راکیس ‏کمار ‏سراج ‏الدین ‏کیسے ‏بنے | خاندانی تعارف اورقبول اسلام | بسم اللہ کا معجزہ




راکیش کمار سراج الدین  کیسے بنے ان سے ایک ملاقات اور 
رقت طاری کردینے والا انٹرویو


احمد اواه : السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ سراج الدين : وعلیکم السلام ورحمة الله و بركاته سوال : السلام علیکم 
جواب : وعلیکم السلام ورحمة الله 
سوال : سراج الدین بھائی آپ آج کل کہاں رہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ؟ 
جواب : میں آج کل میوات میں رہ رہا ہوں میں پتھر والوں کے یہاں منیم گیری کررہاہوں ۔ 
سوال : سنا ہے وہاں اپنا مکان بھی بنالیا ہےاور آپ کی شادی بھی ہوگئی ہے ؟
جواب : الحمدللہ وہاں پر میرے اللہ نے سر چھپانے کے لئے ایک گھر دیا ہے اگر چہ وہ قرض سے بنا ہے اور ابھی پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوا ہے گر پھر بھی میرا ہو گیا ہے اور قرض بھی الله تعالی نے کافی ادا کرا دیا ہے ، اور الحمدللہ شادی بھی حضرت نے گور کھپور کی ایک مہاجر اللہ والی سے کرا دی تھی ، جناب محمد زماں خاں کے یہاں سے نکاح ہوا اور زماں خاں صاحب اور ان کے گھر والوں نے اپنی بیٹی کی طرح ان کو رخصت کیا ۔ واقعی دعوت کے لئے اس طرح ہر قربانی کے لئے تیار رہنے والے میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے ، آدھی رات کو خود جناب زماں خان اور ان سے زیادہ ان کی اہلیہ محترمہ اور ان کے سب بچے ہر طرح تیار ہمارے حضرت کو کچھ لوگ تو ایسے ملے ہیں اگر چند سو گھرانے ایسے مل جائیں تو پورے ملک میں انقلاب آجائے ۔ 
سوال : وہاں میوات میں تم جماعت کے کام سے جڑے ہوئے ہو اور وہاں کام پر بھی جاتے ہو تو صافہ وافہ باندھ کر اس حلیہ میں رہتے ہوکیا ؟ جواب : الحمد لله ، وہاں مجھے لوگ کام کا ذمہ دار ساتھی سمجھتے ہیں ، اور میرے الله کا کرم ہے اپنے حضرت کی جوتیوں کے صدقہ میں میں نے صرف علاقہ کا ہی نہیں بلکہ میں پورے عالم میں دعوت کے کام کا اپنے کو ذمہ دارسمجھتا ہوں ، الحمدللہ میں اپنی اصل ذمہ داری اور کام دعوت کوسمجھتا ہوں ، جماعت کا کام ہو یا کسی غیر مسلم بھائی تک دعوت یا ان کے مسائل کے لئے آدھی رات کو میرے پاس کوئی بھی آئے تو میں اسے سب سے پہلے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، اور الحمد للہ میں جہاں رہتا ہوں اسی اسلای حلیہ اور سنت کے یونیفارم میں رہتا ہوں یہ ، بھی ہے کہ لوگ اس طرح صانے وغیرہ میں دیکھ کر ہر جگہ لوگ مجھے عالم سمجھتے ہیں اور بار بار یہی لوگ مجھے مولانا کہتے ہیں ، میں مولا نہیں ہوں ، میں دینی لحاظ سے ایک جال آدمی ہوں یہ کہتے ہوئے بہت شرم آنے لگی ہے ، کب تلک لوگوں کومنع کرتا رہوں گا ، میں نے بہت دعا کی ہے اور ارادہ بھی کرلیا ہے کہ بار بار یہ کہنے کے بجائے کہ میں عالم نہیں ہوں یہی بہتر ہے کہ میں پڑھ کر عالم بن جاؤں ، میں نے حضرت سے بار بار درخواست بھی کی کہ میں کام وغیرہ چھوڑ کر کسی مدرسہ میں داخلہ لیکر ایک عالم دین بن جاؤں ، مجھے بہت شرم آتی ہے جب لوگ مجھے اس حلیہ میں دیکھ کر مولانا کہتے ہیں اور مجھے منع کرنا پڑتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا کہ اب تم کاروبار کے ساتھ ہی پڑھ کر عالم دین بنو الحمد للہ میں نے ابتدائی کتابیں پڑھنا شروع کردی ہیں ۔ 

سوال : آپ اپناخاندانی تعارف اورقبول اسلام کا حال بتائیے ؟


جواب : میرا پرانا نام راکیش کمار تھا ، میں بھرت پور ضلع کے ایک قصبہ میں انیس سو اناسی عیسوی میں پیدا ہوا ، میر ے پتاجی اون کا کاروبار کرتے تھے میرا ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹا بھائی اور دو بہنیں ہیں ، جو شادی شدہ دہلی میں ہیں ، میں جس علاقہ کا رہنے والا ہوں وہاں پر ایک بڑی تعداد ملکانہ راجپوتوں کی ایسی ہے جہاں پوری کی پوری بستیاں شدی سنگھٹن کی تحریک سے ہندو بن گئی تھیں ۔ 

سوال : وہ لوگ انیس سو سینتالیس عیسوی میں پاکستان بننے کے وقت مرتد ہوئے یا بعد میں ؟


جواب : وہ لوگ ۱۹۲۹ ء کے آس پاس ہندو ہو گئے تھے اصل بات یہ ہے کہ الله تعالی ہمارے حضرت کی عمرلمبی کرے ، مجھے تو روز روز کے تجربہ سے حضرت کیا یہ بات بالکل دل میں بیٹھتی جاری ہے کہ مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ان کے مسائل کا حل خصوصا ان کو دین پر باقی رکھنے اور ان کومرتد ہونے سے روکنے کے لئے یہ بات ہرگز ہرگز کافی نہیں کہ وہ مسلمان رہیں بلکہ یہ مسلہ صرف اور صرف جب ہی حل ہوسکتا ہے جب مسلمانوں کو اس بات کے لئے باشعور کیا جائے کہ وہ داعی ہیں اور دوسروں کو دعوت دینا ان کی ذمہ داری ہے ۔ اس چھوٹی سی اسلامی زندگی میں میرا تجربہ ہے کہ اتنے آنے والے مہاجر مسلمانوں کو میں پہلے دن سے اس بات پر لگاتا ہوں کہ آپ کو دوسرے لوگوں پر کام کرنا ہے ، جب تک آپ ساری انسانیت کی فکر نہیں کریں گے ، اس وقت تک نبی رحمت کے امتی کہلانے کے حقدارنہیں ہیں ، الله کا شکر ہے میں نے اب تک ۳۹ان لوگوں کو کلمہ پڑھوایا ہے جن کو میں نے شروع سے دعوت دی ہے اور از خودان کو دین اسلام کے بارے میں نہ تو دلچسپی تھی اور نہ کوئی معلومات تھیں ، یہ سب کے سب دعوت کا کام کر رہے ہیں ، الحمدللہ ان کی تربیت کے لئے اور ان کو اسلام پر باقی رکھنے کے لئے مجھے کچھ زیادہ کوششیں نہیں کرنی پڑی ، اس لئے مسلمانوں کے لئے اور ان کی نئی نسلوں کے لئے ارتداد کے مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ ان میں دعوتی شعور بیدار ہو ، آج کل یہ گھر واپسی کا معاملہ جس نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو بے چین کر رکھا ہے ، اگر یہ مسلمان اپنے کو دعوتی سمجھتے تو یہ لوگ کسی حال میں بھی ہمارے پاس دھرم پریورتن کی کوشش کے لئے آنے کی ہمت نہ کرتے ۔ 


سوال : توہاں آپ اپنے

 اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتارہے تھے ؟ 


جواب : جی تو میں یہ بتا رہا تھا کہ میں جس علاقہ میں پیدا ہوا ، بڑا ہوا اور وہاں کے سینئر سیکنڈری اسکول سے انٹر کیا اور پھر بی اے کے جس کالج میں پڑھ رہا تھا ، وہاں پر مجھے جیسے دھارمک پریوار کے ایک انسان کے لئے اسلام میں آنا بالکل اد بھت اور عجیب سی بات ہے مگر مردوں کو زندہ کرنے والے رب کے لئے تو یہ کام بالکل آسان ہے میرا ایک ہندو دوست راج کمار تھا جس سے میری دانت کاٹی دوستی تھی ، وہ کچھ عیبوں میں پھنسا ہوا تھا گھر والوں سے اس کے ساتھ رہنے کے سلسلے میں ان بن ہوتی رہتی تھی ، وہ اس دوستی سے چڑ ھتے تھے مگر وہ سارے عیبوں کے با وجود مجھ سے سچی دوستی رکھتا تھا ، ایک بار میرے پتا جی نے مجھے بی اے میں پڑھنے کے دوران اس کے ساتھ رہنے کے لئے بہت برا بھلا کہا اور گالیاں سنائیں مگر میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ایک دن میں گھر آیارات کو بار ہ بج چکے تھے ، پتا جی غصہ میں بھرے ہوئے سوئے نہیں تھے اور میرا چاٹوں اور گھوسوں سے سواگت کیا اور صاف صاف کہہ دیا اس کے ساتھ رہتے ہوئے ہمارے گھر کے دروازہ میں گھسنے کی اجازت نہیں ،

میرے لیے میرے گھر کا دروازہ بند ہو گیا


 میری بھی جوانی تھی ، میں رات ہی کوگھرسے نکل گیا ، بس اڈہ گیا ، رات کوہی سامنے علی گڑھ کی ایک بس کھڑی ہوئی تھی اس میں بیٹھ گیا علی گڑھ کے راستے میں ایک گاؤں میں پہونچ کر بس خراب ہوگئی صبح تک اسی گاوں میں وقت گزارا ، سامنے ایک میواتی مسلمان کا گھر تھا ، انہوں نے دیکھا کہ مسافر سردی میں سسک رہے ہیں تو گھر سے گرم گرم چائے ، ابلے انڈے اور بسکٹ پیکٹ لے کر آئے اور ساری بس کے مسافروں کو پلائی ، مجھے گھر کے باہر اس طرح ان کی خاطر نے بہت متاثر کیا اور میں نے ان میں سے ایک صاحب سے بات کی اور بتایا کہ میں گھر چھوڑ کرآیا ہوں ، وہ دوسرے قصبہ املاس کے رہنے والے تھے ، اس گاؤں میں اپنی بہن سے ملنے آئے تھے ، انہوں نے پہلے تو مجھے سمجھایا کہ ماں باپ کی ڈانٹ تو محبت کی ہوتی ہے ہم واپس چلے جائیں ، مگر جب میں نے اپنا زندگی بھر گھر نہ لوٹنے کا فیصلہ ان سے بتایا تو انھوں نے اپنے گھر چلنے کے لئے کہا اور بتایا کہ ہمارے یہاں جے سی بی چلتی ہیں ، ہم تمہیں وہ چلانا سکھا دیں گے ، اس کے ڈرائیور کو دس ہزار روپے تک مل جاتے ہیں میں نے سوچا کہ نہ جانے کہاں ٹھکانہ ملے میں ان کے ساتھ املاس چلا گیا سچی بات یہ ہے کہ میرے رب کو مجھے ایمان دینا تھا ، وہ کسی طرح مجھے اسلام کے قریب کرتے گئے ، میں ان کے ساتھ ان کے گھر جاکر جے سی بی مشین چلانا سکھنے لگا ، ہم لوگ سوہنا کے علاقہ میں جے سی بی چلانا سیکھ رہے تھے وہاں کھانا بھی خود بناتے تھے ایک روز شہزاد بھائی جو مجھے ڈرائیونگ سکھارہے تھے انہوں نے مجھے کھانا بنانے کو کہا ،

بسم اللہ کا معجزہ میں نے دیکھا


 کچھ مهمان آرہے تھے میں نے چار آدمیوں کے لئے کھیر ، سبزی اور روٹی بنائی ، چار پانچ مہمان اور آگئے ۔ میں نے شہزاد بھائی سے کہا کہ کھانا تو چار آدمیوں کا بنایا ہے یہ تو پانچ اور آگئے ، وہ بولے بسم اللہ پڑھ کر کھانا نکالنا ، برکت ہو جائے گی ، میں نے کہا کہ بسم اللہ سے کیا جادو ہو جائے گا ؟ میں اور چاول جلدی بنالیتا ہوں ، انھوں نے کہا کہ تو بسم اللہ پڑھ مالک کے نام سے سب کھا لیں گے ، میں نے کھانا نکالا اور جب بھی کھانے میں چمچے ڈالتا بسم اللہ کہتا رہا ، دو مہمان کھانا کھاتے ہوئے اور آ گئے شہزادبھائی نے ان کو بھی کھانے پر بٹھا لیا ، اتنے لوگوں نے کھانا کھایا اور خوب کھایا اور روٹی سبزی اور کھیر بچ گئی ، میں بہت تعجب میں تھا شہزاد بھائی نے کہا کہ بسم اللہ میں کیا جادو ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ بسم الله کا مطلب کیا ہے ، جب مالک کے نام سے کوئی کام کیا جا تا ہے تو اس میں برکت ہوتی ہے ۔ میر ے دل میں بسم الله کا اعتماد جم گیا اور الله کی ذات سے بھی مجھے ایک خاص تعلق سا لگنے لگا ایک بات بچپن سے ہی میرے ساتھ بار بار ہوئی تھی ، میں سوتا تھا تو خواب میں دیکھتا تھا جگمگاتے ستارے ہیں ، روشنی ہے اور نورانی مکانات ہیں ، میرا دل کہتا تھا کہ تو تو اس دنیا کا آدی ہے اور دوسرے سنسار میں رہتا ہے ، یہ خواب مجھے بار بار دکھتے تھے ، مولا نا زلفی بٹلہ ہاؤس جامع مسجد کے 

جب اسلام قبول کرنے کا دل چاہے


امام اوران کے ایک رشتہ دار ہمارے شہزاد بھائی کے گھر آۓ ، انھوں نے مجھے ہر کام کرتے وقت بسم اللہ کہتے سنا تو وہ مجھے سمجھانے لگے ، وہ حضرت کے مرید تھے اور مجھے مسلمان ہونے کو کہا ، میں نے صاف صاف منع کر دیا ، انہوں نے جاتے وقت مجھے ہندی میں کلمہ لکھ کر دیا کہ تم اس کو پڑھتے رہنا ، اور اپنے پرس میں حفاظت سے رکھنا ، پھر بھی جب مسلمان ہونے کو دل چا ہے اس وقت اس کو پڑھ لینا ، مجھے اچھا نہیں لگا ، ان کے جاتے ہی میں نے اس پر چے کو پھینک دیا ، اگلے روز صبح کو میں نے دیکھا کہ وہ پر چہ اسی جگہ پر پڑا ہوا ہے میرے دل نے کہا ، راکیش اس میں اس اللہ کا نام ہے جس کے نام کی بسم اللہ کا چمتکا رتو دیکھ چکا ہے ، میں نے محبت سے اس پر چہ کواٹھایا اور بہت ہی آستھا اور محبت سے اسے کئی بار پڑھا مولا نا احمد میں اپنی حالت کوزبان سے بیان نہیں کر سکتا کہ اس محبت سے کلمہ پڑھنے سے میرے اندر کی حالت کیا ہوگئی ، جیسے کسی اندھیری کال کوٹھری کو روشنی نے جگمگ جگمگ کر دیا ہو ، میں محلہ کے امام صاحب کے پاس گیا اور میں نے مسلمان ہونے کو کہا کہ اس کے لئے مجھے کیا کرناپڑے گا ؟ امام صاحب نے کہاکلمہ پڑھنا پڑے گا ، میں نے کہا کلمہ پڑھ لیا ہے ، انھوں نے میرا نام سراج الدین رکھ دیا ، میں امام صاحب کے پاس زیادہ رہنے لگا ، ہرنماز میں آدھے گھنٹے پہلے ان کے پاس چلا جا تا اور پانچوں وقت نماز پڑھتا ، نماز مجھے آتی نہیں تھی مگر بڑی عقیدت سے ، جیسے جیسے جماعت میں لوگ کرتے دیکھا دیکھی کرتارہتا ، یہ مجھے بہت اچھا لگتا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار لگار ہتا شہزاد بھائی کے والد نے مجھے چار مہینے کے لئے جماعت میں بھیج دیا ، ایک چلہ میرایٹہ ، جلیسر ، دوسرا مرادنگر میں میراوقت لگا ، ایک چلہ بنگلور میں لگا ، وہاں ایک ساتھی جماعت سے بھاگ گئے تھے ، امیر صاحب بہت پریشان تھے ، میں نے کہا آپ فکر نہ کر یں میں اپنے اللہ سے دعا کرتا ہوں ، میں نے دور کعت پڑھ کر اللہ سے دعا کی ، وہ ساتھی ٹرین میں بیٹھ گیا تھا ، ٹرین چلی اور تھوڑی دور جا کر رک گئی ، دوساتھی تلاش کرنے گئے تھے ، وہ گاڑی میں چڑھے اوران کو تلاش کر کے لے آۓ ، ایک مہینہ بعد وہ پھر میسور سے بھاگ گیا ، امیر صاحب نے کہا سراج بھائی اب ہم اپنے لوگ نہیں بھیجیں گے تم اپنے اللہ میاں سے تلاش کروا کر منگواؤ ، میں نے دو رکعت پڑھ کر اللہ سے دعا کی میرے اللہ صبح فجر سے پہلے ہمارا ساتھی ہمارے پاس بھیجوادو ، میں نے امیر صاحب سے کہا کہ صبح فجر سے پہلے انشاءاللہ ہمارے اللہ اسے بھجوا دیں گے ، فجر سے آدھا گھنٹہ پہلے وہ ساتھی بنگلور پہنچ کر واپس آۓ ، معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں کیسے آیا ، مجھے تو ایسا لگا کہ کوئی گرفتار کر کے مجھے میسور جماعت میں واپس چھوڑ گیا ، اب میں چارمہینہ سے پہلے ہرگز ہرگز نہیں بھاگوں گا ، یہ تو ۲۰۱۱ ء کے چارمہینوں کی بات ہے ، ۲۰۱۳ ء میں ، میں بہار کی جماعت میں تھا ، ایک جوان ساتھی کو ٹائیفائڈ ہوگیا اور اس میں اس کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ، بڑے ڈاکٹر کو دکھایا ، ڈاکٹر نے جواب دے دیا کہ پٹنہ بڑے ہسپتال میں داخل کراکے دیکھ لو ، جماعت کے ساتھی سب رور ہے تھے ، میں نے سورہ فاتحہ اورسورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھ کر دورکعت نفل کے بعد دعا کی ، میر ے اللہ آپ اس کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ضرور کر یں گے ، اس وقت یہ آپ کے نبیﷺ کے دین کے کام کانہیں ہوگا ، اب اگر آپ اس کو زندہ کر دیں گے تو یہ آپ کے دین کا کام کرے گا ، بہت دل سے دعا کی ، پٹنہ لے جار ہے تھے ، اس کو پیشاب کی ضرورت ہوئی ، اس کو پیشاب کرایا گیا اور وہ کھڑا ہو گیا ، اس نے پوچھا کہ کہاں جار ہے ہیں ؟ امیر صاحب نے بتایا کہ پٹنہ اسپتال میں داخل کر نے ، اس نے کہا ، مجھے کہیں لے جانے کی ضرورت نہیں ، میں ٹھیک ہوں چلو جماعت میں واپس چلو ، الحمد للہ اب وہ بالکل ٹھیک ہو گیا ، سچے یقین کے ساتھ اس کو یاد کیا جاۓ تو وہ ضرور سنتے ہیں اور اس طرح یقین بھی بنتا ہے ، یہ میراز ندگی کا بار بار کا تجر بہ ہے ۔ 
سوال : جماعت میں چار مہینے لگا کر آپ نے کیا کیا ؟ 
جواب : مولا نا سراج صاحب کے ساتھ پھلت آیا ، اور ایک سال تک قر آن شریف ، اردو دینیات وغیرہ پڑھا ، الحمد للہ پھر میری شادی ہوئی ، اور میوات میں بھی ایک اسکول میں پڑھایا ، بعد میں بدر پوراوراسٹون کر یشر والوں کے یہاں منیم گیری کرتارہا 

سوال : اور کوئی خاص بات اپنی زندگی کی بتائے ؟ 

جواب : مجھے بڑی حسرت تھی کہ اللہ کے پیارے نبی ﷺ کی خواب میں زیارت ہو ، میں بہت دعا کرتا تھا ، ایک رات کو خواب دیکھا کہ اسکول کے کھوۓ ہوئے ایک بچے کو ہم تلاش کر رہے ہیں ، تلاش کرتے کرتے ہم ایک مسجد میں پہنچے ، وہاں ایک بہت خوبصورت نورانی شکل کے مہمان آئے ، جماعت تیارتھی ، میں نے ان سے نماز پڑھانے کو کہا ، انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے ، میں نے لوگوں سے معلوم کیا ، یہ میاں صاحب کون تھے ؟ سب نے کہا کہ ہمارے پیارے نبیﷺ تھے ، میں نے لوگوں سے کہا تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟ میں تو کتنے دنوں سے ان کی زیارت کو تڑپ رہا ہوں ، لوگوں نے کہا کہ زیارت ہوتو گئی ، نماز بھی پڑھ لی ، میری آنکھ کھل گئی ، میں بہت خوش تھا ، ایک بات یہ بھی دل میں بیٹھ گئی ہے جو میری چھوٹی سی اسلامی زندگی سے تجربہ میں آئی کہ دل چاہے نہ چا ہے ، شریعت اور سنت کو پوری طرح مان کر ہی آدمی اللہ سےجڑ سکتا ہے ، اسلام لانے کے بعد میں جب دیکھتا ہوں کہ بہت سے بھائی کچھ خاندانی مسلمانوں کی طرح ہیں ، جن کو دیکھ کر پہچاننا بھی مشکل ہوتا ہے کہ مسلمان ہیں یا ہندو ، اس حال میں اللہ سے تعلق نہیں ہوسکتا ، دل چاہے نہ چا ہے ظاہر و باطن ہر طرح سے اللہ کے نبی کی سنت پر عمل کر نا چا ہئے ، میں نے دو لفظ یاد کئے ہیں اور اپنے ہر بھائی کو یاد کرا تا ہوں ، میرے اللہ میں آپ سے راضی ہوں آپ مجھ سے راضی ہو جائے ، اسلام لانے کے بعد شک کی گنجائش نہیں ، چاہے حکم سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، بس ماننا ہے اور پوری طرح ماننا ہے ، اسلام لانے کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھ پر کوشش کی کہ میں اسلام سے پھر جاؤں مگر میں نے ان کو بہت جم کر دعوت دی ، میں نے کہا اسلام کی حقانیت پر میر ایقین پکا ہے ، جو میرے اللہ نے مجھے خود دیا ہے ، ایک آرایس ایس کے پر چارک مجھے ہفتوں تک سمجھاتے رہے ، مسلمان ایسے ہوتے ہیں ، پاکستان میں کیا ہو رہا ہے ۔ میں نے ایک دن ان سے کہا کہ کسی کے پیٹ میں درد ہور ہا ہو اور آپ ساری دنیا کے ترک ( دلائل) سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں بلکہ نقل کے مطابق ثابت کر دیں کہ تیرے پیٹ میں در نہیں ہور ہا ہے ، تو کیا اس آدمی کو آپ کی بات پر ذرا بھی یقین آئے گا کہ آپ سچ کہتے ہیں ۔ بس اسلام کی حقانیت اور مکتی اور موکش کا واحد راستہ ہونے پر مجھے اپنے پیٹ کے درد سے زیادہ یقین ہے ، پھر میں نے کہا آپ اگر حق پسند ہیں اور سچائی پسند ہیں تو آپ کو میری بات پر یقین کرنا چاہئے کہ میر ے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ، پھر میں ان سے ملتارہا ، ایک مہینہ میں اللہ کاشکر ہے انھوں نے خو کلمہ پڑھا اور اب خاندان میں کام کر رہے ہیں ۔ 

سوال : آپ نے اپنے گھر والوں پر کام نہیں کیا ؟

جواب : اصل میں میں نے قسم کھائی تھی کہ گھر واپس نہیں جاؤں گا ، اس لئے گھر جانے کی نہیں سوچتا تھا ، مگر حضرت نے مجھے سمجھایا کہ جس طرح اچھی نذراورقسم کو پورا کرنا ضروری ہے ، اسی طرح کسی غلط بات کی قسم پر جمنا بھی برا ہے ، والد ین اور گھر والوں کا حق ہے اور وہ قسم آپ کی کفر کی حالت کی تھی ، پرقسم کا کفارہ بھی ہے ، مگر گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کی فکر کرنا بھی ضروری ہے ، ایک بار میں ایک حافظ صاحب کواپنے گھر لے کر گیا ، مگر وہ حافظ صاحب دعوتی ذہن نہیں رکھتے تھے ، وہ ڈر کر گھر پہنچنے سے پہلے ہی مجھے واپس لے آۓ ، اب انشاءاللہ حضرت سے وعدہ کیا ہے ، جلدی گھر والوں کی فکر کروں گا ، اپنے اللہ سے دعا تو خوب کر رہا ہوں ۔ 
سوال : کوئی پیغام ارمغان پڑھنے والوں کیلئے دینا چاہیں گے ؟ 
جواب : ہمارے نبی کریمﷺ نے کسی جاہلی عرب شاعر کی اس بات کی تعریف کی ہے کہ اس نے کیسی سچی بات کہی ، جس کا مفہوم یہ تھا : ہوشیار ! اللہ کے علاوہ جن چیزوں کا ذکر اور اہمیت دی جاتی ہے وہ سب باطل ہیں ، سچی بات یہ ہے کہ ایمان ہی ہے یہی ساری کائنات اور ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اور مسائل کا حل ہے ، کہ جو کچھ ہوتا ہے اس کی مرضی سے ہوتا ہے ، اور اس کی مرضی اور منشا کے خلاف کسی سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا تو پھر ہوش مندی یہ ہے کہ صرف اس سے جڑ یں ، اور اس پر یقین رکھیں اس کوراضی کر یں اورسب کو اس کی راہ پر لانے کی کوشش کریں ۔ 
سوال : جزاکم اللہ فی امان اللہ السلام علیکم 
جواب : آپ کا بھی شکریہ ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ مستفاداز ماہنامہ ارمغان ‘ ماہ جنوری ۲۰۱۵ ء

6 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی