مسلمان جب دولت کے نشے میں ہوتو انہیں اتنی گہری نیند ہوتی ہے کہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
ہمارے معاشرے کے متعلق غیرمسلم خاتون کے احساسات

راقم      محمدعرفان ایس ایم

    بھٹکل کے مسلمانوں کے تقریباً اسی فیصد گھرانوں میں غیرمسلم خواتین گھریلوکام کاج کے لئے آتی ہیں ،صبح صبح اپنے گھروں سے نکل کرچھ سات مختلف گھروں میں کام کرکےدوڈھائی بجے تک واپس لوٹتی ہیں

،بعض عمر رسیدہ اوربعض جوان ،یہاں تک کے بعض تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں ،یہ عورتیں ہمارے مسلم سماج کے گھروں میں آکرجواحساسات اپنے دلوں میں لے جاتی ہیں اس کی تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے۔ان کی باتیں سن کرایسامحسوس ہوتاہےکیا ہمارامعاشرہ اس قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکاہے،کیا نبیﷺ کی تعلیمات سے اس قدر بے اعتنائی برتی جارہی ہے،کیا ہماراعمل اتنا گھن کرنے والا بن چکاہے۔

آئیے اُن غیرمسلم عورتوں کے احساسات کی ترجمانی اُنہیں کی زبانی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،ایک غیر مسلم خاتون کا کہنا ہے کہ میں فلاں گھرمیں عام طور پر صبح آٹھ تا نو کے درمیان جایا کرتی ہوں اورصرف اپنی ذمّہ داری آدھے گھنٹے میں مکمل کرکے نکل جاتی ہوں ،اکثر بلکہ ہمیشہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوکہ ان کے سوئے ہوئے بستروں کومیں ہی لپٹ کر رکھتی ہوں ، مرد حضرات توسوئے ہوئے ملتے ہیں مگر خواتین کو  بھی جگا نا پڑتاہے۔

آگے پڑھیئےکیا کہتی ہے۔ سن کرحیرت ہوتی ہےکہ دروازے کی کنڈی کھلے رکھتے ہیں تاکہ میں آکرخاموش کام کرکے نکل جاؤں،ایساہی ہوتاہے میں کام کرکے نکل بھی جاتی ہوں اُنہیں اس کا پتہ تک نہیں ہوتا،مزہ کی بات یہ ہے کہ کبھی کبھی دروازہ کھٹکھٹاکر واپس بھی جانا پڑتاہے،پروہ گہری نیند میں ہوتے ہیں۔
ہوں ہوں ہوں کہتی ہے مجھے یہ بات بہت بُری لگتی ہے،ایسا لگتاہے کہ یہ لوگ رات میں دیر سے سوتے ہوں گے۔کیا آپ کے دھرم میں یہ بات بُری نہیں سمجھی جاتی؟

تذکرہ کرتے چلوں کہ ہمارے نبیﷺنے رات میں جلدی سونے اور صبح جلدی اُٹھنے کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ تاکید بھی فرمائی ہے،اور اس پر عمل نہ کرنے والوں کوبُرے انجام سے ڈرایا بھی ہے ۔

مسلم سماج کی صاف صفائی کا تذکرہ کرتے ہوئے  اپنے تأثرات کا اظہار کرتی ہےاورکہتی ہے، اگرمیں کسی مجبوری کی وجہ سے دوتین دن کام کے لئے نہیں جاتی ہوں تواس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ لوگ مجبوری کے وقت بھی اپنا کام نہیں کرسکتے،ایسے موقع پر مجھے ایسے گھروں میں بہت زور لگا کر صاف کرنا پڑتا ہے،کبھی کھبارگھرمیں داخل ہوکرکیچن روم میں قدم رکھتی ہوں تو منھ پرہاتھ رکھ کر داخل ہونا پڑتاہے۔ وجہ یہ ہوتی کہ رات کے کھائے ہوئے تمام برتن واش بیسن یا کیچن کے پلیٹ فارم پرپڑے رہتے ہیں ،اس نیت سے کہ اُنہیں احساس ہومیں خود دھوتی ہوں ،میرایہ عمل مزید ان کی تن آسانی کا سبب بن جاتاہے،پھر اسی طرح کی صورت حال ملنے لگتی ہے،خاموش غصّہ سے یوں ہی چھوڑدیتی ہوں ،اور ہاں! یہ موقع میرے لئے بڑی تکلیف کا  سبب ہوتاہےکہ جب صاف صفائی کرکے گھرسے نکلتی ہوں تومیرے ہاتھ میں کچرے کی تھیلی تھمادیتے ہیں اس میں کیا ہوتا ہے ظاہر کرنا شرم اور عار کی بات محسوس ہوتی ہے،اچھا!میرے سمجھ میں بات آئی کہ جب گلیوں اور بعض علاقوں سے گذرتے وقت بدبو کیوں آتی ہے۔ راستوں اور محلّوں میں سیکڑوں ایسی تھیلیاں نظرآتی ہیں جن سےناقابل بیان تعفّن اور سڑان  محسوس ہوتی ہے،دل چاہتاہے سانس روک کر اورآنکھیں بند کرکے گذرجاؤں۔

یہ اوراس طرح کی ہماری بہت ساری باتوں کی طرف اشارہ کیاجویقیناً مسلم سماج کے لئےعبرت کا تازیانہ ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اُس نےاِس بات پرخوشی کا اظہار بھی کیاکہ واقعی بعض گھرانے قابل دید اور ساتھ ساتھ  قابل تعریف ونمونہ بھی ہوتے ہیں  ،کہتی ہے کہ  صبح گھرسے نکلنے کے بعدپیاس اور بھوک  ستانے کے باوجودکسی گھرکی کوئی چیزکھانے اورپینے کے لئے دل آمادہ نہیں ہوتا، یہاں تک کےپانی پینا بھی گوارانہیں ہوتا۔
حضرات!افسوس آخرہم نے اپنے سماج کا یہ کیا حال کررکھاہے؟ کاہلی اورسستی کا یہ عالم کہ صبح جلد اُٹھنے کا مزاج ہی ختم ہوگیا، گندگی ہم کریں؟ اورصاف صفائی کے لئےدوسرے وہ بھی غیرآکراس طرح کا تأثر لیں ؟وہ ہمارے گھروں میں داخل ہوں توایسے کہ بدبو کی وجہ سے منھ پرہاتھ رکھیں،دراصل اس کے یہ احساسات نہیں تھے بلکہ مسلم سماج کے لئے ایک پیغام  کے ساتھ ساتھ ایک طمانچہ تھا،صرف عمدہ اور اُجلےاجلے  خوشبوؤں سےمعطّربہترین کپڑے پہنناکافی نہیں ہے بلکہ اندرونی تمام چیزوں کا خیال رکھنااور اس کا صحیح طورپر اہتمام کرنا بھی لازمی ہے،اسلام ظاہری اوراندرونی تمام چیزوں کو درست رکھنے کی دعوت دیتاہے۔ 

دیکھئے وہ اپنے سماج  اورماحول کے بارے میں کیا کہتی ہیں ،آگےپڑھئے کہتی ہے۔ہم اکثر سورج غروب ہونے سے قبل کھانے سے فارغ ہوتےہیں اور کچھ ہی دیربعد سونے کی تیّاری میں لگ جاتے ہیں ،صبح چارتا پانچ کے دوران اُٹھنےکی عام عادت ہوتی ہے،اگرآپ کی طرف سے اذان سننےمیں آئی اورہم بیدارنہ ہوں توگھبراکے اُٹھ جاتے ہیں ،یہ سمجھ کر کہ دیرہوگئی،اُٹھ کے سب سے پہلے اندرونی  گھریلوکام کاج میں لگ جاتے ہیں ،جب سورج کی ہلکی کرنیں پھوٹتی ہیں توباہرنکل کرآنگن کی صفائی کے بعد درختوں میں پانی دیتے ہیں ،ناشتہ کے بعدکھانا پکاکرمردحضرات اپنے مقدّرکاکھانا لے جاتے ہیں اور روزی تلاش کرتے ہیں ، اور میں گھرلوٹ کر کھاتی ہوں ،اوردیگرکاموں میں مصروف ہوجاتی ہوں ،شام چھ بجے تک مردحضرات گھرلوٹتے ہیں ،اور بس ۔۔۔۔یہی ہمارامعمول ہوتاہے۔

محترم قارئین !غور کرنے کا مقام ہے،اتنا بڑافرق ہمارے درمیان ؟ہم تو ایسی شریعت کے پابند ہیں جورات میں جلدی سونے اورصبح جلدی اُٹھنے کی تعلیم وترغیب دیتاہے،گھریلوکا م کاج  خودسے انجام دینا سکھاتاہے،صاف صفائی پر نہ صرف زوردیتاہے بلکہ ایمان کا حصّہ اور جزءقراردیتاہے،اسلام خود ایک مکمل نظام حیات ہے،مضمون کی طوالت کے مدّنظر اپنی باتوں کو سمیٹتے ہوئےبقیہ تفصیلات میں گئے بغیر انہی  باتوں پراکتفاکرتاہوں ۔اللہ ہمیں اچھے اوراعلیٰ اخلاق اپناتے ہوئے زندگی گذارنے کی توفیق عطافرمائے۔۔ آمین

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی