آج ان آفیسران کی آنکھ کھلی ہے



Corona virus کو tableeghi jamat کے ساتھ جوڑنے کے بعد گودی میڈیا چاہے جتنی بھی صفای دے لے لیکن داغ لگ جانے کے بعد اسے مٹانے کی کوشش کرنے بجاے مزید نوٹس اور سوال کی فہرست کا بھیجنا اس بات کا غماز ہے کے کہ چند لوگوں کی صفای ایک ڈھونگ ہےورنہ مقصد دین اسلام پر قدغن لگانا طے ہے۔

tableeghi jamat کا کام آج سے نہیں بلکہ ایک صدی گذرچکی مسلسل چل رہا ہے اور انشاء اللہ چلتا رہے گا یہی وہ تبلیغی جماعت تھی جس نے کیسے کیسوں کو راہراست پر لاکھڑا کیا ایسے جواری شرابی زانی ملعون خبیث الباطن انسان جب ان پر تبلیغ کی نظر عنایت پڑگیی انکی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا ایسے چور اچکے جن سے بڑے بڑے حکمران عاجز تھے انکو گناہوں سے نفرت ہوی صرف جماعت کی برکت سے۔

کیا آج ان آفیسران کی آنکھ کھلی ہے کہ ان سے اس جماعت کے رجسٹریشن اور کاغذی کاروای اور ممبران کی تعداد کے بارے میں سوال کر رہے ہیں اور جماعت کے بابرکت کام پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں اتنے دنوں سے یہ لوگ کہاں تھے کیا پہلے جماعت کا کام چوری چھپے ہوتا تھا جو اب ظاہر ہوا اور پکڑ میں آگیا یہ انتہای شرمناک حرکت ہے۔


اہل اللہ کی نور بصیرت دیکھیے کہ انہوں نے اس کام کی ذمہ داری ہر عاقل بالغ کے کندھے پر ڈال دیا اور کھلا اعلان کر دیا کہ جماعت کا کوی ذمہ دار نہیں بلکہ ہر شخص ذمہ دار ہے کوی ممبر نہیں ہر اللہ کا بندہ اپنے آپ میں ممبر ہے اگر یہ بات سامنے آتی ہے تو اللہ ہی حافظ اور وہی کارساز عالم ہے۔

اسی طرح جنتا کرفیو کو چودہ یا پندرہ تاریخ سے کھولنے کا پلان ہے سننے میں آیا ہے کہ چند دن کے لیے کھلے گا پھر بند ہو جاے گا تاکہ جس کو جہاں جانا ہو وہ باسانی جا سکے،یہ چیز محل نظر ہے اس طور پر کہ سامنے رمضان کا مہینہ موجود ہے رمضان سے پہلے حفاظ تراویح کے لیے اور علماء مدرسے کے انتظام کے لیے اکابرین پندو نصایح کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے جب مساجد رمضان میں باہر سے آے ہوے لوگوں سے معمور ہو جاے گی پھر لاک ڈاؤن کر دیا جاے گا اور تفتیش کر کے ہر مسجد سے علماء اور حفاظ کو کرونا چیکپ کے بہانے لے جا کر پندرہ دن دس دن کے لیے روک لیا جاے گا اور یہ بہترین موقع ہوگا ان باطل پرستوں کے لیے کہ ان علماء کے خلاف محاذ کھڑا کیا جاے۔

اس لیے بہتر ہے کہ اس بار رمضان کے لیے سفر کرنے سے حتی الامکان گریزکیا جاے اور اپنے گھر پر ہی رمضان بتانے کی کوشش کی جاے وہ آپ سے بہانے تلاش کرتے ہیں آپ کی ذمہ داری ہے کہ انہیں موقع نہ دیں باقی  اللہ مالک و بڑا کارساز ہے۔

-------------------New Dhli
: tableeghi jamat اور کرونا وائرس کو لے کر ملک میں
 چل رہے تنازع میں اب ایک نیا پہلو اور جڑ گیا ہے ۔کیونکہ جمیعت علمائے ہند مولانا ارشدمدنی گروپ نے سپریم کورٹ میں الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کے خلاف عرضی داخل کی ہے ۔دائر درخواست میں کہا گیا ہے ہے میڈیا مرکز نظام الدین tableeghi jamat کے ہیڈ کوارٹر کو لے کر غیر ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کر رہا ہے۔ اس لئے جو میڈیا کا حصہ رہا ہے اور غلط رپورٹنگ کر رہا ہے اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ اسی کے ساتھ ساتھ عرضی میں میڈیا پر متعصبانہ طریقے سے رپورٹنگ کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور کوریج پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ شوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے پر کارروائی کے لئے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔جمعیت علماء ہند کی طرف سے پیر کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں میڈیا اداروں کے ذریعے مسلمانوں اور tableeghi jamat کو لے کر ہورہی رپورٹنگ میں فرقہ واریت پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔جمعیت علمائے ہند ملک میں پھیلنے والے کورونا وائرس کا الزام تبلیغی جماعت اور مسلمانوں پر لگانے سے سخت ناراض ہے۔ اپنی عرضی میں جمعیت علمائے ہند نے میڈیا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعیت علماء ا ہند کے صدر مولانا ارشاد مدنی کی جانب سے تبلیغی جماعت کے معاملے پر میڈیا ٹرائل کے خلاف ایڈووکیٹ اعجاز مقبول نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کی ہے۔

جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں دعوی ٰکیا ہے کہ نظام الدین مرکز کیس کو میڈیا نے فرقہ وارانہ بنایا ہے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے کچھ حصوں سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ نے "پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا۔ اور مسلمانوں کی توہین کی گئی بھی ان کی دل آزاری کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے " جو دستور آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیشتر اطلاعات میں "کورونا جہاد" ، "کورونا دہشت گردی" یا "اسلامی بنیاد پرستی" جیسے جملے کا استعمال کرتے ہوئے غلط بیانی کی گئی ہے۔ اس پٹیشن میں "متعدد سوشل میڈیا پوسٹس" کو بھی درج کیا گیا ہے جس میں "غلط طور پر کوویڈ 19 کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے"۔ اس کے ساتھ ہی جھوٹی اور جعلی ویڈیوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ نظام الدین واقعے کی کوریج کرتے ہوئے ایک خاص طبقےکو نشانہ بنایا گیا ہے ۔جس نے مسلم برادری کے معاملے میں دستور ہند کی دفعہ آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

جمعیۃ علماء کی عرضی میں عدالت کے نوٹ
------------------+---------------------
🌹مودودی جماعت کی پانچ گمراہیاں 🌹

مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند 

          خطبۂ مسنونہ کے بعد: (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ * صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )

         بزرگو اور بھائیو! آج میں چاہتا ہوں، کہ آپ کو جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب، اور ان کی جماعت "جماعتِ اسلامی " کی حقیقت سمجھاؤں، لوگ عام طور پر اس سے واقف نہیں، اور ہر ایک کے بس میں اسے سمجھانا بھی نہیں، اس لئے آج کی آخری مجلس میں (  نیویارک کی ایک بڑی مسجد میں حضرت والا کا دس دن کا پروگرام تھا، روزانہ عشاء کے بعد بیان ہوتا تھا، بیان کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلتا تھا، لوگ بار بار جماعتِ اسلامی کے بارے میں دریافت کرتے تھے، حضرت جواب دیتے تھے، کہ یہ تفصیلی موضوع ہے، کسی وقت سمجھاؤں گا، چنانچہ آخری دن اسی موضوع پر تقریر فرمائی ) اس موضوع پر مختصر کلام کرنا چاہتا ہوں، لیکن جو باتیں بیان کرونگا، وہ بنیادی باتیں ہونگی، اس لئے آپ ان کو بغور سنیں، جس کی سمجھ میں آئے وہ قبول کرے، نہ سمجھ آئے تو اس دنیا میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

         مودودی جماعت کی بنیادی گمراہیاں پانچ ہیں: 

١۔۔۔۔۔ صحابہ ؓ معیارِ حق نہیں 

           سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ہماری جماعت کے ایک فرد تھے، شروع میں ہمارے سارے آدمی ان کے ساتھ تھے، پھر ہمارا اور ان کا اختلاف کہاں سے شروع ہوا ہے، اس کو سمجھنا ہے، سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب باقاعدہ دین پڑھے ہوئے نہیں تھے، انگریزی بھی انہوں نے باقاعدہ نہیں پڑھی تھی، لیکن غضب کے ذہین تھے، انہوں نے اپنی محنت سے انگریزی بھی سیکھی، عربی بھی سیکھی، اور شروع میں جمعیۃ علماء ہند کے اخبار، الجمعیة کے ایڈیٹر رہے، اس زمانے میں جمعیۃ کے صدر مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تھے، کہتے ہیں، انہوں نے مفتی صاحب ؒ سے بھی استفادہ کیا ہے، ایڈیٹری کے زمانے میں انہوں نے الجھاد فی الاسلام لکھی، اور سب لوگوں نے اسے بہت پسند کیا، پھر وہ الجمعة کی ایڈیٹری چھوڑ کر حیدرآباد چلے گئے، اور وہاں جاکر انہوں نے ترجمان القرآن کے نام سے ماہانہ رسالہ نکالا، اور اس میں مضامین لکھنے شروع کئے، یہ زمانہ وہ تھا، جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک زوروں پر چل رہی تھی، چنانچہ مودودی صاحب نے بھی آزادی کے موضوع پر زور دار تحریریں لکھیں، اور دوسرے بڑے علماء جیسے مولانا علی میاں ندویؒ، مولانا منظور نعمانی ؒ، مولانا امین احسن اصلاحی، اور مولانا بختیاری مدراسی، وغیرہ حضرات بھی ان کے رسالہ میں تحریریں لکھ رہے تھے، پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے طے کیا کہ مجھے اپنی ایک علاحدہ جماعت بنانی ہے،

            اور اس سلسلہ میں پہلا اجلاس انہوں نے دہلی میں بلایا، اس اجتماع میں ہمارے علماء مولانا منظور نعمانی صاحب ؒ، مولانا علی میاں ندوی صاحبؒ ؒ، مولانا بختیاری، اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب وغیرہ شریک ہوئے، اس اجلاس میں مودودی صاحب نے اپنی جماعت کی تشکیل کی، اور اس کا دستورِ اساسی پیش کیا، جس کی پہلی دفعہ تھی کہ "‌اس جماعت کا نام، جماعتِ اسلامی ہوگا " سب سے پہلے اس پر مناقشہ ہوا، کہ جماعتِ اسلامی کا کیا مطلب ‌؟ اس جماعت میں جو نہیں ہے، کیا وہ مسلمان نہیں ہے ‌؟ مولانا مودودی صاحب نے اس کی وضاحت کی کہ نہیں، یہ مطلب نہیں ہے، یہ تو بس ایک رمزی نام ہے، بہرحال اس پہلی دفعہ پر اختلاف ہوا، مگر کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہوا، دوسری دفعہ آئی، اس میں یہ تھا کہ "جو بھی اس جماعت میں شامل ہوگا، وہ اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی ذھنی غلامی نہیں کرے گا " یہ لفظ ذہنی غلامی مہمل تھا، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کےلئے لفظ ذہنی غلامی استعمال نہیں کرنا چاھئے تھا، لیکن چلو جب یہ دوسری دفعہ پیش ہوئی تو اس پر سخت اختلاف ہوا، لوگوں نے پوچھا کہ صحابہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ‌؟ کیا صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے، یا نہیں ‌؟ یہ مسئلہ سب سے پہلے کھڑا ہوا، اور لمبی بحثیں ہوئیں، ان بحثوں کے بعد یہ سب اکابر ان سے الگ ہوگئے، اور سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کی گرفت کی، کہ صحابۂ کرام ؓ کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرو، ان کا اجماع حجت ہے، یا نہیں ‌؟ یہ دفعہ آج تک ان کے دستور میں چلی آرہی ہے، مگر آج تک انہوں نے صحابۂ کرام ؓ کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح نہیں کی، وہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ پر کہاں تنقید کرتے ہیں ‌؟ اکابر نے کہا کہ تم کیچڑ اچھالتے ہو، یا نہیں، تنقید کرتے ہو، یا نہیں، یہ تو بعد کی بات ہے، پہلے یہ بتاؤ کہ صحابۂ کرام ؓ کا اجماع حجت ہے، یا نہیں ‌؟ آج تک انہوں نے نہ ہاں کی، نہ نا، یہی وہ معرکة الآراء بحث ہے کہ صحابہ معیارِ حق ہیں ، یا نہیں‌؟ اگر وہ صحابہ کو حجت مانتے ہیں تو ان کو دستور میں ایک جملہ بڑھادینے میں کیا پریشانی تھی، مگر انہوں نے آج تک نہیں بڑھایا، اس دن سے ہمارا اور ان کا اختلاف شروع ہوا، اور وہ اہل السنہ والجماعہ سے نکل گئے، کیونکہ وہ جماعت، یعنی صحابۂ کرام ؓ کے اجماع کو حجت نہیں مانتے، لہٰذا ان کا، اور ہمارا اختلاف، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے شروع ہوا، ہمارا راستہ، ان لوگوں کا راستہ ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، اور اس کے سب سے پہلے مصداق، صحابۂ کرام ؓ ہیں، انہی کا راستہ ہم نے اختیار کیا ہے، جماعتِ اسلامی والوں نے ان کا راستہ اختیار نہیں کیا، ایک اختلاف تو ہمارا اور ان کا یہ ہوا، کہ وہ صحابہ کے اجماع کو حجت نہیں مانتے، اور ہم مانتے ہیں، اس لئے وہ الجماعۃ میں نہیں رہے، یہ ایک بات ہی ان کی گمراہی کےلئے کافی ہے۔

٢۔۔۔۔۔ دین کا ''کیلا ''حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا ہے 

            اسلام کی تعلیمات بھت پھیلی ہوئی ہے، سارا قرآن کریم بھرا پڑا ہے، ساری بھری پڑی ہیں، ان دونوں کی تفصیلات سے ساری فقہ بھری پڑی ہے، مگر قطب الراحی بتاؤ کیا ہے ‌؟ قطب الراحی: چکی کا کیلا، جس پر چکی کا اوپر کا پاٹ گھومتا ہے، اسلام کا قطب الراحی کیا ہے ‌؟ نبی پاک ﷺ  کے زمانے سے آج تک پوری امت یہ سمجھتی آئی ہے، کہ وہ قطب الراحی "رِضْوَان مِنَ اللہِ " ہے، یعنی کی خوشنودی حاصل کرنا، قرآنِ کریم میں ہے: 
وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ( التوبہ آیت نمبر ٧٢ )  "اللہ تعالیٰ نے مؤمن مردوں، اور مؤمن عورتوں سے وعدہ کیا ہے، ایسے باغات کا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے، اور اللہ تعالٰی نے ان سے ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ستھرے گھروں کا وعدہ کیا ہے، اور اللہ تعالٰی کی خوشنودی ان سب نعمتوں سے بڑی نعمت ہے " یعنی سب نعمتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ سورۂ یونس آیت نمبر ٢٦ میں ہے، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ( جن لوگوں نے اچھے کام کئے ہیں، ان کےلئے اچھا گھر ہے، اور کچھ مزید بھی ہے )  جنت اور ساری نعمتیں تو مل گئیں، مزید کیا ہے ‌؟ حدیث شریف میں اس کی وضاحت آئی ہے، کہ جب سب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ جنتیوں سے خطاب فرمائیں گے، کہ میرے بندو! تمہیں جو نعمتیں میں نے عطا کی ہیں، کیا تم ان پر خوش ہو‌؟ سب جنتی کہیں گے، کہ پروردگار عالم! ہم خوش ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے تمہارے لئے ایک نعمت چھپارکھی ہے، ابھی میں نے تمہیں وہ نعمت نہیں دی، جنتی سوچیں گے کہ ساری نعمتیں تو ہمیں میسر ہیں، پھر وہ کونسی نعمت باقی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ابھی تک نہیں دی، تو جنتی عرض کریں گے کہ پروردگار عالم! وہ نعمت کونسی ہے ‌؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ نعمت یہ ہے کہ میں آج اعلان کرتا ہوں کہ تمام جنتیوں سے میں خوش ہوگیا، ایسا خوش ہونا کہ اب میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہونگا، حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ اعلان ہوگا، تو مؤمنین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے سامنے جنت کی تمام نعمتوں کو وہ ہیچ تصور کریں گے، معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے، آپ نے نماز پڑھی، اور اللہ تعالٰی راضی ہوئے تو آپ کی نماز کا فائدہ ہے، اور اگر آپ نے نماز پڑھی، اور اس میں دکھلاوا کیا، اور دنیا نے دیکھ لیا، سن لیا، مگر اللہ تعالٰی راضی نہیں ہوئے، تو وہ نماز، نمازی کے منہ پر مار دی جائےگی، یہی حال زکوٰۃ کا ہے، یہی حال روزہ کا ہے، یہی حال حج کا ہے، یہی حال تمام بندگیوں کا ہے، کہ اگر ہماری بندگیوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگئے، تو ہم کامیاب ہیں، اور اگر اللہ تعالٰی کو خوش نہیں کرسکے، توہمارے لئے کامیابی نہیں، بہرحال پوری امت، حضور ﷺ  کے زمانے سے آج تک یہ سمجھتی آرہی ہے کہ اسلام کی چکی کا کیلا جس پر تمام احکام گھوم رہے ہیں "رِضْوَان مِن اللہ " ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، اب مودودی صاحب آئے، انہوں نے وہ کیلا نکال دیا، اور ایک نیا کیلا فٹ کیا، وہ نیا کیلا کیا ہے ‌؟ اقامتِ دین، یہ تو ان کی خوبصورت تعبیر ہے، مگر اقامتِ دین کا مطلب اپنے اندر، دین قائم کرنا، یا دین پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا نہیں ہے، اقامتِ دین کا مطلب ہے، دنیا میں خلافتِ الٰہیہ قائم کرنا، یہ انہوں نے نیا کیلا چڑھایا، اور سارے احکام اس پر گھمادئیے، چنانچہ انہوں نے کہا، یہ جو جماعت کی نماز ہے، وہ فوجی پریڈ ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی والی بات گئی، نماز فوجی پریڈ بن گئی، زکوٰۃ قومی فنڈ ہے، اسی لئے وہ زکوٰۃ کو ہر کام میں استعمال کرتے ہیں، کیونکہ فنڈ تو ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے، جیسے گورنمنٹ کا فنڈ ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے، روزہ فوج کی بھوکے رہنے کی ریہرسل ہے، اور حج انٹرنیشنل کانفرنس ہے، یہ سب تعبیریں انہیں کی چھوٹی بڑی کتابوں میں موجود ہیں، ہر چیز میں سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی بات نکال دی، اور حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کی بات شامل کردی۔

کیا حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا فرض نہیں ‌؟ 

          ایک سوال: کیا حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ‌؟  بیشک دیا ہے، حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا فرض ہے، مگر وہ اسلام کی جڑ نہیں، بلکہ وہ اسلام کے درخت کی ایک شاخ ہے، جیسے نماز احکامِ اسلام کی ایک شاخ ہے، زکوٰۃ، روزہ، حج، تلاوتِ قرآن وغیرہ بے شمار شاخیں ہیں، حدیث شریف میں ہے: الایمانُ بِضْع و سَبْعوْن شُعْبَة ( ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ) ان شاخوں میں سے ایک شاخ حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا بھی ہے، جہاں حالات سازگار ہوں،  حکومتِ الٰہیہ قائم کی جاسکتی ہو، وہاں مسلمانوں پر فرض ہے کہ حکومتِ الٰہیہ قائم کریں، لیکن وہ دین کی بنیاد نہیں، مگر مودودی صاحب نے ایک شاخ کو کاٹ کر اسلام کے درخت کی جڑ اور تنا بنادیا، اور سارے احکامِ اسلامی اس تنے پر گھمادئیے، انہوں نے کسی کتاب میں یہ جملہ لکھا ہے، کہ وہ انبیاء جو پوری زندگی دین کی محنتیں کرتے رہے، اور دنیا میں حکومتِ الٰہیہ قائم نہ کرسکے، وہ دنیا سے اپنے مشن میں ناکام گئے، توبہ! کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے ہیں، ان میں سے کتنوں نے حکومتِ الٰہیہ قائم کی ہے ‌؟ پانچ دس کی مثال آپ دے سکتے ہیں، باقی تو دین کی محنتیں کرتے کرتے چلے گئے، ان کےلئے حالات سازگار نہیں ہوئے، حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کے مواقع میسر نہیں آئے، تو کیا وہ انبیاء دنیا سے ناکام گئے ‌ ؟ بات دراصل یہ ہے، کہ جب کیلا انہوں نے حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا کردیا، تو اب جو زندگی بھر محنتیں کرکے بھی حکومتِ الٰہیہ قائم نہ کرسکا، وہ تو ناکام ہی نظر آئےگا، اور لطف کی بات یہ ہے کہ خود مودودی صاحب بھی ناکام گئے، وہ بھی اپنی زندگی میں حکومتِ الٰہیہ قائم نہ کرسکے، حتیٰ کہ زندگی بھر عورت کی امارت کی تردید کرتے رہے، اور آخر میں فاطمہ جناح کی تائید کی، مگر اس کو جتوا نہ سکے، اور خود بھی حکومتِ الٰہیہ قائم کئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے کی فکر ہے، مگر اپنے اندر دین قائم کرنے کی فکر نہیں 

           آج جماعتِ اسلامی میں جو لوگ ہیں، ان کی زندگی پر سرسری نظر ڈالیں، تو آپ پائیں گے، کہ ان کو نمازوں سے کوئی دلچسپی نہیں، روزوں سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کا لباس اسلامی نہیں، ان کے چہرے اسلامی نہیں، البتہ صبح سے شام تک سیاسی سرگرمیوں کےلئے دوڑ دھوپ کریں گے، مگر نماز کا وقت آئے گا تو مسجد میں نظر نہیں آئیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بڑے حضرت نے اسلام کی چکی کا کیلا ہی بدل دیا ہے، حضور ﷺ  کے زمانے سے آج تک پوری امت یہی سمجھتی آئی ہے، کہ اسلام کا کیلا رِضْوَان مِن اللہ ہے، اگر آپ کی عبادتوں سے، آپ کے معاملات سے، آپ کی معاشرت و اخلاق سے، اللہ تعالیٰ خوش ہیں، تو آپ کامیاب ہیں، اور جہاں حالات سازگار ہوں، وہاں حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا بھی مسلمانوں پر فرض ہے، اس کا ہمیں انکار نہیں، اسی لئے جب انہوں نے الجھاد فی الاسلام لکھی، تو ہمارے اکابر نے منہ بھر کر اس کی تعریف کی، پس یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ خلافتِ الٰہیہ قائم کرنا وہاں فرض ہے، جہاں حالات سازگار ہوں، حضور ﷺ  مکہ معظّمہ میں تیرہ سال رہے، کوئی خلافتِ الٰہیہ قائم نہیں کی، مدینہ منورہ آنے کے بعد، جب ایک اجتماعیت اور مرکزیت حاصل ہوئی، تو پھر آہستہ آہستہ حکومت قائم ہونی شروع ہوئی، الغرض دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے، کہ سارے مودودی لیٹریچر کا خلاصہ حکومتِ الٰہیہ کا قیام ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں۔

٣۔۔۔۔۔ تصوف چنیا بیگم ہے 

         دین تین چیزوں کا نام ہے، اور تینوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، چولی کے بغیر دامن نہیں ہوسکتا، اور دامن کے بغیر چولی بے معنیٰ ہے، وہ تین چیزیں کیا ہیں ‌؟ ایک مرتبہ نبیِ پاک ‌ﷺ  صحابۂ کرام ؓ کے ایک مجمع میں تشریف فرما تھے، اور مجلس چل رہی تھی، کہ اچانک کوئی صاحب مسجد میں داخل ہوئے، نہایت اجلے کپڑے پہنے ہوئے، بال کالے، ایسا معلوم ہوتا تھا، کہ ابھی نہا کر آرہے ہیں، مجمع چیرتے ہوئے آگے بڑھے، اور حضور ﷺ  کے گھنٹوں سے گھٹنے ملاکر بیٹھے، اور سوال کرنے شروع کئے،: مَا الایمان ‌؟ ایمان کیا ہے ‌؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: چھ چیزوں کو دل سے قبول کرنے کا نام ایمان ہے، یہ باتیں ایمانِ مفصل میں لی گئی ہیں، انہوں نے دوسرا سوال کیا: مَا الاحسَانُ ‌؟ نکو کردن کیا ہے ‌؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے عبادت کرو، اور اگر تم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ رہے، تو اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ بس یہ مؤمن کی زندگی کا خلاصہ ہے، اور انہی تین چیزوں کا مجموعہ دین کہلاتا ہے، اور ان کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے، اسی ایمان کو مدرسوں میں علمِ کلام کے نام سے پڑھایا جاتا ہے، اور اسلام کو فقہ کے نام سے پڑھایا جاتا ہے، اور احسان: تصوف کا نام ہے، اور تصوف تصحیحِ نیت کا نام ہے، اور یہی احسان یا تصوف، ایمان ( عقائد ) اور اسلام ( اعمال ) کی جان ہے، اگر عقائد میں نیت صحیح نہ رہے، تو وہ نفاقِ اعتقادی ہے، اور اعمال میں نیت صحیح نہ رہے، تو وہ شرکِ خفی ہے، الغرض یہ تینوں چیزیں لازم ملزوم ہیں، اب مودودی صاحب آئے، انہوں نے ایمان و اسلام کو تو مان لیا، مگر تصوف کے بارے میں کہا کہ یہ چنیا بیگم ہے، افیم ہے، جس چیز کو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ایمان و اسلام کے ساتھ لازم ملزوم کرکے بیان کیا ہے، اس کو جناب عالی نے چنیا بیگم قرار دیدیا، اور یہ نظریہ صرف انہی کا نہیں، غیر مقلد بھی یہی کہتے ہیں، کہ تصوف ایک بھوت ہے، جو لوگوں پر چڑھ جاتا ہے، اللہ غنی! قرآن کریم میں جس کے تذکرے ہیں، حدیثوں میں جس کے تذکرے ہیں، وہ چنیا بیگم اور بھوت قرار دیدیا گیا، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ جن کو یہ غیر مقلد اور مودودی بھی بڑا مانتے ہیں، انہوں نے حجة اللہ البالغہ میں احسان پر اتنا لمبا باب باندھا ہے، کہ اس کی شرح رحمۃ اللہ الواسعہ میں تین سو صفحات میں آئی، بہرحال اس جماعت کی تیسری گمراہی یہ ہے، کہ احسان اور تصوف کو نہیں مانتے، اس کو چنیا بیگم ( افیم ) قرار دیتے ہیں، بس جس چیز کا قرآن و حدیث میں اتنا صاف تذکرہ آیا ہے، اس کا اگر کوئی انکار کرے تو وہ اہلِ حق میں کیسے ہوگا ‌؟ 

٤۔۔۔۔۔ دین ہم خود سمجھیں گے 

          قرآن کریم میں حضور ﷺ  کے بارے میں آیا ہے: وَ یُعَلّمھُم الکِتابَ و الحِکْمةَ، حضور ﷺ  صحابہ کو قرآن و حدیث سکھلاتے ہیں، قرآن و حدیث کا نام ہی دین ہے، صحابۂ کرام ؓ نے قرآن و حدیث تابعین کو سکھایا، تابعین نے تبع تابعین کو، اسی طرح دین سیکھنے کا سلسلہ چلتے چلتے ہم تک پہنچا، مودودی صاحب نے اسلاف سے دین فہمی کا یہ سلسلہ کاٹ دیا، اور کہا کہ دین سمجھنے کےلئے اسلاف سے تعلق قائم کرنے کی ضرورت نہیں، دین ہم خود سمجھیں گے، قرآن و حدیث ہم خود سمجھیں گے، وہ ماڈرن اسلام کے داعی ہیں، تیرہ سو سال سے اسلاف نے دین کو جس طریقے پر سمجھا ہے وہ اولڈ اسلام ہے، اور ماڈرن اسلام کہاں سے آئے گا‌؟ اس کا ایک ہی راستہ ہے، کہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کا اسلاف سے جو طریقہ چلا آرہا ہے، ہم اسے نہ لیں، بلکہ ہم قرآن و حدیث کو خود سمجھیں، یہ سب سے بڑی گمراہی ہے، اس سے بڑی گمراہی کوئی نہیں ہوسکتی، میرے بھائیو! قرآن و حدیث ماڈرن ہیں، یا اولڈ ‌؟ اولڈ ہیں، آج بھی مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن کریم ہے، اور ایک ہاتھ میں حدیث شریف ہے، ان دونوں کے ہوتے ہوئے ماڈرن اسلام کہاں سے آئے گا ‌؟ ہاں اگر ماڈرن قرآن لائیں، ماڈرن حدیثیں لائیں، تو ماڈرن اسلام بھی آسکتا ہے، لیکن یہ قرآن و حدیث تو چودہ سو سال پرانے ہیں، ان میں سے ماڈرن اسلام کیسے نکلے گا ‌؟ ان میں سے ماڈرن اسلام نکالنے کی ایک ہی صورت ہے، کہ آپ قرآن کریم کی من مانی تفسیر کریں، حدیثوں کی من مانی تشریح کریں، اور ماڈرن اسلام نکال لیں، چنانچہ انہوں نے قرآن کریم کے ساتھ یہ ظلم کیا کہ اسلاف سے قرآن کریم سیکھنے کی ضرورت نہیں، چند نوجوان، چند ڈاکٹر، چند پروفیسر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو سمجھ میں آئے، تشریح کرتے ہیں، بلکہ اب تو عورتیں بھی بیٹھ جاتی ہیں، اور بےدھڑک من مانی تفسیر کرتی ہیں۔ 

           الغرض قرآن و حدیث کے سمجھنے کےلئے اسلاف سے جو تسلسل چلا آرہا تھا، وہ تسلسل انہوں نے کاٹ دیا، اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق انہوں نے نئی تشریح کی، اور یوں ماڈرن اسلام نکال کر لے آئے، ماڈرن اسلام چاھئے تھا تو نیا قرآن نازل کرتے، نئی حدیثیں گڑھتے، ان کی یہ گمراہی سب سے بڑی آور سب سے خطرناک گمراہی ہے۔

٥۔۔۔۔۔ بالادستی عقل کو حاصل ہے، یا نقل کو ‌؟ 

           اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے، اور استعمال کرنے کےلئے دی ہے، کھوپا کھانے کےلئے نہیں دی، اور اللہ تعالٰی نے نبوت کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے، اور کتابیں نازل کی ہیں، اور آخری کتاب قرآن کریم ہے، اور اس کی تبیین و تشریح حدیثیں ہیں، یہ ہے نقل، اس نقل کے بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے، کہ آپ صرف عقل سے مسئلہ حل نہیں کرسکتے، آپ عقل سے کھیتی کرسکتے ہیں، بزنس کرسکتے ہیں، ایٹم بم بنا سکتے ہیں، ہوائی جہاز بنا سکتے ہیں، دنیا کے سارے کام کرسکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی پسند، اور ناپسند کو عقل سے نہیں جان سکتے، جنت میں لے جانے والے اعمال کونسے ہیں ‌؟  اور جھنم میں لے جانے والے اعمال کونسے ہیں ‌؟ آپ اس کو عقل سے طے نہیں کرسکتے، اگر عقل سے یہ مسائل طے ہوسکتے تھے، تو جیسے کھیتی سکھانے کےلئے، بزنس سکھانے کےلئے، اور صنعت سکھانے کےلئے کوئی نبی نہیں آیا، دین سکھانے کےلئے بھی کسی نبی کی ضرورت نہیں تھی، لوگ اپنی عقل سے خود ہی دین تجویز کرلیتے، مگر چونکہ یہ کام صرف عقل سے نہیں کیا جاسکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عقل کے ساتھ ہمیں نقل بھی دی، اب بتاؤ اس عقل و نقل میں توازن کیسے قائم کیا جائے ‌؟ دونوں برابر تو ہو نہیں سکتے، عقل اوپر ہے اور نقل نیچے، یعنی عقل جو کہے، وہی نقل کا مطلب لیا جائے، یہ مودودیوں کا ذہن ہے، ان کے نزدیک آیت کا مطلب جو عقل کہے، بس وہی صحیح ہے، جو ان کی عقل کہے وہی حدیث کا مطلب ہے، اور چودہ سو سال سے یہ چلا آرہا ہے، کہ نقل اوپر ہے، اور عقل اس کے نیچے، اللہ تعالیٰ نے عقل، نقل کو سمجھنے کےلئے دی ہے، آپ اس عقل کی مدد سے قرآن و حدیث کو سمجھیں، مگر اس کو قرآن و حدیث پر حاکم نہ بنائیں، قرآن و حدیث کو اس روشنی میں سمجھا جائےگا، جو حضور ﷺ  کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اگر آپ کی عقل آیت اور حدیث کا وہ مطلب سمجھتی ہے، جو مطلب حضور ﷺ  اور صحابہ کے زمانہ سے چلا آرہا ہے، تو سبحان اللہ! اور اگر آپ کی عقل کوتاہ ہے، تو آپ عقل کے پیچھے نہیں چلیں گے، بلکہ نقل کی پیروی کریں گے، اور نقل کا جو مطلب چودہ سو سال سے سمجھا جارہا ہے، اسی کو لیں گے، مودودی صاحب نے عقل کو نقل سے اوپر کردیا، اور کہا کہ جو مطلب ہماری عقل میں آئےگا، بس وہی مطلب صحیح ہے، اسی کو ہم لیں گے، یہی مزاج ماضی میں معتزلہ کا رہا ہے، اور یہی مزاج آج مودودیوں کا ہے۔ 

          مودودی حضرات کی یہ وہ پانچ گمراہیاں ہیں، جو میں نے مختصراً آپ حضرات کے سامنے رکھی ہیں، میں تفصیل میں نہیں گیا، کیونکہ آگے سفر در پیش ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ حق دکھائیں، اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ 
آمین  یارب العالمین۔ 
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہِ رَبّ العالمين.
------------------------------------------
مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم:
🌹پندرہ شعبان کی عبادت 🌹

مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتھم العالیہ، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند 

ناقل: عادل سعیدی دیوبندی 
........................................ 

پندرہ شعبان کے سلسلے میں چار باتیں صحیح ہیں: 

❶ اس رات میں اللہ سبحانہ وتعاليٰ جتنی توفيق دیں، اتنی گھر میں انفرادي عبادتیں کرنا، مگر ہم نے اس رات کو ہنگاموں کی رات بنا دیا ہے، مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے اور شور کرتے ہیں، یہ سب غلط ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس رات میں نفلیں پڑھنی چاہئیں، اور پوری رات پڑھنی ضروری نہیں، جتنی اللہ تعالیٰ توفيق دیں گھر میں پڑھے، یہ انفرادي عمل ہے، اجتماعی عمل نہیں۔ 

❷ اگلے دن روزہ رکھے، یہ روزہ مستحب ہے۔ 

❸ اس رات میں اپنے لئے، آپنے مرحومین کےلئے، اور پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے،  اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں، اس رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان ضرور گئے ہیں، مگر چپکے سے گئے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاقاً پتہ چل گیا تھا، نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا، اس لئے ہمارے یہاں جو تماشے ہوتے ہیں، وہ سب غلط ہیں۔ 

❹ جن دو شخصوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور اختلاف ہو، وہ اس رات میں صلح صفائی کر لیں، اگر صلح صفائی نہیں کریں گے، تو بخشش نہیں ہوگی۔ 

یہ چار کام اس رات میں ضعیف حدیث سے ثابت ہیں، اور ضعیف کا لحاظ اس وقت نہیں ہوتا جب سامنے صحیح حدیث ہو، صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف حدیث کو نہیں لیا جاتا، لیکن اگر کسی مسئلہ میں ضعیف حدیث ہی ہو، اس کے مقابلے میں صحیح حدیث نہ ہو، تو ضعیف حدیث لی جاتی ہے، اور ایسا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے، بہت سے مسائل ہیں، جن میں ضعیف حدیثیں ہیں، اور ضعیف احادیث سے مسائل ثابت ہوئے ہیں، جیسے صلوۃ التسبیح کی گیارہ روایتیں ہیں، اور سب ضعیف ہیں، مگر سلف کے زمانے سے صلوۃ التسبیح کا رواج ہے۔ 

البتہ ضعیف حدیث سے واجب اور سنت کے درجہ کا عمل ثابت نہیں ہو گا، استحباب کے درجے کا حکم ثابت ہوگا، پس صلوۃ التسبیح پڑھنا مستحب ہے، ایسے ہی پندرہ شعبان کے بارے میں ، جو روایات ہیں وہ بھی ضعیف ہیں، مگر ان سے استحباب کے درجہ کا عمل ثابت ہو سکتا ہے، پس احادیث میں بیان کئے گئے چاروں کام مستحب ہوں گے، شب برأت، اس کے اعمال اور اسکے اعمال کو بالکل بے اصل کہنا درست نہیں، البتہ سورہ دخان کی تیسری آیت: انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ کا مصداق شب برأت نہیں، اس کا مصداق شب قدر ہے، کیونکہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے۔ 

علمی خطبات
جلد: 2
صفحہ نمبر: 247
-------------------------------------------
🌹🌹 * اعلان شب برات * 🌹🌹

🌹 *بروز جمعرات 9 اپریل کو شب برأت ہے* 🌹        
                                      نوٹ :- *حالات حاضرہ کے تحت  شب برأت میں  اپنے اپنے گھر میں نماز مغرب  کے بعد ہی سے نوافل کا اہتمام کریں تلاوت قرآن پاک،بالخصوص یسین شریف ۔  ذکر وفکر میں مشغول رہیں درودپاک کی کثرت کرے  اور گھر ہی میں رہکر اپنے اورملک کے حالات کی خیر اور عافیت کیلئے دعا کریں  اور جملہ مرحومین کے لئے دعائے مغفرت و ایصال ثواب کریں  اور قانون کی خلاف ورزی نہ کریں اور فرقہ پرست لوگوں کو شرانگیزی کرنے کا موقع نہ دیں اور اسلام ومسلمانوں کی عزت کا  خیال رکھیں*

 *9-4-2020*

*Thursday ko Shabe Baraat hai*🌹
* Tamam Baradran e Islam ko is baat ki Ittela di jati hai ke 9-4-2020 Jomeraat  (Thursday) ko Shabe Baraat hai- lihaza aap tamam apne apne Gharo me  Namaz e magrib  ke baad hi se   Nawafil ka Ihtemam karen aur  yasen shareef ki tilawat kare aur Ghar hi me rahkar apne Marhomeen  ke liye Dowaye Magfirat aur isale Sawab kare mulk ke halat ke liye khair w aafiyat ki khoob duaa kare ..aur qhanoon ki qhilaaf warzi na karen firaqha parst logauo ko shar angezi karne ka muqha na dein aur islaam aur musalmanau ki izzat ka qhiyaal rakheyn..

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی