حالانکہ جس دور میں ٹیپو سلطان شہید انگریز کے مقابلے کیلئے میدان میں اترے تھے اس دور میں ٹیپو سلطان سے بڑا ولی ہندوستان میں کوئی نہیں تھا (مکتوبات شیخ الاسلام)
ظفر علی خان جب ٹیپو سلطان شہید کی قبر پر حاضر ہوتے ہیں تو کھڑے ہو کر کہتے ہیں آئے سلطان....!
رعایا میں سلطان ٹیپوکی عقیدت اس قدر تھی کہ ہندومذہب کے دوفرقوں واڈگلائی اور ٹنکالائی کے درمیان اختلاف ہونے پر خودہندووٴں نے سلطان کو اپنا حکَم اور ثالث بنایا تھا ۔بھلا اگر سلطان ظالم اور ہندو دشمن ہوتے تو یہ صورت ِحال کیوں کرممکن ہوتی؟
سلطان کی مذہبی رواداری ہی تو تھی جس نے رعایاکے سینوں میں عقیدت و محبت کے وہ شمع فروزاں کیے تھے جنہیں دیکھ کر انگریز بھی ششدر تھے۔سلطان نے جس جگہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اسی جگہ سلطان کے سیکڑوں فدائین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،جن میں عورتیں بھی تھیں اور جوان لڑکیاں بھی۔جب سلطان کا جنازہ اٹھایاجانے لگا تو راہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتے ہوئے اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۳)
اسی لیے ظفر علی خان نے کہا تھا:
قوتِ با ز و ئے ا سلا م تھی اس کی صولت
اس کی دولت کے دعا گوؤں میں شامل تھے ہنود
سلطان کی مذہبی رواداری اور بلا تفریق ِمذہب رعایا سے حسن ِسلوک ملاحظہ فرمائیں اور دوسری طرف ہندوفرقہ پرستوں کے منہ سے نکلا ہوا زہر دیکھیے،تاریخ کے مسخ کرنے اور اسے مٹانے کی زندہ مثال آپ کو واضح طورپر سمجھ میں آجائے گی۔جولوگ تحمل مزاجی اور برداشت کی دولت سے محروم ہیں،اور جو تعصب کے ناپاک نالے کے گندے کیڑے ہیں، جو سانپ وبچھو کی طرح ہمیشہ زہر اگلتے رہتے ہیں،وہ کہہ رہے ہیں کہ سلطان ہندو کُش اورمتعصب ظالم حکمران تھا۔کاش ایک نظر اپنے دامن پر بھی ڈال دی ہوتی!
ع دامن تو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
افسوس اس پربھی ہے کہ سر زمین ِہند کے اس عظیم سپوت کے حالات ِزندگی اور اس کے قابل ِرشک کارنامے باشندگانِ ملک تک صحیح معنوں میں پہنچائے نہیں گئے ہیں، ورنہ ممکن نہ تھا کہ سلطان کومتعصب اور ہندو دشمن ظالم حکمران کہا جاتا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی رواداری،غیرمسلموں کی خوشی وغم میں شریک ہونے اور ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنے میں سلطان اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ بعض مواقع پر فقہی اعتبار سے اس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے۔
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں