(موضوع اسلامی حدود وقوانین اور شبہات وجوابات )
دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو تعزیرات کا نام دیا جاتاہے‘ خواہ وہ کسی بھی جرم سے متعلق ہوں‘اس لئے تعزیرات ہند‘ تعزیرات پاکستان کے نام سے جو کتابیں ملک میں پائی جاتی ہیں‘ اس میں ہرقسم کے جرائم اور ہرطرح کی سزاؤں کا ذکر ہے ۔ شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
۱:․․․حدود ۲:․․․قصاص ۳:․․․تعزیرات۔
1. حد: اس سزا کو کہتے ہیں جس کی تعیین کتاب و سنت میں کردی گئی ہو۔ اس کا اطلاق درج ذیل سزاؤں پر ہوتاہے:حدِّ زنا, حدّ قذف: بہتان تراشی ﴿یعنی کسی پر زنا کاالزام لگانے یا اس کے نسب کا انکار کرنے﴾ کی سزا،حدِّ سرقہ( چوری کی سزا )،حدِّ حرابۃ( ڈکیتی)، حدِّ شرب خمر( شراب پینے کی سزا)،حد الردّۃ( اسلام سے پھر جانے کو ردّہ یا ارتداد کہا جاتا ہے)
1. قصاص: کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ ﴿البقرۃ: ۱۷۸﴾ اور اگر اس کا کوئی عضو تلف کردے تو بدلے میں اس کا وہ عضو بھی تلف کردیا جائے گا ۔ ﴿المائدۃ: ۴۵﴾ اسے قصاص کہا جاتا ہے۔ بعض فقہاءنے قصاص کو بھی حد میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کی سزا بھی کتاب و سنت کے ذریعے متعین کردہ ہے۔
2. تعزیر: جن جرائم کی سزا قرآن و سنت میں منصوص نہیں ہے یا کسی جرم کے ثبوت کے لیے حدود و قصاص کے نفاذ کے لیے جو شرائط مقرر ہیں وہ پوری نا ہورہی ہوں ایسی صورت میں مجرم پر حد یا قصاص تو جاری نہیں کیا جاتا، لیکن اسے آزاد بھی نہیں چھوڑدیا جاتا، بلکہ اس کے جرم کے مطابق اسے کوئی دوسری سزا دی جاتی ہے۔ اسے اسلامی ریاست میں قاضی جرم، مجرم اور حالات کے مطابق حسب ضرورت نافذ کرتا ہے۔ یہ سزا جسمانی بھی ہوسکتی ہے، مالی بھی۔ قید و بند کی بھی ہوسکتی ہے اور شہر بدری کی بھی، یا کوئی دوسری۔ اسکی ایک صورت یہ ہے کہ قاضی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ہر زمانہ‘ ہر مکان اور ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ کرتے جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ مقرر کردے‘ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔
حدود میں گواہی کی شرائط
حدود کی سزائیں جتنی سخت ہیں انکی شرائط بھی اسی حساب سے سخت رکھی گئیں ہیں، حدود کے نفاذ میں شریعت اسلامیہ نے ضابطہٴ شہادت بھی عام معاملات سے ممتاز اور بہت محتاط بنایاہے‘تاکہ کسی معصوم اور بے گناہ کو سزا نا دی جاسکے ۔ مثلا
زنا کی سزا میں تو دو گواہوں کی بجائے چار گواہوں کو شرط قرار دے دیا اور وہ بھی جبکہ وہ ایسی عینی گواہی دیں جس میں کوئی لفظ مشتبہ نہ رہے۔
چوری وغیرہ کے معاملہ میں اگرچہ دوہی گواہ کافی ہیں‘ مگر ان دو کے لئے عام شرائط شہادت کے علاوہ کچھ مزید شرطیں بھی عائد کی گئی ہیں‘ مثلاً دوسرے معاملات میں مواقع ضرورت میں قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی فاسق آدمی کے بارہ میں اگر قاضی کو اطمینان ہوجائے کہ عملی فاسق ہونے کے باوجودیہ جھوٹ نہیں بولتا تو قاضی اس کی گواہی کو قبول کرسکتا ہے‘ لیکن صرف حدود میں قاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا اختیار نہیں‘
عام معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے‘ مگر حدود میں دو مردوں کی گواہی ضروری ہے۔ عام معاملات میں شریعت اسلام نے تمادی (مدت دراز گذر جانے) کو عذر نہیں قرار دیا‘ واقعہ کے کتنے ہی عرصہ کے بعد کوئی گواہی دے تو قبول کی جاسکتی ہے‘ لیکن حدود میں اگر فوری گواہی نہ دی‘ بلکہ ایک مہینہ یا اس سے زائد دیر کرکے گواہی دی تو وہ قابل قبول نہیں۔
اس طرح شریعت اسلامیہ میں قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کی سزا مطلقاً ہر چوری پر عائد نہیں ہوتی‘ جسے عرف عام میں چوری کہا جاتاہے‘ بلکہ سرقہ جس پر سارق کا ہاتھ کاٹا جاتاہے اس کی ایک مخصوص تعریف ہے کہ: کسی کا مال محفوظ جگہ سے سامان حفاظت توڑ کرناجائز طور پر خفیہ طریقہ سے نکال لیا جائے۔
اس تعریف کی رو سے بہت سی صورتیں جن کو عرفاً چوری کہا جاتاہے‘ حد سرقہ کی تعریف سے نکل جاتی ہیں‘ مثلاً محفوظ مکان کی شرط سے معلوم ہوا کہ عام پبلک مقامات: مثلاً مسجد‘ عیدگاہ‘ پارک‘ کلب‘ اسٹیشن‘ ویٹنگ روم‘ ریل‘ جہاز وغیرہ میں عام جگہوں پر رکھے ہوئے مال کی کوئی چوری کرے یا درختوں پر لگے ہوئے پھل چرالے یا شہد کی چوری کرے تو اس پر حد سرقہ جاری نہیں ہوگی ‘ بلکہ عام ممالک کے قوانین کی طرح تعزیری سزا دی جائے گی۔
اسی طرح وہ آدمی جس کو آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے خواہ وہ آپ کا نوکر ہو یا مزدور ومعمار ہو یا کوئی دوست‘ عزیز ہو وہ اگر آپ کے مکان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اگرچہ عرفی چوری میں داخل اور تعزیری سزا کا مستحق ہے‘ مگر ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا اس پر جاری نہ ہوگی‘ کیونکہ وہ آپ کے گھر میں آپ کی اجازت سے داخل ہوا‘ اس کے حق میں حفاظت مکمل نہیں۔اسی طرح اگر کسی نے کسی کی جیب کاٹ لی یا ہاتھ سے زیور یا نقد چھین لیا یا دھوکہ دے کر وصول کرلیا یا امانت لے کردینے سے انکار کردیا مگر گیا یہ سب چیزیں حرام وناجائز اور عرفی چوری میں ضرور داخل ہیں مگر چونکہ شرعی سرقہ کی تعریف میں داخل نہیں‘ اس لئے ان پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا‘ بلکہ ان سب کی سزا تعزیری ہے جو حاکم کی صوابدید پر موقوف ہے۔ اسی طرح کفن کی چوری کرنے والے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا‘ کیونکہ اول تو وہ محفوظ جگہ نہیں اور وہ کفن میت کی ملکیت نہیں‘ ہاں اس کا یہ فعل سخت حرام ہے‘ اس پر تعزیری سزا حسب صوابدید حاکم جاری کی جائے گی۔اسی طرح اگر کسی نے ایک مشترک مال میں چوری کرلی جس میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے‘ خواہ میراث کا مشترک مال تھا یا شرکت اور تجارت کا مال تھا تو اس صورت میں چونکہ لینے والے کی ملکیت کا بھی کچھ حصہ اس میں شامل ہے‘ اس ملکیت کے شبہ کی وجہ سے حد شرعی ساقط ہوجائے گی اور تعزیری سزا دی جائے گی۔ (تفصیلات کے لئے تفسیر معارف القرآن‘ مولفہ حضرت مفتی محمد شفیع کو ملاحظہ کیا جائے)
[1/25, 9:13 PM] +92 324 2408991: *جرائم کے خاتمہ کا اسلامی طریقہ کار*
*کیا شرعی حدود وسزائیں سخت ہیں ؟*
(اسلامی قوانین وحدود اور شبہات کے جوابات )
اسلام نے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ ڈالنے کے لیے جو منصوبہ پیش کیا اس کا خلاصہ یہ ہے :
1. سب سے پہلے وہ انسان کو خدائے تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے اور کی دعوت دیتا ہے اور نفس کی پاکیزگی کا ایک نظام پیش کرتا ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کے دل اور دماغ سے جرم اور گناہ کا تصور بھی نہیں پیدا ہوتا۔
2. اس کے بعد وہ ایک ایسا سماج قائم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنی بنیادی ضرورتیں اور خواہشات جائز ذرائع سے پوری کرسکتا ہے اور اسے ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور مجرمانہ وسائل اختیار نہیں کرنے پڑتے ۔
3. جب پہلے دو طریقوں سے ارتکاب جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہوسکتا تو پھر انہیں روکنے کے لیے حکومت کی مشینری کو حرکت دینے کی ہدایت کرتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جرائم کی سخت سزائیں نافذکرنے سے پہلے اسلام، اسلامی ریاست کے ارباب اختیار کو عوام کے مذہب و مسلک اور رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر ان کے لیے ایسے وسائل بہم پہنچانے کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ خوراک، لباس، گھر اور تعلیم حاصل کرسکیں تا کہ وہ جائز ضرورتوں کے پورا ہونے کے بعد ناجائز وسائل نہ اختیار کرسکیں۔ اس کے علاوہ اسلام حکومت کو اس بات کا بھی ذمہ دار قرار دیتا ہے کہ دولت سمٹ کر چند افراد ہی کے ہاتھوں میں نہ چلی جائے ۔
اسلامی سزاؤں کے نفاذ کے لیے ان شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ نے قحط سالی کے زمانہ میں چوری کی سزا کے طور پر ہاتھ کاٹ دینے کی سزا کو ملتوی کر دیا تھا اور ایک دوسرے موقع پر آپ نے سرقہ کا ارتکاب کرنے والے غلاموں کو اس بنا پر ہاتھ کاٹنے کی سزانہیں دی تھی کہ شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ ان کے آقاؤں کی کنجوسی اور سخت گیری کے باعث وہ لوگ اپنی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔ اور ایسی حالت کو پہنچ گئے تھے کہ ان کے لیے حرام مال کو کھانا بھی جائز ہوگیا تھا۔ اسی طرح اسلام نے جہاں شادی شدہ مرد اور عورتوں کے لیے سنگساری کی سزا تجویز کی ہے وہاں غیر شادی شدہ لوگوں کومحض کوڑوں کی سزا دینا کافی سمجھا ہے۔
اسلام نے کچھ اس طرح نظام معاشرت کو مرتب کیا ہے کہ ریاست س بات کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ عوام کو زندگی کے وسائل فراہم کرے اور عوام کو ضروریات زندگی سے بے نیاز کردے۔ اتنی آسانیاں پیدا کرنے کے باوجود بھی اگر کوئی شخض چوری کرتا ہے یا دوسروں کے مال پر غاصبانہ قبضہ جماتا ہے، یا دھوکہ کے سے روپیہ حاصل کرتا ہے تو بجا طور پر اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے سخت سزا دی جائے۔
مثلا اسلام نے انسانی فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر صاحب استطاعت شخض کو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے اور موقع دیا ہے کہ اگر وہ ایک عورت سے مطمئن نہیں ہے تو ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتا ہے لیکن اس سہولیت کے باوجود بھی اگر وہ زنا کاری کا مرتکب ہوتا ہے تو واقعی وہ سخت سزا کا مستوجب ہے اور ان حالات میں اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں کو نہ تو سخت کہا جاسکتا ہے اور نہ غیر مہذب۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے صرف سخت سزائیں دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ سزاؤں کے نفاذ سے پہلے اس نے ایک ایسا معاشرتی نظام بھی قائم کرنے پر زور دیا ہے جس میں جرائم کے ارتکاب کی گنجائش ہی باقی نہ رہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخض کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو معاشرہ کو انحطاط اور بداخلاقی سے محفوظ رکھنے کے لیے اسلام نے بجا طور پر عبرت انگیز سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ ان عبرت انگیزسزاؤں کو دیکھ کر دوسرے لوگ گناہ کے راستے پر چلنے سے باز رہ سکیں۔
دنیا کی تمام مہذب حکومتوں اور سوسائٹیوں میں جرم اور گناہ کو روکنے کے ضوابط موجود ہیں لیکن ان میں اور اسلام کے نظام جرم و سزا میں جو زبردست فرق موجود ہے وہ اس بات سے بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے کہ متحدہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں آج سے چند سال پہلے صرف ایک سال کے اندر محض بڑی نوعیت کے تقریباً پانچ لاکھ جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا ، کیا جرائم کی اس تعداد کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امریکہ میں جرائم کو روکنے اور مجرموں کو سزا دینے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے؟
متحدہ امریکہ میں ان جرائم کو روکنے کے لیے قانون تو ضرور ہے لیکن اول تو جرم اور سزا سے متعلق غیر اسلامی قوانین میں جرائم کے بنیادی محرکات کے انسداد کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ دوئم کسی جرم کے ارتکاب میں کامیاب ہوجاتے کے بعد مجرم کو جو فائدہ پہنچتا ہے اور اس کے وحشیانہ جذبات کو جو سکون حاصل ہوتا ہے چونکہ جرم کی سزا اس فائدہ اور سکون کے مقابلہ میں کم ہوتی ہے اس لیے وہ اول ارتکاب جرم کے بعد بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے ، دوسرے اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا تو وہ اس سزا کو آسانی کے ساتھ برداشت کرلیتا ہے اس طرح ان قوانین اور ضابطوں سے جرائم کی رفتار میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ یہی صورت حال ہمارے یہاں بھی ہے۔ یہاں جرائم پیشہ لوگ جرائم کرنے سے اس لیے باز نہیں آتے کیونکہ انہیں اس بات کا پورا اندازہ ہے کہ عدالتوں میں مقدمات بہت لمبے کھنچتے ہیں اور اس لمبے عرصہ میں مقدمات دائرکرنے والے افسران کا تبادلہ ہوجاتا ہے اس طرح مجرم کو بری ہونے میں آسانی ہوتی ہے۔
Bahut Achchi Maalumaat faraham ki hai
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت خوب۔
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت اچھی تحریر لکھی ہے
جواب دیںحذف کریں