مہیش ‏چندر ‏شرما ‏محمد اكبر | اسلام قبول کرنے کی کہانی | حق کی تلاش

مہیش ‏چندر ‏شرما ‏محمد اكبر | اسلام قبول کرنے کی کہانی | حق کی تلاش | مہیش چندر شرما محمد اکبر کیسے بنے سوال : آپ اپنا تعارف کرائے ؟ جواب : میرا نام اب الحمد للہ محمدا کبر ہے میں ضلع کرنال کے ایک قصبہ کارہنے والا ہوں ( تھوڑے توقف کے بعد) اب سے نو سال تین ماہ آٹھ روز 3 گھنٹہ قبل اللہ تعالی نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا ۔ میرا پہلا نام مہیش چندر شرما تھامیں ایک برہمن خاندان سے تعلق رکھتا ہوں میرے والد پنڈت سندر لال شرما جی علاقے کے مشہور پنڈت تھے ، پتریاں بنانا ، ہون کر نا اور دوسری دھارمک رسم کرنا ان کا کام تھا ۔ میرے اسلام لانے سے ایک سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا تھا ۔ میری ایک والدہ اور ایک بہن ہیں جو اب الحمدللہ میرے ساتھ مسلمان ہیں بہن کا نام فاطمہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے ہم سبھی لوگ اللہ کا شکر ہے خوش وخرم دہلی میں رہ ر ہے ہیں

میں نے اسلام کیوں قبول کیا


''ہمارے مسلمان بھائی مجھ جیسے شکستہ دلوں پر ترس کھائیں ، کتنے لوگ صرف راہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے دوزخ کی آگ کی طرف جارہے ہیں ، ان کی فکر کر یں دوسری ایک ضروری بات نو مسلموں کے بارے میں عرض ہے کہ ان کی زیست کی فکر کر یں اور ان کو اپنامحتاج بنانے کے بجاۓ ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی فکر کر یں اوران میں خود داری اور استغنا پیدا کرنے کی فکر کر یں انہوں نے سارے خداؤں سے بچ کر جو ایک مالک پر ایمان لایا ہے ، اس کو سوال کسی سے کرنا کیسے روا ہوسکتا ہے ؟ عمومالوگ اس کی مددکر کے صدقہ دے کر ان کی عادت بگاڑ تے ہیں اس سے ضمیر مرجاتا ہے خودتو ان کے ساتھ تعاون کرنا اپنافرض سمجھیں مگر اس کو ہرگز یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ میرا کھانا شادی اور گزارہ ان سب کانظم مسلمانوں کے ذمہ ہے ، میرے لحاظ سے یہ ان کے لئے زہر قاتل ہے''
========

اسلام قبول کرنے کی کہانی


مولانا احمـداواه ندوی احمد اواه : السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محمد اکبر : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ سے ارمغان کے قارئین اور عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے کچھ باتیں کر نا چاہتا ہوں ۔ 
ضرور کیجئے ۔ 

مہیش چندر شرما محمد اکبر کیسے بنے

سوال : آپ اپنا تعارف کرائے ؟
جواب : میرا نام اب الحمد للہ محمدا کبر ہے میں ضلع کرنال کے ایک قصبہ کارہنے والا ہوں ( تھوڑے توقف کے بعد) اب سے نو سال تین ماہ آٹھ روز 3 گھنٹہ قبل اللہ تعالی نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا ۔ میرا پہلا نام مہیش چندر شرما تھامیں ایک برہمن خاندان سے تعلق رکھتا ہوں میرے والد پنڈت سندر لال شرما جی علاقے کے مشہور پنڈت تھے ، پتریاں بنانا ، ہون کر نا اور دوسری دھارمک رسم کرنا ان کا کام تھا ۔ میرے اسلام لانے سے ایک سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا تھا ۔ میری ایک والدہ اور ایک بہن ہیں جو اب الحمدللہ میرے ساتھ مسلمان ہیں بہن کا نام فاطمہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے ہم سبھی لوگ اللہ کا شکر ہے خوش وخرم دہلی میں رہ ر ہے ہیں ۔ 
سوال : آپ کی عمراب کتنی ہے ؟ 
جواب : میری حقیقی عمر نو سال آٹھ دن تین گھنٹے اور اس وقت ۱۵ منٹ ہے مگر میں اس دنیا میں اپنے والد ین کے یہاں تقر یبا چھبیسں سال پہلے 7 جولائی ۱۹۷۷ ء کو آ گیا تھا ۔ 

قبول اسلام کی کہانی مہیش چندر کی زبانی


سوال : آپ اپنے اسلام لانے کا حال بتایئے ۔ 
جواب : میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو مجھے اپنے پتاجی ( والد صاحب ) کا سب پیشہ ڈھونگ لگتا تھا انہوں نے گھر کے باہر ایک چھوٹا سا مندر بنایا ہوا تھا ، میں اکثر جب بھی کوئی بات کھٹکتی تو ان سے کہتا ، وہ مجھے سمجھاتے ، بیٹا پیٹ تو پالناہی ہے ورنہ ان اند ھ وشواسیوں میں کیا رکھا ہے ان کے کہنے سے مجھےاوربھی دھرم پراعتمادکم ہوتا گیا میں صبح سویر سے اٹھنے کا عادی تھا گھر کے رواج کے مطابق صبح سویرے نہا کر پوجا کے لئے اپنے مندر جاتا تھا ، میں دسویں کلاس میں پڑھتا تھا ، میرے امتحان شروع ہوئے ، 

معبودان باطلہ کی حیثیت

امتحان کے دن میں اور بھی جلدی اٹھا اشنان کیا اس خیال سے کہ بت مہاراج سے امتحان میں فرسٹ ڈویزن آنے کی پرارتھنا کرونگا صبح سویرے مندر پہنچا ، میں نے دیکھا کہ ایک کتاوہاں موجود ہے ، جو چڑ ھے پر سادکوچاٹ رہا ہے وہ بت کے منھ پر مٹھائی کے اثر کو چاٹ رہاتھا ۔ میں رک گیا کہ دیکھوں یہ کتا کیا کرتا ہے ، اب تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے اللہ نے حقیقت دکھانے کے لئے میرے دل میں ڈالا کہ میں تماشا دیکھوں ، میں سو چنے لگا کہ یہ بت اپنے منہ سے کتے کو بھی نہیں ہٹا سکتا مگر میری خاندانی آستھانے مجھے سمجھایا ، بے وقوف یہ دیکھ کتا بھی آستھا اور عقیدت سے کر پا ( رحم )کی امید میں بت کے بوسے لے رہا ہے اور ان کا مکھ دھور ہا ہے مگر تھوڑی دیر بعد میری ساری آستھا کی عمارت زمین پر آگری ، کتے نے ساری مٹھائی چاٹ کر ٹانگ اٹھا کر پیشاب کی دھار جو بت پر لگائی تو وہ ڈاڑھی سے اٹھ کر منہ تک پہو نچی میں پوجا کے بغیری واپس آیا اور میں نے آنکھیں بند کر کے اکیلے سچے مالک کو یاد کیا میرے مالک یہ بت جب کتے کو اپنے اوپر پیشاب کرنے سے نہیں روک سکتے ہیں تو مجھے امتحان میں کیسے پاس کراسکتے ہیں بس آپ مجھ پر کرم کیجئے اس کے بعد مندر جانا میں نے بند کر دیا اور روزانہ صبح آنکھ بند کر کے اپنے مالک سے دعا کرتا ، میرے پیپر اچھے ہوتے رہے ، امتحان ختم ہوۓ ، ایک ایک دن رزلٹ کا انتظاررہا رزلٹ آیا میں نے دس روپے اخبار والے کو دیکر رزلٹ دیکھا تو میری فرسٹ ڈویزن تھی ، میں نے مالک کا بہت شکر ادا کیا ، میں گیار ہویں کلاس میں تھا کہ میرے والد بیمار ہوۓ ان کے پیٹ میں درد ہوا میری ماں نے مجھے بہت مجبور کیا میں مندر جاؤں ، جا کر والد صاحب کی صحت کے لئے پرارتھنا کروں میں نے منع کیا تو انھوں نے مجھے ڈرایا کہ بت ناراض ہو جائیں گے ، میں چلا گیا میں نے جا کر پرارتھنا کی ، ماتھا شیوجی کے چرنوں میں رکھ کر گھنٹوں میں وہاں پر گڑ گڑایا ، مجھے اپنے پتاجی سے بہت پریم ہے ، آپ ان کو اچھا کر دیجئے ایک گھنٹہ میں وہاں گڑ گڑا تارہا ، واپس آیا تو مجھے خیال تھا کہ وہ اچھے ہو گئے ہوں گے، گھر آ کر دیکھا ان کی موت ہو چکی تھی میں بہت پچھتایا کہ کاش میں اپنے مالک سے فریاد کرتا میری عقل کو کیا ہو گیا تھا ، بت اپنے منہ سے کتے کو نہ ہٹاسکے وہ میرے والد صاحب کو کیا صحت دے سکتے تھے ۔ اس کے بعد اپنے دھرم سے میر اعتماداٹھ گیا اور میں کسی راستے کی تلاش کرنے لگا ،

حق کی تلاش میں میں چرچ جانے لگا

 میں چرچ میں گیا مگر وہاں بھی میں نے یسوع کی مورتیاں دیکھیں 

جب مجھے ایک مسلمان نے راستہ بتایا

مجھے میرے ایک ایمانی ساتھی نے بتایا کہ یہاں مدرسہ مسجد میں ان کے ایک دھرم گرو حضرت مولانا کلیم صاحب آتے رہتے ہیں اور وہ کل صبح کو دس بجے آنے والے ہیں میں صبح آٹھ بجے پہنچ گیا دس بج گئے وہ نہیں آئے وہ گیارہ بجے پہنچے مسجد میں آس پاس کے سب مسلمان جمع تھے ، مولا ناصاحب سیدھے مسجد میں پہنچے اور راستہ میں گاڑی کے خراب ہونے کی وجہ سے دیر سے آنے کی سب سے معافی مانگی ، میں ان کی اس بات سے بہت متاثر ہوا ، اس کے بعد انہوں نے تقریر کی انھوں نے اس موضوع پر تقر یر کی کہ انسان پر کوئی ایک احسان کردیتاتو ساری زندگی اس کے گن گا تا ہے اور اسے ناراض کر نانہیں چاہتا ہمارے خدا کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں ، انسان کو اس کے راضی رکھنے کی فکر کرنی چاہئے ، تقریر کے بعد چاۓ کے لئے اوپر مدرسہ میں گئے ، میں نے مولانا سے ملاقات کی میرے والد صاحب کے انتقال کی وجہ سے مولانا نے مجھے گلے لگالیا ، پاس میں بٹھایا چاۓ پلائی چاۓ کے بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے سچے مالک کو آپ پر خاص پیار آیا اور وہ آپ کو سچا راستہ دکھانا چاہتے ہیں شایداسی لئے یہ حالات آپ پرآرہے ہیں پھر اسلام کے بارے میں مجھ کو بتایا اور اپنی ایک کتاب ’ ’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘ ‘ دی اور یہ بھی کہا کہ بہت جلد آپ کو فیصلہ کرنا چاہئے ، اس لئے کہ جس طرح آپ کے والد کا انتقال ہوا اسی طرح ہمارا آپ کا بھی ہونا ہے اور موت کے بعد کوئی موقع نہیں ۔ جوسانس اندر گیا باہر آنے کا اطمینان نہیں اور جو باہر گیا اس کے اندر آنے کا بھروسہ نہیں ، انھوں نے کہا میری تو در خواست ہے کہ آپ فورا کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہوجائیں میں نے کہا یہ کتاب پڑھ لوں ، انھوں نے اجازت دیدی ، میں باہر آ کر کتاب پڑھنے لگا ۳۲ صفحوں کی کتاب تھوڑی دیر میں پڑھ لی میرے سارے پردے ہٹ چکے تھے ۔ 9 مئی 1994 ء ساڑھے بارہ بجے میں نے کلمہ پڑھا اور مولا نا صاحب نے میرا نام محمد اکبر رکھ دیا اور مجھے تاکید کی کہ ابھی وہ اپنے مسلمان ہونے کو راز میں رکھیں ، آپ یہاں کے امام صاحب کے پاس آ کر نماز سیکھیں اور چپکے چپکے نماز پڑھنا شروع کر دیں ، انھوں نے کہا کہ آپ سے ایمان چھنے گانہیں اور حق کبھی چھنتا بھی نہیں مگر ابھی ماحول بھی اچھانہیں ، آپ کے لوگ دشمن ہوجائیں گے ۔

اسلام لانے کے بعد حالات کا مقابلہ


 سوال : اس کے بعد کیا حالات آۓ اور آپ کی بہن اور ماں کس طرح مسلمان ہوئیں ۔ 
جواب : میں اپنے اسلام کو چھپا کر لٹر یچر پڑھتار ہانماز یادکرلی مجھے اپنے والد کے ایمان کے بغیر مرنے کا بہت افسوس تھا میرے خیال میں وہ بہت پیارے آدمی تھے ، مجھے یہ احساس ہوتا رہتا کہ اگر یہ مسلمان مجھے پہلے اسلام کے بارے میں بتاتے اور میں والد صاحب کی زندگی میں مسلمان ہوگیا ہوتا تو میں ان کے پاؤں پڑ کر کسی طرح ضرور ان کو اسلام کے لئے تیار کر لیتا مجھے یہ خیال ہوا کہ کہیں میری بہن اور میری ماں بھی کسی روز اسی طرح بے ایمان کے اس دنیا سے نہ چلی جائیں ، میں نے ایک دوکان پر نوکری کر لی جس روز تنخواہ ملی میں اپنی ماں اور بہن کے لئے کپٹر الا یا مٹھائی لائی وہ بہت خوش ہوئیں میں نے موقع سے فائدہ اٹھا کراپنے مسلمان ہونے کی خبران کو دی ان سے مسلمان ہونے کو کہا میں رورو کران سے درخواست کر تار ہامیری ماں اور میری بہن بہت ناراض ہوئیں کپڑامیرے منہ پر پھینک مارا مٹھائی کا ڈبہ بھی باہر پھینک دیا اور بہت روئیں کہ تو ادھرم ہوگیا ، تو نے برہمن ہونے کی لاج بھی نہ رکھی اب وہ مجھے پھر دوبارہ ہند و بننے کی ضد کرنے لگیں جب میں راضی نہ ہوا تو انھوں نے مجھ سے بولنا چھوڑ دیا تقر یبا وہ مجھ سے چھ مہینے بولی نہیں ، میری کمائی سے کھانا چھوڑ دیا اور مجھ سے گھر سے نکلنے کو کہا میں نے ایک کوٹھری کرایہ پر لی اور وہاں پر رہنے لگا اللہ تعالی سے اپنی ماں اور بہن کی ہدایت کی دعا کرتا رہا اور دوسرے لوگوں سے اسلام کو چھپاۓ رکھا ، میں جس کوٹھری میں رہتا تھا ، اس کے پاس ایک مندرتھا میں دیکھتاروزانہ لوگ صبح وشام وہاں اپنا سر جھکاتے ، مجھے دکھ بھی ہوتا اور غصہ بھی آتا ایک روز مجھ سے رہانہ گیا میں نے ایک ہتھوڑالے کر صبح سویرے بت کا سر پھوڑ دیا اور گردن تک اڑادیا اور خیال کیا کہ جب میں حق پر ہوں تو کب تک گھٹتار ہوں گا ، یہ لوگ شرک کو کھلے عام کریں اور اپنے مالک کی دنیا میں رہ کر ہم اپنے حق کو چھپائیں ایسی زندگی سے مرنا اچھا ہے اوراسی جذ بہ میں میں نے لال رنگ سے کٹے ہوئے بت کے سینے پراپنانام’’محمداکبر سپوتر پنڈت سندر لال شرما ( مہیش چندرشرما ) لکھ دیا دن نکلنے تک شہر میں ہاہا کار مچ گئی کہ محمد اکبرکون ہے ؟ لوگ میری ماں کے گھر چڑھ آۓ میری ماں نے کہہ دیا کہ ہم نے بہت دنوں سے اسے گھر سے نکال دیا ہے لوگ مجھے تلاش کر رہے تھے تھانہ کے سامنے مجھے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا ، تھانہ میں لے گئے پولیس نے مجھے بہت مارا ، مگر میں حق پر مرنے کے لئے تیار تھا میرے اللہ نے اب مار سے میرا ایمان اور پکا کر دیا اور جوش بڑھ گیا میری ماں کوکسی نے بتایا کہ تیرے بیٹے کو تھانے میں مارلگ رہی ہے ان کا ممتا بھرادل پگھل گیاوہ اور میری بہن تھانے آئیں پولیس والے مجھے ڈنڈوں سے مار رہے تھے میری ماں ان پر لپٹ گئی کہ مسلمان ہونے پر مارتے ہو ہم بھی مسلمان ہوتے ہیں میری خوشی کی انتہانہ رہی میں نے پٹتے پٹتے ماں سے کلمہ پڑھنے کو کہا انھوں نے اور بہن نے کلمہ پڑھا یہ منظر دیکھ کر پولیس والے رکے ؟ میرے اللہ نے ایک اور کرشمہ دکھایا علاقہ کے بی جے پی ایم ایل اے مہتا کوشہرکا حال پتا لگا کہ ایک ادھرم نے بت کے ساتھ یہ سلوک کیا اور اب پکڑا گیا ، تھانے میں مار کھارہا ہے ، وہ تھانے میں آۓ انھوں نے کوتوال کو دھکا دیا کہ اچھانہ ہوگا اگر اب اسکو مارا اس کاوشواس اور استھا ہے ، بھارت میں ہرکوئی آزاد ہے جو دھرم چاہے مانے اور مجھ سے کہا کہ بیٹا تمہیں چودھرم مانناہو مانومگردوسر ے دھرم والوں کوٹھیس نہ پہنچاؤ ، کہاتمہارا اسلام یہ نہیں بتا تا اور مجھے چھڑا کر لے آۓ مجھے ماں اور بہن کے مسلمان ہونے کی اتنی خوشی تھی کہ ایسی سو مار کھانے کے بعد بھی مسلمان ہوتی تو مجھے منظور تھا ، میں ماں سے گلے مل مل کر خوشی سے رور ہا تھامیں نے ماں کا نام حافظ صاحب سے معلوم کر کے آمنہ اور بہن کا نام فاطمہ رکھا ۔ 
سوال : اس کے بعد آپ دہلی کیوں چلے گئے ؟ جواب : شہر کا ماحول میری وجہ سے گرم ہو گیا شہر میں مسلمانوں کی حالت بہت کمزور ہے 1947ء کے بعد تو پورا ہر یانہ اجڑ گیا یہاں بھی مسلمان لوگ ہندوؤں کی طرح رہتے تھے ، نام بھی ہندوؤں جیسے ہماری مسجد کی کمیٹی کے ایک ذمہ دارشخص ہیں جن کا نام دھرما ہے ایک انوپ سنگھ ہیں ۔ سبھی نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ کو یہاں نہیں رہنا ہے سونی پت گیا ، حضرت مولاناکلیم صاحب نے بھی مشورہ دیا کہ آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہئے مگر میں کسی کے رحم وکرم پرنہیں رہنا چاہتا تھا ، سوال میں اپنے پتاجی سے بھی نہیں کر تا تھاان سے اپنے دل کی بات کہی انھوں نے ایک اسکول میں ہندی پڑھانے کے لئے مجھے فرید آباد بھیج دیامیں نے اپنے دل میں عہد کر لیا تھا کہ میں سارے بت اور خدا ؤں کو چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لایا ہوں میں سوال بھی اس کے علاوہ کسی سے نہیں کروں گا میرے اللہ نے میرا امتحان بھی بار بار لیا اور پھر مجھے سمجھ داری دی ، استقامت سے نوازاور مجھے پارا تارا ، میں اپنی ماں اور بہن کودہلی لے آیا اپنامکان بیچ کر دہلی میں چھوٹا سا مکان خرید لیا اور وہاں پیسے بھی اللہ نےتھوڑے تھوڑے سے ادا کردیۓ ، ہرموڑ پر میرے اللہ نے میری مدد کی ۔ 
سوال : کوئی خاص واقعہ بتائیے ،؟
جواب : ایک بار میں نے ایک دوکان پرنوکری کی ، پہلے مہینے کی تنخواہ ملی تو مکان کے ۲۵۰۰ روپے کی ایک قسط باقی تھی ، اس نے تقاضہ کیا شرم کی وجہ سے میں پوری تنخواہ اس کو دیدی ، گھر میں ماں سامان کا انتظار کر رہی تھی ، کئی روز تک ان کوکل پر ٹالتار ہا ، ایک روز گھر میں کھانا نہیں بنا ، میں نے مغرب کی نماز پڑھ کر دورکعت صلوۃ الحاجت پڑھی ، میرے اللہ آپ کے علاوہ میں کسی سے سوال نہیں کر سکتا میں مسجد سے نکلا جوتوں کے سامنے ایک نوٹ پانچ سوروپے کا پڑاملا ، میں بہت خوش ہوا ، جلدی سے نوٹ اٹھایا اور خیال کیا کہ میری دعا قبول ہوئی ، نوٹ جیب میں رکھا ، دوکان کی طرف گیا تا کہ کچھ آٹا وغیرہ خریدوں ، پھر مجھے خیال ہوا کہ یہ نوٹ تو کسی کا گرا ہوگا نہ جانے یہ میرے لئے حلال بھی ہے یا نہیں میں دوکان کے بجاۓ مولا نا صاحب کے پاس گیا ، مولانا صاحب کو اپنا حال بتاۓ بغیر نوٹ ملنے کا واقعہ بتایا ، امام صاحب نے مسئلہ بتایا کہ اس نوٹ کا اعلان مسجد میں کرنا چاہئے آپ کے لئے یہ نوٹ لینا جائز نہیں ہے ! میں نے نوٹ امام صاحب کے حوالہ کیا اور گھر واپس آیا ، دل میں خوشی بھی تھی کہ اللہ کے حکم کو ماننے کی توفیق ہوئی اور دل بھی دکھا کہ ماں انتظار میں ہے ۔ رات کے گیارہ بجے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے دروازہ کھولامحلہ کے ایک صاحب ایک حاجی صاحب کولیکر آۓ تھے انھوں نے کہا ی مغربی دہلی سے آۓ ہوۓ تھے مغرب کے وقت سے مختلف محلوں میں آپ کو تلاش کر رہے ہیں ، میں نے ملاقات کی انھوں نے بتایا کہ میرا کڑھائی کا کارخانہ ہے میرا بیٹا اس کو چلا تا تھا اس نے شارجہ میں کمپیوٹر ائزڈ مشین لگائی ہے ، اب اس کارخانے کو دیکھنے والا کوئی نہیں ، علاقہ کے ایک صاحب نے بتایا کہ آپ نے کارخانہ میں مینیجر کی حیثیت سے کام کیا ہے میں آپ کو منیجر رکھنا چاہتا ہوں ، چھ مہینے ۵۰۰۰ روپے ماہانہ دونگا اس کے بعد تنخواہ بڑھا دی جاۓ گی ، ہمارے علاقے کے لوگ آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں ، اور جیب سے پانچ ہزار کی ایک گڈی نکال کر دی یہ ایڈ وانس تنخواہ اور ہر ماہ پہلی تاریخ کو ایڈوانس مل جایا کرے گی میں نے اس کو اللہ کی طرف سے تحفہ سمجھا معاملہ طئے ہو گیا رات کو ہوٹل سے کھانا لا یا ، ماں اور بہن کے ساتھ خوشی خوشی کھایا ، دورکعت شکرانہ نماز پڑھی میرے اللہ نے پانچ سوروپنے ناجائز سے بچایا اور اتنی ہمت دی اور ۵۰۰ روپے کی بجاۓ ۵۰۰۰ ہزار عطا کئے ، بار ہا میرے سامنے اس طرح کے واقعات پیش آئے ۔ سوال : آپ دعوت کا کام کرتے ہیں ،؟
جواب : الحمد للہ حضرت مولانا کلیم صاحب کی رہنمائی میں میں زندگی کا مقصد دعوت کو سمجھتا ہوں میرے اللہ نے دہلی اور ہریانہ میں پچاسوں لوگوں کی ہدایت کا اس گندے کو ذریعہ بنایا اس کے علاوہ مقامی کام کی تبلیغی ترتیب سے جڑا ہوں اور سالانہ چلہ پابندی سے لگا تا ہوں ۔ 
سوال : آپ ارمغان کے واسطہ سے مسلمانوں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ،؟
جواب : میں کیا میری حیثیت کیا ، دل چاہتا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی مجھ جیسے شکتہ دلوں پر ترس کھائیں ، کتنے لوگ صرف راہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے دوزخ کی آگ کی طرف جار ہے ہیں ، ان کی فکر کریں ، دوسری ایک ضروری بات نومسلموں کے بارے میں عرض ہے کہ ان کی زیست کی فکر کر یں اوران کواپنامحتاج بنانے کے بجاۓ ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی فکر کر یں اور ان میں خود داری اور استغنا پیدا کرنے کی فکر کریں سارے خداؤں سے بچ کر جوایک مالک پر ایمان لایا ہے ، اس کو سوال کسی سے کرنا کیسے روا ہوسکتا ہے ؟ عموما لوگ اس کی مددکر کے صدقہ دے کر ان کی عادت بگاڑ تے ہیں اس سے ضمیر مرجا تا ہے خودتو ان کے ساتھ تعاون کرنا اپنا فرض سمجھیں مگر اس کو ہر گز یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ میرا کھا ناشادی اور گزارہ ان سب کانظم مسلمانوں کے ذمہ ہے ، میرے لحاظ سے یہ ان کے لئے زہر قاتل ہے ۔ 
سوال : بہت بہت شکریہ ، جزاکم اللہ آپ نے بڑے کام کی اور مفید باتیں بتائیں ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ,
جواب : میں نے تو حقیقت حال بیان کی ، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
 مستقاواز ماہنامه ارمغان ، ستمبر ۲۰۰۳ ء

2 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی