جہاد ایک شرعی عباد ت ہے،ویسے تو جہاد کی بہت ساری قسمیں ہیں لیکن سب سے زیادہ فضیلت اعلاکلمۃ اللہ کے لیے میدان جنگ لڑنے پر ہے جہاد کے اس قسم کو جہاد بالسیف کہا جاتا ہے۔ویسے جہاد کی بہت ساری قسمیں ہیں جو ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں۔
1۔ جہاد بالعلم ،۲۔ جہاد بالمال،۳۔ جہاد بالعمل،
۴۔جہادبالنفس،5۔ جہاد بالقتال،
1۔ جہاد بالعلم: ایسے جہادکو کہتے ہیں جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ اس سےکفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور سارا عالم رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے،جیسے کہ تعلیم و تعلم کا کام کرنا ،مکاتب مدارس کی ذمہ داری سنبھالنا وغیرہ وغیرہ۔
2۔ جہاد بالعمل: اس جہاد کا تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں عملی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصودہوتا ہے،جیسے کسی تحریک کے ذریعہ امت میں دینی بیداری پیدا کرنا دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا،گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ جہاد بالعمل ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔
3۔ جہاد بالمال: اپنے مال کو اسلام کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں،جس انفاق سے اعلا کلمۃ اللہ ہو وہ تمام انفاق جہادبالمال میں شامل ہے،زکوۃ ،صدقہ، خیرات، عطیہ،یہ چیزیں جہاد بالمال میں شامل نہیں ہوں گی کیوں کہ زکوۃ مسقل الگ فریضہ ہے۔
4۔ جہاد بالنفس: جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھنا ،اور غیر شرعی امور سے مکمل اجتناب کرنا اور مسلسل اس پر صبر کرنے اور جمے رہنے کا نام جہاد بالنفس ہے، جیسے کثرت سے روزہ رکھنا، جھوٹ، چغلی،غیبت، بدنگاہی،حرام کاری اور حرام خوری وغیرہ سے پرہیز کرنا۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مذکورہ بالا چار قسمیں : ان کی فضیلتیں ان کے اجروثواب شریعت نے مستقل بیان فرماے ہیں۔
5۔ جہاد بالقتال: یہ وہ جہاد ہے جومیدانِ جنگ میں دشمنان اسلام کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان ،مال،عزت،آبرو،دین وایمان یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں ان کے خلاف جنگ کرنے کا نام جہاد بالقتال ہے۔ اگر کوئی دشمنان اسلام کے خلاف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہیں کہا جاتا ہے بلکہ وہ زندہ ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ
أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ(اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں، لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔مجاہدین اسلام کی فضیلت کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ،ورنہ آخرت میں جو ان کے لیے بے شمار انعامات اللہ نے رکھے ہیں اس کا کویی حدوحساب نہیں ، دنیا کا کویی انسان اس کا اندازہ نہیں کر سکتا ہے۔