خلافت فاروق اعظم اور مرتدین

خلافت فاروق اعظم 
سیرت خلفائے اربع
قسط نمبر۔۔۔ 62
خلافت فاروق اعظم

خلافت

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633 عیسوی) میں شام پر

9 ہجری میں رومیوں نے خاص مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اسی وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پر چڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی تو ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ کچھ تم نے سنا! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا؟ کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔ 

اسی حفظ ماتقدم کے لئے 11 ہجری میں رسول اللہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا۔ اور چونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بڑے بڑے نامور صحابہ مامور ہوئے کہ فوج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے بیمار ہو کر انتقال فرمایا۔ غرض جب حضرت ابو بکر

عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں تھا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھی اس کے مقابلے کا وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری (634 عیسوی) میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کو روانہ ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔ 
(جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کئے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے ، اس کو عراق عرب اور جو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عرا ق کی حدوداربعہ یہ ہیں شمال میں جزیرہ جنوب میں بحر فارس، مشرق میں خوزستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے اور دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔ 
ہمارے مؤرخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایران کی فتوحات لکھتے آ رہے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو اس سنہ کے تمام واقعات لکھنے ہیں۔ اس لیے قبل اس کے


مکمل تاریخ اسلام اور تاریخ خلافت راشدہ سے ماخوذ 
جاری ہے>>>>>>>>>>




شرح صدر بھی نعمت خداوندی ہے
__________

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
===========================


الحمد لله و کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد :

فاعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
” اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ o وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ o…
اس سے پہلی سورت (سورة الضحیٰ) میں حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر

ایک ”شرح صدر“ 
اور ایک ”وضع وزر“ 
اور ایک ” رفع ذکر“ ۔

 الم نشرح لک صدرک 
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کو شرح صدر کی دولت عطا نہیں کی؟
 ”و وضعنا عنک وزرک“ اور ہم نے آپ سے آپ کے بوجھ کو ہٹایا 
”و رفعنا لک ذکرک “ اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے ذکر کو اونچا اور بلند کیا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو کشادہ کردیا، آپ کو شرح صدر عطا فرمایا، آپ کے قلب مبارک کو کشادہ فرما کر وحی ربانی کے ذریعے علوم کے سمندر آپ کے قلب میں داخل فرمادیئے۔ سینے کو کشادہ کر کے آپ کو حوصلہ بھی بخشا اور ہمت بھی عطا کی، یہ شرح صدر بہت بڑی نعمت ہے، اس سے استقامت حاصل ہوتی ہے، اس کی بنیاد پر اللہ تبارک و تعالیٰ اخلاص کی دولت عطا کرتے



مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ کا شر ح صدر


حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ نے کس شرح صدر کے ساتھ دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تھی۔ اللہ اکبر ! کہ آج اس بر صغیر کے اندر جس میں پاکستان بھی شامل ہے ، ہندوستان بھی داخل ہے۔ بنگلہ دیش بھی اس میں آجاتا ہے۔ ہزاروں درسگاہیں



مولانا الیاس رحمہ الله تعالیٰ کا شرح صدر


اسی طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے جب دلی میں دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تو بڑے شرح صدر کے ساتھ ابتدا کی۔ اس کی بہت سی تفصیلات ہیں اور بہت سے اس کے جزئی واقعات ہیں۔ ایک واقعہ ان کے شرح صدر کے تعلّق سے میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ زاہدان (ایران کا ایک شہر ہے) میں ایک عالم مولانا عبد العزیز صاحب رحمہ الله تعالیٰ تھے۔ ابھی پچھلے دنوں ان کا انتقال ہوا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ جب مولانا الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے کام کا آغاز کیا اور زیادہ دن نہیں ہوئے تھے، اس وقت میں مدرسہ امینیہ دہلی میں پڑھتا تھا اور کبھی کبھی مولانا الیاس صاحب رحمہ

یہ شرح صدر کی بات ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو شرح صدر عطا فرمایا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی استقامت کے ساتھ انہوں نے اپنے کام کو جاری رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس میں خلوص عطا فرمایا اور وہ کام سارے عالم کے اندر پھیل گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی