مسلمان اور اسلام کے ساتھ

مسلمان  اور  اسلام  کے  ساتھ  سوتیلا  سلوک
ہریانہ میں ہندو پنچایت نے نمازپڑھنے،ٹوپی لگانے،داڑھی رکھنے اور اسلامی ناموں پر پابندی لگاکر  اسلام  کے  ساتھ  سوتیلا  سلوک  کیا.
آپ کو کیسا لگے گا اگر آپ کے پڑوس میں رہنے والے مجیب الرحمٰن کا بیٹا لال  کشن کے نام سے جانا جائے،آپ کے ساتھ میں کام کرنے والے طاہر کا بیٹا ہرش  چندر ہو،جس شکیل احمد سے آپ دودھ خریدتے ہیں اس کے بیٹے کا نام اوم  ساءی ہو ،خود آپ اپنے بیٹے کا نام منیش  اگروال رکھنے پر مجبور ہوں۔
چونکئے مت  یہ کسی افسانوی ناول کا اقتباس نہیں ہے اور نہ ہی کسی سیکولر مسلم نما ہندو کے گھر کی داستان ہے بلکہ یہ آزاد ہندوستان میں اسلام کے مستقبل کی ایک جھلک ہے۔آپ کہیں گے بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کے ہندوانی نام رکھیں؟نیند سے بیدار ہوجائیں جس چیز کو آپ ناممکن سمجھ رہے اس پر عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔ہریانہ کے روہتک ضلع کے ٹٹولی گاﺅں میں ایک پنچایت نے مسلمانوں کے نماز پڑھنے،ٹوپی لگانے،داڑھی رکھنے اور اسلامی ناموں پر پابندی لگا دی ہے۔
اسلام  کے  ساتھ  سوتیلا  سلوک  کی  وجہ  کیا  ہے
راجدھانی دہلی سے محض 66کلومیٹر کی دوری پر موجود روہتک ضلع میں ٹٹولی نامی گاﺅں ہے۔اس گاﺅں کی کل آبادی قریب بیس ہزار ہے،یہاں قریب125خاندان مسلمانوں کے بھی آباد ہیں بقیہ سارے افراد ہندو سماج کے ہیں۔گذشتہ22 اگست2018ء کو عید الاضحی کے دن کے یامین نامی شخص کی ڈھائی سال کی بھتیجی آنگن میں کھیل رہی تھی کہ ایک کھلی گھوم رہی بچھیا(چھوٹی گائے)نے اس ڈھائی سالہ بچی کو سینگ ماردیا۔بچی کی چیخ سن کر اس کا چچا یامین ڈورتا آیا اور گائے کو حملہ آور دیکھ بھگانے کے لئے اس کے سر پر ڈنڈا مارا۔کئی ڈنڈے لگنے کے بعد بچھیا وہاں سے بھاگ گئی اور بچی بچ گئی لیکن بعد میں وہ بچھیا مری ہوئی پائی گئی۔اسی کو لیکر پورے گاﺅں میں ہنگامہ برپا ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یامین کو گھیر لیا گیا۔یامین نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اس کا ارادہ ہرگز گائے مارنے کا نہیں تھا بلکہ اپنی بھتیجی کو بچانے کی خاطر گائے کو بھگانے کے لئے ڈنڈا مارا تھا۔حالانکہ یہ بھی تفتیش کا موضوع ہے کہ وہ بچھیا کیسے مری؟کیوں کہ محض ڈنڈا مارنے سے کوئی جانور نہیں مرتا!اس وقت تو یامین کی معافی پر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا،لیکن کچھ ہی دیر کے بعد اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے ہوئے کچھ غنڈوں نے یامین اور آس پاس کے مسلم گھروں پر حملہ بول دیا اور گھروں میں جم کر توڑپھوڑ مچائی۔غنیمت یہ رہی کہ ان کے ہاتھ گھر والے نہیں لگے ورنہ جانیں بھی جاسکتی تھیں۔اسی معاملے کو لیکر 19سمتبر کو گاﺅں میں پنچایت ہوئی جہاں بچھیا کومارنے کے جرم میں پورے مسلم سماج پر درج ذیل پابندیاں لگائی گئیں:
 یامین تاعمرگاﺅں میں داخل نہیں ہوسکتا۔
 کوئی مسلمان ٹوپی نہیں پہنے گا۔
 کوئی بھی مسلمان آج کے بعد داڑھی نہیں رکھے گا۔
 فیصلے کے بعد کسی بھی مسلمان بچے کا اسلامی نام نہیں رکھا جائے گا بلکہ ہندوانی نام ہوگا۔
 مسلمان مسجد میں نماز نہیں پڑھیں گے،بس اپنے گھروں میں نماز پڑھیں گے۔
 کسی بھی مذہبی کام کے لئے باہر سے کسی عالم دین کو نہیں بلایا جائے گا۔
 قبرستان کی زمین پر پنچایت کا قبضہ ہوگا۔بعد میں پنچایت الگ سے زمین دے گی۔
 بطور جرمانہ گوشالہ کو11ہزار روپے دینا ہوگا۔
پنچایت کے مطالبات کو گاﺅں کے مسلمانوں نے تسلیم کرتے ہوئے بطور تاوان11ہزار روپے دے دئے اور ہندوﺅں کی جملہ شرائط پر عمل پیرا ہونے کا یقین دلایا۔
مذہب  اسلام  پر  پابندیاں
بین الاقوامی نیوز ایجنسی بی بی سی نے 23 اگست کو اس گاﺅں کا دورہ کیا تھا اور ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی اسی کے چند اقتباس یہاں نقل کرتے ہیں:
 یامین اور کئی مسلم گھروں میں ہندوﺅں نے جم کر توڑ پھوڑ کی ہے۔
 ڈر کی وجہ سے 30سے زائد خاندان گاﺅں چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
 گاﺅں کے رہنے والے سُریش کا کہنا ہے کہ کوئی اور جانور مرجاتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن گائے ہماری ماتا ہے۔
 سُریش کے مطابق حادثے والے دن انہیں کئی ہندو تنظیموں ،گورَکشَکوں کے فون آئے تھے کہ مسلمانوں کے خلاف پنچایت کرو۔
 سریش کے مطابق کچھ باہری شرپسندلوگ گاﺅں میں پہنچ بھی گئے کہ ابھی اسی وقت مسلمانوں کا فیصلہ کرو۔
 مسلمانوں کے گھروں میں توڑپھوڑ کیوں کی گئی؟اس کے جواب میں گاﺅں کے ہندو بوڑھوں کا کہنا تھا کہ:
” ہمارے نوجوانوں کو غصہ ٓاگیا تھا اس لئے انہوں نے یامین کے ساتھ ہی دیگر مسلمانوں پر بھی اپنا غصہ نکالا،اب سب ٹھیک ہے۔“
 گاﺅں میں رہنے ایک مسلم راج بیر کھوکھر(چونکئے مت! یہ مسلمان کا ہی نام ہے)نے بتایا کہ یامین نے جان بوجھ کر بچھیا کے ڈنڈا نہیں مارا تھا،بچی کو بچانے کے لئے مارا تھا لیکن شرپسندوں نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
 ہندوﺅں کوبطور جرمانہ روپے دینے والے مسلمان "جے ویر"(یہ جناب بھی مسلمان ہیں،نام سے دھوکہ نہ کھائیں)کہتے ہیں کہ ہم توپہلےسے ہی گوشالہ اور مندروں کو ”دان“دیتے رہتے ہیں۔گاﺅں والوں سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔
محترم قارئین  !
سارے معاملات کو بغور سمجھنے کی کوشش کریں تو کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں:
1۔یامین کے ڈنڈا مارنے کے بعد بچھیا بھاگ گئی لیکن بعد میں وہ مری ہوئی پائی گئی۔حالانکہ عموماً ڈنڈامارنے سے جانور نہیں مرتے۔
2۔ یامین معافی مانگ چکا تھااور گاﺅں کے لوگ بھی مطمئن ہوکر واپس جاچکے تھے۔لیکن پھر بھی گاﺅں کی مکھیا ”پِرملا دیوی“ کے جیٹھ سُریش کُنڈو نے پولیس کو خبرکی۔
3۔جب پولیس کو خبر دی جاچکی تھی تو یامین اور دیگر لوگوں کے گھروں پر حملہ کرنے والے اچانک کہاں سے آگئے،جب کے گاﺅں کے لوگ واپس چلے گئے تھے۔
4۔بچھیا کے مرتے ہی شدت پسند ہندو تنظیموں،گورکھشکوں کا فون آنا،پنچایت پر اصرار کرنا،مسلمانوں کا فیصلہ کرنے جیسی باتیں کرنا،کچھ اور ہی کہانی بیان کرتا ہے۔
5۔پنچایت میں فوراً ہی باہر کے کئی افراد کا پہنچنا اور مسلمانوں کے خلاف سخت فیصلے کو لیکر نعرے بازی کرنے کا کیا مطلب؟بہت ممکن ہے کہ اس کے پس پشت دیگر عوامل بھی کارفرماہوں۔خود یامین نے بھی سازش کا ذکر کیا ہے۔اور کہا ہے کہ اسے زبردستی اس معاملے میں پھنسایا گیا ہے۔
اسلام  کا  مستقبل
دہلی سے محض 66کلومیٹر کی دوری پر،دن کے اجالے میں ببانگ دہل مسلمانوں کو مرتد بنانے کا کام کیا گیا لیکن چوہے کے مرنے پر”بریکنگ نیوز“چلانے والے الیکٹرانک میڈیا کو یہ خبر نظرنہیں آئی۔نظر آتی بھی توکیسے،خود میڈیا اس کھیل میں شامل ہے۔یہاں پر کچھ سوال ہیں جو قوم مسلم سے جواب چاہتے ہیں:
ہندواکثریتی گاﺅں میں رہنے والے مسلمانوں کی اسلامی تربیت کا ہمارے پاس کیا نظم ہے؟
آج بھی ٹٹولی گاﺅں کے پرانے مسلمانوں کے نام ہندوﺅں جیسے ہیں،اس کا ذمہ دار کون ہے؟
وہاں کے مسلمان علانیہ مندروں اور گوشالوں میں دان دیتے ہیں،کیا ہم نے ایسے لوگوں کو اسلامی احکام پہنچائے؟ہندوستان کے چنندہ علاقوں کے سوا ہر جگہ ہندو اکثریت میں ہیں،ایسے میں اگر دیگر مقامات پر بھی یہی پابندیاں لگائی گئیں تو کیا ہوگا؟کیا ہمارے پاس اس قسم کی غیرقانونی پابندیوں کے خلاف کوئی مؤثر پلان ہے؟کہنے کو ہمارے پاس عالی شان مسجدیں،بلند وبالا خانقاہیں اور ایکڑوں میں پھیلے ہوئے مدارس دینیہ اور تبلیغی مراکز ہیں لیکن پھر بھی دہلی کے قریبی مواضعات میں ہندوانی نام اور ہندوانی رسم ورواج والے مسلمان ہمارے لئے سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہیں۔کیا فائدہ ہوا ان مدارس،خانقاہ اور مسجدوں ںسے؟
مسجدیں کئی کئی منزلہ بن رہی ہیں اور دوسری جانب مسلمان آدھے ہندو بنے پڑے ہیں،آخر کیوں؟
جب دہلی کے قریبی دیہاتوں کا یہ عالم ہے تو دہلی سے ہزاروں کلومیٹر دور بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کیسی ہوگی؟کیا اس مسئلے میں ارباب حل وعقد کی آنکھیں کھلیں گی یا پھر عرسوں،قوالیوں،چِلّوں اور عید ملن کے پروگراموں میں لگ جائیں گے؟
شرپسند طاقتیں ایک زمانے سے مسلمانوں کو مرتدبنانے کی مہم چلارہی ہیں ایسے میں یہ واقعہ ان کے لئے بہترین ماڈل ثابت ہوگا۔پنچایت کے فیصلوں پر کمنٹ کرتے ہوئے ایک ہندو نوجوان نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے:
"پنچایت نے بہت اچھا فیصلہ لیا ہے میرے گاﺅں میں بھی آبادی کا یہی تناسب ہے ہم بھی اپنے گاﺅں کے مسلمانوں پر یہی پابندیاں لگائیں گے"
*حکومت وانتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی:*
ہندوستانی دستورمیں درجFundamental Rightsکے مطابق ہر مذہبی کمیونٹی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے اور دستور کی دفعہ 25سے 28کے تحت تین چیزوں کی اصولی آزادی حاصل ہے:
1۔مذہب۔(Religion)
2۔تہذیب ۔(Culture)
3۔اور تعلیم ۔(Education)
حکومت وانتظامیہ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ دستور میں درج حقوق کی حفاظت کرے اور ہر کمیونٹی کی مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔لیکن ٹٹولی گاﺅں میں کھلے عام ہندوستانی دستور کی دھجیاں اڑائی گئیں،مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی چھینی گئی لیکن انتظامیہ اور حکومت نے ابھی تک اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔یہاں انتظامیہ کو ان سوالوں کا جواب دیناچاہئے:
 جب بچھیا کے غیر ارادی قتل کا ملزم یامین گرفتار ہوچکا ہے تو اس کے اور دیگر مسلمانوں کے گھر میں توڑپھوڑ کیوں ہوئی؟ کیا توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی گئی؟ ابھی معاملہ عدالت میں زیرسنوائی ہے لیکن فیصلے سے پہلے ہی یامین کے گاﺅں آنے پر تاعمر پابندی کس قانون کے تحت لگائی گئی؟ مسلمانوں کے مذہبی شعائر پر پابندی لگاکر دستور ہند کو چیلنج کرنے والے پنچوں پر کیا قانونی کاروائی کی گئی؟ معاشی اعتبار سے کمزور مسلمانوں نے ہر ظالمانہ فیصلے کو بمجبوری تسلیم کرلیا،کیا ان کی مذہبی حفاظت کے لئے ان سے رابطہ کیا گیا؟
حکومت وانتظامیہ کو چاہیے کہ وہ دستورہند کی پاسداری کرتے ہوئے ان سوالات کا جواب دے اور مذہبی آزادی کے دستوری حقوق کو یقینی بنائے ورنہ یہ ملک نا انصافیوں کے اس دلدل میں پھنس جائے گا جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
دو باتیں اپنی قوم سے:
یوں تو مسلمانوں کے خلاف ہر چہار جانب سے حملے ہورہے ہیں ،لیکن مذکورہ معاملے میں تو اسلامی شعائر پر کھلا حملہ کیا گیاہے۔بھلا وہ کیسا مسلمان ہوگا،جس کا نام اسلامی نہ ہو، وہ نماز نہ پڑھ سکے،نہ ٹوپی لگا سکے اور نہ ہی حضور کیسنت  کریمہ داڑھی چہرے پر سجا سکے 
اگر اس معاملے پر ہماری قوم نے حیلہ حوالی سے کام لیا تو سمجھ لیں کہ اگلا نمبر آپ کا ہے۔کیوں کہ اسی گاﺅں کو نظیر بنا کر دیگر ہندو اکثریتی مواضعات کے مسلمانوں کے ساتھ یہی ظالمانہ کھیل کھیلا جائے جائے گا۔بڑھتے بڑھتے یہ طوفان اتنا بڑا ہوجائے گا کہ پھر مسلم اکثریتی بستیاں بھی اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔
اس لئے ابھی پوری قومی حمیت کے ساتھ اپنے مظلوم مسلم بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کے قانونی حقوق دلانے میں ان کی مدد کریں۔
مذہبی تنظیمیں،خانقاہی گدی نشین،ارباب تحریکات اگر فرصت پاجائیں توایسے دیہاتوں میں بسنے والے مسلمانوں کی اسلامی تربیت کی بھی فکر کریں ورنہ زیادہ دن تک آپ بھی محفوظ نہیں رہ  سکیں گے۔کیوں یہی غریب مسلمان ہے جس کی عقیدت اور سروں کی گنتی سے گدی نشینوں،لیڈروں اور مذہبی قائدوں کا وقار سلامت ہے جس دن یہ ختم ہوجائیں گے اسی دن شدت پسندوں کا اگلا نشانہ قائدین ہی ہوں گے۔

2 تبصرے

آپ اپنی رائے ضرور لکھیں

  1. گمنام05 مارچ

    یا اللہ پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرما اور ظالم کے فتنوں سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرما اور آپس میں اتحاد واتفاق نصیب فرما

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام05 مارچ

    اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہر باطل فتنے سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی