خلافت عثمانیہ کی تاریخ

خلافت عثمانیہ مکمل تاریخ

خلافتِ عثمانیہ کے 34 ویں خلیفہ عبدالحمید ثانی تھے۔ انہوں نے 31 اگست 1876 سے 27 اپریل 1909 تک خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی۔ 21 ستمبر 1842کو ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 75برس کی عمر میں 10 فروری 1918 کو وفات پائی ۔ آپ ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی تھے۔ عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کا نام تاریخِ اسلام میں نہایت سنہری حروف میں درج ہے۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی خلاف عثمانیہ کے ان خلفاء میں شمار کئے جاتے ہیں جو عالم اسلام میں اپنے کردار اور حبِ رسولﷺ کی وجہ سے اپنا مقام رکھتے تھے۔ آپ وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی مملکت پر حکمران رہے۔خلاف عثمانیہ کی سرحدیں یورپ سے ملتی تھیں اور سیاسی کشمکش اور جنگی معرکوں کا بھی سلسلہ جاری رہا۔


اسلامی قانون اور گستاخانہ فلمی ڈرامہ

 خلیفہ عبدالحمید ثانی ایک دن اپنے مشیروں اور وزرا کے درمیان موجود تھے کہ اچانک ایک حکومتی عہدیدار نے آپ کو ایک ایسی خبر سنائی کہ آپ کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور نہایت جلال میں آکر کھڑے ہو گئے۔ حکومتی عہدیدار کے ہاتھوں میں فرانسیسی اخبار موجود تھا جس میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا کہ فرانس کے ایک تھییڑ نے حضور ﷺ کی شان میں گستاخانہ فلم پیش کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے ہیں۔اخبار کے تراشے سے خلیفہ عبدالحمید ثانی کو بتایا گیا کہ ایک شخص نے ایک ڈرامہ تحریر کیا ہے جسے تھییڑ میں پیش کیا جائے اس ڈرامے میں نعوذ باللہ حضورﷺ کا کردار بھی بنایا گیا ہے اور وہ کردار تھییڑ میں ایک شخص ادا کرے گا(نعوذ باللہ )۔ خلیفہ نے حکومتی عہدیدار سے فرانسیسی اخبار لے کر اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا ۔نہایت جلال اور غصے کی حالت میں سلطان کے جسم کانپ رہا تھا جبکہ آپ کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ آپ وہاں موجود حکومتی عہدیداروں کو مخاطب کر کے اخبار میں شائع اشتہار سے متعلق بتا رہے تھے کہ’’فرانس کے اس اخبار میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے کہ ایک شخص نے ایک ڈرامہ لکھا ہے اس میں حضورﷺ کا کردار بھی بنایا گیا ہے، یہ ڈرامہ آج رات پیرس کے تھیٹر میں چلے گا، اس ڈرامے میں ہمارے نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخیاں ہیں،وہ فخر کونین ﷺ کی گستاخیاں کرینگے، اگر وہ میرے بارے میں بکواس کرتے تو مجھے کوئی غم نہیں ہوتا،لیکن اگر وہ میرے دین اور میرے رسول کی گستاخی کریں تو میں جیتے جی مرجاؤں، میں تلوار اٹھاؤں گا یہاں تک کہ اپنی جان ان پر فدا کر دوں، چاہے میری گردن کٹ جائے، یا میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں تاکہ کل بروز قیامت رسول اللہ ﷺ کے سامنے شرمندگی نہ ہو،میں انہیں برباد کردوں گا، یہ برباد ہو جائیں گے،راکھ ہو جائیں گے، یہ آگ اور تباہی ہر ذلیل دشمن کیلئے نشانِ عبرت ہو گی ، ہم جنگ کریں گے، ہم ان کی طرح بے غیرت نہیں ہو سکتے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم اپنے دفاع سے پیچھے ہٹ جائیں، ہم ان سے جنگ کریں گے۔ خلیفہ نہایت جلال میں باآوازِ بلند گستاخانِ رسول کے خلاف جنگ کا اعلان کر رہے تھے، اسی اثنا میں سلطان نے فرانسیسی سفیر کو طلب کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔کچھ ہی دیر بعد خلیفہ دربار میں روایتی لباس فاخرانہ جو شاید فرانسیسی سفیر پر ہیبت ڈالنے کیلئے زیب تن کیا تھا نہایت جلال اور بے چینی کی حالت میں بجائے تخت پر بیٹھنے کے اس کے سامنے کھڑے تھے اور فرانسیسی سفیر ان کے سامنے حاضر تھا ،

خلافت عثمانیہ اور تحفظ ناموس رسالت

سلطان کی حالت سے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے بلاوجہ طلب نہیں کیا گیا ، اس کے ماتھے پرپسینہ آچکا تھا جبکہ جسم پر لرزہ طاری تھا اور ٹانگیں سلطان کے رعب سے کانپ رہی تھی۔ سلطان نے فرانسیسی سفیر کو مخاطب کیا ’’سفیر صاحب! ہم مسلمان اپنے رسولﷺ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، اسی وجہ سے ان سے محبت کرنے والے ان پر اپنی جانوں کو قربان کرتے ہیں اور مجھے بھی کوئی تردد نہیں ہے کہ میں بھی حضورﷺ پر جان قربان کروں، ہم نے سنا ہے کہ آپ نے ایک تھییڑ ڈرامہ بنایا ہےجو نبی مکرمﷺ کی توہین پر مشتمل ہے، یہ کہہ کرخلیفہ نے فرانسیسی سفیر کی جانب قدم بڑھانا شروع کر دئیے ، خلیفہ کہتے جا رہے تھے، میں۔۔بادشاہ ہوں بلقان کا، عراق کا،شام کا، لبنان کا،حجاز اور قافقاز کا اور دارالحکومت کا۔۔ میں خلیفۃ الاسلام عبدالحمید خان ہوں۔۔یہاں تک کہ خلیفہ فرانسیسی سفیر کے قریب پہنچ گئے اور فاصلہ نہایت کم ہو گیا، فرانسیسی سفیر کے جسم پر لرزہ طاری تھا ، وہ خلیفہ کے جلال کے سامنے بہت مشکل سے کھڑا تھا ۔ خلیفہ نے فرانسیسی سفیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت سفاکانہ لہجہ میں اسے کہا کہ اگر تم نے اس ڈرامے کو نہ روکا ،تو میں تمہاری دنیا تباہ کر دوں گا، یہ کہہ کر خلیفہ عبدالحمید ثانی نے ڈرامے کے اشتہار والا اخبار فرانسیسی سفیر کی طرف اچھال دیا اور نہایت تیزی سے دربار سے نکل گئے، فرانسیسی سفیر اس اخبار کو اٹھائے فوری طور پر ڈگمگاتا ہوا دربار سے خلیفہ کے جانے کے بعد دیواروں اور فرنیچر کا سہارا لیتے ہوئے باہر نکلا اور سیدھا سفارتخانے پہنچا اور ایک نہایت برق رفتار پیغام فرانس اپنی حکومت کو بھیج دیا " کہ اگر یورپ کو اپنی آنکھوں سے جلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے اور فرانس کی فصیلوں پر اسلامی پرچم نہیں دیکھنا چاہتے تو فوری طور پر گستاخانہ ڈرامے کو روکو، عثمانی لشکر حکم کے منتظر کھڑے ہیں، ان کے جہاز بندرگاہ پر صرف احکامات کے منتظر ہیں اور پیادہ فوج اور توپخانہ چھاؤنیوں سے نکل چکا ہے۔" خلیفہ عبدالحمید ثانی فرانسیسی سفیر کو دربار میں طلب کرنے اور جنگ کا اعلان کرنے کے بعد چپ نہیں رہے انہوں نے فوری طور پر اپنے مشیر خصوصی کو اپنے دفتر میں طلب کر لیا اور اسے فوری طور پر پوری خلافت میں ایک سرکلر جاری کرنے کا حکم دیا، یہ سرکلر خلیفہ نے خود اپنی زبانی لکھوایا جو کچھ ایسے تھا ’’فرانسیسیوں کی اسلام کے خلاف کارروائیاں حد سے تجاوز کر چکی ہیں، ہم پھر بھی پاس ِ ادب رکھے ہوئے ہیں، لیکن اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ،اب ہم خلافت کا پرچم بلند کرنے جا رہے ہیں،اور فرانسیسیوں سے ایک حتمی جنگ کرنے جا رہے ہیں،یہ حکم ہے خلیفۃ علی وجہ الارض جلالت الملک عبدالحمید خان کا ، اب ہم ان سے ان کی زبان میں بات کرینگے" مشیر خصوصی خلیفہ عبدالحمید کے لہجے میں تلوار کی کاٹ صاف محسوس کر رہا تھا، اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔خلیفہ عبدالحمید کی فرانسیسی سفیر کی دربار میں طلبی اور جنگی حکم نامے کے ساتھ فوجوں کو تیار رہنے کے احکامات نے ہی اسلام دشمن پر خوف طاری کر دیا، پوری دنیا منتظر تھی کہ اب کیا ہو گا، یورپ کانپ اٹھا، فرانس نے گھٹنے ٹیک دئیے۔ خلیفہ اپنے خاص کمرہ میں موجود تھے جہاں وہ امور مملکت سے متعلق مشورے اور فیصلے صادر کرتے کہ اچانک ایک حکومتی عہدیدار ہانپتا ہوا کمرے میں بغیر اجازت ہی داخل ہو گیا اور گویا ہوا، ’’جناب! ایک خوشخبری آئی ہے۔خلیفہ :وہ کیا؟، حضور فرانسیسیوں نے اس ڈرامے کو ہی نہیں روکا بلکہ اس تھییڑ کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے جس نے نبی مکرم ﷺکی شان میں اقدس میں گستاخی کا ارادہ کیا تھا؟

خلافت عثمانیہ کا دبدبہ

خلیفہ عبدالحمید حکومتی عہدیدار کی بات کرنے کے دوران ہی نمناک ہو چکے تھے، آپ کی زبان سے فرط جذبات سے صرف الحمد اللہ ہی نکل سکا، حکومتی عہدیدار نے خلیفہ کو بتایا کہ " پورے عالم اسلام سے ان کیلئے شکریہ کے پیغامات آرہے ہیں،انگلستان لیور پول کی ایک اسلامی تنظیم نے اس ڈرامے کے روکے جانے کی خبر دی ہے،غیر مسلم بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے رسول ؐ کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے، وہ آپ کیلئے صحت و عافیت کی دعائیں کر رہے ہیں، مصر اور الجزائر میں لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے ہیں،میرے سردار! اللہ آپ سے راضی ہو. " یہ کہہ کر حکومتی عہدیدار خاموش اور مودب ہو گیا، خلیفہ عبدالحمید کی گردن اللہ کے حضور احساس تشکر سے جھک چکی تھی، آنکھوں سے آنسو جاری تھے،کچھ دیر بعد سلطان نے ہمت اکٹھی کی اور گردن اوپر اٹھائی اور اس حکومتی عہدیدار سے مخاطب ہوئے ’’اے پاشا! مجھے یہ عزت صرف اس لئے ملی ہے کہ میں اس دین کا ادنیٰ سا خادم ہوں، مجھے کسی بڑے لقب کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر سلطان نے ہاتھ پیچھے کو باندھ لئے اور محل کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب خلافت عثمانیہ کی ہیبت اور جلالت سے یورپ اور کفار کے مراکز ہل جایا کرتےتھے۔ آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ وہ دشمنان اسلام کو کیا جواب دے اس کی تو اپنی ٹانگیں لڑ کھڑا چکی ہیں، تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی پڑھیں اور الله کے نبی کا فرمان خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم کو بذات خود محسوس کریں

خلافت عثمانیہ اور آج

سینٹ آف پاکستان نے ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ہالینڈ میں دس نومبر کو منعقد کی جانے والی گستاخانہ خاکوں کی مجوزہ
نمائش کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ خطاب ہمارے خیال میں پوری قوم کے دلوں کی آواز ہے اور اسے سیاسی و گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سب کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں اس سلسلہ میں احتجاجی مہم کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ۹ ستمبر کو لاہور میں ایک بڑے عوامی مظاہرے کا اعلان کیا ہے جس کی قیادت متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کریں گے۔ گزشتہ روز اس مظاہرہ میں منظم طور پر شرکت کی تیاری کے لیے گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مختلف دینی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں لاہور کے ۹ ستمبر کے مظاہرہ میں بھرپور شرکت کے لیے پروگرام وضع کیا گیا اور طے پایا کہ اسی سلسلہ میں ۴ ستمبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ایک کنونشن منعقد کیا جائے گا جس میں دینی جماعتوں اور تاجر تنظیموں کے راہنما خطاب کریں گے اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء شریک ہوں گے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی سرگرمیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بادشاہی مسجد کی ختم نبوت کانفرنس کی طرز پر عوامی قوت کا ایک بڑا مظاہرہ ہوگا جس کی کامیابی کے لیے سب کو تعاون کرنا چاہیے۔اس سے قبل ۲ ستمبر کو لاہور میں محترم صاحبزادہ پیر شفاعت رسول قادری کی دعوت پر بھی مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا ایک مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے اور اس کی تیاریاں جاری ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک احتجاجی ریلی منعقد کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے اور دیگر متعدد تنظیموں اور اداروں کی طرف سے بھی احتجاج و اضطراب کے اظہار کا سلسلہ روز افزوں ہے۔ جہاں تک ایمانی جذبات کے اظہار کا تعلق ہے وہ تو بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہالینڈ کے بعض ناعاقبت اندیشوں کی اس مذموم حرکت پر ناراضگی اور شدید غصے کی لہر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں محض جذبات اور غم و غصہ کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اصل فورم پر یہ جنگ لڑنے کی ضرورت ہے جس کا وزیر اعظم عمران خان نے تذکرہ کیا ہے، جبکہ ہم ایک عرصہ سے ان کالموں میں مسلسل گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) ناموس رسالتؐ (۲) تحفظ ختم نبوت (۳) اور پاکستان کی اسلامی شناخت کے معاملات پر حقیقی معرکہ آرائی بین الاقوامی اداروں اور لابیوں میں ہو رہی ہے مگر وہاں ہمارا یعنی دینی حلقوں کا کوئی مورچہ موجود نہیں ہے۔ سیکولر حلقے اور منکرین ختم نبوت بین الاقوامی معاہدات کے ہتھیاروں کے ساتھ عالمی اداروں اور حلقوں میں دین، اہل دین اور پاکستان کے خلاف محاذ گرم کیے ہوئے ہیں مگر ہم سوشل میڈیا، مساجد اور سڑکوں پر اپنے جذبات کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا ہے۔ مجھے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس مہم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں ہے بلکہ میں خود اپنی استطاعت کے مطابق اس میں شریک رہتا ہوں لیکن بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کا وسیع تر اور مؤثر محاذ ہماری نمائندگی سے خالی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ سیکولر حلقوں نے ابھی تک پاکستان کے دستور کو سنجیدگی سے نہیں لیا جبکہ دینی حلقوں کی بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں یہی صورتحال ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی معاہدات اور دستور پاکستان دونوں زندہ حقیقتیں ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سیکولر حلقوں کا خیال ہے کہ دستور پاکستان محض ایک نمائشی اور کاغذی دستاویز ہے جسے پس پشت ڈال کر پاکستان میں وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں جبکہ دینی حلقوں کے نزدیک بین الاقوامی معاہدات کی کم و بیش یہی حیثیت ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ قوم اسی طرح ذہنی اور فکری خلفشار کا شکار رہے گی اور دونوں طرف کے مہم جو گروہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ ہمارے نزدیک اس کا حل وہی ہے جو وزیراعظم عمران خان نے بتایا ہے بلکہ اس سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر، جبکہ وہ خود او آئی سی کے صدر تھے، یہ تجویز دے چکے ہیں کہ مسلم امہ کو متحد ہو کر اقوام متحدہ سے دو مسئلوں پر بات کرنا ہوگی۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی معاہدات پر مسلم امہ کے دینی و تہذیبی تحفظات کے حوالہ سے نظرثانی کی ضرورت ہے اور دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے پالیسی ساز ادارہ سلامتی کونسل میں مسلم امہ کی نمائندگی متوازن نہیں ہے اور وہ ویٹو پاور کی فیصلہ کن اتھارٹی کے دائرہ سے باہر ہے۔ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان موجودہ بے اعتمادی بلکہ کشمکش کی بڑی وجہ یہی ہے اس لیے اقوام متحدہ کے ساتھ اجتماعی طور پر دوٹوک بات کرنا ان کے نزدیک ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان کو اس سلسلہ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ بھی مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے، بلکہ مسلم دنیا کے ان مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اگر سعودی عرب کے شاہ سلیمان، ترکی کے رجب اردگان، ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور ایران کے صدر حسن روحانی باہمی مشاورت کے ساتھ پیشرفت کریں تو وہ یقیناً بے نتیجہ نہیں ہوگی۔ خدا کرے کہ ایسا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

ستاون اسلامی ممالک چوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں

مہدی علیہ السلام کب ظاہر ہوں گے

اسراییل کی خفیہ تحریکیں اور یاجوج ماجوجاور دجال کی آمد

معراج اور مسجد اقصی

قیامت کب قایم ہوگی

5 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام12 مارچ

    اے اللہ ہمیں بھیی اپنے پیارے حبیب سے سچی محبت نصیب فرما

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام12 مارچ

    آج کے مسلم سیاست دانوں کے پاس سوائے مذمت کے اور کچھ نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام21 مارچ

    ماشاء اللہ بہت خوب مضمون

    جواب دیںحذف کریں
  4. گمنام26 اپریل

    سبحان اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. گمنام10 مئی

    بہترین مضمون

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی