ٹیپو سلطان کا تقوی اور مذہبی رواداریاں


از :مفتی محمدزکریاالقؔاسمی
ڈائریکٹر:
مجلس تحقیق بنگلور 8050712840

شیر ہندحضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ نے میسور کی جامع مسجد بنائی اور اعلان کیا کہ اس جامع مسجد میں وہ آدمی سب سے پہلے امامت کرآئے گا جو صاحب ترتیب ہو
صاحب ترتیب اس شخص کو کہتے ہیں کہ جسکی اکٹھی پانچ نمازیں قضاء نہ ہوئ ہوں
لہذا اس اعلان کے بعد مجمع سے کوئی امامت کے لئے آگے نہیں بڑھا حالانکہ اس مجمع میں بڑے بڑے علماء فقہاء موجود تھے جب کوئی آگے نہیں آیا تو مجاہد ہند شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ سامنے تشریف لائے اور اعلان کیا کہ الحمد للہ بالغ ہونے کے بعد سے اب تک میری اکٹھی پانچ نمازیں قضاء نہیں ہوئ ہے اور نہ ہی میری تہجد اور عصر کی سنتیں فوت ہوئ ہیں

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے سب سے بڑے قطب اور ولی تھے
انھوں نے کبھی بھی داڑھی پے استرا نہیں پھرایا
اور نہ داڑھی منڈائ آج انکی تصویر کو غلط طریقہ سے چھاپا جارہا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انکے چہرے پر داڑھی نہیں تھی
آج علماء کرام اور مسلمانوں سے لوگوں کو متنفر کرنے اور یہ باور کرانے کہ آزادی میں علماء کرام کا کوئی بھی کردار نہیں رہا اسی لئے ٹیپو سلطان کی تاریخ کو مسخ کردیا گیا

حالانکہ جس دور میں ٹیپو سلطان شہید انگریز کے مقابلے کیلئے میدان میں اترے تھے اس دور میں ٹیپو سلطان سے بڑا ولی ہندوستان میں کوئی نہیں تھا (مکتوبات شیخ الاسلام)

ظفر علی خان جب ٹیپو سلطان شہید کی قبر پر حاضر ہوتے ہیں تو کھڑے ہو کر کہتے ہیں آئے سلطان....!

ہند کو محرم اسرار وفا تو نے کیا
حق وفادارئ مشرق ادا تو نے کیا
ہند میں آج جو جذبہ بیداری ہے
یہ ترے ہی شعلہء ایثار کی گل کاری ہے

رعایا میں سلطان ٹیپوکی عقیدت اس قدر تھی کہ ہندومذہب کے دوفرقوں واڈگلائی اور ٹنکالائی کے درمیان اختلاف ہونے پر خودہندووٴں نے سلطان کو اپنا حکَم اور ثالث بنایا تھا ۔بھلا اگر سلطان ظالم اور ہندو دشمن ہوتے تو یہ صورت ِحال کیوں کرممکن ہوتی؟

سلطان کی مذہبی رواداری ہی تو تھی جس نے رعایاکے سینوں میں عقیدت و محبت کے وہ شمع فروزاں کیے تھے جنہیں دیکھ کر انگریز بھی ششدر تھے۔سلطان نے جس جگہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اسی جگہ سلطان کے سیکڑوں فدائین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،جن میں عورتیں بھی تھیں اور جوان لڑکیاں بھی۔جب سلطان کا جنازہ اٹھایاجانے لگا تو راہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتے ہوئے اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۳)

اسی لیے ظفر علی خان نے کہا تھا:

قوتِ  با ز و ئے  ا سلا م تھی  اس کی صولت

اس کی دولت کے دعا گوؤں میں شامل تھے ہنود

سلطان کی مذہبی رواداری اور بلا تفریق ِمذہب رعایا سے حسن ِسلوک ملاحظہ فرمائیں اور دوسری طرف ہندوفرقہ پرستوں کے منہ سے نکلا ہوا زہر دیکھیے،تاریخ کے مسخ کرنے اور اسے مٹانے کی زندہ مثال آپ کو واضح طورپر سمجھ میں آجائے گی۔جولوگ تحمل مزاجی اور برداشت کی دولت سے محروم ہیں،اور جو تعصب کے ناپاک نالے کے گندے کیڑے ہیں، جو سانپ وبچھو کی طرح ہمیشہ زہر اگلتے رہتے ہیں،وہ کہہ رہے ہیں کہ سلطان ہندو کُش اورمتعصب ظالم حکمران تھا۔کاش ایک نظر اپنے دامن پر بھی ڈال دی ہوتی!

ع  دامن تو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

افسوس اس پربھی ہے کہ سر زمین ِہند کے اس عظیم سپوت کے حالات ِزندگی اور اس کے قابل ِرشک کارنامے باشندگانِ ملک تک صحیح معنوں میں پہنچائے نہیں گئے ہیں، ورنہ ممکن نہ تھا کہ سلطان کومتعصب اور ہندو دشمن ظالم حکمران کہا جاتا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی رواداری،غیرمسلموں کی خوشی وغم میں شریک ہونے اور ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنے میں سلطان اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ بعض مواقع پر فقہی اعتبار سے اس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ خود مسلمانانِ ہنداپنے سلاطین وحکمرانوں کے کارناموں اور ان کی عدل پروری کی داستانوں سے ناواقف ہیں۔اگر ٹیپو سلطان کے مسئلہ میں سنجیدگی اختیار نہ کی گئی اور اسے پڑھااورپڑھایا نہ گیاتو وہ دن دور نہیں جب ٹیپو سلطان جیسا عادل حکمران بھی ظالم سمجھا جانے لگے گا اورمسلمانِ ہند وکیلِ صفائی بن کر وضاحتیں دے رہے ہونگے؛لیکن اس وقت تک پانی سر سے اوپرہو چکا ہوگا!
(ملخص از ماہنامہ دارالعلوم)

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی