شب برآت کے ساتھ خرافات


Shab e Barat کا موقع ہے ہم سمجھ رہےتھے شاید اس بار مسلمان
 صحیح ڈھنگ سے شب براءت نہ منا سکیں لیکن کیا کہنے ہماری قوم کے !!!!!
Lock Down جنتا کرفیو economic crisis کے باوجود غریب سے غریب تر کے گھرانوں میں حلوے پراٹھے میٹھے رنگ برنگ کے لذیذ ترین کھانوں کے اقسام دستر خوان  پر موجود تھے ،

ایسے افراد بھی دیکھنے کو ملے جن کے گھروں میں دو وقت کی روٹی صحیح ڈھنگ سے میسر نہیں ہوتی تھی لیکن شب براءت کے موقع سے انکے پاس رنگ برنگ کے لذیذ کھانے ضرور تیار ہو جاتے ہیں چاہے دوسرے وقت کے کھانے کے لیے دوسروں کے سامنے انکو ہاتھ ہی کیوں نہ پھیلانا پڑ جاے لیکن شب براءت کی عید ہر گز نہیں چھوڑیں گے،
جب کہ وقت ابھی ایسا کچھ گذر رہا ہے جس میں ہر انسان بھوک مری اور معاشی بحران شکار ہے فقروفاقہ نے ہر گھر پر ڈیرہ ڈال رکھا ہے بہت ساری جگہوں سے یہ خبر بھی ملی کہ بعض عورتوں نے دو روٹی کے لیے اپنی عزت کا سودا تک کر لیا لوگ ایک دوسرے کے دشمن تک بن چکے ہیں ہر عقل مند انسان اس وقت اپنے گھروں میں زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرنے کی فکر میں لگا ہے اور عقلمندی بھی یہی ہے کہ اس برے وقت میں فضول رسم و رواج کرنا تو دور کی بات اسکی سوچنا بھی خبیث الباطن ہونے کی علامت ہے،

اگر اللہ نے مال دیا ہے تو اسکو بے جا اسراف میں لگانے کے بجاے یا تو اپنے لیے سوچنا چاہیے یا اگر دل میں تھوڑی سی مزید جگہ ہے تو دوسروں کا بھی خیال کرنا چاہیے اس سے انکار نہی ہے کہ اس رات کی بہت ہی فضیلت ہے ہاں مگر عبادت کرنے کی اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کے غریب اور نادار بندوں پر خرچ کرنے کی نہ کہ قسم ہا قسم کے کھانے پکوا کر چند رشتہ دار ہضم کرنے کی اس چیز کی شریعت ہر گز اجازت نہیں دیتی،

خدارا !!! رسم و رواج پر زور دینے کے بجاے اٹھیے اور حالات کو پہچاننے کی کوشش کیجے اس جنتا کرفیو کی آڑ میں کیا کچھ گل کھلایا جا رہا ہے اور جب جنتا کرفیو کا پردہ چاک ہوگا تب کیا کچھ ہو چکا ہوگا وہ ہماری سمجھ سے بہت دور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غور کیجے!!!

آج سے ایک سال پہلے جب تین طلاق کا مسئلہ چل رہا تھا تب ہم سب ایمہ اپنے اپنے جمعہ کے بیانوں کہہ  رہے تھے کہ ملک کامن سیول کوڈ کی طرف جارہا ہے۔ کل کو ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کی شادی اگنی کے سات پھیرے سے ہو۔ آپ کے مردے کو کفن دفن کے بجائے ہندؤوں کی طرح جلا دیا جائے۔

تب یہ بات مبالغہ آمیز لگی تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلمان کو جلادیا جائے۔
لیکن آج کھلے آنکھوں دیکھ رہا ہوں۔
مہاراشٹر میں کورونا مریض کے میت کو جلانے کی سفارش حکومتی سطح پر کی جاچکی ہے۔ اور شاید کسی کو جلایا بھی گیا ہو۔

آج میرے ایک قریبی رشتہ دار کو بغیر غسل کفن دفن کے گڑھے میں گاڑ دیا گیا۔
سوال ہوگا کہ ہم نے کچھ کیوں نہیں کیا؟ 
جواب: جن کا انتقال ہوا وہ معمولی آدمی نہیں تھے۔ اڑیسہ میں ان کے اعزہ و اقربا میں سے بیشتر افراد اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کے سگے بڑے بھائی اڑیسہ کے سرکاری ہسپتال کے اعلی عہدیدار اور ڈاکٹر ہیں۔ ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ اس کے باوجود مرحوم کی لاش کو نہ تو کسی کو دیکھنے چھونے دیا گیا۔ پوری کوشش کے باوجود غسل کفن دفن کی اجازت نہیں دی گئی۔

بات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ ہندوستانی حکومت کا سنگھی منصوبہ سمجھیے۔ مرحوم دل کے مریض تھے۔ ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض میں مبتلا تھے۔ یقینی طور پر ان کی طبعی موت ہوئی ہے۔ وفات سے پہلے دو بار کورونا ٹیسٹ کیا گیا جو کہ نیگیٹو آیا۔ وفات کے بعد پھر سیمپل لیا گیا اور بتایا گیا کہ مرحوم کورونا پوزیٹو پائے گئے ہیں۔

دیکھ لیجیے۔ ایک مسلم کو غیر مسلم کی طرح بنا غسل بنا کفن بنا دفن ایک گڑھے میں گاڑ دیا گیا۔ اور کوئی کچھ نہیں کرپایا۔

ابھی بھی بات مکمل نہیں ہوئی۔ مرحوم کے تمام گھر والوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ کیوں؟ کوئی جواب نہیں۔ مرحوم طویل عرصے سے بیمار تھے۔ گھر میں رہتے تھے۔ نہ سفر میں گئے نہ مسجد میں نماز کو۔ پھر ان کا کس سے اتصال ہوا تھا جو انھیں کورونا ہوگیا؟
اب ان کے گھر والوں کو ذہنی دہشت میں ڈالاگیا ہے۔ نہ معلوم کسے پوزیٹو بتادیا جائے۔ نہ معلوم پھر کسے پکڑ کر لے جایا جائے۔

ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ کیا آپ فتوی دے سکتے ہیں کہ غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں؟ کیا آپ فتوی دے سکتے ہیں کہ بنا غسل کے میت پر نماز جنازہ درست نہیں؟ 

اس ملک میں کامن سیول کوڈ کی مکمل تیاری ہوچکی ہے۔ بگھان کرنے والوں کی یہ دلیل ردی کی ٹوکری میں جائیگی کہ اس ملک میں کامن سیول کوڈ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ خود ہندؤوں میں سیکڑوں تہذیب و ثقافت ہے۔ شادی اور موت کے سیکڑوں مختلف رواج رائج ہیں۔ اس لیے،  کیونکہ کامن سیول کوڈ ہندؤوں کے لیے نہیں یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہوگا۔ الکفرۃ ملۃ واحدہ۔ بس ہندو ہونا کافی ہوگا اس بات کے لیے کہ اسے ہر طرح کی آزادی حاصل ہوگی۔ آج جماعت والوں کو چن چن کر پکڑا اور گرفتار کیا جارہا ہے۔مسلمانوں کو لاک ڈاؤن کے نام پر بدنام کیا جارہا ہے۔ لیکن ہندو ہر جگہ لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر جاری ہے۔ پی ایم کیر فنڈ کے ذریعہ اربوں روپے اکٹھا کرکے رام مندر کی تعمیر میں لگایا جائیگا۔ کیونکہ پی ایم فنڈ کو آڈٹ (حساب وکتاب) سے مستثنی رکھا گیا ہے۔ یعنی کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم اس فنڈ کا حساب کتاب نہیں مانگ سکتی۔ اس فنڈکو آرٹی آئی سے بھی مستثنی رکھا گیا ہے۔ یعنی ایک ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے آرٹی آئی کا حق حاصل ہونے کی بنیاد پر آپ حکومت سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ پی ایم کیر فنڈ میں اب تک کتنے روپے اکٹھے ہو گئے اور انھیں کہاں کہاں کتنا کتنا خرچ کیا گیا ہے۔
اب مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ سوال سیکڑوں ہیں۔ جواب ایک بھی نہیں۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل تو ٹھیک ہے۔ لیکن اسبابی طور پر عملا اختیار کرنے کے لیے مسلمانوں کے پاس صرف سوال باقی ہے۔؟؟؟؟؟؟؟؟
-------XYZ-------

شبِ برات میں عبادت اور کھانے کا اہتمام کرنا
سوال
شبِ برا ء ت کی رات عبادت کرنا اور کھانے کااہتمام کرنا کیساہے؟
جواب
پندرہ شعبان یا شبِ براء ت سے متعلق مختلف صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے روایات مروی ہیں، جن کا حاصل  یہ ہے کہ اس رات اللہ رب العزت کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتاہے، نیزاس رات کو عبادت کرنا، اس سے اگلے دن یعنی پندرہ شعبان کو روزہ رکھنا اور بغیر کسی التزام اور اہتمام کے اس رات قبرستان جاکر مرحومین کے لیے حدودِشرعیہ میں رہتے ہوئے ایصالِ ثواب کرنا یہ سب احادیث سے ثابت ہے؛ اس لیے مروجہ بدعات سے بچتے ہوئے محض اتباعِ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر ان امورکا اہتمام حسبِ توفیق کرنا جائز اور درست ہے۔

اس رات یا دن میں   خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانااور تقسیم کرنا چوں کہ ثابت نہیں ؛ اس لیے اس کا اہتمام کرنابدعت ہے ،لہذا اس طرح کے کھانے پینے سے اجتناب کرناچاہیے۔اور اگر مقصود مرحومین  کوایصالِ ثواب کرناہوتو اس کے لیے کسی مہینے یا دن کاانتظارنہیں کرناچاہیے، بلکہ کسی بھی دن جومیسر ہوصدقہ کرکے اس کا ثواب بخش دیاجائے۔(کفایت المفتی،1/237، ط:دارالاشاعت-الاعتصام للشاطبی،1/39،ط:بیروت)فقط واللہ اعلم


دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

ناقل : احقرالعبد 9873674268
 شبِ برأت کی فضیلت 

✍🏻از : محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
برأت کے لغوی معنی بری ہونے کے ہیں کیونکہ اس رات میں گنہگاروں کی مغفرت ہوتی ہے اور مجرموں کو چھٹکارا ملتاہے اس وجہ سے اسطک. شب برأت کہاجاتاہے شیخ عبد لاقادر جیلانی رحمةاللہ نے لکھاہے کہ شبِ برأت کو شبِ برأت اس لئے کہتے ہیں کہ اس رات میں دوقسم کی برأت ہوتی ہے ایک برات تو بد بختوں کی خداکی طرف سے ہوتی ہے، دوسری برأت خداکے دوستوں کی ذلت وخواری سے ہوتی ہے اور! ہ بھی بتایاگیا ہے کہ جس طرح روئے زمین پر مسلمان کے لئے دودن عبد وبقرعید کے ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان پر دوراتیں ہیں ایک شبِِ برأت  ،دوسری شب ِقدر 
(ترمذی،غنیةالطالبین 372 )
احادیث مبارکہ کے اندرکے اندر اس رات کے بے شمار فضائل وبرکات ہیں سرکار دوعام صلیٰ اللہ وعلیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ باری تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں اپنی تمام مخلوق کی طرف ایک خاص توجہ فرماتے ہیں، مشرک اور کینہ ور آدمی کے علاوہ سب کی مغفرت فرماتے ہیں
 (ترغیب وترہیب)
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ییک رتت میں نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو میں تلاش کے لئے نکلی آپ قبرستانِ بقیع میں تھے آپ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ آج نصف شعبان کی رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ اتنے لوگوں کو نجات دیتے ہیِ جتنا قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال ہیں (قبائل عرب میں اس قبیلے کی بکریاں سب سے زائد تہیں )مگر چند بد نصیب لوگوں کی طرف اس رات بھی نظرِ عنایت نہ ہوگی، یعنی مشرک، کینہ ور اورقطع رحمی کرنے والا اور پاجامہ یاتہبند ٹخنوں ک. نیچے لٹکانے والا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا اور شراب پینے والا 
(رواہ البیہقی کذا فی الترغیب ،مومن کے ماہ وسال: 187 ) 
   حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمتای ہیں کہ ایک رات سرکار دوعالم صلیٰ تہجد کے لئے کھڑے ہوئے، نماز شروع کی اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے یہ خطرہ ہواکہ شاید خدانخواستہ ان کی روح قبض ہوگئی، حتیٰ کہ میں پریشان ہوکر اٹھی اور قریب جاکر آپ کے انگوٹھے کو حرکت دی تو آپ نے کچھ حرکت فرمائی جس کی وجہ سے مجھ کو اطمینان ہوگیا اور میں پپنی جگہ لوٹ آئی،  نماز سے فارغ ہوکر مختصر کلام کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اسکے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمییا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اللہ تعالیٰ خاص طور سے اس رات کو دنیا والوں کی طرف توجہ فرماتے ہیں، مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت اور رحم کی دعاکرنے والوں پر رحم فرماتے ہیں لیکن آپس میں کینہ رکھنے والوں کواس وقت طھی اپنے حلل پرچھوڑ دیتے ہیں    (رواہ البیہقی کذا فی الترغیب)
   حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو جاگ کر نماز پڑھو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات کو غروب آفتاب سے ہی نچلے آسمان پر تجلی فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کوئی ہے استغفار کرنے والا کہ ہم اس کی مغفرت کریں؟ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ ہم اس کو روزی دیں؟  ہے کوئی مصیبت میں گرفتار کہ ہم اس کو مصیبت سے نجات دیں؟  یہ صدائے عام اسی طرح صبح صادق تک جاری رہتی ہے
 (ابن ماجہ کمافی الترغیب) 
  اس رات کے بےشمار فضائل ہیں اور یہ بڑی بابرکت رات ہے سورہء دخان کی آیت "اناانزلناه فی لیلةمبارکة "سے بعض مفسرین نے شب برأت ہی مراد لی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاد گرد حضرت عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے شعبان کی پندرہویں شب مراد ہے جسے لیلةالبراءت کہاجاتاہے. چنانچہ تفسیر مظہری کے اندر بھی حضرت عکرمہ کا قول نقل کیا ہےکہ لیلةمبارکہ سے مراد شعبان کی نصف رات ہے جس میں سال کے امور کو لکھ لیا جاتاہے زندوں میں سے جنھیں موت آنی ہوتی ہےانھیں لکھ لیا جاتا ہے نہ اس میں اضافہ کیاجاتاہےاور نہ ہی ان مین کمی کی جاتی ہے 
  امام بغوی رحمہ اللہ نے محمدابن میسرہ سے روایت کیاہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والے افراد کو لکھ لیاجاتاہے یہاں تک کہ ایک آدمی نکاح کرتا ہےاس کا بچہ ہوتاہے جب کہ اس کا نام مردوں میں ہوتاہے 
   ابو ضحی نے حضرت ابم عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہےکہ للہ تعالیٰ نصف شعبان کو فیصلے فرماتاہے اور لیلةالقدر کو فرشتوں کے حوالے کرتاہے

*شب برات کا معافی نامہ اور شارٹ کٹ جنت کا ٹکٹ*

**


مسلمانوں۔۔۔! بھول گئے؟

یا ابھی سوئے ہو..۔۔۔۔؟؟؟

اٹھو جلدی سے،
 سال بعد آج پھر ڈیجیٹل معافی کا دن آیا ہے..۔!

جلدی جلدی گروپس میں معافی مانگنے والے میسج فارورڈ کر کے خود کے لیے جنت الاٹ کروا لو..!

پھر نا کہنا پتا نہیں چلا۔۔۔!!
یہ نا ہو کہ ہم پیکج پر چار پیسے خرچ کرنے کے ڈر سے جنت سے ہاتھ دھو بیٹھیں،
جس کے پاس پیکج نہیں ہو گا وہ معافی نا مانگنے کیوجہ سے جہنم میں چلا جائے گا،

افسوس صد افسوس۔۔۔۔!!!

میں یہ نہیں کہ رہا کہ معافی مانگنا بری بات ہے،
معافی مانگنا بہت اچھی عادت ہے، اور یہ عادت صرف ایک دن تک محدود رکھنا درست نہیں،
ہمیشہ معافی مانگیں، 
اور اگر ایک دن بھی یہ معافی سچے دل سے اور واقعتاً شرمندہ ہو کر ان سے مانگی جائے جن کو ہم نے تکلیف پہنچائی ہو تو بھی بہت اچھی بات ہے،۔

کاش ایسا ہوتا۔۔۔۔!!
لیکن ایسا نہیں۔۔۔!!

میں تو یہ کہہ رہا کہ ہم وہ بد بخت قوم ہیں جنکو
دنیا میں راتوں رات کروڑ پتی بننے کے لیے تو شارٹ کٹ طریقہ چاہیے ہی تھا ،

لیکن 
اب جنت حاصل کرنے کے لیے بھی روٹین کی نیکیوں، سیدھے راستے اور فرائض کو چھوڑ کر ہم شارٹ کٹ رستے سے جنت میں جانا چاہتے ہیں،
فرائض، سنتوں اور نوافل کو چھوڑ کر ، 

دو چار من گھڑت تہوار بنا لیے ،

ساری زندگی نبی کی سنت کو چہرے سے منڈوا کر گندی نالی میں پھینکنے والا سال میں ایک دن عشق رسول میں جھنڈیاں اور گانوں والی نعتیں چلا کر سچے امتی ہونے کا حق ادا کر لیتا اور عاشق رسول کا ٹھپا لگوا کر جنت کا ٹکٹ کٹا لیتا ہے
اور جو بیچارہ ساری زندگی نبی کی سنتوں پر عمل کرتے کرتے تھک جاتا مگر ایک دن جھنڈیاں نا لگانے پر اسکو شیطان کہہ کر جہنمی بنا دیا جاتا،

وہ شخص جس نے کبھی رمضان کا ایک فرضی روزہ نہیں رکھا وہ شب معراج/ شب برات کا روزہ رکھ کر یہ سمجھ لیتا کہ اس نے پورے سال کے روزے رکھنے کا حق ادا کر لیا اور پکا جنتی بن گیا،
کیونکہ مولویوں نے اسے ایک روزے کے بدلے 80 سال کے روزوں کا ثواب تھیلے میں ڈال کر جنت کی رجسٹری اسکے ہاتھ میں تھما دی ہوتی ہے،
اب اسے رمضان کے روزے رکھنے کی بھی ضرورت نہیں،

اور وہ بیچارہ جو پورا سال سوموار ،جمعرات ، 
ایام بیض اور رمضان کے فرضی روزے رکھتا،
اسے یہ ایک غیر مسنون روزہ نا رکھنے پر منکر حدیث کا طعنہ دیا جاتا،

وہ شخص جس نے ساری زندگی کبھی تہجد پڑھ کے نہیں دیکھی، نوافل کا اہتمام نہیں کیا، جسکو اشراق کی فضیلت کا پتا ہی نہیں ،
وہ ایک رات میں بجلی کی سی تیزی ساتھ سو رکعت پڑھ کر فجر کی جماعت بستر میں سو کر گزار دیتا اور خواب میں جنت کا وارث بن بیٹھتا ہے،
اور گھر والے یہ کہہ کر نہیں جگاتے سونے دو یار اسکو ساری رات اللہ کا ولی نفل پڑھتا رہا ہے ، 
ابھی نا جگاؤ اسکو۔۔۔۔

ساری زندگی جس کی زبان سے پڑوسی تکلیف اٹھاتے رہے، 
بیوی تھپڑ برداشت کرتی رہی،
بہن گالیاں برداشت کرتی رہی،
ماں باپ نا مرنے کے طعنے سنتے رہے،
بھائیوں کا مال نا حق کھاتا رہا،

وہ جو رشتوں داروں سے نکے منڈے کی سالگرہ پر تحفہ نا لانے اور وڈے منڈے کی شادی پر ہزار روپے نیوندا نا دینے پر پچھلے دس سالوں سے ناراض ہے،

وہ جو شادی کی بریانی میں بوٹیاں نا ملنے پر شادی سے ناراض ہو کر واپس لوٹ آیا،

وہ جو پڑوسی سے پیاز اور دھنیا نا ملنے پر سو سو باتیں اور طعنے سنا کر ساری زندگی کے لیے انکا دشمن بن جاتا،

وہ جو چپڑاسی ،مزدور، اور ملازمین کو روزانہ تکبر اور غرور سے گھٹیا اور حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔۔

وہ صبح گھر سے نکلتے بیوی ،بچوں ،ماں باپ اور ڈرائیور سب کو دو چار سنا کر گھر سے نکلا،

رستے میں ہارن بجا بجا کر لوگوں کو تنگ کیا،

آفس پہنچتے ہی ماتھے پر تیور چڑھائے دو انگلیوں سے سلام لیا اور اپنے کیبن میں بیٹھ کر اس نے فیس بک نکالی اور سٹیٹس ڈالا ،

اگر کسی کو میری طرف سے تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کر دیں کیونکہ آج کی رات اعمال نامہ پیش ہونے والا ہے،

سیکنڑوں لوگوں کے لائکس اور کمنٹس کے بعد اسکا دل مطمئن ہو گیا کہ ہاں اب میں پکا جنتی ہوں،
سب لوگ مجھ سے خوش ہیں،

انا للہ و انا الیہ راجعون

میسج فاروڈ کر کے معافیاں مانگنے کا کیا فائدہ؟
جو ناراض نہیں ان سے معافیاں مانگی جا رہی،
جن کو جانتے تک نہیں، جنکو کبھی ملے نہیں،
جنکو کبھی تنگ نہیں کیا،

کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ روٹین والا عام معافی نامہ بھیجتے وقت بھی ہم میں سے اکثر لوگ
All Contact's 
سلیکٹ کر کے پھر اس میں سے ناراض رشتے داروں کے نمبر ڈلیٹ کر دیتے،
بیوی کا نمبر ریموو ، بھائیوں کے نمبر ریموو,
والدین جو سب سے زیادہ حقدار ہیں کہ ان سے معافی مانگے جائے، انکے نمبر نکالتے،

اور پھر صرف ان لوگوں کو سینڈ کرتے جن سے کبھی ناراض ہوئے ہی نہیں،

اور جو گھر میں بھائی،بہن، شوہر ،بیوی والدین پڑوسی،رشتہ دار پچھلے کئی سالوں سے ناراض ہیں ، انکا کیا؟؟؟
خدا کی قسم تو ہزار بار معافیوں والے سٹیس ڈال لے تو کبھی جنت میں نہیں جا سکتا،

کیونکہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
لا يدخل الجنه قاطع ، 
رشتہ داری کو توڑنے والا کبھی جنت میں داخل نہیں ہو گا،
(بخاری)
یہیں پر بس نہیں فرمایا
جو شخص ایک سال تک اپنے کسی مسلمان بھائی سے ناراض رہا تو یہ اسکو قتل کرنے جیسا ہی ہے،( ابو داؤد )

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوموار اور جمعرات کو لوگوں کے اعمال اللہ کے ہاں ہیش کئے جاتے ، سارے لوگوں کو اللہ معاف فرما دیتے ہیں سوائے انکے جنہوں نے شرک کیا،
اور وہ لوگ جو آپس میں ناراض ہوں، 
انکے بارے کہا جاتا ، ان دونوں کو رہنے دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو رہنے دیں یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں،
(صحیح مسلم )
اور بے شمار احادیث ہیں اس بارے،

تو میرے محترم اور قابل احترام بھائیو اور بہنو.!
خدا کے لیے..!!

یہ رسمی عادتیں چھوڑ دیں،
کب تک ہم خود کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔۔۔؟؟
آخر کب تک یہ ڈرامائی سلسلہ جاری رہے گا؟
خدا کے لیے!! بس کریں،

ہمیں اب سلجھنا ہو گا،
ساری زندگی اسی دھوکہ اور فراڈ میں گزار دی،
اب بس کریں اور دین کے ساتھ اور نا کھیلیں،

اپنی اصلی منزل کو پانے کے لیے ہمیں شارٹ کٹ اور دھوکے والے طریقے چھوڑنے ہونگے،

آئیے آج عہد کریں، 
اگر واقعی آپ معافی مانگنا چاہتے ہیں،
تو جائیے رشتے داروں کے گھر جن سے آپ برسوں سے ناراض ہیں، بہن بھائیوں کے گھر جائیں،
پڑوسیوں سے معافی مانگی،
مزدوروں سے، غلاموں سے، نوکروں سے،
ہر ایک سے جس کا آپ نے دل دکھایا، 
پلیز۔۔۔۔!!
اور آئیندہ سے انکے ساتھ پیار ساتھ رہیں،
محبت ساتھ رہیں،

اور یہ مت سوچیں کہ معافی کا صرف ایک دن ہے،
بلکہ آپ روزانہ جب چاہیں ہر وقت معافی مانگ سکتے ہیں، مگر دیر نا کریں،
آپکی بہنیں برسوں سے بھائیوں کی راہ تک رہی ہیں، آپکے بھائی آپکے کاندھے پر سر رکھ کے رونے کو ترس رہے ہیں،
آپکے والدین اپنے بچوں کی آواز سننے کو پل پل تڑپ رہے ہیں، 
جائیے انہیں گلے سے لگا لیجیے..!!!
پاؤں پکڑ لیجئے..!!!
ہاتھ تھام لیجیے۔۔!!

اور انکو خوش کر کے جنت کے رستے ہموار کر لیجیے.!!


نوٹ_
الفاظ کچھ سخت ہیں اسکے لیے میں معذرت  خواہ ہوں۔۔۔ پر واللہ یہی حقیقت ہے، 
ذرا ٹھنڈے دماغ سے ایک بار سوچیے گا ضرور۔۔۔!!

1 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

جدید تر اس سے پرانی