پوچھ گچھ اور تفتیش کیلئے جانا ہوتا وہ دروازے کے قریب خود آ کر زمین پر لیٹ جاتا اور ہاتھوں کو پشت کی طرف کر لیتا . چند فوجی بہت تیزی سے اندر داخل ہو کر ایک قیدی کی پشت پر اپنے گھٹنے لگاتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیتے اور دوسرافوجی آ کراس کے پاؤں پر بیٹھ کر ہتھکڑیاں پہناتے مٹی سے بھری ہوئی سیاہ ٹوپی کو اس کے سر پر پہناتے اس کے بعد دوفوجی دونوں جانب سے بغل میں ہاتھ دے کر قیدی کو اٹھا کر تفتیش کے لئے لے جاتے اور قیدی کی حالت درمیان میں یوں ہوتی کہ رکوع کی حالت میں ہو ۔ اس کے باوجود کہ قیدی کے پاؤں میں بیڑیاں اور دونوں پاؤں کے مابین زنجیریں ہوتی تھیں اور وہ نہیں کر سکتنا کہ آسانی سے قدم اٹھائے لیکن اس مشکل کے باوجود پھر بھی ظالم اور وحشی فوجی اسے مجبور کر کےاپنے پیچھے کی طرف سے دھکا دیتے اور کہتے کہ تیز تیز چلو ، اکثر اوقات قیدی زمین پر گھٹنوں کے بل گر جاتے اور گھٹنے زخمی ہو جاتے ، راستے میں قیدی کو مار مار کر تیز چلنے پر مجبور کرتے ، وہ بچارے جگہ جگہ گر پڑتے ، راستے بھی ایسے بنائے ہوئے تھے کہ وہاں اونچ نیچ اور رکاوٹیں زیادہ ہوتی تھیں ، راستے پرپانی ڈال کر گیلا کرتے تا کہ قیدی چلتے وقت پھسلیں ، بہت تکلیف اور مشکل سے قیدی تفتیش کے کمرے میں پہونچ پاتے ، وہاں تفتیشی افسر کی کرسی صاف ستھری اور قیدی کی کرسی خاک آلود اور گندی ہوتی قیدی کو اس پر بٹھا کر پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کرتے ۔ وہاں متعین سارے فوجی بہت بد اخلاقی اور ظالم تھے ایک لیفٹینٹ تھا وہ بہت ظالم اور متکبر تھا ، وہ قیدیوں کی حاضری لیتا تھا ، سارے قیدیوں کو قطار میں کھڑا کر دیاکرتا پھر ہر ایک کو اپنے اپنے نمبر سے پکارتا کبھی قیدی کی قمیض کی پشت پر مارکر سے نمبر لکھتا اور کبھی سینے پر اور شرٹ یوں نمبروں سے بھر جاتی . وہ قید یوں کو کہتا جب تم مجھے دور سے دیکھ لو جلدی سے قطار میں کھڑے ہو جایا کرو اگر کوئی قیدی قطار میں کھڑے ہونے میں تاخیر کرتا تو اسے گھٹنوں کے بل کھڑا کر کے مارتے پیٹتے ۔ وہ ہر قیدی کے کارڈ پر نمبر بھی لکھد یتاتھا اور کہتا کہ آواز دیتے وقت اپنا کارڈ بھی مجھے دکھائیں ، قیدی اسے ریمبو کہتے تھے ایک اور فوجی جو ابتدائی دنوں میں روتا تھا اور کہتا تھا کہ میں واپس امریکہ جاؤں گا وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا قیدیوں کے ساتھ بہت سختی کرتا تھا قیدیوں کو بلاوجہ مارتا تھا اور سخت سزائیں دیتا ۔ 
اس کے علاوہ وہ قیدی کو بہت گندی گالیاں بھی دیتا اور زور زور سے چلاتا ایک بار ایک قیدی کو گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو کہا وہ بے چارہ بیٹھ نہیں سکتا تھا اسے پہلے گالیاں دیں اور برا بھلا کہا ، بعد میں وہ دوسرے فو جیوں کو بلا کر خیمے کے اندر شد ید قہر اور غصے میں داخل ہوا ۔ قیدی کو زمین پر گرا کر بہت مارا ، اس کے پاؤں اور ہاتھوں کو زنجیروں سے باندھا اور سر پر سیاہ ٹوپی پہنائی اور دوسری جگہ لے گیا ۔
 قندھار جیل میں قیدیوں کی خوراک 
قندھار کی امریکی جیل میں قیدیوں کے کھانے پینے کا ٹائم ٹیبل کچھ یوں تھا صبح اور شام کے وقت کسی قسم کا کھانا پینا مهیا نہیں کیا جا تا تھا صرف دوپہر اور آدھی رات کو کھانا دیا جاتا تھا ۔ یہ اس لئے کہ کھانے کے بہانے قیدیوں کو سونے نہ د یا جائے ، آدھی رات میں قیدی خواب میں محو ہوتے فوجی چلا چلا کر انہیں کھانے کیلئے جگاتے تھے ، کھانے کے لئے بندلفانے میں فوجی کھانا قیدیوں کو دیا جا تا تھا جو چار پانچ سال کا پرانا ہوتا تھا ، اسے گرم کرنے کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا ، بیچارے قیدی ٹھنڈا ٹھنڈا کھاتے تھے چھوٹا سا خشک کلچہ چھوٹا سا کیک ، پاپڑ چھوٹے ڈبے میں کشمش یا مونگ پھلی ، ایک لمبے پلاسٹک لفافے میں سور کا گوشت ، ایک چھوٹے سے لفافے میں مرغی یا گائے کا سخت گوشت اور بسکٹ ، با گرام میں ایک اردونی عیسائی ترجمان نےکہا تھا کہ ان دونوں لفافوں میں بھی سور کا گوشت ہے ، یہ دوسرا گوشت بھی حلال نہیں کیونکہ اسلامی طریقے پر ذبح نہیں کیا گیا ہے ، امریکیوں نے یہ کھانا اپنی افواج کیلئے تیار کر رکھا ہے ۔ 
کھانے کے اس پورے لفافے کو MRE جس کا مطلب Meal Raddy Eat کے نام سے پکارا جاتا ہے کبھی کبھار ایک چھوٹے سے لفافے میں مکرونی ، لو بیایا دال بھی ہوتا تھا ۔ ہم گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے ، پھر اس لفافے کی جگہ دوسرا لفافہ جس پر حلال لکھا ہوا تھا ہمیں پیش کیا گیا ، اس میں حلال گوشت اور سبزی بھی ہوتی تھی تاہم اسے حلال سمجھ کر کھا لیتے کچھ وقت بعد شام کے وقت بھی ایک افغانی نان اور تھوڑی سی سبزی کی یخنی پانی کی ان خالی بوتلوں میں جو اصلا ڈسپوزل یا پھینکنے کے قابل تھیں مگر فوجی اسے کاٹ کر اوپر والے حصے کو پھینک دیتے اور بوتل کے نچلے حصے میں سبنری کی یخنی ڈال کر ہمیں پیش کرتے تھے ، ہم اس خشک روٹی کو اس یخنی میں نرم کر کے کھا لیتے ، ہم بوتلوں کے پچھلے حھے کو اپنے پاس رکھ لیتے اور ہر شام پانی سے دھوئے بغیر اس میں سبزی کی یخنی ڈال کر افغانی روٹی کو اس میں بھگو کر کھا لیتے تھے ۔ پلاسٹک کے لفافوں میں سے جو بھی غذا فو جیوں کو پسند آتی اسے نکال کر خودکھا لیتے ، اس میں کھانے کو گرم کرنے کیلئے ایک طرح کا کیمکل بھی تھا جو پانی ڈالنے کے بعد گرم ہو جاتا تھالیکن ظالم اور بے رحم امریکی فو جی اسے بھی لفافے سے نکالتے تھے اور قیدیوں کو نہیں دیتے ۔ کیمیکل ایک دن سہوا ایک قیدی کے لفافے میں رہ گیا تھا ۔ 
قیدیوں کا بالٹیوں میں رفع حاجت
 قندھار میں قیدیوں کیلئے بنائے گئے خیموں میں رفع حاجت کیلئے ایک یا دو بالٹیاں رکھی گئی تھیں ، وہ قیدی رفع حاجت کیلئے اس پر بیٹھ جاتا اور اپنے بدن کو چادر سے ڈھانپ لیتا ، جب یہ بالٹی غلاظت سے بھر جاتی تو دن میں ایک یا دوبار قیدیوں کو نیچے سے نکال کر ان کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں کھول لیتے ، وہ ہر خیمے کے سامنے کھڑے ہو کر بالٹی طلب کرتے ، خیمے کے اندر موجود قیدی غلاظت سے بھری بالٹی اٹھا کر کانٹا تار کے خلا میں نے انہیں حوالے کرتے وہ انہیں آگے لے جا کر ایک مشین میں ڈالد یتے عبدالسلام ضعیف سے یہ کام اکثر و بیشتر کروایا جاتا تھا . الله تعالی اسے اجر عظیم عطا کرے میرے بھائی بد رالز مان بدر بھی اس مقصد کیلئے کہ وہ اس بہانے سے میرے ساتھ ملاقات کرے ، غلاظت کی بالٹیاں پھینکنے کے لئے دو تین بار باہر آئے اور اس بہانے ہمارے ان کے درمیان مختصرسی ملا قات اور علیک سلیک ہوئی فوجیوں کو معلوم نہ تھا کہ ہم دونوں بھائی ہیں ، صرف تفتیشی افسروں کو اس بات کا علم تھا ۔ قندھار جیل میں صفائی کا غیر موثر انتظام
 قندھار جیل میں بھی صفائی کا قطعا انتظام نہیں تھا ، نہ وضو کے لئے پانی دیا جاتا اور نہ ہاتھ دھو نے کیلئے کبھی کبھار اس بوتل کے پانی سے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھو لیتے جو ہمیں پینے کیلئے دیا جاتا تھا جب بھی فوجیوں کو پتا چلتا تو وہ قیدی کو سخت سزا دیتا اور چند گھنٹوں تک سورج کی گرمی میں گھٹنوں کے بل بٹھا دیتا ۔ ناخن کاٹنے ، مونچھ اور زیر ناف بال تراشنے کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا ۔ آ خری دنوں میں بالٹیوں میں تھوڑا سا پانی ڈالکر قیدیوں کو نہانے کے بہانے خیمے سے باہر نکالتے اور ان کو سب اجتماعی طور پر مجبور کرتے کہ بر ہنہ ہو کر اس پانی سے نہائے افسوس کی بات تھی کہ بالٹیوں میں موجود پانی ایک تو بہت تھوڑ اسا ہوتا تھا دوسرا یہ کہ بہت گندہ ہوتا تھا ، جب ہم نے برہنہ نہانے سے انکار کیا تو ایک خاتون فوجی آفیسر نے ہمیں کہا تم کیوں بر ہنہ نہیں نہاتے ، میں تو اس ارمان میں ہوں کہ کوئی شخص ایسا پیدا ہو جو آئے اور میرے سارے کپڑے اتارے اور مجھے برہنہ کردے مگر تم برہنہ نہانے سے انکاری ہوا ۔
 قندھار میں ڈاکٹروں کا سلوک اور دوائیاں
 بیمارقیدیوں کے علاج کا کوئی انتظام نہیں تھا ہسپتال کے نام پر ایک بڑا خیمہ تھا جہاں ان زخمیوں کا علاج اور مرہم پٹی کیجاتی جو امریکی بمباری کی وجہ سے زخمی ہو چکے تھے اور ان کے پاؤں یا ہاتھ ضائع ہو چکے ہوتے ۔ بہت شدید بیمار افراد بھی اس خیمے میں پڑے ہوتے تھے ۔ اگر کوئی بہت شدید بیمار ہوتا تو دوسرے بیماروں کو خیمے سے باہر گھٹنوں کے بل بٹھاتے اور قیدی کو ڈرپ لگاتے ، دوسرے بیما ر خیمے سے باہر اس وقت تک گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوتے جب تک کہ وہ ڈرپ ختم نہ ہو جاتی اکثر مریض جب بہت زیادہ شکایت کرتا تو اسے کہا جا تا کہ تمہارا علاج کا کوئی انتظام ہمارے پاس نہیں ۔ بیمار قید کی درد سے تڑپتے رہتے اور اللہ تعالی کو یاد کرتے رہتے قیدیوں میں کچھ ایسے بھی تھے کہ شدید سردی اور برف کی وجہ سے ان کے پاؤں پر شدید زخم آجاتے ۔ ایک قیدی کا ایک ہاتھ کندھے سے کٹا ہوا تھا لیکن پھر بھی اسے پوچھ گچھ کیلئے اسی حالت میں لا یا جا تا کہ اس کے ایک ہاتھ کو پیچھے کی طرف دوسری آستین سے بندھا ہوتا اور پاؤں میں بیڑیاں پہنی ہوتیں ۔  بیماروں کو صرف دردکی گولیاں دی جاتی تھیں ، کبھی اس طرح کہ نرسوں کے ہاتھ میں ایک پائپ ہوتا تھا

جے راہ چلتے چھڑی کے طور پر بھی استعمال کرتے جو کیچڑ میں گندی ہوتی جب نرس خیمے کے قریب پہنچ جاتی تو اس گندے پائپ کو کانٹا تار کے خلا میں سے گزار کر قیدی کے ہاتھ پر رکھا جاتا ۔ دوسری جانب سے پائپ میں ٹیبلٹ ڈال کر مریض قیدی کے ہاتھ میں گرائی جاتی . پھر قیدی کو ان گولیوں کو کھانے پر مجبور کیا جاتا ۔ جب وہ گولی کھالیتا تو نرس اسے کہہ دیتی کہ اپنا منہ کھولو کہ تم نے یہ گولیاں واقعی کھائی ہے یا نہیں ؟ اگر گولی زمین پرگر جاتی تب بھی قیدی کو اس کے کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا ۔ 
قندھار میں قیدیوں کا لباس
 قندہار جیل میں بھی دھاگے سے بنے ہوئے بار یک پتلون گاڑیوں کے مستریوں کی طرح یہ پتلون اورشرٹ آپس میں سلے ہوئے تھے ، رفع حاجت کے وقت پتلون کو ان کے ساتھ نکالنا پڑتا تھا موٹے بدن کے قیدیوں کیلئے یہ لباس بہت تنگ تھا ، وہ پتلون کو تو پہن لیتے مگر قمیض نہیں پہن سکتے تھے ، وہ قمیض کی آستینوں کو کمر سے باندھ لیتے مگر کمر سے اوپر والا حصہ کھلا رہتا تھا ، کچھ دن بعد ریڈ کراس والوں نے چادریں فراہم کیں وہ بھی بہت باریک تھیں ، وہ قیدی کو دو دو چادر یں دی جاتی تھیں قیدی انہیں زمین پر بچھا کر اس پر سو جاتے مگر سر کے نیچے رکھنے کیلئے تکیے نہ تھے سخت ہواؤں اور ہوائی اڈے کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی ہواؤں سے اڑتا ہوا گرد و غبار ہمارے سر ، گردن اور چہرے پر جم جاتا تھا ۔

 قندھار جیل میں امریکی کٹھ پتلی

 ایک رات امریکیوں نے تقریبا بیس قیدیوں کو لا کر ہمارے سامنے خیمے میں ڈالد یا ، ان میں ایک سفید ریش آدمی بھی تھا ۔ 
جب اسے زمیں پرگراد یا تو اس کے منہ سے خون بہہ نکلا دوسرے قیدیوں کی طرح اس کی داڑھی کو منڈوایا وہ بہت چیختا تھا کیونکہ اسے گمان ہو گیا تھا کہ اسے مار دیا جائے گا دوسرے دن معلوم ہوا کہ برہان الدین ربانی کے کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر تھا ۔ 
برہان الدین ربانی وہی شخص ہے جو افغانستان پر امریکی بمباری کے وقت امریکیوں کو کہا تھا کہ طالبان پر یہ بمباری کافی نہیں اس سے زیادہ بمباری کی ضرورت ہے بعد میں امریکی فو جیں ربانی ، سیاف شورای نظار اور شمالی اتحاد کے کندھوں پر سوار ہو کر کابل میں داخل ہوئے ۔ 
میرے خیال میں کمانڈرحابی بھی تھا اور ملا بھی دوسرے گرفتار کیے گئے افراد کرزئی کے ساتھی اور
 ہمنوا تھے شمالی اتحاد کی طرح یہ افراد بھی امریکہ کے غلام اور کٹھ پتلی تھے لیکن انہیں غلطی سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ جب انہیں خوب ذلیل اور بے عزت کیا گیا تو چند دن بعد معلوم ہوا کہ یہ بیچارے تو امریکہ کے غلام اور کٹھ پتلی ہیں او غلطی سے گرفتار کئے گئے ہیں تو امریکیوں نے انہیں معذرت کر کے رہا کیا اور ربانی کے کمانڈر کو ایک بلٹ پروف واسکٹ بھی دے دی اور اسی حالت میں گھر بھیجا کہ اس کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی وہ بغیر داڑھی کے گھر چلے گئے افغانستان تو کیا پوری دنیا کا ایک ایک چپہ بھی ان پرلعنت بھیجتا تھا ۔ انہیں اس نے اتنی ذلت و رسوائی کے بارے میں گھر والوں کو کیا بتایا ہو گا لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسے لوگ شرم و حیا سے عاری ہیں کیوں کہ انہوں نے تو پہلے سے اپنی عفت و حیاء بیچ دی ہے اور دوسرے قیدی تو اسلام ، عفت ، عزت اور ناموں کے دفاع کے جرم میں پکڑے گئے تھے مگر وہ بیچارے غلامی کے جرم میں پکڑے گئے تھے جو بعد میں معلوم ہونے کے بعدرہا کئے گئے
 قندھار جیل میں دیگر قیدیوں کی آمد
 قندھار جیل میں قیدیوں کا آنا جاری تھا ۔ ایک دن ہمارے سامنے واقع خیموں میں چند قیدیوں کو لایا گیا جن میں طالبان حکومت کے وزیر اور صو بہ ہرات کے گورنر ملا خیر اللہ خیر خواہ بھی شامل تھے ۔ جب اسے زمین پر گرایا تو اس نے زور زور سے چیخ مار نا شروع کیا اگر چہ انہوں نے گوانتانامو میں ہمیں کہا کہ وہ میں نہیں تھا بلکہ کوئی اور تھا قیدیوں کے لانے کا سلسلہ جاری تھا اور ہردن نئے نئے قیدیوں کو لایا جاتا تھا ۔ 
ان میں عرب ، شرقی ترکستان اور دوسرے ممالک کے قیدی زیادہ ہوتے تھے ، جن میں اکثر زخمی حالت میں ہوتے تھے ایسے قیدی بھی تھے جو جنگ کے دوران معذور ہو چکے تھے اور زخموں سے کراہ رہے تھے ۔ پتیا سے ایک ایسے قیدی کو لایا گیا جو امریکی بمباری کے وقت بہت شدید زخمی ہوا تھاخاص کر اس کا سر بہت زیادہ متاثر ہوا تھا زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹا تھا اور فضول گفتگو کر رہا تھا ۔ پھر اسے ہمارے ساتھ یکجا رکھا گیا ۔ چند قیدیوں نے اسے پہچان لیا وہ کہہ رہے تھے کہ یہ شخص بہت قوی اور ہوشیار جوان تھا لیکن اب بہت بری حالت میں زندگی گزار رہا تھا امریکیوں نے دکھاوے کی حد تک اس کا علاج شروع کیا ہوا تھا اور اسے ڈرپ لگاتے تھے ، چند دنوں میں ہمیں گوانتانا منتقل کیا گیا لیکن ہم نے اسے گوانتانامو میں نہیں دیکھا پتہ  نہیں کہ وہ شہید ہوا یا صحت یاب ہو کر موت سے بچ نکلا ؟ 
قندھار میں قید تنہائی کے لئے الگ جیل 
جستی چادروں سے ایک بڑاحال بنایا گیا تھا پہلے جس مقصد کے لئے بھی استعمال ہورہا تھا مگر اب اسے قیدی تنہائی کے لیئے استعمال کیا جاتا تھا جس کے اندر امریکی فوجیوں نے کانٹاتار سے الگ الگ کیبن بنارکھے تھے جس میں قید تنہائی کے لئے قیدیوں کو رکھا جاتا تھا ۔ اگرچہ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کا اندرونی حصہ نہیں دیکھا مگر میرا چھوٹا بھائی استاد بدر 25 دن تک وہاں رہ چکا ہے ۔ وہ اس کے بارے میں بہتر معلومات رکھتا ہے ۔ بعد میں خود اس حوالے سے معلومات فراہم کر دے گا ۔

 قندھار کے جیل کے آخری شب و روز 
ہم نے قندھار جیل میں کل دو مہینے اور آٹھ دن گذارے آخری دنوں میں صرف نمود و نمائش کی خاطر کیرم بورڈ شطرنج کے تختے اور کچھ پرانے اور پھٹے ہوئے رسالے ، مجلے اور کہانیوں کی بعض کتا بیں ہمیں دے دی گئی ہم نے ان کو بھی غنیمت سمجھا لیکن کچھ دن بعد وہ دو بارہ لے گئے ، امریکیوں کا یہ کام بھی قیدیوں کے ساتھ ایک قسم کا استہزاء اور اہانت تھی ، قیدیوں کو کیرم بورڈ اور شطرنج کے تختےکی مثال ایسی تھی جیسا کہ کسی آدمی کو الٹا لگا کر اسے کوڑوں سے مارنے لگومگر اس کے سامنے شطرنج اور کیرم بورڈ رکھ کر کہا جائے کی ایسی حالت میں شطر نج کا کھیل بھی کھیلا کرو گوانتانا نو جیل بھیجنے کی نشانیاں 
میں نے گوانتامو جیل بھیجے جانے کی پانچ نشانیاں پہلے سے محسوس کیں تھیں جو یہ ہیں ۔ با گرام جیل میں حلیم نامی ایک قیدی تھا جو کبھی کبھار امریکیوں کیلئے تر جمانی بھی کرتا تھا جیسا کہ میں پہلے کہ چکا ہوں کہ مجھے چند منٹوں کیلئے اس کے ساتھ رکھا گیا تھا ۔ اس نے مجھے یہ بتایا تھا کہ جن لوگوں کو گوانتانامو جیل بھیجا جاتا ہے ا نہیں کو قندهار ، اور وہاں سے گوانتانامو منتقل کیا جا تا ہے تو اس وقت کی بات تھی لیکن بعد میں با گرام جیل سے بھی قیدیوں کو براہ راست گوانتانامو جیل بھیجا جاتا تھا ۔
 قندھار جیل میں ایک ہندوستانی تر جمان کے ساتھ بات کر رہا تھا ، اس نے مجھے بتایا کہ امریکی افواج افغانستان میں موجود قیدیوں کیلئے گوانتانامو کے جزیرے میں ایک مستقل جیل بنارہے ہیں جس وقت بھی و ہ بن جائے تو یہ سارے قیدی و ہاں منتقل کئے جائیں گے ۔ 
پوچھ گچھ اور تفتیش کے دوران تفتیشی افسران کی گفتگو سے بھی معلوم ہورہا تھا کہ ہمیں گوانتانامو بھیجا جائے گا ۔ گوانتانامو بھیجنے سے چند روز قبل یہاں بڑی تعداد میں نارنجی رنگ کا لباس پہنایا گیا اور اس پر دوائی اسپرے کی گئی ہم نے پہلے سے سنا تھا کہ کیوبا کے قیدیوں کو اچھا لباس پہنایا جاتا ہے ، اس لئے ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہمیں بھی گوانتانامو بھیجا جائے گا ۔ دوسری بار ہماری کلین شیو کی گئی اگر چہ اکثر قیدی دل میں آزادی کی امیدیں بسائے ہوئے تھے لیکن یہ پانچ نشانیاں اس بات پر دلالت کرتی تھیں کہ یہاں سے کوئی بھی قیدی رہا ہو نے والے نہیں ہیں سب کے سب کیوبا منتقل ہونیوالے ہیں ، میرے دل میں تو یہی بات بیٹھ گئی تھی لیکن دوسروں کو بتاتا نہیں تھا تا کہ وہ غمزدہ اور پریشان نہ ہوں ۔ 

استاد بدر با گرام جیل سے قندھار جیل تک کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے : با گرام میں تیسری رات ایک امریکی تفتیش کارآیاجو شکل وصورت سے ہزارہ جات کا افغان لگتا تھا ۔ پہلے میں سمجھا کہ یہ افغان ہے ۔ کیونکہ اس طرح کے لوگ امریکہ میں ریڈ انڈین قبائل کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں اور عربی میں انہیں ہنود الحم کہا جاتا ہے ۔ وہ بہت اچھی فارسی بول رہا تھا لگ نہیں رہا تھا کہ وہ افغان ہیں ۔ اس نے پنجشیر یوں کی طرح وردی پہن رکھی تھی . CIA اور FB کے اکثر اہلکار جو اس وقت بھی افغانستان میں افغان قومی لباس میں ملبوس دیکھے جاتے ہیں اس وقت انہوں نے اپنا حلیہ شمالی اتحاد کے کمانڈروں جیسا بنا رکھا تھا ۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے چند امریکی افسروں کو پکول اور افغان قومی لباس یا پھر ان وردیوں میں دیکھا جو شمالی اتحاد کے کمانڈروں کی وردی تھی ، یہاں تک کہ پنجشیر یوں کی طرح رومال بھی گلے میں ڈال رکھے تھے اور انہوں نے چھوٹی چھوٹی داڑھیاں بھی رکھ لی تھیں اب تو بڑی بڑی داڑھیوں اور مقامی لباس اور گاڑیوں میں امریکی خفیہ اداروں کے اہل کار  پھرتے ہیں جن کی پہچان دور سے بہت مشکل ہوتی ہے ۔ جب با گرام میں اعلی تفتیشی افسر نے میرے ساتھ انگریزی زبان میں بات چیت شروع کی تو میں نے اسے کہا تم تو بہت اچھی انگریزی بولتے ہو ؟ اس نے کہا تو میری زبان ہے ، میں حیران ہوا اور پوچھنے لگا کیا تم امریکی ہو ؟ اس نے کہا ہاں میں نے پوچھا تم توفارسی بھی اچھی بولتے ہو ؟ وہ خوش ہوا اور کہنے لگا میں توچاہتا ہوں کہ میری فارسی اس سے بھی بہتر ہوجائے میں نے چند سالوں سے فارسی سیکھنے کی محنت کی ہے ، پھر مجھے کہنے لگا اپنے آپ کو تیار رکھو کہ آج رات تمہاری لی فلائیٹ ہے جاؤ لیٹرین میں اپنی قضائے حاجت رفع کرو طیارے میں یہ سہولت نہیں میسر ہوگی مجھے کہا جاؤ دوسرے قیدیوں کو بھی بتاد و . جب میں نے یہ بات ا نہیں بتائی تو وہ سارے پریشان اور غمگین ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کیو بالے جارہے ہیں ، خاص کر حاجی عبدالمنان صاحب تو بار بار مجھ سے پوچھتا تھا کہ ہمیں کہا لے جارہے ہیں ، کیا ہمیں مار ڈالیں گے یا کیو بامنتقل کریں گے ؟ حاجی صاحب کا خیال تھا کہ شاید مجھے سب کچھ معلوم ہے میں اس کو جواب دینے سے قاصر تھا ۔ ایک رات قبل ہم نے اپنے قریب چند عرب اور چند افغانوں کو دیکھا تھا جن کے سروں پر سیاہ ٹوپی پہنا کر اور ایک مضبوط رسی کے ذریعے سب کو اکٹھے باندھ کر نامعلوم مقام کی طرف روانہ کیا گیا دوسری رات میں بھی اسی طرح ایک ہی رسی کے ذریعے اکٹھے بازوؤں سے باندھ لیا گیا اور سروں پر سیاہ ٹوپیاں پہنائی گئی لیکن کچھ دیر بعد سروں سے ٹوپیاں ہٹائی جس رات ہمیں یہاں سے نقل کرنے کی خبر سنائی گئی تو اسی رات ہماری نیند اڑ گئی تھی لیکن آدھی رات وہی افغان نما امریکی افراد دوبارہ ہمارے قریب آیا اور کہنے لگا کہ آج رات ہوا کی خرابی کی وجہ سے تم لوگ رہ گئے ہو کل رات کو ایک بڑے طیارے میں تمہیں بھیجا جائے گا اگر چہ وقتی طور پر یہ مصیبت ہمارے سروں سے ٹل گئی لیکن اگلے دن پھر بھی بہت پریشان تھے ۔ اگلی رات کو عشاء کے وقت دوفوجی ہمارے قریب آئے ان کے ہاتھوں میں وہی سبنر پلاسٹک کی بوریاں تھیں جو ہم سے پہلے والے گروپ کے قیدیوں کو پہنائی گئی تھی انہوں نے بوریاں ہمارے سامنے دیوار کے قریب رکھ دی ہمیں خصوصی لباس میں ملبوس فوجی جو اپنے کانوں اور آنکھوں میں خصوصی آلات لگائے ہوئے تھے یہاں آ کر کھڑے ہوئے انہوں نے مجھے میرے بھائی مسلم دوست ، حاجی ولی محمد صراف ، حاجی عبد الستار غزنی اور مولوی شریف الله متراری کو ایک دوسرے کے پیچھے گھٹنوں کے بل بٹھایا ۔ پہلے ہرایک کو پلاسٹک کی بوریاں پہنائی ، پھر ان کو مضبوط کرنے کیلئے ٹیپ لگائی ، آخر میں بازوؤں کو باندھ کر ہمیں روانہ کیا طیارے تک ہمیں اسی حالت میں پہنچایا جس طرح پہلے طیارے سے با گرام جیل تک لایا گیا تھا طیارے کے فرش کے ساتھ ہمیں باندھا گیا اور اس حالت میں طیارے میں بٹھایا کہ نہ پوری طرح لیٹے ہوئے تھے اور نہ ہی پوری طرح بیٹھے ہوئے تھے بلکہ درمیانی حالت میں تھے ہمیں مکمل یقین ہوگیا کہ یہ کیوبا کی جانب سفر ہے ، کیونکہ امریکی افسر نے بھی یہی بتایا تھا کہ تم طویل سفر پر جارہے ہو ، طیارے میں بہت زیادہ شور تھا امریکیوں نے تو شور سے بچنے کیلئے اپنے کانوں میں آلات لگائے ہوئے تھے لیکن ہمارے کان شور سے دردکرنے لگے سردی بھی بہت لگ رہی تھی جس سے ہم کانپ رہے تھے ۔ بالاخر تین یا چار گھنٹے بعد جہاز زمین پر اتر گیا ہمیں طیارے سے اسی طرح اتارا گیا جس طرح بگرام کے ہوائی اڈے پر طیارے سے اتارا گیا تھا ۔ اس بار بھی ہمارے ہاتھ پاؤں پلاسٹک کی رسیوں سے بندھے ہوئے تھے ، دھکوں دھکوں سے ایک جگہ ہمیں داخل کردیا ہمیں وہاں الٹا کر کپڑوں کو پھاڑ ڈالا اور ہمیں برہنہ کر کے ایک تختے پر بٹھایا سر کے بال اور داڑھی کلین شیو کیا گیا ، اسی حالت میں ھماری تصویریں اتاری گئی اس کے بعد ہمیں ایک خیمے کے اندر لے گئے ۔ 
وہاں آسمانی رنگ کے جمٹ سوٹ ہمیں پہنائے گئے ، یہ بات یادرہے کہ اس سے پہلے ہمیں تقریبا دو گھنٹے تک برہنہ حالت میں اوندھے منہ زمین پر لٹایا گیا تھا ، ہم سے پہلے جن قیدیوں کو یہاں لایا گیا تھا انہیں گیلی زمین میں بارش میں پانچ گھنٹوں تک اوندھے منہ لٹائے رکھا گیا تھا ۔ جس وقت ہم زمین پر پڑے ہوئے تھے اس وقت ایک ترجمان نے ہمیں بتایا کہ اب تمہیں رہنے کی اصلی جگہ کی طرف بھیجا جائے گا کل تم اپنے اپنے گھروں کو خطوط بھی لکھو گے ۔ طبی معائنہ اور لباس کی تبدیلی کے بعد ہم سے چند سوالات بھی پوچھے گئے ۔ اس وقت ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی قندھار میں قیدیوں کو اونی ٹوپیاں اور افغانی پکول دیئے گئے تاکہ اپنے سروں کو ڈھانپ سکیں آنکھیں بند کرنے کیلئے بھی ان ہی ٹوپیوں اور پکولوں سے کام لیا جاتا تھا ۔
 پوچھ گچھ اور تفتیش کیلئے لیجانے کے وقت قیدیوں کو سیاہ ٹو پی بھی پہنائی جاتی . چیک اپ اور پوچھ گچھ کا کام ایک عورت نے انجام دیا ۔ وہ بہت بداخلاق اور چھوٹے قد کی مالک تھی . یہ بد اخلاق ڈاکٹڑ عورت قیدیوں کے سامنے فوجیوں سے بغل گیر ہو جاتی اور ان کے بوسہ لیتی کبھی کبھار ان کے کندھوں پر بھی سوار ہو جاتی ایک دن ایک قیدی کوقبض کشا گولی دیدی اور اسے سمجھانے کیلئے کہ قبض کشا گولی ہے زمین پر اس طرح بیٹھ گئی کہ گویا رفع حاجت کر رہی ہے پھر پیٹ پر ہاتھ رکھ کر منہ سے ڈرٹ کی آواز نکالی مطلب یہ کہ قبض کشا گولی ہے اس سے تمہارا پیٹ نرم ہو جائے گا وہ اکثر اوقات قیدیوں کے سامنے فوجیوں کے ساتھ نازیبا اور حیا سوز حرکتیں کرتی تھی اور اسی حالت میں تصویریں اتروائی تھی اس ڈاکٹر نے مجھ سے بھی چیک اپ کے بعد پوچھا کہ تم نے اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے آخری ملاقات کب کی تھی ؟ میں نے اسے بتایا کہ میں نے کبھی بھی ان دونوں کونہیں دیکھا ، یہ وہ سوال تھا جو اکثر قیدیوں سے بار بار کیا جاتا تھا ۔
 اس کے بعد ہماری انگلیوں کے نشانات لئیے گئے ۔ پھر آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی گئی اور ہاتھوں کو پیچھے کی جانب فولادی زنجیروں سے باندھ لیا گیا ۔
دوفوجیوں نے میرے بغل کے نیچے ہاتھ ڈال کر میرے سر کو دبایا اور رکوع کی حالت میں مجھے یہاں سے روانہ کیا لباس تبدیل کرتے وقت میرے پاؤں میں جوتے پہنائے جوتنگ تھے انہوں نے ان کی جگہ فوجی بوٹ پہنادی میں اتنا جانتا تھا کہ مجھے کیچڑ اور پانی میں کہیں لے جارہے ہیں ، کچھ دیر بعد مجھے چند منٹ کیلئے ایک جگہ پر کھڑا کر دیا پھر چند منٹ کے بعد دوبارہ چلنے کو کہا چند قدم آگے چل کر مجھے زمین پرلٹایا راستے میں مجھے ایک فوجی نے کہا تھا کہ اب ہم تمہیں ایک پنجرے میں ڈالیں گے میں سمجھا کہ شاید یہ کیوبا گوانتانامو کا پنجرہ ہے اوندھے منہ گرانے کے بعد میرے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دی گئی اور مجھے قہر آمیز لہجے میں خبر دار کیا کہ میں کوئی حرکت نہ کروں میں خاموش زمین پر لیٹا ہوا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ وہ یہ بات مجھے کیوں بتارہے ہیں ؟ طیاروں کا شور اور سردی بہت زیاد تھی میں نے پیچھے کیطرف سے گٹ آپ ( اشو ) کی آواز سن لی لیکن میرا خیال تھا کہ مجھے نہیں کہا جارہا ، بالآخر پشتو زبان میں کسی نے بتایا کہ اٹھو ، اردو میں بھی کسی نے اٹھو کی آواز دی ، جب میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو میں ایک فولادی پنجرے میں پڑا ہوا تھا ۔ ہمارے اردگرد اور بھی پنجرے تھے  پنجرہ نما ایک کھنڈرات کے اندر بنائے گئے تھے جس کے اردگرد چھوٹی چھوٹی دیواریں تھیں ۔ جن کے باہر لکڑی کے بنے ہوئے اونچے اونچے مورچے تھے جن میں مسلح فوجی پہرہ دے رہے تھے اس عارضی جیل خانے کی مغربی طرف ہوائی اڈے کا کنٹرول اور ٹاور نظر آ رہا تھا اور اس کے اردگر بڑے بڑے خیموں کے سر نظر آ رہے تھے ، جنوب کی جانب لمبے لمبے درخت تھے خیموں کے درمیان امریکی فوجی رسیوں میں بندھے ہوئے کتوں کے ذریعے گشت کر رہے تھے پنجرے میں موجود قیدیوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور اندر آنے کو کہا ۔ 
انہوں نے مجھ سے پوچھا کس صوبے کے رہنے والے ہو ؟ میں نے کہا صوبہ ننگر بار سے ہوں لیکن پشاور میں رہتا تھا انہوں نے کہا کہ قندھار کا ہوائی اڈہ ہے ، اب سو جاؤ باقی باتیں انشاء اللہ کل کریں گے ۔ ایک قیدی نے اپنے دو کمبلوں میں سے ایک کمبل مجھے دیدیا اور جو زمین پر بچھا کر مجھے کہا کہ آدھے پر لیٹ جاؤ اور آدھے کو اوڑھ لو یہ کمبل بگرام کے کمبلوں سے موٹے اور گرم تھے نماز فجر کے بعد فو جی ایک کمبل اور ایک چادر میرے لئے بھی لے آئے، بہت دنوں بعد ہم نے باجماعت نماز پڑھی لیکن وضو کیلئے پانی نہیں تھا تیمم کرکے نماز پڑھنے کے بعد کچھ قیدی سو گئے اور کچھ تلاوت کرنے لگے قندھار جیل میں یہ میرا پہلا دن تھا اور پہلی بار دن میں دو مرتبہ قیدیوں کی حاضری کے قطار میں کھڑے ہونے سے آشنا ہوا . یہاں دوپہر کے وقت ہمیں عسکری
کھانا دیا جاتا تھا جن میں سردسبز یاں ، بسکٹ اور سورج مکھی کے چھیلے ہوئے دانے ، دو دو ٹافیاں اور کافی کا پیکٹ بھی ہوتا تھا۔اس کے علاوہ سور کا حرام گوشت بھی پیٹوں میں ہوتا تھا ۔ ہم صرف سبزیاں ، بسکٹ اور سورج مکھی کے بیج کھاتے تھے ۔ 
پہلے بعض قیدیوں نے سہو حرام گوشت کھایا تھا لیکن بعد میں چھوڑدیا صرف ایک ایرانی شیعہ جس کا نام عبدالمجید تھا اس حرام گوشت کو شوق سے کھاتا تھا ہمیں بھی کہتا تھا کہ جو بھی یہ گوشت نہیں کھاتا وہ مجھے دیدے عبد المجيد امریکی جاسوس اور بہت بداخلاق انسان تھا ۔ قندهار میں پہلے دن میرا تعارف افغانی اور عربی قید ہوں کے علاوہ لا ہور کے ڈاکٹر سرفراز احمد سے ہوا . وہ شمالی افغانستان میں پکڑا گیا تھا اور شبرغان جیل سے یہاں لایا گیا تھا . وہ قندھار جیل میں کافی دنوں سے قید تھا اور یہاں کے قوانین اور اصولوں سے واقف تھا اس نے میری راہنمائی کی اور اسی کے ذریعہ مجھے پتہ چلا کہ قیدیوں کو اکٹھانہیں رکھا جاتا بلکہ مختلف پنجروں اور خیموں میں رکھا جاتا ہے ۔ ہمارے طیارے میں لانے گئے عام قیدیوں کےخلاف پنجروں اور خیموں میں تقسیم کیا گیا تھا میں نے مسلم دوست کو بہت تلاش کیا لیکن کہیں بھی نہ پایا ۔ جب دھوپ بڑھی اور میں تین مہینے بعد دھوپ میں بیٹھا تو مجھے بہت راحت وسکون ملا ایک تو دھوپ کی خوشی تھی دوسری یہ کہ کیوبا کی بجائے اپنے ہی وطن قندھار میں قید و بند گزار رہا ہوں میرے ایک ساتھی نے کہا کہ بہت سے قیدیوں کو تارنجی لباس میں کیوبانتقل کیا گیا ہے لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہمیں بھی کیو با نقل کیا جائے گا اس لئے میں انہیں تسلی دیتا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں اللہ خیر کرے گا آخر ہم نے کونسا گناہ کیا ہے جس کے جرم میں ہمیں کیو بامنتقل کیا جائے گا ۔ ایک دن کسی نے ملا عبدالسلام ضعیف کی نشاندہی کی جو ہمارے سامنے خیمے میں چہل قدمی کر رہا تھا ، خیمے میں بیک وقت تین آدمیوں سے زیادہ کے گھومنے اور بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اسی دن میں نے بھی دیکھا کہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزادی جاتی تھی کوئی ایک گھنٹے کیلئے اور کوئی آدھ گھنٹے کیلئے گھٹنوں کے بل کھڑا کیا گیا تھا ایک دن کے ابتدائی حصے میں مجھے بھی تفتیش اور پوچھ گچھ کیلئے پیش کیا گیا جو بہت توہین آمیز حالت میں تھا قیدی اپنے فائل کا نمبر سننے کے فورا بعد دروازے کے قریب حاضر ہو جاتا اور اوندھے منہ زمین پر لیٹ جاتے اپنے ہاتھ پشت پر رکھتا اور اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیتا پنجرہ نما خیمے میں مو جو ددوسرے تمام قیدی خیمے کے پیچھے چلے جاتے وہاں گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور اپنے ہاتھوں کو سروں پرر کھد یتے ، ان کے اردگرد مسلح فوجی کھڑے ہوجاتے ، ان میں سے تین مسلح فوجی خیمے میں داخل ہو کر اوندھے منہ لیٹے قیدی کی پشت پر دوسرا پاؤں پر اور تیسرا جلدی جلدی اس کے پاؤں اور ہاتھوں کو باندھ دیتا پھر اس کے آنکھوں پر سیاہ پٹی جو کہ ٹو پی کی شکل میں ہوتی تھی پہنادیتے ۔ جب یہ سارا کام مکمل ہو جاتا تو اسے اٹھ کر رکوع کی حالت میں پوچھ گچھ کی تفتیشی افسر کے سامنے لے جاتے قیدی کے پیچھے کتے بھی ہوتے تھے ۔ ایک بار کتے نے میرے پاؤں پر منہ لگایا لیکن الحمد للہ زخمی ہونے سے بچ گیا وہ یہ سارا کام قیدیوں کو ڈرانے اور ذلیل کرنے کیلئے کر رہے تھے ۔ راستے میں لگے پھاٹکوں سے گزرتے وقت ہر قیدی کی فائل کا نمبر بتایا جاتا تھا بگرام میں میری فائل کا نمبر 94 ، حاجی ولی محمد کا 95 ، اور مسلم دوست کا96 تھا لیکن ہمارے نام ریڈ کراس کے پاس درج نہیں تھے اس لئے قندھار میں ہمیں نئے نمبر دیئے گئے میری فائل کا نمبر 559 حاجی ولی محمد صراف کا 560 اورمسلم دوست کا نمبر 561 تھا ۔
 قندھار میں جب مجھے پہلے روز تفتیش کیلئے روانہ کیا گیا تو پہلے مجھ سے ذاتی اور شخصی سوالات پوچھے گئے اور پھر بتایا گیا کہ آج تم اپنے گھر والوں کو خط لکھ سکتے ہو . ایک چھوٹے قد کے مالک نے مجھے فارسی میں کہا چوقت تسلیم شدہ ئی ( کس وقت ہتھیار ڈالے . ) میں تو تسلیم نہیں ہوا ہو ، وہ حیران ہوگیا اور غصے کی حالت میں کہنے لگا کیوں نہیں ؟ پھرم قیدی کیسے بن گئے ہو ؟ میں نے اسے کہا پہلے تم تسلیم ہونے کے معنی جان لو کیوں کہ فارسی زبان تمہاری اپنی زبان نہیں ، اس نے کہا ہاں ٹھیک ہے میری مادری زبان فرانسیسی ہے میں نے اسے کہا تسلیم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی آدمی جنگ کے دوران محاصرے میں آ کر ہتھیار ڈالدے ، یا جنگ کے بغیر اپنے آپ کو کسی کے حوالہ کر دے ، مجھے تو اپنے گھر سے پکڑا گیا ہے ہمیں قیدی بنا کر فروخت کیا گیا ہے ، چونکہ وہ نیا تھا اور صرف ابتدائی معلومات لکھتا تھا تو اس نے ہم سے معذرت کر لی اس کے بعد انگریزی میں بات چیت شروع کی اور فوجی نے کہا اس کا خیال رکھنا جب بھی ریڈ کراس کے لوگ آئیں تو اسے لازما خط لکھنے کی اجازت دے دینا کیوں کہ اس کا طویل عرصے سے اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں ہوا ہے ۔ 
پھر مجھے کہا اب جاؤ تم سے مزیدتفتیش بعد میں ہوگی ، مجھے اپنے خیمے میں لایا گیا وہاں ڈاکٹر سرفراز ، جان ولی اور انور کے ساتھ بات چیت کرنے لگا ۔ اگر چہ میں قیدی تھا لیکن آج بہت خوش تھا کیوں کہ میں نے تین مہینے بعد آسمان اور سورج دیکھا تھا اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ بات کرنے کی اجازت مل گئی تھی میں نے قندھار میں پہلے دن کے آخری حصے میں مسلم دوست کو دیکھا جنہیں ایک خیمے میں اکیلا رکھا گیا تھا ۔ اس کی داڑھی اور سر کے بال صاف کر لئے گئے تھے البتہ اس کے چلنے ، چادر اوڑھنے اور اس کی اونچی ناک سے اندازہ لگایا کہ یہ میرا بھائی مسلم دوست ہے میں نے چوری چھے بہت ہاتھ ہلایا لیکن


part 1   part 2   part 3   part 4   part 5   part 6   part 7   part 8   part 9

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی